فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف (قسط:۴)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف (قسط:۴)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف

(قسط:۴)

اختلاف کی قسمیں

بنیادی طورپراختلاف کی دو قسمیں ہیں:

۱-اختلاف محمود۔

۲-اختلاف مذموم۔

اختلاف محمود

جواختلاف پسندیدہ اورلائق قبول ہے، وہ علماء اورفقہاء کے مابین فہم نصوص کی وجہ سے پیداشدہ اختلاف ہے؛ کیوں کہ بعض نصوص ظنی الثبوت ہوتے ہیں، جب کہ بعض ظنی الدلالہ،اب ظاہرہے کہ ایسی صورت میں اختلاف کاپیداہونا امر بعید نہیں ہے، اسی لئے اختلاف محمود کی تعریف یوں کی گئی ہے:

ہوالخلاف الناتج بسبب اختلاف العلماء فی فہم و تفسیرالنصوص الشرعیۃ الظنیۃالثبوت، أوالظنیۃ الدلالۃ، أوبسبب اختلاف العلماء فی استنباط الأحکام الشرعیۃ من النصوص المجملۃ۔(الاعتدال والوسطیۃ لشرح العقیدۃ الطحاویۃ، الفصل الثانی، المبحث: حقیقۃ الإسلام: ۲؍۴۷۷)

(اختلاف محمود) وہ اختلاف ہے، جوظنی الدلالہ یاظنی الثبوت نصوص شرعیہ کی تفسیرکے سمجھنے ، یامجمل نصوص سے احکام شرعیہ کومستنبط کرنے میں علماء کے اختلاف کے سبب سے پیداہو۔

اختلاف محمودکی صورتیں

اختلاف محمود کی درج ذیل صورتیں ہیں:

۱-اختلاف تنوع:اس سے مرادوہ اختلاف ہے، جوحق کے حدود میں رہتے ہوئے فہم نص اوردلالت نص کے سلسلہ میں پایا جاتا ہے، یہ اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے؛ کیوں کہ ہر ایک کامقصد حق تک پہنچنا ہوتاہے، جیسے:اللہ کے رسولﷺ کا ارشادہے:

إذاأقیمت الصلاۃ، فلاصلاۃ إلاالمکتوبۃ۔(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین، حدیث نمبر:۷۱۰)

جب نماز قائم ہوجائے توفرض کے علاوہ کوئی نمازدرست نہیں۔

بعض حضرات نے اس سے یہ سمجھا کہ اگرکوئی شخص پہلے سے نمازمیں تھا اورنمازقائم ہوگئی تواب اس کی وہ نماز باطل ہوجائے گی، جب کہ بعض نے اس کا مفہوم یہ لیاکہ اس سے مراد نئی نمازکا آغازکرنا ہے، پہلے سے اگرنمازمیں ہے تو وہ نمازدرست ہوجائے گی۔(دیکھئے:العرف الشذی للکشمیری:۱؍۳۹۷، المفہم لماأشکل من تلخیص کتاب مسلم،باب إذاأقیمت الصلاۃ فلاضلاۃ إلاالمکتوبۃ،حدیث نمبر:۲۹۹)

۲-اجتہادی اختلاف:اس سے مرادوہ اختلاف ہے، جوایسے مجتہد فیہ مسائل میں ہو، جن کی بابت نہ توکتاب وسنت کی کوئی نص موجود ہو اورناہی اس سلسلہ میں امت کااجماع ہواہو۔(الاعتدال والوسطیۃ لشرح العقیدۃالطحاویۃ لصلاح الدین عطیۃ السبعاوی:۲؍۴۷۷-۴۷۹، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۱۹۷۱ء)

اختلاف مذموم

اختلاف محمودکے مقابلہ میں اختلاف مذموم ہے، جو اعتقاد، یاعمل یاقول میں ہوا کرتاہے، اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:

والاختلاف المحرم والمذموم ہوالخلاف الذی یخرج صاحبہ عن الثوابت الشرعیۃ والمسلمات الإیمانیۃ من اعتقاد،أوقول،أوعمل۔(الاعتدال و الوسطیۃ لشرح العقیدۃالطحاویۃ :۲؍۴۷۵)

حرام اورمذموم اختلاف وہ ہے، جس میں اختلاف کرنے والا عمل،یاقول، یااعتقادمیں سے ایمانی مسلمات اورشرعی طور پر ثابت شدہ امورسے باہرنکل جائے ۔

اختلاف مذموم کی صورتیں

اختلاف مذموم کی درج ذیل صورتیں ہیں:

۱-اصول دین میں اختلاف:اس سے مراد وہ اختلاف ہے، جودین کے اصول میں سے کسی اصل(عقیدہ) یا دین کے کسی ایسے ظاہراورمتواترحکم میں ہو، جو عوام وخواص کے درمیان مشہورہواورجس پرعلماء کااجماع قطعی ہوچکاہو(نواقض الاإیمان القولیۃ والعملیۃ،ص:۲۴۲)، جیسے: اللہ کے وجود، اس کی وحدانیت، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اورمرنے کے بعد دوبارہ زندہ اٹھائے جانے پرایمان کہ ان امورمیں اختلاف کی گنجائش نہیں، اس میں اختلاف کانتیجہ کفرہے، اسی طرح اسلام کے بنیادی ارکان، اعمال خیراورمکارم اخلاق، نیزاعمال فجوراوربرے اخلاق، جیسے:شراب اورنشہ آورچیزیں اورناحق کسی کوقتل کرنا وغیرہ میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے، اگران میں اختلاف ہوتویہ اختلاف مذموم ہے، امام ابواسحاق شیرازیؒ لکھتے ہیں:

فأما مالایسوغ فیہ الاجتہاد،فعلی ضربین:أحدہما:ماعلم من دین الرسولﷺ ضرورۃ کالصلوات المفروضۃ،والزکوات الواجبۃ،وتحریم الزنا،واللواط،وشرب الخمر وغیر ذلک، فمن خالف فی شئی من ذلک بعدالعلم، فہوکافر؛ لأن ذلک معلوم من دین اللہ تعالیٰ ضرورۃ، فمن خالف فیہ، فقدکذب اللہ تعالیٰ ورسولہ فی خبرہما، فحکم بکفرہ۔(اللمع،ص:۱۲۹-۱۳۰،ط:دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

جہاں تک ان احکام کاتعلق ہے، جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہوتی توان کی دوقسمیں ہیں:ایک:رسول اللہ ﷺ کے دین میں سے جس کاجاننا ضروری اورلازمی ہو،جیسے:فرض نمازیں، واجب زکات، زنا، لواطت اورشراب نوشی کی حرمت وغیرہ، توجوشخص ان چیزوں سے واقف ہونے کے بعدان کی مخالفت کرے تووہ کافرہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں سے ان کا علم ہرحال میں ضروری ہے، لہٰذا جواس کی مخالفت کرے، گویا اس نے اللہ اوراس کے رسول کی باتوں کو جھٹلایا، پس اس پر کفر کا حکم لگایاجائے گا۔

۲-قطعی الدلالہ نصوص میں اختلاف:اس سے مرادوہ اختلاف ہے، جوایسے ثابت شدہ اجماع یانصوص قطعیہ میں واقع ہو، جن میں اجتہادکی گنجائش نہیں، علامہ شاطبیؒ لکھتے ہیں:

فأماالقطعی:فلامجال للنظرفیہ بعدوضوح الحق فی النفی، أوفی الإثبات، ولیس محلاللاجتہاد، وہوقسم الواضحات؛ لأنہ واضح الحکم حقیقۃ، والخارج عنہ مخطیٔ قطعاً۔(الموافقات، المسألۃ الرابعۃ من الاجتہاد:۵؍۱۱۵)

جہاں تک قطعی کاتعلق ہے تواس تعلق سے نفی یااثبات واضح ہوجانے کے بعداس میں غوروفکرکی گنجائش نہیں اورنہ یہ محل اجتہادہے، اوریہ واضح امورکی قسموں میں سے ہے؛ اس لئے کہ حقیقتاً اس کاحکم واضح ہے، اوراس کے دائرہ سے باہرجانے والا یقینا خطاکارہے۔

۳-تعصب کا اختلاف:اس سے مرادوہ اختلاف ہے، جو مسلکی تعصب کاچشمہ لگا کرکیاجائے، جودراصل جاہلوں کی علامت ہے؛ کیوں کہ یہ اختلاف جھگڑا، انتشار،کینہ اورالزام تراشی وبہتان تک پہنچاتاہے، باوجودیہ کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایسا اختلاف معتبرہے اورعہدصحابہ سے چلاآرہاہے۔

۴-نص شرعی کے خلاف تقلیدکی وجہ سے اختلاف:اس سے مراد وہ اختلاف ہے،جوصریح نص شرعی کے موجودہونے کے باوجودمجتہدین میں سے کسی کی رائے کی اقتدا کی وجہ سے اختلاف کیاجائے۔(الاعتدال والوسطیۃ لشرح العقیدۃالطحاویۃ :۲؍۴۷۵-۴۷۷، ط: دارالکتب العلمیۃ،بیروت ۱۹۷۱)

اختلاف کے اسباب

جتنے بھی اختلافات ہوتے ہیں، ان کے کچھ اسباب ہوتے ہیں،جن کوہم دوقسموں پرتقسیم کرسکتے ہیں:

۱-اخلاقی اسباب:یہ وہ اسباب ہیں، جن کا تعلق باطن سے ہے، اس کی درج ذیل بنیادیں ہوسکتی ہیں:

(الف)خودپسندی۔

(ب)دوسروکے ساتھ بدظنی اوربغیردلیل کے الزام تراشی میں عجلت پسندی۔

(ج)ہواپرستی۔

(د)شخصی، مسلکی اورجماعتی تعصب۔

(ھ)قومی یاگروہی عصبیت۔

یہ تمام اموراہل قلوب کے نزدیک اخلاق رذیلہ میں داخل ہیں اورجواختلاف ان رذائل کی وجہ سے پیداہو، وہ اختلاف مذموم میں شامل ہے۔(الصحوۃ الإسلامیۃ بین الاختلاف المشروع للقرضاوی،ص:۱۲)

۲-فکری اسباب:اس سے مرادوہ اسباب ہیں، جن کاتعلق نقطۂ نظرکے اختلاف سے ہے، اس کے اسباب درج ذیل ہوسکتے ہیں:

۱-موضوع کی پیچیدگی:قدیم زمانہ سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ فلاسفہ نے اپنے بحث کے لئے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا، جس کے اندر بذات خود پیچیدگی اورغموض ہو، جس کے کنہ تک پہنچنا آسان نہ ہو، ظاہرہے کہ ایسے موضوعات میں ہرشخص کا نظریہ متفق نہیں ہوسکتاہے اوراسی عدم اتفاق کی وجہ سے اختلاف وجود میں آتاہے۔

۲-خواہش اورمزاج کافرق:ہرانسان کامزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اوراسی طرح خواہش اورچاہت بھی اور ہر فرد اپنے مزاج اور اپنی خواہش کے مطابق عمل کرناچاہتاہے، جس کالازمی نتیجہ دوسرے سے اختلاف ہوتاہے۔

۳-رجحان کااختلاف:ہرفردکارجحان مختلف ہوتاہے اوروہ اسی رجحان کے ساتھ عمل کوانجام دیتاہے، اسی رجحان کے مطابق وہ سوچتا ہے اورکسی بھی مسئلہ کواسی نقطۂ نظرسے دیکھتا بھی ہے، اورظاہرہے کہ ہرفرد کا رجحان کسی مسئلہ کی بابت یکساں نہیں ہوسکتا، جس کے نتیجہ میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔

۴-اسلاف پرستی:اختلاف کاایک اہم سبب اپنے پیرؤوں کی کوری تقلید ہے؛ کیوں کہ اس کے نتیجہ میں عقل کاروزن بند ہوجاتا ہے اورمقلد محض کسی بھی دلیل اورحجت کوتسلیم نہیں کرتا، نتیجہ میں اختلاف ظاہرہوتاہے۔

۵-ادراکی قوتوں کااختلاف:ہرانسان کے اندرادراک کی صلاحیت یکساں نہیں ہوتی، کسی کے اندرزیادہ توکسی کے اندرکم، بعض دفعہ اسی ادراکی قوتوں کے تفاوت کے نتیجہ میں اختلاف رونما ہوتاہے۔

۶-اقتدار اوربادشاہ کی محبت:تقریباً ہرباشعورفردکااپناایک نظریہ ہوتاہے، بالخصوص سیاسی معاملات میں، اوراسی نظریہ کے مطابق وہ اپنی پسند کا حاکم کامنتخب کرتاہے، اس کے لئے کوشش کرتاہے اوراپنے آپ کوخطرات میں ڈالتاہے، ظاہرہے کہ اس سلسلہ میں ہرایک کایا کم ازکم ہرقوم کا(خاص طور پر ہندوستانی پس منظرمیں)نظریہ مختلف ہوتاہے، جس کے نتیجہ میں اختلاف واقع ہوتاہے۔(تاریخ المذاہب الإسلامیۃ لأبی زہرۃ،ص:۷-۱۰، ط:دارالفکرالعربی،قاہرہ)

فکری اختلاف کی قسمیں

فکری اختلاف کی درج ذیل شکلیں ہوسکتی ہیں:

(الف)علمی اختلاف۔

(ب)عملی اختلاف۔

علمی اختلاف

اس سے مرادوہ اختلاف ہے، جوکسی دلیل پر غورو فکر کے نتیجہ میں ہو، جیسے:فروعی احکام میں اختلاف۔

علمی اختلاف کے وجوہات

علمی اختلاف کے اسباب عموماً درج ذیل ہوتے ہیں:

۱-نص کے ثبوت اورعدم ثبوت میں اختلاف:علمی اختلاف کاایک سبب نص کے ثبوت اورعدم ثبوت کے نتیجہ میں ہوتاہے، ایک فردکے پاس وہ پایۂ ثبوت کوپہنچ جاتی ہے، جب کہ دوسرے کے پاس نہیں پہنچتی، جس کے پاس پہنچ جاتی ہے، وہ قبول کرتاہے اورجس کے پاس نہیں پہنچتی، وہ ردکردیتاہے، جس کے نتیجہ میں اختلاف واقع ہوجاتاہے، ثبوت اورعدم ثبوت کا یہ اختلاف دراصل رُوات کے ثقہ اورغیرثقہ ہونے یامتن یاسند میں شذوذ کے پائے جانے کے اختلاف کے سبب پیداہوتاہے۔

۲-فہم نص میں اختلاف:علمی اختلاف کادوسراسبب ثابت شدہ نص کی سمجھ کے لحاظ سے ہوتاہے، جس کی بنیاد مجتہدین کے نزدیک لفظ کے مشترک یا مجمل یاپھر حقیقت یامجاز ہونے پرہوتاہے۔

۳-متعارض نصوص کے مابین جمع وترجیح میں اختلاف: کبھی کبھی یہ اختلاف باہم متعارض نصوص کے درمیان جمع وتطبیق یا ترجیح دینے کے نتیجہ میں رونماہوتاہے، جس میں بعض دفعہ ایک مجتہد متعارض نصوص کے درمیان تعارض کو نہیں مانتا، ایسی صورت میں ترجیح کاعمل اپناتاہے، جب کہ کبھی دومتعارض نصوص کودوحالوں میں محمول کرتاہے۔

۴-اصولی قواعد اورمصادراستنباط میں اختلاف:بسااوقات یہ اختلاف ان اصولی قواعداورمصادراستنباط کے سبب پیدا ہوتا ہے، جومجتہدین نے وضع کررکھے ہیں؛ کیوں کہ ہرمجتہد کے نزدیک حدیث کے قبول کرنے اورنہ کرنے کے شرائط وقواعد دوسرے مجتہد کی شرطوں اورقواعد سے مختلف ہوتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ اس کے نتیجہ میں اختلاف کاپیدا ہونا لازمی امرہے۔ (دراسات فی الاختلافات العلمیۃ لمحمدابوالفتح البیانونی،ص:۳۱ومابعدہا،ط: دارالسلام،قاہرہ)

عملی اختلاف

اس سے سے مرادوہ اختلاف ہے، جوعمل کے دائرہ میں مصالح اورمفاسد کے درمیان موازنہ کے نتیجہ میں ہو، جیسے: قیام پاکستان کا اختلاف یاغیراسلامی جمہوری ممالک میں اقتدارمیں شرکت کااختلاف۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی