فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۳)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۳)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

فقہ مقارن اورعلم الخلاف

فقہ مقارن کی جوتعریف پیچھے ذکرکی گئی ہے، وہ جدید تعریف ہے، قدیم دورمیں اس کو’’علم الخلاف‘‘یا’’خلافیات‘‘کے نام سے جانا جاتا تھا، نیزاس کا موضوع بھی چوں کہ مجتہدین کے مختلف فیہ مسائل ہیں؛ اس لئے اختلاف اوراس کی حقیقت کا جاننا بھی ضروری ہے۔

خلاف کے لغوی معنی

خلاف مصدرہے خالف یخالف مخالفۃ کا، جس کے معنی ’’مخالفت‘‘ اور’’عدم اتفاق‘‘ کرنے کے آتے ہیں، المعجم الوجیز میں ہے:خالف الشئی:ضادہ۔(المعجم الوجیز،ص:۲۰۸، لفظ: خلف، المعجم الوسیط، ص:۲۵۱)

لغوی اصطلاح میں خلاف ایسے جھگڑے کوکہتے ہیں، جوحق کی تحقیق یا باطل کے ابطال کے لئے دو یا اس سے زائد لوگوں کے درمیان ہو، قطب مصطفی سانوکہتے ہیں:

منازعۃ تجری بین متعارضین فأکثر لتحقیق حق أولإبطال باطل۔ (معجم مصطلحات أصول الفقہ لقطب مصطفی سانو،ص: ۱۹۸،ط: دارالفکر المعاصر، بیروت)

ایساجھگڑا، جوابطالِ باطل یا احقاقِ حق کے لئے دویا اس سے زیادہ افراد کے درمیان جاری ہو۔

خلاف کے اصطلاحی معنی

اصطلاح میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:

ہوعلم یعرف بہ کیفیۃ إیرادالحجج الشرعیۃ، ودفع الشبہ وقوادح الأدلۃ الخلافیۃ بإیراد البراہین القطعیۃ۔(ابجدالعلوم لصدیق حسن القنوجی:۲؍۲۷۶،ط:منشورات وزارۃ الثقافۃ والإرشاد القومی،دمشق ۱۹۷۸ء)

ایساعلم، جس کے ذریعہ سے شرعی دلائل لانے کی کیفیت اور قطعی دلائل لاکراختلافی دلائل کی خرابیاں اورشبہات کو دور کرنے کی کیفیت معلوم ہو۔

نشوونما

محققین کی رائے یہ ہے کہ اس کا آغازخلافت عباسیہ میں ہوا(جس کی مدت۱۳۲ھ(۷۵۰ء)سے ۶۵۶ھ(۱۲۵۸ء)ہے)؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانہ میں صرف جمع اقوال کا آغاز تھا، مناقشہ کے ساتھ ساتھ دلائل کا ذکراوران کے درمیان ترجیحی عمل کی ابتدا مذاہب اربعہ کی توسیع کے ساتھ ہوا، جب کہ ہر مذہب کے فقہاء نے اپنے مذہب کی تائید کے طورپر اختلافی مسائل کے نہ صرف دلائل پیش کئے؛ بل کہ اپنے مخالف کے دلائل کاردبھی کیا، ابن خلدون ؒلکھتے ہیں:

فاعلم أن ہذا الفقہ المستنبط من الأدلۃ الشرعیۃ کثرفیہ الخلاف بین المجتہدین باختلاف مدارکہم وأنظارہم خلافاً لابدمن وقوعہ لماقدمناہ، واتسع ذلک فی الملۃ اتساعاً عظیماً، وکان للمقلدین أن یقلدوا من شاء وامنہم، ثم لماانتہی ذلک إلی الأئمۃالأربعۃ من علماء الأمصار، وکانوا بمکان من حسن الظن بہم اقتصرعلی تقلیدہم ومنعوا من تسلیدسواہم لذہاب الاجتہادلصعوبتہ وتشعب العلوم التی ہی موادہ باتصال الزمان وافتقادمن یقوم علی سوی ہذہ المذاہب الأربعۃ، فأقیمت ہذہ المذاہب الأربعۃ أصول الملۃوأجری الخلاف بین المتمسکین بہا والآخذین بأحکامہا مجری الخلاف فی النصوص الشرعیۃ والأصول الفقہیۃ، وجرت بینہم المناظرات فی تصحیح کل منہم مذہب إمامہ تجری علی أصول صحیحۃ وطرائق قویمۃ یحتج بہاکل علی صحۃ مذہبہ الذی قلدہ وتمسک بہ، وأجریت فی مسائل الشریعۃکلہا فی کل باب من أبواب الفقہ، فتارۃ یکون الخلاف بین الشافعی ومالک، وأبوحنیفۃ یوافق أحدہما، وتارۃ بین مالک وأبی حنیفۃ، والشافعی یوافق أحدہما، وتارۃ بین الشافعی وأبی حنیفۃ، ومالک یوافق أحدہما، وکان ہذہ المناظرات بیان مآخذہؤلاء الأئمۃ ومثارات اختلافہم ومواقع اجتہادہم، کان ہذاالصنف من العلم یسمی بالخلافیات۔(مقدمۃ ابن خلدون: ۱؍۵۷۸-۵۷۷،ط:دارالفکر،بیروت۲۰۰۱ء)

جانناچاہئے کہ ادلہ شرعیہ سے مستنبط اس فقہ میں مجتہدین کے مختلف خیالات اوران کے متفرق نظریات کی وجہ سے کثرت سے اختلاف پایا جاتا ہے، جس کاوقوع ضروری(بھی)ہے، جیساکہ ہم نے پہلے ذکرکیا، اورمذہب میں اس کابہت زیادہ پھیلاؤ ہوا، اورمقلدین کے لئے گنجائش تھی کہ ان میں سے جس کی چاہیں، تقلید کریں، پھرجب علمائے امصارمیں سے ائمہ اربعہ پریہ ختم ہوا توان کے ساتھ حسن ظن کی وجہ سے لوگوں نے انھیں کی تقلید پراکتفا کیا اور اجتہاد کی دشواری ، زمانہ کی مناسبت سے علوم کی کثرت اورمذاہب اربعہ کوقائم کرنے والوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کے علاوہ دوسروں کی تقلید سے انھوں نے منع کیا، پس ان مذاہب اربعہ کواصول مذہب قرار دیا گیا اورفقہی اصول اورشرعی نصوص میں اختلاف کی وجہ سے ان مذاہب کے ماننے والوں اوران(کے بتائے ہوئے) احکام کواختیارکرنے والوں کے مابین اختلاف جاری رہا، ان کے درمیان اپنے امام کے مذہب کی تصحیح کے تعلق سے مناظرے ہوئے، جوان صحیح اصولوں اوردرست دلیلوں کے مطابق ہوتے، جن سے ان کے ائمہ نے اپنے مذہب کی صحت پراستدلال کیاہے اوریہ تمام ابواب فقہ کی بابت شرعی مسائل میں ہوتے ، پس کبھی شافعی اورمالک کے درمیان اختلاف ہوتا اورابوحنیفہ ان میں سے کسی کے موافق ہوتے اورکبھی مالک اورابوحنیفہ کے مابین ہوتا اورشافعی ان میں سے ایک کے موافق ہوتے اور کبھی شافعی اورابوحنیفہ کے درمیان ہوتا اورمالک کسی ایک موافق ہوتے، یہ مناظرے ان ائمہ کے مآخذ، ان کے اختلاف کے اسباب اوران کے اجتہاد کے مواقع کی وضاحت ہوتے، علم کے اس صنف کو’خلافیات‘کے نام سے جاناجاتاہے۔

خلاف اوراختلاف

خلاف ہی کی طرح ایک لفظ ’’اختلاف‘‘ ہے، اس کا استعمال بھی کثرت سے ہوتاہے اورعموماً دونوں ہم معنی ہی مستعمل ہوتے ہیں، اس لفظ کے بارے میں بھی جانتے چلیں۔

اختلاف کے معنی

’’اختلاف‘‘ مصدر ہے ’اختلف یختلف‘کا، جو’اتفق یتفق‘ کی ضد ہے، اس کے معنی ’’متفق اوربرابرنہ ہونے‘‘کے ہیں، المعجم الوسیط میں ہے:

(اختلف) الشیئان: لم یتفقا، ولم یتساویا۔ ( المعجم الوسیط، ص: ۲۵۱، نیز دیکھئے:المصباح المنیر، ص:۱۰۰، لفظ: خلف)

قرآن مجید میں ہے:

وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَات۔(آل عمران:۱۰۵)

تم لوگ ان لوگوں کی طرح مت ہو، جولوگ بٹ گئے اور جنھوں نے کھلی ہوئی نشانیاں آنے کے بعداختلاف کیا۔

دوچیزوں کے درمیان عدمِ تساوی اوراتفاق نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی جس روش پرچل رہاہے، دوسرا آدمی اس کے برخلاف روش پر چلے، یہی وجہ ہے کہ امام راغب اصفہانیؒ نے ’اختلاف‘ کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی ہے:

الاختلاف والمخالفۃ:أن یأخذ کل واحد طریقا غیرطریق الآخر فی حالہ وقولہ۔ (مفردات القرآن،کتاب الخاء:۲۰۷،نیز دیکھئے:الفروق اللغویۃ، الفرق بین الاختلاف فی المذاہب، فرق نمبر:۹۷:۱؍۲۸)

اختلاف اورمخالفت یہ ہے کہ ہرشخص حال چال یا بات چیت میں دوسرے شخص کے راستے سے ہٹ کرچلے۔

اہل علم کے نزدیک یہ لفظ حقیقتاً لغوی معنی میںہی مستعمل ہے(الموسوعۃ الفقہیۃ،لفظ:اختلاف:۲؍۲۹۱)؛البتہ’ اختلاف‘ چوں کہ کسی دلیل کے پیش نظرہواکرتاہے؛ اس لئے اختلاف کے لغوی معنی میں تھوڑی وسعت دی گئی اور’کسی دلیل پرمبنی قول‘ کواختلاف کہا جانے لگا، علامہ محمد علی تھانویؒ لکھتے ہیں:

والاختلاف فی مصطلح أھل العلم یستعمل فی قول بنی علی دلیل۔(کشاف اصطلحات الفنون:۲؍۲۳۰)

لفظ’ اختلاف‘ اہل علم کی اصطلاح میں کسی دلیل پر مبنی قول کے لئے مستعمل ہوتاہے۔

خلاف اوراختلاف میں فرق

اختلاف اورخلاف دونوں معنوی اعتبارسے ہم معنی ہیں، تاہم اہل لغت نے کچھ فرق بھی بتائے ہیں، جودرج ذیل ہیں:

۱-اختلاف میں منزل اورمقصود توایک ہوتاہے؛ البتہ راستے مختلف ہوتے ہیں۔

۲-اختلاف کسی دلیل کی بنیاد پرہوتاہے، جب کہ خلاف کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔

۳-اختلاف رحمت کے آثار میں سے ہے، جب کہ خلاف بدعت کے آثار میں سے ہے۔

۴-اگرقاضی کسی خلافی قول پرفیصلہ کردے اوردوسرے کے سامنے اس فیصلہ کا مرافعہ کیاجائے تواس کے فیصلہ کافسخ جائز ہے،جب کہ اختلافی قول پرکئے ہوئے فیصلہ کا فسخ درست نہیں۔(الکلیات للکفوی،فصل الألف والخاء:۱؍۷۲،الدرالمختار،مطلب: یوم الموت لایدخل تحت القضاء:۵؍۴۰۳) 

خلاف اوراختلاف کے درمیان یہ فرق اس لئے ہے کہ خلاف کا مدارکسی دلیل پر نہیں ہوتا؛ بل کہ یہ نزاع اورشقاق پرمشتمل ہوتاہے، لہٰذا یہ حقیقی اختلاف ہے، جب کہ اختلاف کا مدار کسی دلیل پرہوتاہے اوراس کے اندرنزاع اورشقاق کا عمل دخل نہیں ہوتا، لہٰذا یہ لفظی اختلاف ہے۔

فقہ مقارن اور علم الخلاف: ایک تعارف (قسط:۱)

فقہ مقارن اور علم الخلاف: ایک تعارف(قسط:۲)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی