برصغیرمیں فتوی نویسی

برصغیرمیں فتوی نویسی

برصغیرمیں فتوی نویسی

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
(قسط:۱)

تمہید

بعض مؤرخین کی رائے کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے عہد مبارک سن ۱۵ھ میں ہی ہوگئی تھی؛ لیکن پوری قوت اورعظیم فاتح کی حیثیت سے اموی حکمراں ولید بن عبد الملک کے دورمیں۹۳ھ کو محمد بن قاسم ثقفی کی قیادت میں پاکستان کے موجودہ صوبہ سندھ کی طرف سے برصغیر میں داخل ہوئے اوربہت ہی قلیل عرصہ میں سندھ کے تمام ترعلاقہ کوفتح کرلیا۔(برصغیرمیں اسلام کے اولین نقوش،از:محمداسحق بھٹی،ص:۳۹-۴۵)، فتح کی اس کڑی میں ایک بڑے شہرکے طور پر’’دیبُل‘‘ زیرنگین آیا، یہاں محمد بن قاسم نے اولین کام مسجد کی تعمیر کا کیا، پھر ’’نیروں‘‘ نامی شہرپرقبضہ کیا، وہاں بھی مسجدبنوائی، پھر شہر ’’ارور‘‘ اور’’ملتان‘‘ کودائرۂ فتوحات میں شامل کیاگیا تووہاں بھی مسجدیں تعمیرکروائیں، یہ مسجدیں بہت جلدایک عظیم علمی اور فقہی مرکز کی حیثیت اختیارکرگئیں، اس زمانہ میں جن فقہائے کرام اورعلمائے عظام نے کسی نہ کسی اسلوب سے سندھ اور برصغیر کے باقی علاقوں سے تعلق رہاہے، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اکثرکے حالات نہایت دلکش اورروح پرورہے،جن کی تفصیل علامہ عبدالحیٔ حسنی ؒ کی مشہور کتاب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔(کچھ تفصیل کے لئے دیکھئے:برصغیرمیں علم فقہ،از:محمداسحق بھٹی،ص:۳۹- ۴۵)

برصغیرمیں فتوی نویسی

ظاہرہے کہ ان علمائے کرام اورفقہائے عظام نے درس و تدریس، فقہ وفتاوی اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ سے امت کی رہنمائی بھی کی ہے؛ لیکن باقاعدہ فتوی نویسی کا تذکرہ اس زمانہ میں نہیں ملتا اورنہ ہی کسی مجموعۂ فتاوی کا ذکر ملتا ہے، ہندوستان میں فتاوی کی تدوین وتالیف کی ابتداء کب ہوئی؟ اس تعلق سے مشہورمؤرخ اسحق بھٹیؒ رقم طراز ہیں:

الفتاوی الغیاثیۃ غالباً فتاوی کا پہلا مجموعہ ہے، جوساتویں ہجری میں ہندوستان میں سلطان غیاث الدین بلبن(عہدحکومت: ۱۸/فروری۱۲۶۶-۱۳/ جنوری۱۲۸۷ء)کے زمانہ میں معرض تحریرمیں لایاگیا، معلوم ہوتا ہے [کہ] اس سے قبل اس برصغیر میں اس انداز سے مسائل فقہ کے جمع وتدوین کی علماء کوعادت نہ تھی، اس سے پہلے کی اس نوع کی کوئی کتاب اس خطۂ ارض میں مرتب کی گئی ہو، ہمارے علم میں نہیں آئی۔(برصغیر میں علم فقہ، ص:۶۳)

اس کے مصنف شیخ داؤد بن یوسف الخطیب ہیں (م:۱/۱/۱۹۰۰ء)، انھوں نے یہ کتاب لکھ کربادشاہ کوہدیہ کی تھی،اسماعیل پاشا بغدادی کی کتاب میں ہے:

الفتاوی الغیاثیۃ:تألیف:داودبن یوسف الخطیب الحنفی المتوفی۔۔۔أھداہ للسلطان أبی المظفر غیاث الدین الیمین۔(إیضاح المکنون:۲/۱۵۷،ط:دارإحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان)

فتاوی غیاثیہ، جس کے مؤلف شیخ داؤد بن یوسف خطیب حنفی ہیں…انھوں نے اس کوسلطان ابومظفرغیاث الدین کوہدیہ میں پیش کیا۔

فتاوی غیاثیہ کے بعد جس دوسری کتاب کا تذکرہ ملتا ہے، وہ ’’فتاوی قراخانی‘‘ ہے، اس کی تالیف امام ہمام صدرالملت والدین یعقوب مظفرکرامی یاکرمانی نے کی ہے، یہ کتاب شروع سے آخرتک سوال وجواب کی صورت میں ہے، اصل کتاب فارسی میں ہے؛ لیکن زیربحث مسئلہ سے متعلق عربی عبارتیں بھی لکھ دی گئی ہیں، اس کتاب کی تالیف جلال الدین فیروز شاہ خلجی (عہدحکومت:۱۳/جنوری۱۲۹۰-۲۰/جولائی۱۲۹۶ء) کے عہد میں ہی ہوئی؛ لیکن اس کی ترتیب مُلاصدرالدین کی وفات کے بعد قبول قراخاں نے سلطان علاء الدین خلجی(عہدحکومت: ۲۰/ جولائی۱۲۹۶-۴/ جنوری۱۳۱۶ء) کے عہد میں دی، اس کتاب کے بعض نسخوں میں اس کا نام ’’فتاوی قرآن خوانی‘‘ بھی لکھا گیاہے(تفصیل کے لئے دیکھئے:برصغیرمیں علم فقہ، ص:۸۰-۹۲)

اسی سلسلہ کی ایک دوسری کتاب’’فوائد فیروز شاہی‘‘ ہے، جس کے مصنف شرف محمد عطائی ہیں، یہ کتاب فیروز شاہ تغلق (عہد حکومت:۲۳/مارچ۱۳۵۱-۲۰/ستمبر ۱۳۸۸ء) کے نام سے معنون ہے، اس میں دینی، اخلاقی اورلسانی مسائل سے بحث کی گئی ہے، یہ کتاب فارسی میں ہے، جس میں علوم اوران کی تعریفات،عام فقہی مسائل، طبی نوعیت کے معلومات اور اخلاقیات کے مختلف گوشوں پرمشتمل ہے،اس عہد میں’’فقہ فیروزشاہی‘‘ کے نام سے ایک اور کتاب کابھی ذکرملتا ہے، جس کے مؤلف امام ہمام صدرالملت والدین یعقوب مظفرکرمانی بتلائے جاتے ہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے:برصغیرمیں علم فقہ، ص:۱۱۸-۱۳۴،سلاطین ہندکے مذہبی رجحانات از:خلیق احمد نظامی، ص:۳۹۶)

فتاوی کے سلسلہ کی ایک اہم کڑی ’’فتاوی تاتارخانیہ‘‘ ہے، اس کا نام ’’زاد السفر‘‘ اور’’زاد المسافر‘‘ بھی ہے، اس کے مصنف عالم بن علاء اندرپتی (م:۷۸۶ھ) ہیں، سن ۷۷۷ھ میں ’’زاد السفر‘‘ کے نام سے تصنیف کی ، جوبعد میں امیرتاتارخاں کے نام پرموسوم ہوئی، امیرتاتارخاں خراسان کے ایک صاحب جاہ وحشم کی اولاد ہیں، جوسلطان غیاث الدین تغلق کے عہد میں ملتان اوردیپال پور پرحملہ آورہوا؛ لیکن پادشاہ کی طرف سے خراسانی لشکر پرشب خون اورقتل عام کے نتیجہ میں اس نوزائیدہ بچہ کوافراتفری کے عالم میں چھوڑکر بھاگنا پڑا، اس بچہ کوسلطان کے دربارمیں پیش کیا گیا، سلطان نے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اوراس کی پرورش اپنے یہاں کی، یہ لڑکا جوان ہوا اورسلطان محمد تغلق کے عہدحکومت میں لشکرکشی اورفتوحاتِ ملکی میں نادرِ روزگار خیال کیا جانے لگا، فیروز شاہی عہد میں اس امیر کو تاتارخاں کا خطاب عطا ہوا، عالم بن علاء کے ان سے بہت گہرے مراسم تھے، جس کی وجہ سے اپنے اس فتاوے کواس کے نام سے منسوب کیا، اس امیر نے ’’تفسیر تاتارخانی‘‘ کے نام سے ایک تفسیربھی مرتب کی، جس میں تمام ائمۂ تفاسیرکے اختلافات نقل کرکے ہرایک آیت کے متعلق تمام اقوال جمع کئے، تفسیرکی طرح ایک مجموعۂ فتاوی بھی مرتب کیا، جس میں شہردہلی کی تمام کتب فتاوی کوجمع کرکے ایک نسخہ مرتب کیا، جس میں ہرمسئلہ اورہرکلمہ میں مفتیان شرع کے اختلافات نقل کئے اور مفتی کے اختلاف کو صاحب فتوی کی طرف منسوب کرکے فتوی اورمفتی کی صراحت کردی، یہ مجموعہ تقریباً تیس جلدوں میں مرتب ہوا۔(دیکھئے:برصغیرمیں علم فقہ، ص:۱۳۵ ومابعدہ‘)

اس اہم فتاوی کومدرسہ شاہی مرادآباد کے مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب نے ایڈٹ کرکے شائع کروایاہے، جوبیس(۲۰) ضخیم جلدوں میں ہے، مکتبہ زکریا دیوبند نے اسے ۱۴۳۱ھ (۲۰۱۰ء) میں شائع کیاہے، یہ پی ڈی ایف کی شکل میں انٹر نیٹ پر بھی موجودہے، یہ تاتارخانیہ کا مکمل نسخہ ہے، ورنہ اس سے قبل کچھ مجلدات اورکچھ ابواب ہی شائع ہوتے رہے۔

’’فتاوی حمادیہ‘‘ بھی اس کڑی کا حصہ ہے، اس کے مؤلف ناگور کے مفتی ابوالفتح رکن الدین بن حسام الدین ہیں، انھوں نے اپنے بیٹے مفتی داؤد رکن الدین ناگوری کی مدد سے اس کومرتب کیا، یہ أٹھویں صدی ہجری کے آخریا نویں صدی ہجری کے شروع میں معرض وجود میں لایا گیا، یہ کتاب قاضی حماد الدین بن قاضی اکرم کی فرمائش پرمرتب کی گئی اوراسی لئے اس فتاوی کا نام’’فتاوی حمادیہ‘‘ رکھا گیا، قاضی حمادالدین گجرات کے علاقہ نہروالا میں قاضی القضاۃ کے منصب جلیل پر متمکن تھے، اس کی تالیف میں تقریباً دوسوکتابوں سے مراجعت کی گئی ہے، جس کی تفصیل خود مصنف نے دے دی ہے، فتاوی عالم گیری میں بھی اِس کتاب کے حوالے ملتے ہیں۔(برصغیرعلم فقہ، ص:۱۴۶ومابعدہ‘)

قاضی نظام الدین احمد بن محمد گیلانی جونپوری نے سلطان ابراہیم شاہ شرقی والیِ جونپور کے نام سے’’ فتاوی ابراہیم شاہی‘‘ لکھی، جس کوچلپی نے کشف الظنون میں فتاوی قاضی خاں کے مانند کتاب کبیرمن أفخرالکتب (بڑی قابل فخر کتاب) لکھا ہے،مصنف نے ایک سوساٹھ کتابوں سے اس کوجمع کیا ہے، اس کتاب کے دوحصے ہیں، ایک حصہ بزبان فارسی ہے، جب کہ دوسرا حصہ بزبان عربی، مصنف کا انتقال ۸۷۴ھ یا۸۷۵ھ میں ہوا، ان کی قبرجونپور کے مضافات ’’چاچک پور‘‘ میں ہے۔(برصغیرعلم فقہ،ص:۱۸۶ومابعدہ‘،نزہۃ الخواطر: ۳/۲۳۳)

’’فتاویٰ امینیہ‘‘ کے نام سے بھی ایک مجموعہ مرتب کیا گیا ہے، اس کے مرتب محمد امین بن عبیداللہ مومن آبادی ہیں، انھوں نے اپنی عمرکابڑا حصہ بخارا میں گزاراہے، جس زمانہ (۹۴۸ھ /۱۵۴۱ء)میں یہ کتاب تصنیف کی گئی، وہ ہندوستان میں مغل حکمراں ہمایوں کی حکومت کا زمانہ تھا، ہمایوں علماء وفقہاء کا قدردان تھا، ممکن ہے کہ اسی کے زمانہ میں مصنف بخارا سے واپس ہندوستان آئے ہوں اوراس کتاب کی تصنیف یہیں کی ہو، اس امکان کی وجہ بقول اسحق بھٹی یہ ہے کہ ’’پوری دنیا میں صرف تین مقامات پراس کے نسخے پائے جاتے ہیں اوراتفاق سے یہ تینوں مقامات برصغیرپاک وہند میں واقع ہیں، ایک ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، دوسرے کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد دکن اورتیسرے پنجاب یونیورسٹی لائبریری لاہور‘‘۔(برصغیرمیں علم فقہ، ص:۲۱۶ومابعدہ‘)

برصغیرمیں بہت سے عظیم المرتبت علماء وفقہاء گزرے ہیں، انھیں میں سے ایک علامہ مخدوم محمد جعفر بن علامہ مخدوم عبدالکریم معروف بہ میران یعقوب بوبکانی سندھی بھی ہیں، ان کی ایک فقہی تصنیف بہ نام ’’المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ‘‘ہے، یہ کتاب دراصل گجرات کے ایک عالم دین قاضی جگن گجراتی (م:۹۲۰ھ) کی کتاب’’خزانۃ الروایات‘‘ کی تصحیح کے طورلکھی گئی ہے، خزانہ میں رطب ویابس جمع کردئے جانے کی وجہ سے محققین کے نزدیک وہ غیرمعتبر، غیرمستند اور ناقابل اعتماد سمجھی گئی، بقول علامہ عبدالحیٔ فرنگی محلیؒ:

…فإن ھذہ الکتب مملوء ۃمن الرطب والیابس مع مافیه من الأحادیث المخترعة والأخبارالمختلفة۔(النافع الکبیر، ص:۲۹-۳۰)

یہ غیرمعتبر کتابوں میں سے ہے؛ کیوں کہ یہ مختلف فیہ اور موضوع احادیث کے ساتھ ساتھ رطب ویابس سے پرہے۔

علامہ مخدوم بوبکانی نے خزانہ کوسامنے رکھ کراس کے غیرمعتبرمسائل اورغیرمستند مواد کو نکال دیا اورمفتی بہا مسائل اورقوی روایات کااضافہ فرمایا، گویا یہ ایک نئی کتاب ہی وجود میں آگئی؛ اس لئے اس کا نام ’’المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ‘‘ رکھا گیا(برصغیرمیں علم فقہ، ص:۲۴۱- ۲۴۵)

(جاری۔۔۔۔۔)

برصغیرمیں فتوی نویسی(قسط:۲)

برصغیر میں فتوی نویسی(قسط:۳)

برصغیر میں فتوی نویسی(قسط:۴)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی