مقاصد حاجیہ و تحسینیہ

مقاصد حاجیہ و تحسینیہ

مقاصد حاجیہ و تحسینیہ

حاجیہ

یہ وہ مقاصد ہیں، جن کی ضرورت حرج ومشقت کو دور کرنے اوروسعت وکشادگی پیداکرنے میں پڑتی ہے، یہ اس قدر ضروری نہیں ہوتے، جن کے نہ ہونے کی وجہ سے نظام زندگی میں خلل واقع ہوجائے؛البتہ مشقت لاحق ہوتی ہے،علامہ شاطبی فرماتے ہیں:

وأماالحاجیات: فمعناہا أنہامفتقرۃ إلیہا من حیث التوسعۃ ورفع الضیق المؤدی فی الغالب إلی الحرج والمشقۃ اللاحقۃبفوت المطلوب، فإذالم تراع دخل علی المکلفین- علی الجملۃ- الحرج والمشقۃ؛ ولکنہ لایبلغ مبلغ الفساد العادی المتوقع فی المصالح العامۃ۔(الموافقات:۲؍۲۱)

جہاں تک حاجیات کا تعلق ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ فراخی اوراس تنگی کودورکرنے کے لحاظ سے اس کا محتاج ہو، جو اکثر و بیشتر اس طرح کے حرج اورمشقت میں مبتلا کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے مقصود فوت ہوجاتاہے، بس اگراس کی رعایت نہ کی جائے تومن جملہ مکلفین کوحرج اورمشقت لاحق ہوجائے گی؛لیکن یہ اس درجہ نہیں ہوگی، جومصالح عامہ میں بگاڑکی انتہا کو پہنچادے۔

اس کا اجراء عبادات،عادات،معاملات اورجنایات میں ہوتا ہے؛چنانچہ عبادات میں مرض یا سفرکی مشقت کی وجہ سے تخفیف،جیسے:سفرمیں قصر اور مرض وسفر کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت،عادات میں جیسے: شکارکرنے اور ماکولات ومشروبات،ملبوسات اور رہائش و سواری کے لئے حلال میں عمدہ چیزوں کے استعمال کی اجازت،معاملات میں جیسے:اجارہ،سلم اورمساقات وغیرہ کی اجازت اور جنایات میں جیسے:کاریگروں پرضمان اورعاقلہ(ہم پیشہ افراد) پردیت کا لزوم وغیرہ ان کی مثالیں ہیں اور یہ تمام اجازتیں حرج کو دوراورمشقت کوکم کرنے اور عبادات،عادات، معاملات اورجنایات میں لوگوں کے لئے گنجائش پیدا کرنے کے لئے ہیں(الموافقات:۲؍۲۱-۲۲،علم مقاصد الشارع، ص:۱۳۴

شریعت نے مقاصدِ حاجیۃ کی رعایت مکلف سے حرج اور مشقت کو دور کرکے آسانی اور سہولت بہم پہنچانے کے لئے کی ہے؛چنانچہ قرآن وحدیث میں اس تعلق سے صراحت بھی کی گئی ہے،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر}(البقرۃ:۱۸۵)’’اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتاہے، وہ تمہارے لئے سختی کو نہیں چاہتا‘‘، دوسری جگہ ارشادہے:{یُرِیْدُ اللّہُ أَن یُخَفِّفَ عَنکُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِیْفا}(النساء:۲۸)’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعًا) کمزور پیدا ہوا ہے‘‘،ایک اورجگہ فرمایاگیاہے:{مَا یُرِیْدُ اللّہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْْکُم مِّنْ حَرَج}(المائدۃ:۶)’’اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ وہ تم کوحرج میں ڈالے‘‘۔

اللہ کے رسولﷺکے ارشادات سے بھی اس بات کاپتہ ملتاہے؛چنانچہ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا:الدین یسر۔(بخاری، باب الدین یسر،حدیث نمبر:۳۹)’’دین آسان ہے‘‘،ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوموسی اشعری اور حضرت معاذ کو مخاطب کرکے حکم دیا:یسرا ولاتعسرا،وبشرا ولاتنفرا۔(بخاری، حدیث نمبر:۲۸۷۳)’’لوگوں سے نرمی کرو،ان پر سختی نہ کرو، اورخوش خبری سناؤ اورنفرت نہ دلاؤ‘‘، اسی طرح امت مسلمہ کی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا:إنمابعثتم میسرین، ولم تبعثوا معسرین۔(بخاری،حدیث نمبر:۲۲۰)’’تم لوگ نرمی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو،سختی کرنے والے بناکرنہیں بھیجے گئے‘‘، ایک جگہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں تخفیف کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:إذا أم أحدکم الناس فلیخفف۔(مسلم،حدیث نمبر: ۴۶۷)’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کی اما مت کرے تواسے تخفیف کرناچاہئے‘‘، ایک اورجگہ امت کے حق میں سہولت کی رعایت کرتے ہوئے فرمایا:لولاأن أشق علی أمتی، لأمرتہم بالسواک۔(بخاری،حدیث نمبر:۷۲۴۰)’’اگرمیری امت پرمشقت نہ ہوجاتا تومیں انھیں مسواک کاحکم دیتا‘‘۔

ان مذکورہ آیات واحادیث سے معلوم ہوا کہ ’’حاجیہ‘‘ کا مقصد ’’حرج اورمشقت کو دور کرنا ہے‘‘، نیز اس کی وجہ سے ’’ضروریہ‘‘ کی حفاظت بھی ہوتی ہے، وہ اس طورپرکہ ضروریات کی ادائے گی میں بعض دفعہ اتنی مشقت ہوجاتی ہے کہ اگر حاجیہ نہ رہے توضروریات کی تکمیل ہی نہ ہو، جیسے: نماز کی ادائے گی ضروریات میں سے ہے اوراس ضروریات کی ادائے گی کے لئے اصل حکم یہ ہے کہ کھڑے ہوکر ادا کیا جائے، اب ایک شخص بیمارہے، کھڑے ہونے پرقادر نہیں، اسے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دیدی گئی، بیٹھ کرنماز کی ادائے گی اجازت ’’حاجیہ‘‘ میں سے ہے،جو ضروریات کی ادائے گی میں معاون بن رہاہے،اسی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ شاطبی فرماتے ہیں:

فالأمورالحاجیۃ إنماہی حائمۃ حول ہذاالحمی، إذہی تترددعلی الضروریات، تکملہا بحیث ترتفع فی القیام بہا واکتسابہا المشقات، وتمیل بہم فیہا إلی التوسط والاعتدال فی الأمور؛ حتی تکون جاریۃ علی وجہ لایمیل إلی إفراط وتفریط۔ (الموافقات:۲؍۳۲) 

امورحاجیہ حمی کے اردگرد ہی گھومتے ہیں اورضروریات کی ترغیب دیتے ہیں،ان کواس اعتبارسے مکمل کرتے ہیں کہ ان کی انجام دہی اورحصول سے مشقتیں ختم ہوجاتی ہیں اورمعاملات میں اعتدال اورتوزان کا رجحان پیداکرتاہے؛یہاں تک کہ افراط اور تفریط کی طرف مائل ہوئے بغیر جاری ہوتاہے۔

تحسینیہ

اس سے مرادوہ مقاصد ہیں، جن کے فوت ہونے سے نہ تو دین ودنیا کوکوئی نقصان لازم آئے اورناہی حرج ومشقت لاحق ہو؛البتہ زندگی کی گاڑی حسن وخوبی کے ساتھ چلانے کے لئے ان کی ضرورت پڑتی ہے،یعنی یہ ایسے مقاصد ہیں، جن کا تقاضا اخلاق ومروء ت اورآداب وعادات کرتے ہیں، علامہ شاطبی فرماتے ہیں:

وأماالتحسینات: فمعناہا: الأخذ بمایلیق من محاسن العادات، وتجنب المدنسات التی تأنفہا العقول الراجحات، ویجمع ذلک قسم مکارم الأخلاق۔(الموافقات:۲؍ ۲۲)

جہاں تک تحسینیات کاتعلق ہے تواس کامطلب اچھی عادتوں کا اختیار کرنا اوران برائیوں سے بچناہے،جن کوعقل بھی ناپسند کرتی ہے،اوریہ مکارم اخلاق کی قسم میں جمع ہوجاتے ہیں۔

اس کا اجراء عبادات،عادات،معاملات اورجنایات میں ہوتا ہے؛چنانچہ عبادات میں طہارت،سترعورت،زینت اختیار کرنا، نوافل اورصدقات وخیرات وغیرہ، عادات میں کھانے پینے کے آداب، گندی چیزیں کھانے سے اجتناب اورکھانے پینے میں اسراف وکنجوسی وغیرہ، معاملات میں نجس چیزوں کی بیع سے ممانعت، زائدپانی اورگھاس سے روکنے کی ممانعت اور عورت کو منصب امامت سے محروم رکھنا وغیرہ اورجنایات میں آزادکے بدلہ غلام کے قتل کی ممانعت، جہاد میں عورتوں، بچوں اوردینی رہنماؤں کے قتل کی ممانعت اورغداری، مثلہ اور زندہ یامردہ کوجلانے کی ممانعت وغیرہ ان کی مثالیں ہیں (الموافقات :۲؍ ۲۲-۲۳،علم مقاصد الشارع، ص:۱۳۷-۱۳۸)۔

’’ضروریہ‘‘ کی ادائے گی کے لئے جس طرح ’’حاجیہ ‘‘معاون ہے، اسی طرح ’’حاجیہ‘‘ کی ادائے گی میں ’’تحسینیہ‘‘ معاون ہے، گویایہ تینوں ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں، تحسینیہ کے ذریعہ سے کمال، جمال اورحسن اخلاق کا ظہور ہوتا ہے، جولوگوں کوقریب کرنے میں مددگار ہوتے ہیں،نیز اس کی وجہ سے زندگی کی گاڑی اطمینان کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے، اسی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن عاشور لکھتے ہیں:

والمصالح التحسینیۃ ہی عندی ماکان بہاکمال حال الأمۃ فی نظامہا؛ حتی تعیش آمنۃْ مطمئنۃ، ولہابہجۃ منظرالمجتمع فی مرآی بقیۃ الأمم؛ حتی تکون الأمۃ الإسلامیۃ مرغوبا فی الإندماج فیہا، أوفی التقرب منہا، فإن لمحاسن العادات مدخلافی ذلک، سواء کانت عامۃ کسترالعورۃ، أم خاصۃ ببعض الأمم کخصال الفطرۃ وإعفاء اللحیۃ، والحاصل أنہامماتراعی فیہاالمدارک الراقیۃ البشریۃ۔(مقاصد الشریعۃ الإسلامیۃ، ص:۸۲-۸۳) 

میرے نزدیک مصالح تحسینیہ وہ ہے ، جس میں امت کی انتظامی حالت میں کمال پیدا ہوجائے؛ یہاں تک کہ امن واطمینان کی زندگی بسرہوسکے، اوردوسری قوموں کی نگاہ میں امت کا معاشرہ خوش نمانظرآئے؛ یہاں تک کہ امت اسلامیہ میں ان کی شمولیت یااس سے قربت مرغوب ہو جائے؛ کیوں کہ اچھی عادتوں کا اس میں دخل ہوتاہے، خواہ یہ عادتیں عام ہوں، جیسے:سترعورت،یابعض قوموں کے ساتھ خاص ہوں، جیسے: خصال فطرت اور داڑھی کابڑھانا، حاصل یہ ہے کہ ان میں سے ہو، جن میں اعلی انسانی تصورات کی رعایت کی گئی ہو۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی