مقاصدضروریہ (۲) حفاظت نفس

مقاصدضروریہ (۲) حفاظت نفس

مقاصدضروریہ (۲)
حفاظت نفس

حفظ نفس

(الف)ایجابی:اس کے چارطریقے ہوسکتے ہیں:

۱-شادی کی اجازت اوراس کی ترغیب:جس کا پہلا مقصد توالد وتناسل ہے، ظاہرہے کہ اس کے ذریعہ سے نفس کو وجود بخشا جارہاہے، لہٰذا یہ اس کی حفاطت کا ایک طریقہ ہے، قرآن میں ہے:فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاءمَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ۔(النساء:۳) ’’دودو، تین تین اورچارچارعورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہو، ان سے نکاح کرو‘‘۔

۲-جسمانی اعتبارسے نفس کوزندہ رکھنا:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعا}(المائدۃ:۳۲) ’’جس نے ایک نفس کوزندگی دی ، اس نے تمام لوگوں کوزندگی‘‘، اس آیت میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ جس نے کسی ایک کی جان بچائی، خواہ قصاص معاف کرکے،یاانسانی اورحیوانی دشمن سے، یا پھرکسی اورسے، اس نے گویاپوری انسانیت کی جان بچائی، یہ جسمانی طورپرنفس کی حفاظت ہے، پھرجسمانی طورپرنفس کی حفاظت کے درج ذیل طریقے ہوسکتے ہیں:

الف)روٹی، کپڑا اورمکان:امام شاطبی نے انھیں عادات میں شمارکیاہے، فرماتے ہیں:

والعادات راجعۃ إلی حفظ النفس والعقل من جانب الوجودأیضاً کتناول المأکولات، والمشروبات، والملبوسات، والمسکونات وماأشبہ ذلک۔(الموافقات:۲؍۹)

عادات ایجابی پہلوسے بھی حفظ نفس وعقل کی طرف لوٹتے ہیں، جیسے:کھاناپینا، لباس پہننا اوررہائش اوراس جیسی چیزیں۔

ب)دوسروں کوکھلانا:قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے اسے دخول جنت اورجہنم سے چھٹکارہ کاسبب بتایاہے؛چنانچہ ابرار (جنتیوں) کی صفات بتاتے ہوئے فرمایا:{وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً }(الإنسان:۸)’’اوراس کی محبت کی وجہ سے مسکین، یتیم اورقیدی کو کھانا کھلاتے ہیں‘‘اورجہنم سے نجات کے راستے بتاتے ہوئے فرمایا:{أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃ٭یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ٭أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃ}(البلد:۱۴-۱۶)’’یا بھوک کے دن کھانا کھلانا٭ یتیم رشتہ دار کو٭ یا فقیر خاکسار کو۔‘‘، اسی طرح اللہ کے رسولﷺکاارشاد ہے:

إن فی الجنۃ غرفاًیری ظاہرہامن باطنہاوباطنہامن ظاہرہا، فقال أبومالک الأشعری: لمن یارسول اللہ؟ قال: لمن أطاب الکلام، وأطعم الطعام، وبات قائماً والناس نیام۔ (المستدرک للحاکم،حدیث نمبر:۲۷۰)

جنت میں کچھ کمرے ایسے ہیں، جس کے باطن سے ظاہراور ظاہرسے باطن نظرآتاہے، توابومالک اشعری نے کہا:کس کے لئے اے اللہ کے رسول؟ آپ نے جواب دیا: جس کی گفتگو اچھی رہتی ہو،جو کھانا کھلاتا ہو اورجورات کواس وقت قیام کرتا ہو، جب کہ سارے لوگ نیند میں ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ جان بچانے کے لئے دوسروں کو کھانا کھلانے کوواجب قراردیاگیاہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

اتفق الفقہاء علی أن إطعام المضطرواجب، فإذاأشرف علی الہلاک من الجوع أوالعطش، ومنعہ مانع، فلہ أن یقاتل لیحصل علی مایحفظ حیاتہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،لفظ:إطعام:۵؍۱۱۵)

فقہاء اس بات پرمتفق ہیں کہ مضطرکوکھلاناواجب ہےاورجب وہ بھوک اورپیاس کی وجہ سے ہلاکت کے قریب پہنچ جائے اور روکنے والاروک رہاہو تواسے اس سے قتال کی اجازت ہے؛ تاکہ وہ چیز حاصل کرسکے، جس سے اس کی زندگی بچ جائے۔

ج)حملہ آورکادفاع:اگرکوئی دشمن کسی پرحملہ آور ہو تو اس کا دفاع کرکے اس کے نفس کی حفاظت کی جاسکتی ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ…}(البقرۃ:۱۹۴)’’پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اُس پر کرو۔‘‘، یہی وجہ ہے کہ بعض فقہاء دفع صائل(حملہ آورکادفاع) کو واجب قراردیتے ہیں؛چنانچہ ڈاکٹرعبداللہ بن محمد الطیار،ڈاکٹرعبداللہ بن محمد المطلق اور ڈاکٹرمحمد بن ابراہیم الموسی کی مرتب کردہ کتاب الفقہ المیسرمیں ہے:

یری الجمہورمن الحنفیۃ والمالکیۃ فی الأصح وفی قول عند الشافعیۃ أنہ یجب دفع الصائل علی النفس ومادونہا، وسواء کان الصائل کافراً أومسلماً، وفی قول للشافعیۃ یجب إذاکان الصائل کافراًً فقط، وہورأی الحنابلۃ إذاکان الصیال فی غیروقت الفتنۃ۔ (الفقہ المیسر،کتاب الحدود: ۷؍۱۸۶)

جمہوراحناف،اصح قول میں مالکیہ اورایک قول کے مطابق شوافع کی رائے یہ ہے کہ نفس وغیرہ کی حفاظت کے لئے حملہ آور کادفاع واجب ہے، خواہ حملہ آورمسلمان ہو یا کافر، اور شوافع کے ایک قول میں ہے کہ دفاع صرف حملہ آورکے کافر ہونے کی صورت میں ہے، اوریہی حنابلہ کی رائے ہے، جب یہ حملہ فتنہ کے وقت کے علاوہ میں ہو۔

د)بیمارکاعلاج:جان بچانے کی ایک صورت علاج بھی ہے، خصوصاً آج کل کے زمانہ میں، جب کہ انسانیت نئی نئی بیماریوں سے جوجھ رہی ہے، بعض توآج تک لاعلاج بیماریاں چلی آرہی ہیں، پھرعلاج اتناخرچیلاہوچکا ہے کہ اللہ کی پناہ، ایسے میں نفس کی حفاظت کاایک ذریعہ علاج بھی ہوسکتا ہے، اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

تداووا، فإن اللہ تعالیٰ لم یضع داء إلاوضع لہ دواء،غیرداء واحد الہرم۔(ابوداود، باب فی الرجل یتداوی،حدیث نمبر:۳۸۵۵)

 علاج کراؤ، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہربیماری کی دوا رکھی ہے، سوائے ایک بیماری بڑھاپے کے۔

عام حالت میں توعلاج مباح یاپھرمستحب کے درجہ میں ہے؛لیکن جب جان پربن آئے توپھراس کاترک کرناحرام ہوجاتا ہے، الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

اعلم بأن أسباب المزیلۃ للضررتنقسم إلی مقطوع بہ کالماء المزیل لضررالعطش والخبز لضررالجوع، وإلی مظنون کالفصدوالحجامۃ وشرب المسہل وسائرأبواب الطب، أعنی معالجۃ البرودۃ بالحرارۃ ومعالجۃ الحرارۃ بالبرودۃ ، وہی الأسباب الظاہرۃ فی الطب، وإلی موہوم کالکی والرقیۃ،أمالمقطوع بہ،فلیس ترکہ من التوکل؛بل ترکہ حرام عنخوف الموت۔۔۔۔۔(الفتاوی الہندیۃ،کتاب الکراہیۃ،باب التداوی والمعالجات: ۵؍۴۳۴-۴۳۵)

جانناچاہئے کہ ضررکودورکرنے والے اسباب دوقسم کے ہیں، ایک قطعی، جیسے:پیاس کے ضرر کو دور کرنے کے لئے پانی اوربھوک کے ضررکودوورکرنے کے لئے روٹی، دوسری ظنی،جیسے:فصد، حجامہ، مُسہل دوا کا پینا اورتمام ابواب طب، یعنی برودت کاحرارت سے اورحرارت کابرودت سے علاج، اور یہ طب کے ظاہری اسباب ہیں، تیسری وہمی،جیسے: داغنا اور تعویذ، جہاں تک قطعی کاتعلق ہے تواس کاترک کرنا توکل نہیں ہے؛ بل کہ موت کے اندیشہ کے وقت اس کاترک کرناحرام ہے۔

ھ)خطرات سے آگاہی:نفس کی حفاظت کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے درپئے قتل ہوتواس کوبچانے کی فکرکی جائے؛چنانچہ قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کاقصہ نقل کیا گیاہے: {وَجَاء  رَجُلٌ مِّنْ أَقْصَی الْمَدِیْنَۃِ یَسْعَی قَالَ یَا مُوسَی إِنَّ الْمَلَأَ یَأْتَمِرُونَ بِکَ لِیَقْتُلُوکَ فَاخْرُجْ إِنِّیْ لَکَ مِنَ النَّاصِحِیْنَ}(القصص:۲۰)’’ اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا آیا (اور) بولا کہ موسیٰ (شہر کے) رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں کہ تم کو مار ڈالیں سو تم یہاں سے نکل جاؤ میں تمہارا خیرخواہ ہوں ‘‘، اس سے استدلال کرتے ہوئے عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں:

وکذلک المسارعۃ فی أمردیني یخاف فوتہ، وقد تجب المسارعۃ، کالمسارعۃ فی النہوض إلی القتال، وکمالورأینامن یقتل مسلماً، لوتبطأعلیہ لقتلہ، فالمسارعۃ إلی تخلیصہ منہ واجبۃ، إذ لیست الأناۃ محمودۃ فی کل شیٔ؛ بل لہامواطن تحمد لہا، ومواطن تذم فیہا، وکذلک المسارعۃ واللین والغلظۃ وغیرہا۔(شجرۃ المعارف،فصل فی المسارعۃ إلی النصح فی الدماء،ص:۱۹۷) 

اوراسی طرح ایسے دینی معاملہ میں مسارعت ہے، جس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہواوربسااوقات جنگ میں جانے کی مسارعت کی طرح مسارعت واجب ہوتی ہے،جیسے کہ ہم مسلمان کوقتل کرنے والے کسی شخص کو دیکھیں کہ اگراس پرسستی کی گئی تووہ اس کوقتل کردے گا، تواس سے اس کو بچانے کی مسارعت کرنا واجب ہے؛ کیوں کہ ہرچیز میں بردباری قابل تعریف نہیں ہوتی؛ بل کہ اس کے لئے بعض قابل تعریف جگہیں ہیں اوربعض قابل مذمت جگہیں ہیں اوراسی طرح مسارعت، نرمی اورسختی وغیرہ بھی ہے۔

و)ممنوعات کی اجازت:حفاظت نفس کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی کہ بعض ان چیزوں کی اجازت دی گئی،جن کی اجازت عام حالتوں میں نہیں ہوتی، جیسے:کلمۂ کفر کی زبان سے ادائے گی اور مردارکھانے کی اجازت وغیرہ، قرآن مجیدمیں ہے:{إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْْرِ اللّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ}(البقرۃ:۱۷۳) ’’ اُس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔ ہاں جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اُس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے ‘‘، اسی طرح دوسری جگہ ہے:{مَن کَفَرَ بِاللّہِ مِن بَعْدِ إیْمَانِہِ إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیْمَانِ…}(النحل:۱۰۶)’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کیساتھ کفر کرے وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کیساتھ مطمئن ہو‘‘، عزبن عبدالسلام رقم طراز ہیں:

وکذلک مالوأکرہ علی شہادۃ ، أوحکم بمال لزمہ إتلافہ بالشہادۃ، أوبالحکم حفظاًلمہجتہ کمایلزمہ حفظہا بأکل مال الغیر، وکذلک من أکرہ علی شرب الخمر، أوغص ولم یجد مایسیغ بہ الغصۃ سوی الخمر، فإنہ یلزمہ ذلک؛ لأن حفظ الحیاۃ أعظم فی نظرالشارع من رعایۃ المحرمات المذکورات۔(قواعدالأحکام فی مصالح الأنام:۱؍۸۰)

اوراسی طرح اگرکسی کوشہادت پرمجبورکیاجائے، یامال کاحکم لگایا جائے توجان کوبچانے کے لئے حکم یا شہادت کے ذریعہ سے اس کوضائع کرنالازم ہوگا،جیسا کہ دوسرے کے مال کو کھا کراس کا بچانا ضروری ہوتاہے، اسی طرح اگرشراب پینے پر مجبورکیاجائے یا اچھو لگ جائے اوراچھو کو دورکرنے کے لئے شراب کے علاوہ کچھ نہ ہو تواس کا پینا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ مذکورمحرمات کی رعایت کے مقابلہ میں جان کی حفاظت شارع کی نگاہ میں بڑھا ہوا ہے۔

۳-معنوی طورپرنفس کوزندہ رکھنا:معنوی طورپرنفس کی حفاظت کابہترذریعہ روحانی تربیت اورروحانی علاج ہے اوریہ اسی طرح ضروری ہے،جس طرح جسمانی علاج اس کی ظاہری حفاظت کے لئے ضروری ہوتی ہے، اس کامحل قلب ہے، اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:

 ألا وإن فی الجسد مضغۃ، إذاصلحت صلح الجسد کلہ، وإذافسدت فسد الجسد کلہ، ألاوہی القلب۔(بخاری،باب فضل من استبرألدینہ،حدیث نمبر:۵۲)

سنو، جسم میں ایک ٹکڑا، اگروہ درست ہوجائے توپوراجسم درست ہوجائے اوراگروہ بگڑجائے توپوراجسم بگڑجائے، سنو! وہ قلب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ علماء روحانی علاج کوجسمانی علاج پر مقدم قراردیاہے، علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

ومعلوم أن مصلحۃ البدن مقدمۃ علی مصلحۃ المال، ومصلحۃ القلب مقدمۃ علی مصلحۃ البدن۔ (الفتاوی الکبری،کتاب الملاہی:۴؍۴۶۷)

یہ معلوم ہے کہ بدن کی مصلحت مال کی مصلحت پرمقدم ہے اور دل کی مصلحت بدن کی مصلحت پر مقدم ہے۔

۴-تمام اعضاء کی حفاظت کے ذریعہ سے نفس کی حفاظت کرنا:نفس کی حفاظت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جسم کے تمام اعضاء کی حفاظت کی جائے؛کیوں کہ سارے اعضاء کے ملنے سے ہی پوراجسم بنتاہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حدیث میں کہاگیاہے:

 تری المؤمنین فی تراحمہم وتوادہم وتعاطفہم کمثل الجسد، إذاشتکی عضواًتداعی لہ سائرجسدہ بالسہروالحمی۔(بخاری،باب رحمۃ الناس والبہائم،حدیث نمبر: ۶۰۱۱)

مؤمنین کوتم آپس میں رحم ، محبت اورلطف کرنے میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب ایک عضوکوبیماری ہوتی ہے تواس کا پورا جسم بخار اور رت جگے کے ذریعہ سے متاثرہوتاہے۔

(ب)سلبی:سلبی پہلوسے نفس کی حفاظت کے دوطریقے ہیں:

۱-جسم واعضاء پرزیادتی کی حرمت:یعنی اعضاء یانفس کوہلاک کرنے والی چیزوں کو حرام قراردیا گیا ہے، جس کی دوشکلیں ہیں:

الف)جسمانی قتل:اللہ تعالیٰ نے ناحق جسم انسانی کے قتل کو حرام قرادیاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً}(المائدۃ:۳۲)’’جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا ‘‘، پھریہ جسمانی قتل خواہ دوسرے کا ہو یا اپنے خودکا،جیسے:خودکشی کرلیاجائے، دونوں حرام ہیں، خود کشی کے تعلق سے اللہ کے رسولﷺکاارشادہے:

 من قتل نفسہ بحدیدۃ فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نارجہنم خالداً مخلداً فیہاأبداً، ومن شرب سماً فقتل نفسہ، فہویتحساہ فی نار جہنم خالداً مخلداً فیہا أبداً، ومن تردی من جبل ، فقتل نفسہ ، فہویتردی فی نار جہنم خالداً مخلداً فیہا أبداً۔(مسلم، باب تغلیظ تحریم قتل الإنسان نفسہ…،حدیث نمبر:۱۷۵)

جس نے اپنے آپ کوکسی دھاردارچیز سے ہلاک کیا تووہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں اس کے ذریعہ سے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا،اورجوزہرپی کراپنے آپ کوقتل کرے تووہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں زہرپیتارہے گااورجوشخص پہاڑسے گراکراپنے آپ کو ہلاک کردے توہمیشہ ہمیش جہنم میں اپنے کوگراتارہے گا۔

ب)معنوی قتل:اس سے مراد شخصیت کوضائع کرنا، ہدایت سے دوری اورروئے زمین پرقائدانہ کردارکاترک کرنا ہے، یہ بھی معنوی طورپرقتل ہی ہے کہ ان کے بغیرانسان انسانیت کے درجہ سے گرجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے کی تحقیروتذلیل ، لڑائی جھگڑے، ایک دوسرے کے ٹوہ میں پڑنے ، طعنہ دینے اوربرے القاب کے ساتھ پکارنے سے منع کیاگیاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:{یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَاء  مِّن نِّسَاء  عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ وَمَن لَّمْ یَتُبْ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُون٭ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَن یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْْتاً فَکَرِہْتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوَّابٌ رَّحِیْم}(الحجرات:۱۰-۱۱) ’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے٭ مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتیں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام رکھو ایمان لانے کے بعد بُرا نام (رکھنا) گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں‘‘، پھریہ برائیاںذات تک محدود نہیں رہتیں، قوموں کوبھی لے ڈوبتی ہیں، ان برائیوں کی وجہ سے روئے زمین سے ان کا دبدبہ اورشان وشوکت ختم ہو کر رہ جاتی ہے، جودرحقیقت پوری قوم کے لئے معنوی طورپرقتل کاہی درجہ رکھتی ہے۔

۲-قصاص کی مشروعیت:نفس کی حفاظت کے لئے ہی قصاص کومشروع کیا گیا ہے،ارشادباری ہے:{وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(البقرۃ:۱۷۹)’’اے عقل والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے، شاید کہ تم تقوی اختیار کرو‘‘، اس کی تفسیرکرتے ہوئے امام جصاص فرماتے ہیں:

فأخبرأن فی إیجابہ القصاص حیاۃ لنا؛ لأن القاصد لغیرہ بالقتل متی علم أیقتص منہ کف عن قتلہ۔(أحکام القرآن، باب القیام بالشہادۃ والعدل:۵؍۴۵)

اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبردی جارہی ہے کہ قصاص کے واجب کرنے میں ہمارے کے لئے زندگی ہے؛اس لئے کہ جو کسی کوقتل کرنے کاارادہ کرے تواس بات کی جان کاری اس ارادہ سے اسے روک دے گی کہ اسے بھی قتل کیاجائے گا، بس وہ قتل سے رک جائے گا۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی