انشورنس اورعلمائے ہند کے فیصلے

انشورنس اورعلمائے ہند کے فیصلے

انشورنس اورعلمائے ہند کے فیصلے

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

انشورنس کے تعلق سے ابتدا میں یہ فتوی دیا گیا تھا کہ یہ درست نہیں ہے؛ لیکن حالات کے پیش نظر اسے جائز قرار دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں ایک مجلس’’ مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء ‘’کی جانب سے ۱۵/۱۶/دسمبر۱۹۶۵ء میں منعقد ہوئی تھی، جس میں ملک کے مایہ ناز علماء کرام (جیسے:مفتی عتیق الرحمن عثمانی، شاہ معین الدین احمد ندوی، مولانا فخر الحسن (دیوبند)، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد ادریس ندوی، مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی، مولانا منظور نعمانی، مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی، شاہ عون احمد قادری اور مولانا محمد اسحق سندیلوی رحمہم اللہ وغیرہم) جمع ہوئے تھے، اس میں درج ذیل فیصلہ ہواتھا:

’’مجلس یہ رائے رکھتی ہے کہ اگرچہ انشورنس کی سب شکلوں کے لئے ’’ربوا وقمار‘‘ لازم ہے اورایک کلمہ گوکے لئے ہرحال میں اصول پرقائم رہنے کی کوشش کرنا واجب ہے؛ لیکن جب جان ومال کے تحفظ وبقاء کا جو مقام شریعت اسلامیہ میں ہے، مجلس اسے بھی وزن دیتی ہے، نیز مجلس اس صورت حال سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتی کہ موجودہ دور میں نہ صرف ملکی؛ بل کہ بین الاقوامی ریاستوں سے انشورنس انسانی زندگی میں اس طرح دخیل ہوگیا ہے، اس کے بغیر اجتماعی اور کاروباری زندگی میں طرح طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں اور جان ومال کے تحفظ کے لئے بھی بعض حالات میں اس سے مفر ممکن نہیں ہوتا؛ اس لئے ضرورت شدیدہ کے پیش نظراگرکوئی شخص اپنی زندگی یا اپنے مال یا اپنی جائداد کا بیمہ کرائے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے‘‘۔(دیکھئے:قاموس الفقہ:۲/۴۰۶)

مجلس کے بعد۱۹۹۰ء میں ادارۃ المباحث الفقہیہ نے بھی اس کے جواز کا فتوی دیا؛ بل کہ پمفلیٹ کی شکل میں چھپوا کر پورے ملک میں پہنچایا، اس میں دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام اور متعدد اساتذہ کے دستخط بھی تھے، اسی کے ساتھ ملک کے متعدد مایۂ ناز اصحاب افتاء نے بھی جواز کا فتوی دیا، جن میں مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ(فتاوی رحیمیہ:۶/۱۳۲)، مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ(فتاوی محمودیہ:۲۴/۴۵۴) اورمفتی نظام الدین صاحب ؒ(منتخبات نظام الفتاوی:۳/۹۹)قابل ذکر ہیں، اس سلسلہ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے بھی جواز کا فیصلہ کیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’مروجہ انشورنس اگرچہ شریعت میں ناجائز ہے؛ کیوں کہ وہ ربوا، قمار، غررجیسے شرعی ممنوع معاملات میں پر مشتمل ہے؛ لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں، جب کہ مسلمانوں کی جان ومال، صنعت وتجارت وغیرہ کو فسادات کی وجہ سے ہر آن شدید خطرہ لاحق رہتا ہے، اس کے پیش نظر’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘، رفع ضرر، دفع حرج اورتحفظ جان ومال کی شرعاً اہمیت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان ومال کا بیمہ کرانے کی شرعاً اجازت ہے(اورفسادات کی صورت میں جان ومال کے نقصان کے بعد جو کچھ ملے اور جو حق قانون و ضابطہ میں بتایا جائے، اس کے مطابق ملنے والامال تو انشورنس کرانے والوں کے لئے جائز ودرست ہوگا اور بقیہ صورتوں میں صرف جمع کردہ رقم کے بقدر لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا، زائد کا نہیں۔ اور انشورنس کی صورت میں زائد کے جواز کی جہت حکومت کی نا اہلی اور غیرذمہ داری کی وجہ سے اس کی طرف سے اوراس پرضمان کی ہے)۔(نئے مسائل اوراسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے فیصلے،ص:۱۶۳-۱۶۴)

آن لائن نکاح: درست یا نادرست؟

برصغیرمیں فتوی نویسی (قسط:۱)

زکاتِ واجبہ سے غیر مسلم کاتعاون

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی