مقاصدِ ضروریہ (۵،۴) حفاظتِ عقل و مال

مقاصدِ ضروریہ (۵،۴) حفاظتِ عقل و مال

مقاصدِ ضروریہ (۵،۴)

حفاظتِ عقل و مال

حفظ عقل

(الف)ایجابی:اس کی حفاظت کے لئے مثبت پہلوسے حکم دیا گیا کہ:

۱-کھانے پینے میں ایسی چیزوں کا استعمال کیا جائے، جن سے عقل زائل نہ ہو اور جو طبیعت میں خباثت پیدانہ کرے، حکم دیاگیا:{یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً}(البقرۃ:۱۶۸) ’’اے لوگو!زمین کی حلال اورپاک چیزوں میں سے کھاؤ‘‘، دوسری جگہ فرمایا گیا:{کُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن}(الأعراف:۳۱)’’کھاؤ،پیواوراسراف نہ کرو،بے شک وہ اسراف کرنے والے کوپسند نہیں کرتاہے‘‘۔

۲-ایسے کام کئے جائیں،جن سے عقل کی نشوونما ہوتی ہو،جیسے:غوروفکراورذہنی اوردماغی کام،اللہ تعالیٰ کاارشادہے: {إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَاب}(آل عمران:۱۹۰)’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں‘‘۔

(ب)سلبی:سلبی پہلوسے عقل کی حفاظت کے لئے درج ذیل طریقے اختیارکئے گئے:

۱-نشہ آورچیزوں کی حرمت:عقل کوزائل کرنے والی تمام نشہ آورچیزروں کوحرام قرادیاگیا،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْإِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون}(المائدۃ:۹۰)’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام اعمالِ شیطان سے ہیں، سو ان سے بچتے رہنا؛ تاکہ نجات پاؤ‘‘، نیزآپﷺنے فرمایا:

 کل مسکرخمر،وکل مسکرحرام،ومن شرب الخمرفی الدنیافمات وہویدمنہالم یتب،لم یشرب فی الآخرۃ۔(صحیح مسلم، باب بیان أن کل مسکرخمر…، حدیث نمبر:۷۳)

ہرنشہ آورچیز شراب ہے اورہرنشہ آورچیز حرام ہے اورجس نے دنیامیں شراب پی، پھروہ بغیرتوبہ کے اس کاعادی ہوکر مرگیا، توآخرت  میں وہ شراب نہیں پی سکے گا۔

۲-شراب نوشی کی سزا:نشہ آورچیزوں میں سب سے اہم شراب ہے؛ اس لئے باقاعدہ اس کے لئے سزاکی تعیین کی گئی، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:

 أن النبی ﷺ جلدفی الخمربالجریدوالنعال۔(مسلم،حدیث نمبر:۳۲۸۱)

رسول اللہﷺنے شراب میں لکڑی اورجوتے سے مارا۔

لیکن حضرت عمرؓ نے اس تعلق سے مشورہ کیا تو عبدالرحمن نے کہا:کم ترحداسی کوڑے ہیں، بس حضرت عمرؓ نے اسی کاحکم دیا(مسلم،باب حد الخمر،حدیث نمبر:۱۷۰۶)،اسی میں وہ تمام مسکرات بھی داخل ہیں، جونشہ آور ہیں۔

حفظ مال

اسلام نے مطلقاًمال کوناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے؛ بل کہ اسے احترام کی نظرسے دیکھاہے؛چنانچہ بڑی خوب صورت تعبیراستعمال کرتے ہوئے ارشادفریاگیاہے:{فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانتَشِرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ}(الجمعۃ:۱۰)،’’پھر جب نماز ہو چکے تواپنی اپنی راہ لو اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘، دوسری جگہ ارشادہے:{عَلِمَ أَن سَیَکُونُ مِنکُم مَّرْضَی وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِیْ الْأَرْضِ یَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّہِ}(المزمل:۲۰)،’’اس نے جاناکہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض اللہ کے فضل (یعنی معاش) کی تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں‘‘، اسی طرح ایک جگہ ’’خیر‘‘کالفظ اس کے لئے استعمال کیاگیاہے، ارشاد ہے:{وَإِنَّہُ لِحُبِّ الْخَیْْرِ لَشَدِیْد}(العادیات:۸)،مذکورہ جگہوں پرمال کمانے اور معاش طلب کرنے کو’’فضل‘‘ کے لفظ سے تعبیرکیاہے، جبکہ ایک جگہ ’’خیر‘‘ کہاگیا ہے، جواس کے محترم ہونے کی دلیل ہے، اس کی حفاظت کے لئے بھی اسلام نے ایجابی اورسلبی ہر دوپہلوسے حکم دیاہے:

(الف)ایجابی:مال کی حفاظ کے لئے مثبت پہلوسے کئی طریقے بتائے گئے ہیں:

۱-حصول کے ذریعہ سے:پھراس کے متعدد اسلوب بتائے گئے:

الف)کسب وکمائی:کمائی کاحکم دیاگیا،ارشادہے:{وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ}(الجمعۃ:۱۰)’’اور اللہ کا فضل (معاش)تلاش کرو‘‘، اسی طرح اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

 لأن یحتطب أحدکم حزمۃً علی ظہرہ خیر من أن یسأل أحداً فیعطیہ أویمنعہ۔(بخاری،باب کسب الرجل وعملہ بیدہ،حدیث نمبر:۲۰۷۴)

تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پر لے کرآئے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، بس وہ دے یامنع کردے۔

ب)خریدوفروخت:مال کے حصول کاایک ذریعہ خرید و فروخت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا ہے،ارشادہے:{َأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا}(البقرۃ:۲۷۵) ’’اللہ نے بیع حلال کیااورربواکوحرام قراردیا‘‘۔

ج)وراثت:مال کے حصول ایک ذریعہ وراثت کو قرار دیا گیا،اس تعلق سے قرآن میں تفصیلی احکام دئے گئے ہیں (دیکھئے:سورۂ نساء:۱۰-۱۲)،نیز اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

 یقول ابن آدم: مالی مالی (قال)وہل لک یاابن آدم من مالک إلاماأکلت فأفنیت أولبست فأبلیت أو تصدقت فأمضیت۔(مسلم، حدیث نمبر:۲۹۵۸)

ابن آدم کہتاہے:میرامال،میرامال،اورابن آدم کاتوبس وہی مال ہے، جواس نے کھایا اورختم کردیا،یاپہنا اور پوسیدہ کردیا،یا صدقہ کیا اورمہرلگادیا۔

ج)ہدیہ:اس کے حصول کاایک ذریعہ ہدیہ بھی ہے، شریعت نے نہ صرف اسے جائز قراردیاہے؛بل کہ اس کی ترغیب بھی دی ہے، اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

 تہادوا تحابوا۔(سنن الترمذی،حدیث نمبر:۸۹۷۶)

ایک دوسرے کوہدیہ دیاکرو، محبت بڑھے گی۔

ھ)صدقہ:شریعت نے اسے بھی مال کے حصول ایک ذریعہ بتایاہے،اس میں ایک توصدقۂ واجبہ ہے،جوصرف مستحقین کے لئے ہے،جب کہ دوسراصدقۂ نافلہ ہے، جوعام ہے، اغنیاء بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

۲-انفاق کے ذریعہ سے:مال کی حفاظت کا ایک ذریعہ انفاق بھی ہے،جواللہ کے راستہ میں کیاجائے،اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجیدمیں ہے:{مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافاً کَثِیْرَۃ}(البقرۃ:۲۴۵)’’کوئی ہے کہ اللہ کو قرضِ حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اُس کو کئی حصے زیادہ دے گا‘‘، اسی طرح اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

من تصدق بعدل تمرۃ من کسب طیب، ولایقبل اللہ إلاالطیب، وإن اللہ یتقبلہا بیمینہ، ثم یربیہا لصاحبہہ کمایربی أحدکم فلوہ؛ حتی تکون مثل الجبل۔ (بخاری، باب لایقبل اللہ صدقۃ من غلول ولایقبل إلامن کسب طیب،حدیث نمبر:۱۴۱۰)

جس نے حلال کمائی سے کھجورصدقہ کیااوراللہ تعالیٰ حلال ہی کوقبول کرتاہے، تواللہ تعالیٰ دائیں ہاتھ سے اس کو قبول کرتاہے، پھراس کواس کے مالک کے لئے اس طرح بڑھاتاہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتاہے؛ یہاں تک کہ وہ پہاڑکے برابر ہوجاتاہے۔

یہ تو آخرت کے لحاظ سے حفاظت کاذریعہ تھا؛لیکن اگرغورکریں تودنیا میں بھی انفاق حفاظت مال کا ذریعہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے برکت حاصل ہوتی ہے،مصیبت ٹل جاتی ہے۔

(ب)سلبی:اس پہلوسے بھی مال کی حفاظت کے متعدد طریقے بتائے گئے:

۱-مال غیرکھانے کی حرمت:اللہ تعالیٰ نے نادرست طریقے سے دوسرے کا مال کھانے سے منع فرمایاہے، ارشاد ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُم}(النساء:۲۹)’’مومنو!ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ،ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہو جائے تو وہ جائز ہے)‘‘،اسی طرح نبی کریمﷺنے فرمایا:

کل المسلم علی المسلم حرام، دمہ ومالہ وعرضہ۔(مسلم،حدیث نمبر:۲۵۶۴)

مسلمان کاخون، مال اورعزت وآبرودوسرے مسلمان پرحرام ہے۔

عز بن عبدالسلام نے اس میں ربا،قمار،نجش،ظلم،عقود فاسدہ،تلقی رکبان وغیرہ کوبھی شامل کیاہے(قواعدالأحکام فی مصالح الأنام:۱؍۱۳۵)۔

۲-اضاعت مال کی ممانعت:مال کی حفاظت کے لئے ہی مال ضائع کرنے اوراسراف کرنے سے روکاگیاہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرا}(الإسراء:۲۶)’’اورفضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ‘‘، اسی طرح دوسری جگہ ہے:{وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن}(الأعراف:۳۱)’’اوراسراف نہ کرو، بے شک وہ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتاہے‘‘۔

۳-ذخیرہ اندوزی کی ممانعت:حفاظت مال کاایک طریقہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال کی ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے؛کیوں کہ اس کی وجہ سے مال ایک جگہ منجمد ہوجاتاہے اورمنجمد ہونے کی صورت میں اس سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا،جواس سے چاہا گیا ہے،اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:{مّا أَفَاء  اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْْ لَا یَکُونَ دُولَۃً بَیْْنَ الْأَغْنِیَاء  مِنکُمْ}(الحشر:۷)’’جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے وہ اللہ کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لئے ہے تاکہ جو لوگ تم میں دولتمند ہیں انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے‘‘،نیز ذخیرہ اندوزی کے نتیجہ میں مال کی برکت ختم ہوجاتی ہے، اللہ کے رسولﷺنے حضرت عائشہؓ سے مخاطب ہوکرفرمایا:

 أنفقی،لاتوکی فیوکی علیک۔(مسندأحمد، حدیث نمبر:۲۶۹۵۷)

خرچ کرواورروک کر نہ رکھوکہ تم پرروک دیاجائے۔

۴-عقوبات کے ذریعہ سے حفاظت:کئی طرح کی سزاؤں کا نفاذ کرکے بھی مال کی حفاظت کی گئی ہے:

الف)چوری کی حد:یہ بھی مال کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا}(المائدۃ: ۳۸)’’چوراورچورنی کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔

ب)ڈکیتی اورلوٹ مارکی حد:اس کے ذریعہ سے مال کی حفاظت ہی مقصود ہے،ارشادباری ہے:{إِنَّمَا جَزَاء  الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْض}(المائدۃ:۳۳)’’جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ او رایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دئیے جائیں یا ملک سے نکال دئیے جائیں‘‘۔

ج)ضمان:یہ بھی مال کی حفاظت کا ذریعہ ہے کہ اس کی وجہ سے بہت سارے افرادمال کی حفاظت کرنے پرمجبورہوتے ہیں-----یہ توباقاعدہ متعین سزائیں ہیں؛لیکن ان کے علاوہ غیرمتعین سزائیں بھی کبھی دی جاتی ہے،جن کی دوشکلیں ہیں:

الف)قید:بعض دفعہ مال کی حفاظت کی غرض سے قیدکی سزا بھی دی جاتی ہے، جس کی مثالیں کتب فقہ میں موجودہیں۔

ب)مالی جرمانہ:بسااوقات مال کے تحفظ کی خاطرمالی جرمانہ بھی لازم کرناپڑتاہے، اس کی بھی شریعت میںکئی مثالیں مل جاتی ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی