کہیں آپ روزی روکنے والے تونہیں؟

کہیں آپ روزی روکنے والے تونہیں؟

کہیں آپ روزی روکنے والے تونہیں؟

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اللہ تعالیٰ نے اپنی اس دنیامیں جتنی بھی مخلوقات پیدا کی ہیں، سب کوہر اعتبارسے یکساں نہیں بنایا ہے، کسی کو طاقت ور بنایا ہے توکسی کوکمزور، کوئی حسن کاپیکرتمثال ہے تو کسی کا رنگ اپنی پختگی میں کوئلے کوبھی مات دینے کے لئے تیار ہے، کوئی پستہ قدہے توکوئی لانبا ڈھانگا، کوئی لحیم شحیم ہے تو کوئی زارونزار، کسی کا شماراہل دانش وبینش میں ہوتاہے تو کوئی اجٹ اورگنوار کہلاتاہے، کوئی استاد اورگروہے توکوئی شاگرد اورطالب، کوئی مریض ہے توکوئی طبیب، کسی کے پاس دولت وثروت کی فراوانی ہے توکوئی فاقہ کش اورقلاش ہے، کوئی اپنے خزانۂ عامرہ سے لٹاتا رہتا ہے توکوئی وہاں سے اٹھاتا جاتا ہے، غرض بھانت بھانت کے لوگ ہیں اورقسم قسم کے افراد؛ لیکن نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ ہرایک دوسرے سے مربوط ہے اورہرایک کودوسرے سے سابقہ رہتاہے۔

اسی ربط و ضبط کے دائرہ میں’’اجیرومستاجر‘‘ (Laborer/Employee & Boss/Hired) آتے ہیں، اجیر ہر وہ شخص ہے، جواجرت پرکام کرے اورمستاجروہ ہے، جواجرت دے، کبھی ایک اجیر دوسرے کے حق میں مستاجربھی ہوتاہے کہ وہ خود کہیں اجرت پرکام کرتاہے اوراپنا کام اجرت دے کر دوسرے سے کرواتاہے، کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جوصرف مستاجرہی ہوتے ہیں، وہ دوسرے کے اجیرنہیں ہوتے، معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ اسی اجیرومستاجرکے دائرہ میں آتے ہیں اور اسی طرح معاشرہ کانظام رواں دواں ہے۔

اجیرکے تعلق سے اسلام نے کئی قسم کے احکام دئے ہیں،ان میں ایک اہم حکم یہ ہے کہ کام کے بعداس کی اجرت اس کے حوالے کی جائے، حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:من استأجر فلیسلم لہ أجرتہ۔(سبل السلام،حدیث نمبر:۸۶۱)’’جس نے کسی کواجرت پررکھا ، اسے چاہئے کہ اس کی اجرت اس کے سپرد کردے‘‘، اب اجرت کی سپردگی کب ہوگی؟ اس تعلق سے بھی اللہ کے رسول ﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:أعطوا الأجیر أجرہ قبل أن یجف عرقہ۔ (صحیح ابن ماجۃ،حدیث نمبر:۲۴۳۴) ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے دیدو‘‘۔

یہ اصل حکم اجیر کے تعلق سے؛ البتہ اگراجیرکے ساتھ ایک متعینہ مدت طے کرلیاجائے کہ اس مدت کے بعداجرت دی جائے گی تواس کی بھی گنجائش ہے، معاشرہ اورسماج میں یہی طریقہ رائج بھی ہے، کوئی ہفتہ پر، کوئی پندرہ دن پراورکوئی ماہانہ پرمزدوری کرتا ہے اوراسے وقت پراس کی مزدوری دیدی جاتی ہے؛ لیکن معاشرہ میں بعض مستاجر(مزدور رکھنے والے) ایسے بھی ہیں، جوکام کے وقت کام تولے لیتے ہیں؛ لیکن مزدوری روک کررکھ لیتے ہیں، یاتوسرے دیتے ہی نہیں، یادیتے ہیں تو پورے طے شدہ وقت کی مزدوری نہیں دیتے، روک کررکھ لیتے ہیں، اگرایساکسی مجبوری کی وجہ سے کرتے ہیں اوراس کا ذکرمزدور سے کرکے راضی بھی کرلیتے ہیں تب توٹھیک ہے؛ لیکن اگروہ ایسابلاوجہ کرتے ہیں، محض ٹال مٹول یا اس لئے؛ تاکہ مزدور اس کے پاس سے کام چھوڑ کر نہ جائے تویہ ایک طرح سے ظلم ہی ہے۔

اگرقرض لے کرکوئی ٹال مٹول کرتا ہے توادائے گی کی قدرت کے باوجود ادا نہیں کرتاتوزبان نبوت نے اسے ظلم سے تعبیرکیاہے، ارشاد ہے:مطل الغنی ظلم۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:۲۲۸۷)’’مالدار کاٹال مٹول کرنا(اورقرض ادانہ کرنا) ظلم ہے‘‘، مزدور مزدوری کرلینے کے بعداپنی اجرت کامستحق ہو جاتا ہے اوروہ ایک طرح سے مستاجر پر قرض ہوتاہے، اب ظاہرہے کہ بلاوجہ ٹال مٹول کرنے والابھی اسی حکم میں شامل ہوجائے گا اورشریعت کی نظر میں وہ ’’ظالم‘‘ قرارپائے گا؛ اس لئے مستاجرین کوچاہئے کہ مزدور کی مزدوری جلد سے جلد، مزدور کے ساتھ طے شدہ وقت پراداکردے؛ تاکہ ظالموں کی فہرست میں ا ن کاشمار نہ ہو۔

تدریسی اداراوں میں خدمت انجام دینے والوں کی حیثیت بھی اجیرکی ہے اورعمومی طورپران سے ماہانہ وقت اجرت کی ادائے گی کے لئے طے ہوتا ہے، عام طورپروقت مقررہ پر ادائے گی ہوجاتی ہے؛ لیکن بعض ادارے ایسے بھی ہیں، جہاں طے شدہ اجرت کی ادائے گی میں تاخیرپرتاخیرہوتی چلی جاتی ہے، یہ تاخیراگرکسی سبب کی بنیاد پرہو اور تدریسی عملہ راضی بھی ہوجائیں، تب توٹھیک ہے؛ لیکن اگربے بنیاد ہو اور محض ٹال مٹول ہوتوپھرانھیں بھی ظالموں کے زمرہ میں شامل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، ہمارے بعض دینی اداروں میں بھی یہ نوبت آتی ہے، بسااوقات کئی کئی مہینوں تک تنخواہ نہیں دی جاتی ہے، اگرواقعی یہ عذرکی وجہ سے ہوتوٹھیک؛ لیکن اگرمحض ٹال مٹول ہوتوبہت زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے، بعض اداروں کے تعلق سے ایسابھی سننے میں آیا ہے کہ سال کے آخری دوچار مہینوں کی تنخواہیں قصداً روک لی جاتی ہیں؛ تاکہ معلم رمضان میں چندہ کرکے وصول کرے، اگرچندہ کرکے وصول کرلیاگیا توحرج نہیں؛ لیکن اگروصول نہیں ہوسکا توبے چارے معلم کی توجان کے لالے پڑجاتے ہیں۔

اس تعلق سے افراط وتفریط پائی جاتی ہے، بعض ادارے اقتصادی بحران کے واقعی شکارہوتے ہیں، وہاں اساتذہ بھی شکایت نہیں کرتے؛ لیکن بعض اداروں کے ذمہ دارایسے ہوتے ہیں، جوبندوبست کرسکتے ہیں؛ بل کہ ان کی زندگیاں بھی رئیس اور امراء کی طرح کٹتی ہیں، ان کے چہرے بشرے پرادارہ کے اقتصادی بحران کا کچھ بھی اثرنہیں ہوتا، ایسے ذمہ داروں کو بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح سے کہیں آپ ایسے گناہ گاروں میں توشامل نہیں، جودوسرے کی روزی روکنے کی وجہ سے گناہ گارہوتا ہے، اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے:کفی بالمرء إثماً أن یحبس عمن یملک قوتہ۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر:۹۹۶) ’’آدمی کے گناہ گارہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کی روزی روک رکھے، جن کی روزی کاوہ ذمہ دار ہے‘‘۔

ہرادارہ کاذمہ دار اوربڑا اپنے ماتحت کام کرنے والوں کا سردارہوتاہے اورسردارکوچاہئے ہرہرمعاملہ میں اپنے ماتحتوں سے نرمی برتے، اس سے کام لینے میں بھی اوراس کی اجرت دینے میں بھی، اگریہ نرمی برتی گئی تو اللہ کے رسول ﷺ کی دعامیں شامل ہوکراللہ تعالیٰ کی نرمی کے وہ مستحق بنیں گے اوراگرسختی کامعاملہ کریں گے تواللہ تعالیٰ کی سختی کے مستحق قرارپائیں گے، اللہ کے نبی ﷺ کاارشادہے:اللہم من ولی من أمرأمتی شیئا فشق علیہم، فاشقق علیہ، ومن ولی من أمرأمتی شیئا فرفق بہم، فارفق بہ۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر:۱۸۲۸)’’اے اللہ! جوکوئی میری امت کے کسی معاملہ کاذمہ داربنے اوروہ ان پرسختی کرے توتوبھی اس پرسختی کر اورجوشخص میری امت کے کسی معاملہ کاذمہ داربنے اوروہ ان پرنرمی کرے توتوبھی اس پرنرمی فرما‘‘۔

ان احادیث کی روشنی میں ہرذمہ دارکواپناجائزہ لینا چاہئے، اگرمعاملہ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تواللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اوراگرمعاملہ گڑبڑ ہوتودرست کرنے کی فکرکرنی چاہئے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے ، آمین!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی