فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۱)

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف

فقہ مقارن اورعلم الخلاف:ایک تعارف(قسط:۱)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

تمہید

موجودہ زمانہ صرف ٹیکنالوجی کے اعتبارسے ہی ترقیات کا زمانہ نہیں ہے؛ بل کہ تعلیمی اعتبارسے بھی ترقیات کازمانہ ہے، اس زمانہ میں ایسی ایسی تعلیمی ترقیاں ہوئی ہیں، جو گزشتہ ادوارمیں نہیں ہوئی تھیں، اس دوڑمیں اسلامی علوم بھی شامل ہیں، ’’علم الخلاف‘‘ کا فن اگرچہ علوم اسلامی کے سرمایہ میں موجود تھا؛ لیکن اپنے قدیم طرز پر، اب اسے جدید طرز پر مرتب کرنے کی ضرورت تھی، ’’فقہ مقارن‘‘اسی کی جدید شکل ہے، ذیل میں دونوں کاتعارف پیش کیاجارہاہے۔

فقہ مقارن کی تعریف

’’فقہ مقارن‘‘ دولفظوں سے مرکب ہے، ایک لفظ’’ فقہ‘‘ ہے اور دوسرا’’مقارن‘‘، دونوں کو جوڑنے سے ’’فقہ مقارن‘‘ وجود میں آتاہے، پہلے ہر ایک کی علاحدہ علاحدہ تعریف ذکر کی جارہی ہے۔

فقہ کی تعریف

فقہ ’’شق‘‘اور’’فتح‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ’’پھاڑنے اورکھولنے‘‘کے آتے ہیں، ابن منظورابن اثیرکے حوالہ سے لکھتے ہیں: واشتقاقہ من الشق والفتح۔(لسان العرب،لفظ :فقہ،ص:۳۴۵۰)، علامہ جاراللہ زمخشری لکھتے ہیں:

والفقہ حقیقۃً: الشق والفتح، والفقیہ: العالم الذی یشق الأحکام ویفتش عن حقائقہا، ویفتح مااستغلق منہا۔ (الفائق فی غریب الحدیث: ۳؍۱۳۴)

فقہ کے حقیقی معنی پھاڑنے اورکھولنے کے ہیں اور’فقیہ‘ اس عالم کوکہتے ہیں، جواحکام کوپھیلاتا اوراس کے حقائق کی تحقیق کرتاہے اوراس کے مغلق مسائل کو کھولتاہے۔

امام راغب اصفہانی کہتے ہیں:

الفقہ:ہوالتوصل إلی علم غائب بعلم شاہد، فہو أخص من العلم۔(المفردات فی غریب القرآن: ۱؍۳۸۴)

فقہ موجودعلم کے ذریعہ سے غائب کے علم تک پہنچنے کو کہتے ہیں، پس یہ علم سے خاص ہے۔

اسی سے اس کے اصل معنی ’’کسی چیزکے جاننے اور سمجھنے‘‘ کے لئے گئے ہیں؛ لیکن اس جاننے اورسمجھنے میں تحقیق اورکنہ تک رسائی حاصل کرنے کے معنی شامل ہوتے ہیں، قرآن مجیدمیں ہے:

قَالُواْ یَا شُعَیْْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْراً مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِیْنَا ضَعِیْفاً وَلَوْلاَ رَہْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا أَنتَ عَلَیْْنَا بِعَزِیْزٍ۔(ہود:۹۱)

انہوں نے کہا کہ شعیب تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی بند نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو۔

ایک دوسری جگہ ارشادربانی ہے:

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔(التوبۃ:۱۲۲)

اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے؛ تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے؛ تاکہ وہ بچیں۔

اورحدیث میں ہے:

من یرداللہ بہ خیراً، یفقہ فی الدین۔(صحیح البخاری،باب من یرداللہ بہ خیراً یفقہ فی الدین،حدیث نمبر:۷۱)

اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیرکاارادہ کرتاہے، اسے دین کی سمجھ عطاکرتاہے۔

پھرتمام علوم پرعلم دین کی فضیلت، شرافت اورسیادت کی وجہ سے خاص ’’علم دین کی سمجھ‘‘ کو ’’فقہ‘‘ کہا جانے لگا، ابن منظورکہتے ہیں:

وغلب علی علم الدین لسیادتہ وشرفہ وفضلہ علی سائرأنواع العلم، کماغلب النجم علی الثریا، والعُود علی المَنْدَل۔(لسان العرب،مادۃ:فقہ:۱۳؍۵۲۲،نیزدیکھئے: المعجم الوسیط،ص:۶۹۸،مادۃ:فقہ)

اورتمام علوم پرعلم دین کی فضیلت، شرافت اورسیادت کی وجہ سے علم دین پرغالب آگیا، جیساکہ(لفظ) ’نجم‘(لفظ) ’ثریا‘ پر اور (لفظ)’عود‘(لفظ) ’مندل‘(عمدہ خوشبو کاعود) پر غالب آگیا۔

موجودہ زمانہ میں اس علم کو’’قانون اسلامی کاعلم‘‘کے نام سے جاناجاتاہے۔

فقہ کی اصطلاحی تعریف

اصطلاح میں’فقہ‘’’احکام شرعیہ فرعیہ کو اس کے تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے‘‘کا نام ہے،علامہ شامی لکھتے ہیں:

العلم بالأحکام الشرعیۃ الفرعیۃ المکتسب من أدلتہا  التفصیلیۃ۔(ردالمحتار، مقدمۃ الکتاب:۱؍۱۱۸-۱۱۹)

تفصیلی دلائل سے حاصل ہونے والے فرعی شرعی احکام کوجاننا (فقہ کہلاتا ہے)۔

فقہ کی اصطلاحی تعریف میں کئی الفاظ قابل توضیح ہیں:

۱-الأحکام:احکام کہہ کرذوات(جیسے: متعین شخص زید، بکراورعمرو وغیرہ)اورصفات حقیقیہ(یعنی ذات سے متعلق لازم علامت، جیسے:اللہ تعالیٰ کے لئے علم، قدرت اورحیات ازلی وغیرہ) کے علم سے بچنا مقصود ہے۔(المحصول فی أصول الفقہ،الفصل الأول فی تفسیرأصول الفقہ:۱؍۷۹)

۲-الشرعیۃ:شرعیہ کہہ کراحکام حسیہ(جیسے:آگ جلانے والاچیز ہے)،احکام عقلیہ(جیسے:ظلم بری شئی ہے یا ایک دو کا آدھا ہے)اوراحکام وضعیہ(جیسے:فاعل مرفوع ہوتاہے، أنَّ کااسم منصوب ہوتاہے) جیسے علوم سے بچنا مقصود ہے۔(أصول الفقہ لمحمدزکریا البردیسی،ص:۲۶)

۳-الفرعیۃ:فرعیہ کہہ کریہ بتایا گیا کہ ان کاتعلق فروع سے ہو؛چنانچہ اصولی احکام اس سے خارج ہوگئے،جیسے: اجماع اورقیاس حجت ہے۔

۴-من أدلتہ التفصیلۃ:تفصیلی دلائل سے مرادوہ جزئی دلائل ہیں، جن کاتعلق مخصوص مسائل سے اورجوعین حکم پردلاتے ہیں،جیسے:حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّہَاتُکُمْ(النساء:۲۳)’’تمہاری ماؤں کوتم پر حرام کیا گیا‘‘،یہ آیت مخصوص مسئلہ ماؤں سے نکاح کی حرمت پردلالت کررہی ہے،اسی طرح:فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّور(الحج:۳۰)’’بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو‘‘کی آیت ہے، جومخصوص مسئلہ بت پرستی اور جھوٹی گواہی کے حرام ہونے پردلالت کررہاہے۔

اس’’ تفصیلی دلائل‘‘کے بالمقابل ’’اجمالی دلائل‘‘ ہیں، جن میں جزئی تفصیل نہیں ہوتی؛ بل کہ ان دلائل کے تحت متعدد جزئیات مندرج ہوتے ہیں،جیسے:امر وجوب کے لئے ہوتاہے، اس کے تحت وہ تمام(اکثری) احکام درج ہوتے ہیں، جوصیغۂ امر کے ساتھ واردہوئے ہیں، اسی طرح:نہی حرمت کوبتانے کے لئے ہے،اس کے تحت صیغۂ نہی سے واردہونے والے تمام (اکثری) احکام درج ہوتے ہیں۔(الوجیزفی أصول الفقہ للزحیلی،ص:۱۴-۱۳)

مُقَارِن کے لغوی معنی

لفظ’’مُقارِنْ‘‘قارَنَ یُقارِنُ مُقارَنَۃًسے ماخوذ ہے، جس کے معنی’’مقابلہ‘‘،’’موازنہ‘‘اور’’جوڑنے وجمع‘‘کرنے کے آتے ہیں، المعجم الوجیزمیں ہے:قارن الشیَٔ بالشیِٔ: وازنہ بہ۔(المعجم الوجیز، ص:۴۹۹،مادۃ:قرن،المعجم الوسیط،ص:۷۳۰،مادۃ:قرن،لسان العرب:۴۰؍۳۶۱۰، مادۃ:قرن)،اسی سے ’حج قِران‘ بھی ہے،جس کے معنی’’عمرہ اور حج کے لئے نیت کے ساتھ یکبارگی تلبیہ‘‘پڑھنے نے کے آتے ہیں۔(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الحج،باب القران:۳؍۵۵۴)

فقہ مقارن کی اصطلاحی تعریف

اصطلاح میں فقہ مقارن اس علم کوکہتے ہیں، جس میں کسی بھی فقہی مسئلہ میں فقہاء کے اقوال و دلائل سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان اصولی طریقہ سے موازنہ کیا جائے اوربحث ونقاش کے بعداختلاف کے منشاء کوواضح کرتے ہوئے راجح اورمرجوح کی نشاندہی کی جائے، احمدحسن خطیب لکھتے ہیں:

ویرادبہ:العلم بالأحکام الشرعیۃ فی مختلف الأنواع، والأبواب من حیث معرفۃ أراء الأئمۃ والفقہاء والعلماء، ومذاہبہم المتفقۃ أوالمختلفۃفیہا، وبیان أدلتہم وقواعدہم الأصولیۃ، ووجہات نظرہم التی کانت منشأہذاالاختلاف مع سیرہذہ الأدلۃ وموازنۃ بعضہاببعض، واختیارأقربہا إلی الحق وأولاہابالقبول۔(الفقہ المقارن،ص:۵۰،ط:الہیئۃ المصریۃ العامۃ لکتاب۱۹۹۱ء،نیزدیکھئے:المدخل إلی الفقہ المقارن للدکتور مسعود فلوسی،ص:۲)

اس سے مراد مختلف انواع وابواب کے شرعی احکام کا اس طور پرعلم، جس میں علماء، ائمہ اورفقہاء کی آراء اوران کے متفق علیہ یا مختلف فیہ مذاہب کی جان کاری، نیزان کے اصولی قواعد اور دلائل اوران نقاط نظرکی وضاحت ہو، جواس اختلاف کا سبب بنے، ساتھ میں ان دلائل کاموازنہ اورلائق قبول اورقرین صواب کواختیارکرنابھی پایاجائے۔

فقہ اورفقہ مقارن کے درمیان فرق

فقہ اور فقہ مقارن کاعلم اگرچہ کہ ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں؛ لیکن دونوں کے درمیان دوبنیادی فرق ہیں:

۱-علم فقہ کاموضوع احکام شرعیہ اوراس کے دلائل ہیں، جب کہ فقہ مقارن کاموضوع فقہاء اورمجتہدین کی آراء اوران کے مابین موازنہ ہے۔

۲-فقہ مقارن میں مجتہدین کی آراء کوموازنہ کرتے ہوئے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دلائل کو ذکر کیا جاتا ہے، پھربحث ونقاش کے بعدکسی ایک رائے کوترجیح دی جاتی ہے، جب کہ فقہ میں صرف دلائل ذکرکرنے پراکتفا کیا جاتا ہے، بحث ونقاش نہیں کیا جاتا،ہاں دوسرے فقہاء کی آراء بعض دفعہ ذکر کردی جاتی ہیں؛ لیکن ان کے درمیان موازنہ نہیں کیا جاتا اورنہ ہی کسی کوترجیح دی جاتی ہے۔(دروس فی أصول الفقہ المقارن لمجید النیسی،ص: ۲۵،ط:مرکزدراسات المصطفیٰ الدولی)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی