فقہی فروعات کااختلاف

فقہی فروعات کااختلاف

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف (قسط:۵)

فقہی فروعات کااختلاف

اللہ تعالیٰ نے اپنے مکلف بندوں کوجوبھی احکام دئے ہیں، وہ دوطرح کے ہیں، ایک وہ ہیں، جن میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں، انھیں ’’اصول‘‘ کہا جاتا ہے، جیسے:وجود باری، اس کی وحدانیت، فرشتے، کتب سماویہ، رسالت محمدیہ، موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، پنچ وقتہ نمازیں، شراب اور زنا کی حرمت وغیرہ، یہ وہ مسائل ہیں، جن میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔

دوسرے وہ احکام ہیں، جن میں دلائل کی پوشیدگی،یاان کے اجمال، یاایک سے زائد معانی پرلفظ کی دلالت،یامجتہد تک پہنچنے کے اعتبارسے روایت حدیث کی قوت وکمزوری، یا ان کے آپسی تعارض، یا پھران کے ثبوت میں اختلاف، یا مجتہدین کے مابین مصدرتشریعی پراعتماد میں تفاوت،یا مصالح و ضروریات کی رعایت کی وجہ سے اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، ان کو’’اجتہادی مسائل‘‘ اور ’’فروعات فقہیہ‘‘ کہا جاتا ہے (الموسوعۃ الفقیہ الکویتیہ،لفظ:اختلاف:۱؍۲۹۲ ومابعدہا، التقریروالتحبیر:۳؍۳۰۳)۔

فروعی اوراجتہادی اختلاف درحقیقت اختلاف نہیں؛ بل کہ رحمت، وسعت، گنجائش اور قابل فخرقانون اسلامی کا خزانہ ہے، اس اختلاف کے بارے میں قاسم بن محمدؒ کہاکرتے تھے:

کان اختلاف أصحاب رسول اللہ رحمۃ للناس۔(الطبقات الکبری:۵؍۸۹)

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کا اختلاف لوگوں کے لئے رحمت ہے۔

اوراسی اختلاف کے بارے میں امام مالک ؒ نے ہارون رشید سے اس وقت کہا، جب انھوں نے ان کی کتاب ’’مؤطا‘‘ کو تمام لوگوں کے لئے لازم کرنے کوکہا:

یاأمیرالمؤمنین!إن اختلاف العلماء رحمۃ من اللہ تعالیٰ علی ہذہ الأمۃ، کل یتبع مایصح عندہ، وکلہم علی ہدی، وکل یرید اللہ تعالیٰ۔(کشف الخفاء ومزیل الإلباس عما اشتھرمن الأحادیث علی ألسنۃ الناس لإسمعیل بن محمد العجلونی:۱؍۸۰)

اے امیرالمؤمنین!علماء کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت پررحمت ہے، ہرشخص اس کی پیروی کرتاہے، جواس کے نزدیک صحیح ہو،اورتمام لوگ ہدایت پرہیں، اورہرشخص اللہ ہی کاارادہ کرتاہے۔

امام سیوطی فرماتے ہیں:

اعلم أن اختلاف المذاہب فی ہذہ الملۃ نعمۃ کبیرۃ وفضیلۃ عظیمۃ، ولہ سرلطیف، أدرکہ العالمون، وعمی عنہ الجاہلوں، حتی سمعت بعض الجہال یقول: النبیﷺ جاء بشرع واحد، فمن أین مذاہب أربعۃ؟ ومن العجب أیضاً من یأخذ فی تفصیل بعض المذاہب تفصیلاً یؤدی إلی تنقیص المفضل علیہ، وسقوطہ، وربما أدی إلی خصام بین السفہاء وصارت عصبیۃ وحمیۃ الجاہلیۃ، والعلماء منزہون عن ذلک، وقدوقع الخلاف فی الفروع بین الصحابۃ رضی اللہ عنہم ، وہم خیرالأمۃ، فماخاصم أحد منہم أحداً، ولاعادی أحدأحداً، ولانسب أحد أحداً إلی خطأ وقصور۔(جزیل المواہب فی اختلاف المذاہب،ص:۲۵،ط:دارالاعتصام)

جانناچاہئے کہ اس شریعت میں مذاہب کا اختلاف ایک بڑی نعمت اورعظیم فضیلت ہے،اوراس میں ایک لطیف رازہے، جاننے والے(علماء) جس کو پالیتے ہیں اور جاہل سے یہ پوشیدہ رہتا ہے؛ یہاں تک کہ بعض جاہلوں کومیں نے یہ کہتے ہوئے سناہے کہ:نبی کریم ﷺ ایک شریعت لے کرآئے تھے تویہ مذاہب اربعہ کہاں سے آگئے؟ اوراس پربھی تعجب ہے کہ کچھ لوگ بعض مذاہب کی ایسی تفصیل کرنے لگتے ہیں، جس سے مفضل علیہ کی تنقیص اورتوہین ہوتی ہے، اوربسااوقات یہ نا سمجھوں کے مابین جھگڑا پیدا کردیتا ہے اوریہ جاہلی عصبیت وحمیت بن جاتی ہے، اورعلماء اس سے بری رہتے ہیں، اوربعض دفعہ صحابہ کے درمیان فروع میں اختلاف ہواہے اوراس امت کے بہترین افراد ہیں؛چنانچہ ان میں سے کسی نے کسی سے جھگڑا کیا، نہ دشمنی کی اورناہی کسی کی طرف خطا اور قصور کی نسبت کی۔

اختلاف کی اس رحمت کا فائدہ کسی زمانہ سے زیادہ آج کے ترقی یافتہ دورمیں ہوا،جتنے بھی فقہی ابواب ہیں اورہمارے فقہی ذخیرۂ کتب میں جو مسائل مذکور ہیں، اگرآج کسی ایک مذہب پر کوئی شخص عمل کرنا چاہے تو قدم قدم پر اسے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ تمام مسالک نے جمود و تعطل کے راستہ کوترک کرکے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس کی اوراپنے علمی سیمیناروں اور ورک شاپس میں ایک مسلک سے عدول کرکے دوسرے مسلک کو اختیار کیا اورامت کو دشواری سے بچا کرایک وسیع اورآسان دین فراہم کیا، اگریہ اجتہادی اختلافات نہ ہوتے تو آج دین پرعمل پیرا رہنا کس قدردشوراہوتا، وہ کسی بھی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں۔

لیکن اس کے ساتھ یہ شکوہ بھی بے جا نہیں کہ بعض لوگ اس اختلاف کو وسعت وگنجائش کے بجائے نزاع باہمی کا ذریعہ بنا کرامت کے سامنے پیش کرتے ہیں اوراپنے سوا تمام مسالک کونادرست قراردیتے ہیں، ظاہرہے کہ یہ سو فیصد غلط ہے؛ کیوں کہ اجتہادی مسائل میں توعہد صحابہ سے اوپراٹھ کر عہد رسالت میں بھی اس کی کئی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں، لہٰذا ہرمجتہد کی رائے کا احترام کرنے کا اپنے کو خوگر بنانا چاہئے اوراللہ کے رسول ﷺکے فرمان کو(إذاحکم الحاکم، فاجتہد، ثم أصاب فلہ أجران، وإذاحکم ، فاجتہد، ثم أخطأ فلہ اجر[بخاری، باب أجرالحاکم إذااجتہد،حدیث نمبر:۶۸۰۵،مسلم،حدیث نمبر:۳۲۴۰])اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے خطا وصواب کے احتمال پراعتماد کرکے صرف اپنے کوہی درست قرار دینے کے بجائے دوسرے کے حق پر ہونے کابھی یقین رکھناچاہئے۔

اختلاف کے شرائط

یہ بات گزرچکی ہے کہ اختلاف محمود کی گنجائش ہے اورفقہی فروعات کا اختلاف ’’اختلاف محمود‘‘ میں سے ہے، اس کی وجہ سے تشریعی احکام پرعمل کرنا آسان ہوجاتاہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس اختلاف کے لئے کچھ شرطیں بھی ہیں؟ اس سلسلہ میں دوبنیادی شرطیں ہیں، ایک کاتعلق محل اختلاف سے ہے، جب کہ دوسرے کاتعلق اختلاف کرنے والے سے ہے۔

محل اختلاف کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ مجتہد فیہ ہو، منصوص نہ ہو؛کیوں کہ منصوص میں اجتہاد کی گنجائش نہیں اور جہاں اجتہاد کی گنجائش نہیں، وہاں اختلاف کی بھی گنجائش نہیں، امام شافعیؒ اختلاف حرام کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کل ما أقام اللہ بہ الحجۃ فی کتابہ، أوعلی لسان نبیہ، منصوصاً بیناً، لم یحل الاختلاف فیہ لمن علمہ۔(الرسالۃ:۱؍۵۶۰)

ہروہ شیٔ، جس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں، یا اپنے نبی کی زبان سے حجت قائم کردی ہو، وہ واضح منصوص ہے، واقف کارکے لئے اس میں اختلاف جائزنہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مجتہد فیہ وہ حکم ہے، جس کی بابت کوئی دلیل قطعی نہ ہو، امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

کل حکم شرعی، لیس فیہ دلیل قطعی۔(المستصفی:۲؍۳۵۴، المحصول:۷؍۳۹، نہایۃ السول:۳؍۲۸۸، التقریروالتحبیر:۳؍۳۱۲، المسودۃ،ص:۴۴۱)

ہرحکم شرعی، جس کے تعلق سے دلیل قطعی نہ ہو(وہ مجتہد فیہ ہے)۔

اس میں خطا کرنے والاگناہ گار نہیں ہوتا، امام غزالی ؒ فرماتے ہیں:

وإنمانعنی بالمجتہدفیہ، مالایکون المخطیٔ فیہ أثماً۔(المستصفی:۲؍۳۵۴)

مجتہد فیہ سے ہماری مرادوہ ہے، جس میں خطاکرنے والاگناہ گارنہیں ہوتا۔

اللہ کے رسولﷺ کاارشادہے:

إذاحکم الحاکم، فاجتہد، ثم أصاب فلہ أجران، وإذاحکم، فاجتہد، ثم أخطأ فلہ اجر۔(بخاری، باب أجرالحاکم إذااجتہد، حدیث نمبر:۶۸۰۵، مسلم، حدیث نمبر:۳۲۴۰)

جب حاکم فیصلہ کاارادہ کرتاہے، پس وہ اجتہاد کرتاہے، پھر درست اجتہاد کرتاہے تواس کے لئے دواجرہیں، اورجب فیصلہ کا ارادہ کرتاہے اوراجتھاد کرتاہے ، پھرغلطی کربیٹھتا ہے تواس کے لئے ایک اجرہے۔

جہاں تک اختلاف کرنے والے کاتعلق ہے تواس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ اس کی اہلیت رکھتاہو،اہلیت سے مرادایک توعلمی اہلیت ہے، یعنی وہ قرآن وحدیث کے عام اجمالی مسائل ، نیزاجماعی مسائل سے واقف ہواورقرآن وحدیث کے علاوہ دیگرادلہ پراچھی نظرہونے کے ساتھ ساتھ علوم حدیث  وجرح وتعدیل پراچھاتجربہ رکھتا ہو۔

دوسرے صلاح ودیانت کی اہلیت ہے، یعنی اس کے اندر ورع وتقوی پایاجاتاہو؛ تاکہ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے سوبارسوچے اورغلط بات زبان پرنہ آئے، نیز جب بھی کچھ کہے توپوری دیانت داری کے ساتھ کہے، اس میں کسی مفاد کو سامنے رکھ کرخیانت سے کام نہ لے۔(أدب الاختلاف فی مسائل العلم والدین، لمحمدعوامۃ، ص:۴۹ومابعدہا)

خروج من الاختلاف کی کوشش

گزشتہ صفحات سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اختلاف ایک ناگزیرامرہے،تاہم اختلاف سے بچ کرنکلنے کی کوشش ہونی چاہئے اوریہ کوشش ایسی ہونی چاہئے، جس میں تمام اختلاف کرنے والوں کی تھوڑی بہت رعایت ہوجائے، اسی رعایت کا نام ’’خروج من الاختلاف‘‘ہے،ہماری فقہ کی کتابوں میں جابجا اس کی مثالیں ملتی ہیں؛ چنانچہ مسئلہ ٔبناء کے تعلق سے فقہ حنفی میں لکھاہے:

والأفضل الاستئناف خروجاً من الخلاف وعملاً بالإجماع۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب مایفسد الصلاۃ، ص:۳۳۳)

اجماع پرعمل کرتے اوراختلاف سے بچتے ہوئے استیناف افضل ہے۔

قراء ت کی ادائے گی میں مالکیہ کا مسلک یہ ہے کہ دل کے بجائے زبان سے جاری ہوناچاہئے، اگرچہ کہ خود بھی نہ سن سکے؛ لیکن زبان سے جاری کرناقراء ت کی ادائے گی کے لئے کافی ہے؛ تاہم اس مسئلہ میں دیگرعلماء کا اختلاف ہے ؛ اس لئے ان کی رعایت کرتے ہوئے اسماع نفس کو اولیٰ قرار دیا گیا ہے، علامہ علیش مالکیؒ فرماتے ہیں:

والأولیٰ إسماع نفسہ خروجاً من الخلاف۔(منح الجلیل شرح مختصرالخلیل، فصل فی فرائض الصلاۃ…:۱؍۱۲۲، ط: دارالفکربیروت)

ٓاختلاف سے بچتے ہوئے اسماع نفس اولیٰ ہے۔

امام شافعیؒ کے نزدیک انسان کی منی پاک ہے، اگربدن یا کپڑے میں لگ جائے تواسے دھوئے بغیربھی نمازاداء کی جاسکتی ہے؛ لیکن چوں کہ اس مسئلہ میں دیگرائمہ کا اختلاف ہے؛ اس لئے اس سے بچتے ہوئے اس کے دھونے کومستحب قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ علامہ غمراوی فرماتے ہیں:

ویستحب غسل المنی خروجاً من الخلاف۔ (السراج الوہاج، باب النجاسۃ،ص:۲۴)

اختلاف سے بچتے ہوئے منی کو دھونا مستحب ہے۔

امام احمدبن حنبلؒ کے یہاں جمعہ کی نماز زوال سے پہلے بھی پڑھ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک نمازعید کاوقت ہی جمعہ کی نمازکاوقت ہے؛ لیکن دیگرائمہ کے یہاں اس کاوقت زوال کے بعد شروع ہوتاہے، اس اختلاف سے بچتے ہوئے امام احمدؒ کے یہاں بھی زوال کے بعد ہی افضل ہے؛ چنانچہ مشہور حنبلی فقیہ منصوربن یونس بہوتیؒ لکھتے ہیں:

(أحدہا)أی:شروط الجمعۃ(الوقت،وہومن أول وقت العید،و)فعلہا (بعدہ) أی:بعد الزوال (أفضل) خروجاً من الخلاف۔(شرح منتہی الإرادات،فصل شروط الجمعۃ:۱؍۳۱۲)

جمعہ کی ایک شرطوں میں سے ایک وقت کاہوناہے اوروہ عید کے اول وقت سے ہے؛ لیکن اختلاف سے بچتے ہوئے زوال کے بعد اس کی ادائے گی کرناافضل ہے۔

خروج من الاختلاف کی مثالیں نہ صرف یہ کہ ہماری کتابوں میں ملتی ہیں؛ بل کہ علماء نے اس کی ترغیب بھی دی ہے؛چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں:

إن العلماء متفقون علی الحث علی الخروج من الخلاف إذالم یلزم منہ إخلال بسنۃ، أووقوع  خلاف آخر۔(شرح النووی علی مسلم:۲؍۲۳)

علماء خروج من الخلاف کی ترغیب دینے میں متفق ہیں، جب کہ اس کی وجہ سے کسی سنت میں خلل لازم نہ آتا ہواورناہی دوسرا اختلاف واقع ہوتاہو۔

اورابھارنے پرہی اکتفا نہیں کیا؛ بل کہ اسے مستحب بھی قرار دیاہے؛ چنانچہ ’’الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘میں ہے:

ذہب جمہورالعلماء إلی استحباب مراعاۃ الخلاف فی الجملۃباجتناب مااختلف فی تحریمہ،وفعل مااختلف فی وجوبہ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ:لفظ:اختلاف:۱؍۲۹۲ ومابعدہا)

جمہورعلماء اختلاف کی رعایت کے مستحب ہونے کے قائل ہیں، بہ ایں طورکہ حرمت کے اختلاف میں اجتناب اوروجوب کے اختلاف میں عمل کو اختیار کیاجائے۔

اب سوال یہ کہ اس کی رعایت کس طرح کی جائے گی؟تو اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

۱-اگراختلاف حرام وحلال میں ہوتوخروج من الاختلاف کا افضل طریقہ اجتناب ہے، اس سلسلہ میں قاعدہ بھی ہے کہ:إذا اجتمع الحلال والحرام، غلب الحرام۔(جب حلال وحرام کااجتماع ہوجائے توحرام غالب ہوگا)، اس قاعدہ کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:

إذاتعارض دلیلان: أحدہما یقتضی التحریم، والآخرالإباحۃ، قدم التحریم۔

جب دو دلیلوں کاتعارض ہوجائے، ایک حرمت کا تقاضا کرے اور دوسری اباحت کا توحرمت کومقدم کیاجائے گا۔

پھراس کی علت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

وعللہ الأصولیون بتقلیل النسخ؛ لأنہ لوقدم المبیح للزم تکرارالنسخ؛ لأن الأصل فی الأشیاء الاإباحۃ، فإذاجعل المبیح متأخراً، کان المحرم ناسخاًللإباحۃ الأصلیۃ، ثم یصیرمنسوخاً بالمبیح، ولوجعل المحرم متأخراً، لکان ناسخاً للمبیح، وہولم ینسخ شیئاً؛ لکونہ علی وفق الأصل۔(الأشباہ والنظائر، ص:۱۲۱)

اصولیین نے اس کی علت تقلیل نسخ کوبتایا ہے؛ اس لئے کہ مبیح کومقدم کرنے کی صورت میں تکرارنسخ لازم آئے گا؛ کیوں کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے، پس جب مبیح کو مؤخر کیا جائے گا تومحرم اباحت اصلیہ کے لئے ناسخ ہوگا، پھریہ مبیح کے ذریعہ سے منسوخ ہوگا؛ لیکن اگرمحرم کومؤخرکیاجائے تو وہ مبیح کے لئے ناسخ ہوگا اوراصل کے مطابق ہونے کی وجہ سے وہ کسی کونسخ نہیں کرے گا۔

۲-اگراختلاف واجب اورمستحب ہونے میں ہے توخروج من الاختلاف کا افضل طریقہ ’’واجب پرعمل‘‘ کرناہے، عزبن عبدالسلام ؒ فرماتے ہیں:

وإن دارالفعل بین الوجوب والندب، بنینا علی أنہ واجب، وأتینابہ…وإن داربین الندب والإباحۃ، بنیناعلی أنہ مندوب وأتینابہ۔(قواعد الأحکام لعزبن عبدالسلام:۱؍۱۴)

اگرفعل واجب اورمندوب کے درمیان دائرہوتوہم واجب مان کر اس پرعمل کریں گے…اوراگرمندوب اورمباح کے درمیان دائرہو توہم مندوب مان کراس پرعمل کریں گے۔

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۱)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۲)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۳)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۴)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۶آخری قسط)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی