تین طلاق

تین طلاق

تین طلاق

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آٹھویں صدی ہجری میں جس مسئلہ نے فقہی حلقوں میں ہلچل پیداکی، وہ ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ ہے، اب تک جمہورعلماء اسے تین ہی سمجھتے تھے اوراسی کے مطابق فتوی بھی دیا جاتا تھا؛ چنانچہ امام نوویؒ لکھتے ہیں:

 وقداختلف العلماء فیمن قال لامرأتہ:أنت طالق ثلاثاً،فقال الشافعی ومالک و أبوحنیفۃ وأحمد وجماہیرالعلماء من السلف والخلف:یقع الثلاث،وقال طاوس وبعض أہل الظاہر:لایقع بذلک إلاواحدۃ،وہوروایۃ عن الحجاج بن أرطاۃ ومحمد بن اسحاق، والمشہور عن الحجاج أنہ لایقع بہ شیٔ،وہوقول ابن مقاتل وروایۃ عن محمد بن اسحاق۔(شرح مسلم للنووی،کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث:۱۰؍۷۰،ط:المطبعۃ المصریۃ بالأزہر۱۳۴۷ھ)

اپنی بیوی سے ’’تجھے تین طلاق‘‘ کہنے والے کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے؛ چنانچہ امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اورسلف وخلف میں سے جمہورعلماء کہتے ہیں کہ (اس سے) تین طلاق واقع ہوجائے گی، جب کہ طاوس اوربعض اہل ظواہر کہتے ہیں کہ اس سے صرف ایک ہی واقع ہوگی، یہی ایک روایت حجاج بن ارطاۃ اورمحمد بن اسحاق کی بھی ہے، حجاج کی مشہورروایت یہ ہے کہ اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، یہی ابن مقاتل کاقول اورمحمدبن اسحاق کی بھی ایک روایت ہے۔

علامہ ابن رشدلکھتے ہیں:

جمہورفقہاء الأمصار علی أن الطلاق بلفظ الثلاث، حکمہ حکم الطلقۃ الثلاثۃ(بدایۃ المجتہد، الطلاق بلفظ الثلاث:۴؍۳۴۷ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

جمہورفقہائے امصارکی رائے یہ ہے کہ لفظ ثلاث سے دی ہوئی طلاق کاحکم تین طلاق کاوقوع ہے۔

یہی بات علامہ ابن قیم بھی لکھتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:

وہذا قول الأئمۃ الأربعۃ وجمہورالتابعین وکثیرمن الصحابۃ۔(زاد المعاد، ص:۷۶۱، تحقیق:مصطفی عبدالقادرعطا)

اوریہ ائمہ اربعہ، جمہورتابعین اوربہت سارے صحابہ کرام کاہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اس مسئلہ میں جمہورعلماء کے خلاف فتوی دیا؛ چنانچہ انھوں نے اس تعلق سے علماء فقہاء کے تین اقوال نقل کئے، جن میں تیسراقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الثالث:أنہ محرم، ولایلزم منہ إلا طلقۃ واحدۃ، وہذا القول منقول عن طائفۃ من السلف والخلف من أصحاب رسول اللہ ﷺ مثل الزبیر بن العوام، وعبدالرحمن بن عوف، ویروی عن علی وابن مسعود وابن عباس القولان، وہوقول کثیرمن التابعین ومن بعدہم، مثل: طاووس وخلاس بن عمر ومحمد بن اسحاق، وہوقول داود، وأکثر أصحابہ، ویروی ذلک عن أبی جعفر محمد بن علی بن الحسین وابنہ جعفربن محمد، ولہٰذا ذہب إلی ذلک من ذہب من الشیعۃ، وہوقول بعض أصحاب أبی حنیفۃ ومالک وأحمدبن حنبل۔(مجموعۃ الفتاوی،اعتنی بہا:عامرالجزاروأنورالباز: ۳۳؍۸-۹)

تیسراقول یہ ہے کہ یہ حرام ہے اوراس سے ایک طلاق لازم ہوگی،یہ قول اصحاب رسول ﷺ میں سے سلف وخلف کی ایک جماعت سے یہ منقول ہے،جیسے:زبیربن عوامؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ، اور علیؓ، ابن مسعودؓ اورابن عباسؓ سے دوقول منقول ہیں، اوربہت سارے تابعین اوران کے بعد کے لوگوں کابھی قول ہے،جیسے:طاوس، خلاس بن عمراورمحمدبن اسحاق، اوریہی داود اوران کے اصحاب کاقول ہے، اوریہی ابو جعفر محمد بن علی بن حسین اوران کے بیٹے جعفربن محمد سے بھی مروی ہے، یہی وجہ ہے کہ شیعہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیاہے اوریہی احمد بن حنبل، مالک اورابوحنیفہ کے بعض اصحاب کاقول ہے۔

آگے مزیدلکھتے ہیں:

والقول الثالث ہوالذی یدل علیہ الکتاب والسنۃ، فإن کل طلاق شرعہ اللہ فی القرآن فی المدخول بہاإنماہوالطلاق الرجعی، لم یشرع اللہ لأحد أن یطلق الثلاث جمیعاً، ولم یشرع لہ أن یطلق المدخول بہاطلاقاًبائناً؛ ولکن إذا طلقہا قبل الدخول بہابانت منہ، فإذا انقضت عدتہا بانت منہ۔(حوالہ سابق)

تیسراقول ہی وہ قول ہے، جس پرکتاب وسنت دلالت کرتے ہیں؛ کیوں کہ قرآن مجید میں مدخول بہا کے لئے جوطلاق مشروع ہوئی ہے، وہ طلاق رجعی ہے، اللہ تعالیٰ نے کسی کے لئے مکمل طورپرتین طلاقیں مشروع نہیں کی ہیں اورنہ مدخول بہا کے لئے طلاق بائن کو مشروع کیاہے؛ لیکن جب دخول سے پہلے طلاق بائن دیدے تووہ بائن ہوجائے گی، پھرجب عدت گزر جائے گی تووہ اس سے علاحدہ ہوجائے گی۔

طلاق ثلاثہ کوایک ماننے کا مسئلہ کوئی نیا تو نہیں تھا اور نہ ہی امام ابن تیمیہ اس کے قول میں منفرد تھے؛ لیکن لوگ جمہورکے مسلک پرفتوی دیتے ہوئے ان لوگوں کے قول کو تقریباً بھول گئے تھے؛ بل کہ نسیامنسیا کے درجہ میں یہ پہنچ چکا تھا، حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ رقم طراز ہیں:

اس مسئلہ میں واقعہ یہ ہے کہ خواہ وہ منفرد نہ ہوں اوران سے پہلے سلف میں سے کسی کایہ مسلک رہا بھی ہو توبھی اس میں شک نہیں کہ اس کی شہرت انہی کی ذات سے ہوئی اورانھوں نے اس کی علم برداری کی، اسی وجہ سے جب انھوں نے اس مسئلہ میں اپنی تحقیق اوررائے کا اظہار کیا تواس سے عام طور پرفقہی حلقوں میں ایک استعجاب اورانتشارپیداہوا۔(تاریخ ودعوت عزیمت:۲/۱۱۰)

یہ مسئلہ اگرچہ جمہور کے خلاف ہے؛ لیکن شریعت کے خلاف نہیں ہے؛ چنانچہ کفایت المفتی میں ہے کہ اس بابت جب سوال کیا گیا کہ:’’ایک شخص نے کافرہ کومسلمان بنا کراس سے نکاح کیا، کچھ عرصہ بعد آپس کی ناچاقی کی وجہ سے اس کو تین طلاق دیدی، اب صورت یہ پیش آگئی ہے کہ  وہ عورت اس کو کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیارنہیں، کہتی ہے کہ میں کسی حالت میں بھی کسی اورشخص سے نکاح نہیں کروں گی، اگرتواپنے گھرمیں نہیں رکھے گا تومیں خود کشی کرلوں گی یا پھرمرتدہوجاؤں گی، اب وہ شخص سخت پریشان ہے اورکہتا ہے کہ تاوقت یہ کہ شرعاً اجازت نہ ہومیں ہرگزنہیں رکھوں گا۔المستفتی نمبر:۵۲۵حکیم غلام محمد خاں جوناگڑھ،۷/ربیع الثانی ۱۳۵۴ھ ۹/جولائی ۱۹۳۵ء‘‘، تومولوی حبیب المرسلین نائب مفتی نے جواب دیتے ہوئے تحریرکیا:’’اگراس شخص کوبظن غالب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگرمیں اس عورت کونہیں رکھوں گا تویہ عورت خودکشی کرلے گی یامرتد ہوجائے گی توعورت سے عدت کے اندر رجوع کرسکتا ہے اوراگرعدت گزرگئی تو صرف تجدید نکاح کی ضرورت ہوگی، بوجہ لازم آنے مفاسد عظیمہ کے یہ اجازت دی جاتی ہے۔ فقط حبیب المرسلین عفی عنہ نائب مفتی مدرسہ امینیہ، دہلی‘‘۔

اس جواب کی تصویب فرماتے ہوئے مفتی کفایت اللہ صاحبؒ لکھتے ہیں:’’صورت واقعہ میں تینوں طلاقوں کاواقع ہوجانا اوررجوع کی اجازت نہ ہونا اوربدون حلالہ کے دوسرا نکاح جائز نہ ہونا ائمہ اربعہ کا مذہب ہے اوروہی راجح اور واجب العمل ہے؛ مگرائمہ اربعہ کے مذہب کے خلاف بعض اہل ظاہراوراہل حدیث کامذہب یہ ہے کہ ایک دفعہ کی اورایک مجلس کی تین طلاقیں نہیں پڑتیں؛ بل کہ تین کی جگہ ایک پڑتی ہے اورخاوند کورجعت کاحق عدت کے اندراندرہوتاہے؛ لیکن عدت گزرجانے کے بعد بالاتفاق زوجین کوازسرنوایجاب وقبول کرکے تجدید نکاح کرنی ہوگی، اگراس بات کا یقین یاظن غالب ہو کہ عورت خودکشی کرے گی یامرتدہوجائے گی توزیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ اہل ظاہرواہل حدیث کے مذہب پرعمل کرنے کی اجازت دیدی جائے؛ لیکن انقضائے عدت کے بعدتجدید نکاح کا لازم ہونا اور بغیر تجدید نکاح کے رجعت جائز نہ ہونا تو اتفاقی مسئلہ ہے۔فقط محمدکفایت اللہ(کفایت المفتی،کتاب الطلاق، بارہواں باب:طلاق مغلظہ اورحلالہ :۴ /۳۵۵-۵۵۶)

کہیں آپ روزی روکنے والے تونہیں؟

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی