مقاصد ضروریہ(۳) حفاظتِ نسل

مقاصد ضروریہ(۳) حفاظتِ نسل

مقاصد ضروریہ(۳)

حفاظتِ نسل

حفظ نسل

(الف)ایجابی:اس اعتبارسے حفاظت نسل کے لئے متعدد طریقے ہوسکتے ہیں:

۱-نکاح کی مشروعیت اوراس کی ترغیب:نسل کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے، جب کہ مردوعورت کے درمیان جائز طریقے سے تعلق قائم ہوا، یہی تمام ادیان ومذاہب کارسم ورواج ہے، اسلام نے بھی اسی کاحکم دیاہے، ارشادہے:{فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء  مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ}(النساء:۳)’’دودو، تین تین اور چار چارعورتوں میں سے جوتمہیں پسند ہو، ان سے نکاح کرو‘‘، زبان نبوت نے بھی اسی کی رہنمائی کی ہے، فرمان نبی ہے:

 یامعشرالشباب!من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج،فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرْج،  ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم، فإنہ لہ وجاء۔(بخاری، باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم، حدیث نمبر: ۵۰۶۶)

اے جوانوں کی جماعت!تم میں سے جونکاح کی طاقت رکھتاہو، اسے نکاح کرلیناچاہئے؛کیوں کہ یہ نگاہ کونیچی رکھنے اورشرم گاہ کی حفاظت کرنے والی چیزہے اورجونکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، اسے روزہ رکھناچاہئے؛کیوں کہ یہ اس کے لئے توڑ ہے۔

نکاح کے بالمقابل’’سفاح‘‘(زنا) ہے، اس سے نسل کی حفاظت نہیں ہوتی، نہ معاشرتی طورپراورناہی قانونی طورپر، اسی لئے اللہ کے رسوﷺنے فرمایا:

 الولد للفراش، وللعاہرالحجر۔(بخاری، باب الولد للفراش حرۃ کانت أمۃ، حدیث نمبر: ۶۳۶۸)

بستروالے(شوہر) کے لئے بچہ اورزانی کے لئے پتھر(رجم)ہے۔

۲-آلہ نسل کی حفاظت:جس کے درج ذیل مظاہرہیں:

٭اللہ تعالیٰ نے زناکی سزاکے طورپر آلۂ نسل کوکاٹنے کا حکم نہیں فرمایا، جیساکہ چوری میں ہاتھ کاٹنے کاحکم دیاہے، ظاہرہے کہ یہ نسل کی حفاظت کے لئے ہی ہے۔

٭اسلام نے خصی کرانے کی اجازت نہیں دی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن}(المائدۃ:۸۷)’’مومنو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں اُن کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘، اس آیت کی تفسیرکرتے ہوئے عزبن عبدالسلام لکھتے ہیں:

والتقدیر: لاتحرموا تناول ماأحل اللہ من الأکل، والشرب، والنوم، والنکاح، ولاتعتدوابالإختصاء، إن لایحب المختصین، أولایحب المعتدین بالاختصاء وغیرہ۔ (قواعدالأحکام فی مصالح الأنام:۲؍۱۷۴

تقدیریہ ہے کہ کھانے،پینے،نینداورنکاح میں سے اللہ نے جو حلال کیاہے،اسے لینے کوحرام قرارنہ دو۔اورخصی کرکے زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ خصی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا، یا خصی وغیرہ کے ذریعہ سے زیادتی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

اسی طرح جب نبی کریمﷺسے اس کی اجازت مانگی گئی توآپﷺنے اجازت نہیں دی، حضرت سعدبن وقاص ؓ فرماتے ہیں:

ردرسول اللہ ﷺ علی عثمان بن مظعون التبتل، ولوأذن لہ لاختصینا۔ (صحیح البخاری،باب مایکرہ من التبتل والخصاء،حدیث نمبر:۵۰۷۳) 

رسول اللہ نے عثمان بن مظعون سے تبتل کوردکردیا،اگرانھیں اجازت دیتے توہم خصی کرلیتے۔

۳-معاون چیزوں کاحکم:حفاظت نسل کے لئے معاون چیزوں کا حکم دیا گیا،جیسے:سترعورت، نگاہ نیچی رکھنا اور بات کرنے میں عورت کے لئے لوچ پیدانہ کرنے کاحکم، اللہ تعالیٰ ارشادہے:{یَا نِسَاء  النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء  إِنِ اتَّقَیْْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً}(الأحزاب:۳۲)’’اے پیغمبر کی بیویو!تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کرو؛تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو‘‘، دوسری جگہ ارشادہے:{یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء  الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً}(الأحزاب:۵۹)’’اے پیغمبر!اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (منہ) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں یہ اَمر ان کیلئے موجبِ شناخت (وامتیاز) ہو گا تو کوئی اُن کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

۴-نسب کے ثبوت میں ظن کااعتبار:نسل کی حفاظت کے لئے ظن کومعتبرمانا گیاہے؛کیوں کہ یقین تومشاہدہ کے بعدہی ہوسکتاہے، جب کہ ثبوت نسب کے لئے یہ ایک محال چیزہے، اسی لئے’’الولدللفراش‘‘کا حکم دیا گیا اورزنا پرچارگواہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا،اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاء  فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَداً وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُون}(النور:۴)’’اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا الزام لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو اُن کو اسی دُے مارو اور کبھی اُن کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بدکردار ہیں‘‘۔

۵-حضانت اورتعلیم وتربیت کاحکم:حفاظت نسل کے لئے ہی حضانت کاحکم بھی دیاگیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے عادات واطواربچہ تک منتقل ہوتے ہیں، اسی طرح تعلیم اورتربیت، حسن کلام اورنماز وروزہ کی تعلیم کا حکم دیا گیاکہ یہ چیزیں بھی نسل کوباقی رکھنے کاسبب بنتی ہیں، اگران چیزوں کی تعلیم نہ دی جائے تو نسل باقی نہیں رہے گی، جس کامشاہدہ اسپین اورترکی وغیرہ میں ہوچکا ہے۔

(ب)سلبی:جس طرح ایجابی پہلوسے حفاظت کے لئے کچھ امورذکرکئے گئے ہیں، اسی طرح سلبی پہلوسے بھی بعض امورذکرکئے گئے ہیں، جودرج ذیل ہیں:

۱-زناکی حرمت:اللہ تعالیٰ نے زنا کوحرام قراردیاہے، ارشاد باری ہے:{وَلاَتَقْرَبُواْالزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءسَبِیْلا}(الإسراء:۳۲) ’’اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے‘‘، اس حرمت میںوہ طریقہ بھی شامل ہیں، جوزنا کے مشابہ ہیں اورجن کارواج زمانۂ جاہلیت میں عام تھا،جیسے:نکاح استبضاع، نکاح رہط، نکاح بغایااورنکاح متعہ وغیرہ۔

۲-دواعی زناکی ممانعت:زنا کوحرام قرادینے کے ساتھ ساتھ دواعی اورمقدمات زنا کوبھی حرام قرادیاگیا ہے، جیسے:اجنبیہ سے خلوت اور اختلاط کی ممانعت، اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:

 لایخلون رجل بامرأۃإلامع ذی محرم۔(بخاری، باب لایخلون رجل بامرأۃ…، حدیث نمبر: ۵۲۳۳)

کوئی مرد محرم کے سواکسی عورت سے خلوت نہ کرے۔

۳-حدزناکی اجرائی:نسل کی حفاظت کے لئے ہی زنا کو حرام قرار دیا گیا اوراس کے ارتکاب کرنے والے کے لئے سزامتعین کی گئی اورحکم دیاگیاکہ:

الف)اگرغیرشادی شدہ نے اس کاارتکاب کیاہے تواسے سو کوڑے کی سزادی جائے،ارشادہے:الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ(النور:۲)’’بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب اُن کی بدکاری ثابت ہو جائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو دُرے مارو‘‘۔

ب)اگرشادی شدہ نے اس کا ارتکاب کیاہے تورجم کیا جائے،امام بخاری نے حضرت عمرؓ کا قول نقل کیاہے کہ انھوں نے فرمایا:

۔۔۔ألا وإن الرجم حق علی من زنی وقدأحصن إذاقامت البینۃ،أوکان الحبل،أوالاعتراف، قال سفیان:کذا حفظت:ألا وقدرجم رسول اللہ ﷺ ورجمناہ بعدہ۔(بخاری،حدیث نمبر:۶۸۲۹) 

سنو! بے شک رجم اس پر درست ہے، جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا، جب کہ بینہ قائم ہوجائے، یاحمل ظاہر ہوجائے، یااعتراف کرلے، سفیان کہتے ہیں:میں نے ایسے ہی یاد کیا ہے: سنو!رسول اللہﷺنے رجم کیاہے اورہم نے بھی ان کے بعدرجم کیاہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی