فقہ مقارن اور علم الخلاف:ایک تعارف (قسط:۲)

فقہ مقارن اور علم الخلاف:ایک تعارف (قسط:۲)

فقہ مقارن اور علم الخلاف:ایک تعارف

(قسط:۲)

فوائد

اس علم کے سیکھنے کے درج ذیل فائدے ہیں:

۱-علم میںوسعت اوررسوخ:فقہ مقارن میں فقہاء کے اقوال، اسباب اختلاف، دلائل اورطریقۂ استدلال سے واقفیت حاصل کی جاتی ہے، پھران میں موازنہ اورمناقشہ کے ذریعہ سے کسی ایک رائے کو راجح قراردینے کاعمل بھی ہوتاہے، ظاہرہے کہ اس سے علم میں وسعت اوررسوخ پیداہوتاہے، امام نوویؒ لکھتے ہیں:

واعلم أن معرفۃ مذاہب السلف بأدلتہامن أہم مایحتاج إلیہ؛ لأن اختلافہم فی الفروع رحمۃ، وبذکرمذاہبہم بأدلتہایعرف المتمکن المذاہب علی وجہہا، والراجح من المرجوح، ویتضح لہ ولغیرہ المشکلات، وتظہرلہ الفوائدالنفیسات، ویتدرب الناظرفیہابالسؤال والجواب، ویتفتح ذہنہ ویتمیزعندذوی البصائروالألباب، ویعرف الأحادیث الصحیحۃمن الضعیفۃ، والدلائل الراجح من المرجوحۃ، ویقوم بالجمع بین الأحادیث والمتعارضات، والمعمول بظاہرہامن المؤولات، ولایشکل علیہ إلاأفراد من النادر۔ (المجموع، المقدمۃ:۱؍۱۹)

جاننا چاہئے کہ دلائل کے ساتھ اسلاف کے مذاہب کی واقفیت اہم ترین ضرورت ہے؛ کیوں کہ فروعات میں ان کا اختلاف رحمت ہے،اوردلائل کے ساتھ ان کے مذاہب کے ذکرکرنے سے براہ راست مذاہب اورمرجوح کے بالمقابل راجح سے واقفیت ہوجاتی ہے،اوراس کے اوردوسروں کے سامنے پیچیدگیاں واضح ہوتی ہے، نفسیاتی فوائد ظاہر ہوتے ہیں، اورسوال جواب کے ذریعہ سے غوروفکرکی تربیت ہوتی ہے، ذہن کھلتاہے اوراہل دانش وبینش کے نزدیک وہ ممتاز رہتاہے، ضعیف کے مقابلہ میں صحیح احادیث اورمرجوح کے مقابلہ میں راجح کی جان کاری ہوتی ہے، متعارض اوراحادیث کے درمیان ، نیز مؤلات کے بالمقابل معمول بہا کے درمیان تطبیق دے سکتاہے اورکم ہی لوگ اس پراشکال کرسکتے ہیں۔

۲-جموداورمسلکی تعصب سے چھٹکارہ:کسی طالب علم کی نظرجب کسی مسئلہ میں فقہائے کرام کے اقوال مع دلائل اور طرق استدلال پرپڑتی ہے تواس سے جمود اور بے جا مسلکی تعصب سے پاک ہوکرفراخ دلی کاثبوت دیتاہے، ہرایک کی رائے کو قابل احترام سمجھتاہے اور وقت ضرورت اس سے استفادہ بھی کرتاہے۔

۳-دلائل کی قوت اورضعف سے واقفیت:اس علم کی برکت سے طالب علم مختلف فیہ مسائل کے صرف دلائل سے ہی واقف نہیں ہوتاہے؛بل کہ ان کی قوت اور ضعف سے بھی واقف ہوتاہے، جس کی روشنی میں کتاب وسنت سے قریب ترمسئلہ پر عمل کرنا آسان ہوجاتاہے۔(مسائل فی الفقہ المقارن للکتورعمرسلیمان الأشقر وغیرہ،ص:۱۳-۱۴،ط:دارالنفائس،اردن)

۴-فقہ اسلامی کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش:طالب علم اس علم کے ذریعہ سے سہل اور آسان طریقہ سے فقہ اسلامی کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے، جوعادتاً مختلف نظریات کو سامنے رکھنے اور موضوعی بنیاد پران کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے بعدہی واضح ہوتاہے۔

۵-مسلکی اختلاف کی حدبندی اور مسلکی انتشار پر روک:اس کے ذریعہ سے مسلکی اختلاف کی حدبندی ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کے مابین اس مسلکی انتشار پرروک لگ جاتی ہے،جودراصل دوسرے مسالک کی بنیاداوردلائل سے ناواقفیت کی بناپرپیداہوتاہے۔(دروس فی أصول الفقہ المقارن لمجید النیسی، ص:۲۵،ط:مرکزدراسات المصطفیٰ الدولی)

۶-پیش آمدہ مسائل کے حل میں تعاون:فقہ مقارن طالب علم کو اجتہاد،علمی جستجواورتحقیق پرابھارتاہے، جس کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کے حل کرنے میں مددملتی ہے۔

۷-طریقۂ استنباط واجتہاد سے واقفیت:فقہائے کرام اور مجتہدین کے طریقۂ استنباط واجتہادسے واقفیت ہوتی ہے۔

۸-اطمینان قلب کاحصول:مختلف فیہ مسائل میں اکثرو بیشترطالب علم الجھ جاتا ہے؛لیکن مقارنہ کے ذریعہ اسے اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے۔(مسائل فی الفقہ المقارن للکتورعمرسلیمان الأشقروغیرہ،ص:۱۳-۱۴،ط:دارالنفائس،اردن)

۹-دین کی آسانی کاعلم:فقہ مقارن کے ذریعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین بہت آسان اورسہل ہے اورانسان اگر چاہے توآسانی کے ساتھ اپنی پوری زندگی کو اسلامی بناسکتاہے۔

۱۰-جہالت سے واقفیت:فقہ مقارن کا ایک بڑافائدہ یہ ہے کہ اس جہالت سے چھٹکارہ مل جاتاہے، جس کے نتیجہ میں ائمۂ متبوعین پرطعن وتشنیع کی جاتی ہے؛کیوں کہ جب ایک شخص کی نظرمسائل کے طریقۂ استنباط پرپڑتی ہے،پھردلائل پر غور کرتا ہے اورادلہ کے درمیان مناقشہ کرتاہے تواسے اپنی جہالت سے واقفیت ہوتی ہے اورعلم کاغرہ جاتارہتاہے۔(محاضرات فی الفقہ المقارن لسعیدرمضان البوطی،ص:۶،ط:الفکرالمعاصر،بیروت)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۱)

فقہ مقارن اور علم الخلاف:قسط:۳)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۴)

فقہ مقارن اور علم الخلاف:ایکتعارف(قسط:۵)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(آخری قسط)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی