مار پیٹ ؍ تادیب کے حدود اور قیود

مار پیٹ ؍ تادیب کے حدود اور قیود

 تادیب کے حدوداورقیود

تادیب ایک قسم کی تعزیرہے اورتعزیرکے لئے کوئی حد اور اسلوب متعین نہیں کیا گیا ہے، یہ مارکے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے اوردرشت روی کے ساتھ بھی، مقصد اصل میں تنبیہ ہے اوروہ جیسے حاصل ہوجائے، حد اوردائرہ کے اندررہتے ہوئے اپنانے کی اجازت دی گئی ہے، علامہ علی حیدر خواجہ امین آفندیؒ لکھتے ہیں:

التعزیرتادیب، وہوقد یکون بالحبس، أوالصفع، أوتعریک الاُذن، أوالکلام العنیف، أونظرالقاضی بوجہ عبوس، أوالضرب۔ (دررالحکام شرح مجلۃ الأحکام: ۲ / ۷۴-۷۵، ط: میرمحمدکتب خانہ، آرام باغ، کراچی، نیز دیکھئے: المحیط البرہانی: ۴ / ۴۹۸)

’’تعزیرتادیب ہے، جوکبھی قید، کبھی طمانچہ، کبھی گوش ما لی، کبھی درشت کلامی، کبھی طیش نگاہی اورکبھی مارکے ذریعہ ہوتی ہے‘‘۔

اسی طرح مالکی فقیہ ابوزیدقیروانیؒ لکھتے ہیں:

ویرجع فی الضرب والتأدیب إلی اجتہاد المعلم، وہویختلف باختلاف المتعلمین لاختلاف أحوالہم۔ (الفواکہ الدوانی، باب فی احکام البیوع: ۳ ؍ ۱۱۷۴)

’’تادیب ومارمیں استاذکی رائے کادخل ہوتاہے، جوطالب علموں کے احوال کے ساتھ بدلتی ہے‘‘۔

مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوتاہے کہ تادیب اورتنبیہ کے مختلف طریقے ہیں اورمعلم اپنے اجتہاد اورطلبہ کی حالت وکیفیت کے مطابق اُنھیں بروئے کارلاسکتاہے؛ کیوں کہ ہرطالب علم کی حالت یکساں نہیں ہوتی؛ چنانچہ بعض طلبہ کے لئے استاذکی درشت روی اور سخت مزاجی ہی کافی ہوتی ہے، جب کہ بعض کے لئے مارضروری ہوتی ہے، ابن حاجب ؒ لکھتے ہیں:

رُبَّ صبی یکفیہ عبوسۃ وجھہ علیہ، وآخر لایرتدع إلابالکلام الغلیظ والتھدید، وآخرلاینزجر إلابالضرب۔(المدخل: ۲ ؍ ۴۵۹)

  ’’بعض بچے وہ ہوتے ہیں، جن کے لئے (استاذ)کی درشت روی کافی ہوتی ہے، جب کہ بعض کے لئے سخت کلامی اورڈانٹ ڈپٹ ضروری ہوتی ہے اوربعض کے لئے مارضروری ہوتی ہے‘‘۔

سزا کے طریقے

اب آیئے تادیب کے طریقوں اورشرعی اعتبارسے ان کی حیثیت دیکھتے چلیں:

۱-  طالب علم جب کوئی غلطی کرے تواستاذ کوچاہئے کہ سب سے پہلے اسے سمجھائے اورنصیحت کرے؛ کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

الدین النصیحۃ، قلنا:لمن؟ قال: للہ ولکتابہ ولرسولہ ولأئمۃ المسلمین وعامتہم۔ (مسلم، باب بیان أن الدین النصیحۃ، حدیث نمبر: ۵۵)

’’دین نصیحت (کانام)ہے، ہم (صحابہ)نے عرض کیا: کس کے لئے؟ اللہ کے رسول ﷺنے جواب دیا: اللہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے ائمہ(حاکموں)کے لئے اورعام مسلمانوں کے لئے‘‘۔

مذکورہ بالاحدیث میں لفظ’’عامتہم‘‘کااستعمال ہواہے، جس کے ضمن میں طالب علم بھی شامل ہے، اورعامۃ الناس کی نصیحت کے سلسلہ میں ابن رجب حنبلیؒ لکھتے ہیں:

والنصیحۃ لعامۃ السملمین: إرشادہم إلی مصالحہم وتعلیمہم أموردینہم ودنیاہم ۔ (جامع العلوم والحکم: ۱ / ۸۰)

’’عامۃ المسلمین کی نصیحت یہ ہے کہ انھیں دینی اوردنیاوی امورکی تعلیم اوربھلائیوںکی رہنما ئی کی جائے‘‘۔

لہٰذا طالب علم کوبھی سب سے پہلے نصیحت کی جائے اوراسے بتایاجائے کہ تمہارے لئے بہتری غلطی کے ترک کردینے میں ہے، اس کے لئے استاذ کوطالب علم کے ساتھ ایک دوست کارول پلے کرناچاہئے؛ تاکہ طالب علم کو بات سمجھنے میں سہولت وآسانی ہو۔

۲-  طالب علم کی اصلاح کے لئے بوقتِ ضرورت درشت روی اوراعراض کی گنجائش ہے؛ چنانچہ آپ ﷺ کے بارے منقول ہے:

إذاغضب أعرض وأشاح۔ (کنز العمال، باب فی حلیۃ النبی ﷺ، حدیث نمبر: ۱۸۵۳۵)

’’جب آپﷺ ناراض ہوتے تومکمل طورپراعراض کرتے‘‘۔

اسی طرح غزوۂ تبوک کے موقع سے جب حضرت کعب ؓ بن مالک شریک نہ ہوسکے توآپﷺ نے مقاطعہ(بائیکاٹ) کا حکم دیا، اس دوران جب وہ مسجد آتے توآپ ﷺ اپنارخ پھیرلیتے، خود حضرت کعب ؓ روایت کرتے ہیں:

وآتی رسول اللہ ﷺ فأسلم علیہ، وہوفی مجلسہ بعد الصلاۃ، فأقول فی نفسی: ہل حرک شفتیہ برد السلام علی أم لا؟ ثم أصلی قریباً منہ فأسارقہ النظر، فإذاأقبلت علی صلاتی، أقبل إلی، وإذاالتفت نحوہ، أعرض عنی۔ (بخاری، باب حدیث کعب بن مالک، حدیث نمبر: ۴۴۱۸)

’’جب آپﷺ نماز کے بعد اپنی مجلس میں ہوتے تومیں آپ ﷺ کے پاس آکرسلام کرتااوراپنے دل میں کہتا کہ کیاآپ ﷺکے ہونٹ جواب میں ہلے یا نہیں؟پھر میں آپﷺ کے قریب نماز پڑھتااورچورنظروں سے دیکھتا، جب میں نماز میں مشغول ہوجاتاتوآپﷺ میری طرف متوجہ ہوتے اورجب میں آپﷺ کی طرف مڑتاتو آپﷺ مجھ سے اعراض کرتے‘‘۔

اِس حدیث کے ضمن میں حافظ ابن عبدالبرؒ لکھتے ہیں:

وفی حدیث کعب دلیل علی أنہ جائز أن یہجرالمرأ أخاہ إذابدت لہ بدعۃ، أو فاحشۃ یرجوأن یکون ہجرانہ تأدیباً لہ وزجراً عنہا۔ (التمہید، قصۃ کعب بن مالک: ۶ / ۱۱۸)

’’حضرت کعب ؓ کی حدیث میں اس بات کی دلیل موجودہے کہ اپنے بھائی کی کسی بدعت یا برائی پرعلاحدگی اختیار کرلی جائے، جب کہ علاحدگی اس کے لئے تادیب اوربرائی کے لئے توبیخ بن سکے‘‘۔

حافظ ابن عبدالبرؒ کی مذکورہ عبارت سے جہاں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مفارقت درست ہے، وہاں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مفارقت تادیب اورزجرکے لئے ہو، کوئی اورمقصد کارفرمانہ ہو۔

۲-  اگرنصیحت کے بعدبھی طالب علم غلطی کرے تواستاذکوچاہئے کہ اسے ڈانٹے؛ چنانچہ روایت میں آتاہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن ؓ نے صدقہ کا کھجورمنھ میں ڈال لیاتوحضورﷺنے فرمایا:

کخ کخ، أما تعرف أنالانأکل الصدقۃ۔ (بخاری، باب من تکلم بالفارسیۃ والرطانۃ، حدیث نمبر:۳۰۷۲)

’’تھوتھو، کیاتمہیں معلوم نہیں ہم صدقہ نہیں کھاتے‘‘۔

علامہ عینی ؒ کلمہ ’’کخ کخ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:

وہی کلمۃتزجر بہاالصبیان عندمناولۃ مالاینبغی الإتیان بہ۔ (عمدۃ القاری، باب مایذکرفی الصدقۃ للنبی: ۹/۱۲۴،ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۲۰۰۱ء)

’’کخ کخ‘‘ ایساکلمہ ہے، جس کے ذریعہ سے بچوں کواس وقت ڈانٹاجاتاہے، جب وہ غیرمناسب حرکتیں کرتے ہیں‘‘۔

۳-  طالب علم کی کسی غلطی پربسااوقات گوش مالی کی جاتی ہے، تادیب کے لئے ایساکرنے کی اجازت ہے، تاہم گوش مالی اس طرح نہ کی جائے، جس سے طالب علم کے کان جڑسے اُکھڑجائیں، تنبیہ کے لئے گوش مالی کی اجازت مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتی ہے، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:

بت لیلۃ عند خالتی میمونۃ بنت الحارث، فقلت لہا: إذاقام رسول اللہ ﷺ فأیقظینی، فقام رسول اللہ ﷺ، فقمت إلی جنبہ الأیسر، فأخذ بیدی، فجعلنی من شقہ الأیمن، فجعلت إذاأغفیت یأخذ بشحمۃ أذنی۔ (صحیح مسلم، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ،حدیث نمبر: ۷۶۳)

’’میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت حارث کے پاس رات گزاری تومیں نے ان سے کہا: جب رسول اللہ ﷺقیام(لیل) کریں تومجھے جگادیں؛ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تومیں آپ کے بائیں جانب کھڑاہوگیا، آپ نے میراہاتھ پکڑا اوردائیں جانب کردیا؛ چنانچہ جب مجھے اونگھ آتی توآپﷺ میرے کان کی لوپکڑتے (اوربیدارکرتے)‘‘۔

مسلم ہی دوسری روایت میں’’یفلتہا‘‘ کا لفظ بھی آیاہے، جس کے معنی ’’مروڑنے‘‘ کے آتے ہیں، یعنی جب حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اونگھتے توحضورﷺ ان کے کان مروڑتے۔

اسی طرح حضرت ابوسعدشرحبیل بیان کرتے ہیں کہ:

أنہ دخل الأسواف موضع المدینۃ، فاصطاد بھا نھسا یعنی: طیرا، فدخل علیہ زید بن ثابت، وہومعہ، قال: فعرک اُذنی، ثم قال: خلِّ سبیلہ لاام لک، أماعلمت أن رسول اللہ ﷺ حرّم صید مابین لابتیہا۔ (السنن الکبری للبیہقی، باب ماجاء فی حرم المدینۃ، حدیث نمبر: ۱۰۲۶۳)

 ’’وہ مدینہ منورہ کے مقام اسواف میں پہنچے تووہاں ایک پرندہ کاشکارکیا، حضرت زید بن ثابت ؓ ان کے ساتھ تھے، وہ ان کے پاس پہنچے ، (حضرت شرحبیل کہتے ہیں کہ) انھوں نے میراکان مروڑا اورکہا: اس کا راستہ چھوڑدو، تیری ماں نہ رہے، کیاتجھے معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حرۂ مدینہ کے مابین شکارکرنے سے منع فرمایاہے‘‘؟

اس اثر میں بھی بطور تنبیہ کے گوش مالی کی بات کہی گئی ہے، جس سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گوش مالی کی اجازت دیتے ہوئے فقہاء رحمہم اللہ لکھتے ہیں:

التعزیرتادیب، وہوقد یکون بالحبس، أوالصفع، أوتعریک الاُذن۔(دررالحکام: ۲ / ۷۴-۷۵، ط: میرمحمدکتب خانہ، آرام باغ، کراچی، نیز دیکھئے: المحیط البرہانی: ۴ / ۴۹۸)

’’تعزیرتادیب ہے، اوروہ کبھی قید ، کبھی طمانچہ اور کبھی گوش مالی کے ذریعہ ہوتاہے‘‘۔

۴-  تادیب اوراصلاح کی غرض سے طالب علم کومارابھی جاسکتاہے؛ لیکن اُس کے دائرہ کاخیال رکھتے ہوئے،جس کی طرف حضوراکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع سے مردوعورت کے حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

ولکم علیہن أن لایوطئن فرشکم أحدکم تکرہونہ، فإن فعلن ذلک فاضربوہن ضرباً غیرمبرح۔(مسلم، باب حجۃ النبی ﷺ، حدیث نمبر: ۱۲۱۸)

بخاری کی ایک دوسری حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

بم یضرب أحدکم امرأتہ ضرب الفحل أوالعبد، ثم لعلہ یعانقہا۔ (بخاری،باب قول اللہ تعالیٰ: یاأیہا الذین آمنوالایسخرقوم من قوم …، حدیث نمبر: ۶۰۴۲)

’’تم میں سے کوئی شخص کیوں اپنی بیوی کوجانوریاغلام کی طرح مارتاہے؟شایدکے اس کے ساتھ معانقہ کرے‘‘۔

اس حدیث کی تشریح میں علامہ صنعانیؒ لکھتے ہیں:

إنہا دالۃ علی جواز الضرب، إلا أنہ لایبلغ ضرب الحیوانات والممالیک۔(سبل السلام، باب  القسم بین الزوجات: ۳ ؍ ۱۶۵)

’’یہ(حدیث) مارکے جواز پردلالت کرتی ہے؛ البتہ غلاموں اور جانوروں کی طرح نہیں نہ ماراجائے‘‘۔

انہی احادیث کی روشنی میں فقہائے امت نے طالب علم کی مارکے لئے بھی درج ذیل آداب وحدود بتلائے ہیں:

۱-  چہرے پرنہ ماراجائے؛ کیوں کہ یہ اُن نازک اعضاء میں سے ہے، جس سے انسان کاحسن وجمال متعلق ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: 

إذاقاتل احدکم فلیجتنب الوجہ۔ (بخاری، باب إذاضرب الوجہ فلیجتنب، حدیث نمبر: ۲۵۵۹، مسلم، باب النھی عن ضرب الوجہ، حدیث نمبر: ۲۶۱۲)

’’جب تم میں سے کوئی جھگڑاکرے توچہرے سے بچے‘‘۔

اس حدیث کے ضمن میں امام نوویؒ لکھتے ہیں:

قال العلماء: ہذاتصریح بالنھی عن ضرب الوجہ؛ لأنہ لطیف یجمع المحاسن، وأعضاء ہ نفیسۃ لطیفۃ، وأکثر الادراک بھا فقدیبطلھا ضرب الوجہ وقد ینقصھا وقد یشوہ الوجہ، والشین فیہ فاحش؛ لأنہ بارزظاہر لایمکن سترہ، ومتی ضربہ لایسلم من شین غالباً۔ (شرح النووی علی مسلم، باب النھی عن ضرب الوجہ، حدیث نمبر: ۲۶۱۲)

’’علماء فرماتے ہیں: یہ چہرے پرمارنے کی ممانعت کی صراحت ہے؛ کیوں کہ یہ (تمام)محاسن کوجمع کرنے والا عضوہے، اس کے اجزاء نہایت لطیف ونفیس ہیں، جن کے ذریعہ سے عمومی طورپرادراک حاصل ہوتاہے؛ چنانچہ چہرے پرمارنا یا توکلیۃً اس کے حسن کوختم کردے گایااس میں کمی پیداکرے گا، جب کے بعض دفعہ اس کے وجہ سے چہرہ بگڑجاتا ہے،نیزچوں کہ بالکل نمایاں رہنے والاعضوہے، اس کا بگاڑواضح ہوگااورجب بھی چہرے پرماراجائے گا، بگاڑسے عموماً خالی نہ ہوگا‘‘۔

نیز چہرے کے علاوہ نازک اعضاء جیسے: پیٹ، شرم گاہ، سینہ،کان کا نچلا حصہ، اوراعضائے رئیسہ جیسے: سر، نیز جوڑوں پربھی نہ ماراجائے،حضرت علی ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ اُن کے پاس ایک شرابی کولایاگیاتوآپ نے کوڑے مارنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا:

اضرب، واعط کل عضو حقہ‘، واتق الوجہ والمذاکیر۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، باب ماجاء فی الضرب فی الحد، حدیث نمبر: ۲۹۲۶۸)

’’مارواورہرعضوکواس کا حق دو، اورچہرے اورشرم گاہ سے بچو‘‘۔

امام ابوبکربن علی بن محمدالحداد یمنیؒ لکھتے ہیں: 

(إلارأسہ‘  ووجہہ وفرجہ) …لأن الفرج مقتل، والرأس مجمع الحواس، فربمایختل بالضرب سمعہ، أو بصرہ، أو شمہ، أوذوقہ، ویجتنب الصدر والبطن ایضاً؛ لأنہ مقتل۔ (الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الحدود: ۲ / ۲۴۱)

’’(سوائے سر، چہرہ اورشرم گاہ کے) …کیوں کہ شرم گاہ میں مارناہلاکت کاباعث ہوتاہے، جب کہ سرحواس(خمسہ)کامرکز ہے؛ چنانچہ سرمیں مارنے سے سماعت، بینائی، قوت شامہ، یاپھرذوقِ حس کے ختم ہوجانے کا قوی امکان ہے،( نیز)پیٹ اورسینہ پرمارنے سے بھی بچاجائے؛ کیوں کہ یہ بھی ہلاکت کاباعث ہے‘‘۔

علامہ بہوتی ؒلکھتے ہیں:

یجتنب الوجہ تکرمۃً لہ‘، ویجتنب البطن والمواضع المخوفۃ خوف القتل، ویجتنب المواضع المستحسنۃ؛ لئلا یشوھہا۔ ( کشاف القناع للبھوتی، فصل فی النشوز: ۴ ؍ ۱۸۴،  نیز دیکھئے  :حاشیۃ الدسوقی: ۴ ؍۳۵۴، رد المحتار: ۶ ؍ ۱۳۱،المہذب: ۲ ؍ ۸۹، تحریرالمقال، ص: ۷۳، الرسالۃ المفصلۃ للقابسی، ص: ۱۷۰ - ۱۷۱) 

’’چہرے سے اس کی شرافت اور احترام کی وجہ سے بچاجائے، اسی طرح پیٹ اوراُن نازک جگہوںسے بھی بچاجائے، جوہلاکت کاباعث ہوتے ہیں، نیز  حسن وجمال کی جگہوںسے بھی بچاجائے؛ تاکہ حسن ختم نہ ہوجائے‘‘۔

  ۲-  اس بری طرح سے نہ ماراجائے، جس سے طالب علم زخمی ہوجائے، یا خون نکل آئے، یا جسم پرداغ پڑجائے، یا پھرہڈی ٹوٹ جائے، چنانچہ آپﷺ کاارشادہے:

لایجلد أحدکم امرأتہ جلد العبد۔ (بخاری، باب مایکرہ من ضرب النساء، حدیث نمبر: ۵۲۰۴)

’’تم میں سے کوئی اپنی بیوی کوغلام کے مارنے کی طرح نہ مارے‘‘۔

حافظ ابن حجرؒ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:

…وأنہ ان کان ولابد فلیکن التأدیب بالضرب الیسیر۔ (فتح الباری، باب مایکرہ من ضرب النساء: ۹ / ۳۰۳)

’’اگر(تادیب میں)مارضروری ہوتوہلکی مارسے ہونی چاہئے‘‘۔

درج بالا حدیث سے استشہاداس طورپرہے کہ بیوی پریک گونا شوہرکوملکیت حاصل ہوتی ہے، اس کے باوجود صرف’’ہلکی مار‘‘کے ذریعہ سے تادیب کی اجازت دی گئی ہے، جب کہ طالب علم پراس طرح کی ملکیت بھی حاصل نہیں ہوتی تواس کے مارنے میں بدرجۂ اولیٰ ’’ہلکی مار‘‘کی ہی اجازت ہوگی، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے صراحتاً ’’ضربِ فاحش‘‘ سے منع کیاہے؛ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

(ضربافاحشا)قیدبہ؛ لأنہ لیس لہ أن یضربھافی التأدیب ضربافاحشا، وہوالذی یکسر العظم ، أویخرق الجلد، أویسودہ۔ (ردالمحتار: ۶ ؍ ۱۳۱، نیزدیکھئے: المجموع: ۱۸ ؍ ۱۳۸، بلغۃ السالک لأحمدالصاوی: ۱ ؍ ۴۰۷، تحریرالمقال، ص: ۷، المغنی: ۹ ؍ ۷۴۴)

’’مارکوفاحش سے یہ بتانے کے لئے مقیدکیاکہ تادیب میں’ضرب فاحش‘ درست نہیں، اور’ضرب فاحش‘ یہ ہے کہ اسے ہڈی ٹوٹ جائے، یاجلد پھٹ جائے، یا کالی ہوجائے‘‘۔

۳-  ڈنڈے اور چمڑے کے پیلٹ وغیرہ سے نہ ماراجائے؛ بل کہ اس کے لئے پتلی پتلی چھڑیاں استعمال کی جائیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب ؑ کو اپنی قسم پوری کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

وَخُذْبِیَدِکَ ضِغْثاًفَاضْرِبْ بِہ۔ (ص: ۴۴)

’’اوراپنے ہاتھ میں پتلی چھڑیاں لو، پھراس سے مارو‘‘۔

دراصل حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی اہلیہ کوکسی کام کاحکم دیا، جس کی انجام دہی میں تاخیرہوگئی اورحضرت ایوب علیہ السلام ناراض ہوئے اورکہا: بیماری سے شفایابی کے بعدمیں ضرورسومارماروں گا(تفسیررازی، برتفسیر سورۂ ص:۴۴)  -----  مارنے کی یہ قسم تنبیہ کے لئے ہی تھا؛ چنانچہ مفسر قرطبیؒ لکھتے ہیں:

تضمنت ہذہ الآیۃ جواز ضرب الرجل امرأتہ تأدیبا۔ (الجامع لأحکام القرآن: برتفسیر سورۂ ص: ۴۴:۱۵ / ۲۱۳)

’’یہ آیت مردکااپنی بیوی کوتادیب کے طورپرمارنے کے جوازکوشامل ہے‘‘۔

چوں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کویہ خدشہ لاحق ہواکہ سومارمارنے سے کہیں زیادہ نقصان نہ ہوجائے؛ اِس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ترکیب بتلائی کہ سو’ضغث‘ لے کرمارو، اس طرح قسم پوری ہوجائے گی، اور’’ضغث‘‘کسے کہتے ہیں؟ امام ابوبکرجصاص رازیؒ لکھتے ہیں:

والضغث ہومل ء الکف من الخشب أو السیاط أو الشماریخ ونحوذلک۔ (احکام القرآن، ۵ / ۲۵۸)

’’ضغث‘‘ سے مرادمٹھی بھرلکڑی، کوڑے یاپتلی شاخیں ہیں‘‘۔

اِس آیت سے جہاں دوسری چیزیں ثابت ہوتی ہیں، وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بطورتنبیہ کے پتلی پتلی چھڑیاں استعمال کی جانی چاہئے  -----   علامہ بہوتی ؒلکھتے ہیں:

یضربہابدرۃ أو مخراق، وہومندیل ملفوف، لابسوط ولابخشب؛ لأن المقصود التأدیب وزجرہا، فیبدأفیہ بأسہل فأسہل۔ (کشاف القناع: ۴/۱۸۵) 

’’اسے(اپنی بیوی کو)معمولی قسم کے کوڑے یاکپڑا موڑ کر مارے، کوڑے اورلکڑی سے نہ مارے؛ کیوں کہ مقصودتادیب اورتنبیہ ہے، لہٰذا سہل سے سہل ترین چیزسے ابتداکرے‘‘۔

’’درۃ‘‘سے مرادکیاہے؟ علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ لکھتے ہیں:

الدرۃ بکسرالدال المہملۃ وتشدیدالراء المہملۃوفتحہا، ہی التی یضرب بہا، ویشبہ أن یکون بدرۃ الکتاب التی یؤدب بہا المعلم صبیانہ، فکأنہ یشیرإلی صغرہا۔ (عون المعبود، باب فی تزویج من لم یولد: ۶ / ۹۳)

’’’دِرَّہ‘( دال کے زیر اورراء کی تشدیدوفتح کے ساتھ)سے مرادوہ ہے، جس کے ذریعہ ماراجاتاہے، اوریہ اس ’درۃالکتاب‘ کے مشابہ ہوتاہے، جس سے معلم بچوں کی تادیب کرتے ہیں، گویااس چھوٹے ہونے کی طرف اشارہ ہے‘‘۔

۴-  مارنے میں بچہ کی حالت، اس کی عمر، اس کی طاقت اوراس کے جرم کالحاظ رکھا جائے؛ چنانچہ حضرت امام ابوالقاسم بن احمدبرزالی مالکیؒ لکھتے ہیں:

وفی الصبیان القوی والضعیف، فیضرب علی قدرطاقتہ وجرمہ، فلیس الإجرام منہم سواء۔ (فتاوی البرزلی: ۳ ؍ ۷۴۵)

’’(اورمارنے میں)کمزوراورطاقت وربچوں کالحاظ رکھاجائے؛ چنانچہ اُن کی طاقت اورجرم کے اعتبار سے ماراجائے؛ کیوں کہ ہرایک کاجرم یکساں نہیں ہوتا‘‘۔

۵-  تین چھڑیوں سے زیادہ نہ ماراجائے؛چنانچہ علامہ ابن بطال ؒ غارِحراء کے اُس واقعہ سے ، جس میں حضوراکرم ﷺ کوحضرت جبریل ؑ نے تین مرتبہ اپنے سینے سے بھینچاتھا،بعض لوگوں کے استدلال کونقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقد استدل بعض الناس من ہذالحدیث أن یؤمرالمؤدب أن لایضرب صبیاً أکثرمن ثلاث ضربات۔ (شرح البخاری: ۱ ؍ ۳۷، ط: مکتبۃ الرشید ریاض)

’’بعض لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیاہے کہ مؤدِّب کوتین چھڑی سے زیادہ نہ مارنے کاحکم دیاجائے‘‘۔

الایہ کہ جرم بڑھاہواہویاباربارایک ہی غلطی کودہرائے، ایسی صورت میں دس چھڑیوں سے زیادہ نہ ماراجاے؛ تاہم اگراس سے زیادہ مارکی ضرورت پیش آجائے تواس کی بھی گنجائش ہے: علامہ صاویؒ لکھتے ہیں:

فإن یفد(الوعید) فالضرب بالسوط من واحد إلی ثلاثۃ ضرب ایلام دون تأثیر فی العضو، فإن لم یفد زاد إلی العشرۃ، فإن لم یفد فلابأس بالزیادۃ علیہا۔ (بلغۃ السالک لأحمد الصاوی: ۳ ؍ ۴۸۶، نیز دیکھئے: التاج والإکلیل، باب الصلاۃ: ۱ ؍ ۴۱۲، المدخل للعبدری: ۲ / ۳۱۷)

’’اگرڈانٹ مفیدنہ ہوتوایک کوڑے(چھڑی) سے تین کوڑے اس طرح مارے، جوتکلیف دہ توہو؛ لیکن عضوپراثرانداز(داغ) نہ ہو، اگرتین بھی مفیدنہ ہوتودس تک مارے اوراگریہ بھی غیرمفیدہوتودس سے زیادہ مارنے میں بھی کوئی حرج نہیں‘‘۔

۶-  ایسی چیز سے نہ ماراجائے، جس سے بچہ کی توہین ہوتی ہو، مثلاً: جوتے چپل سے نہ ماراجائے؛ چنانچہ امام سرخسی اوراب الیسررحمہما اللہ نے سرکے پچھلے حصے پراہانت کی وجہ سے ہی مارنے کوناپسندکیاہے، ابن نجیم مصریؒ ان کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

وذکرابوالیسروالسرخسی أنہ لا یباح التعزیر بالصفع؛ لأنہ من اعلی مایکون من الإستخفاف، فیصان عنہ اہل القبلۃ، کذا فی المجتبی۔ (البحرالرائق، فصل فی التعزیر: ۵ / ۶۸)

’’ابوالیسر اورسرخسی (رحمہماللہ) نے ذکرکیاہے کہ ’’صفع‘‘ (سرکے پچھلے حصے پر مارنا) درست نہیں؛ کیوں کہ اہانت کی یہ انتہائی قسم ہے، لہٰذا اہل قبلہ کواس سے بچایاجائے گا‘‘۔

حدیث سے بھی اس کی طرف واضح اشارہ ملتاہے؛ چنانچہ حضورﷺ نے عورتوں کے حقوق کوبتلاتے ہوئے فرمایا:

ولاتضرب الوجہ، ولاتقبح۔ (جامع الأصول فی أحادیث الرسول،الکتاب السابع: فی الصحبۃ، الفرع الثانی: فی حق المرأۃ علی الزوج، حدیث نمبر: ۴۷۱۹)

’’اورنہ توچہرے پرمارو اورناہی برابھلا کہو‘‘۔

اس حدیث کے ضمن میں محمدبن صالح بن عثیمنؒ لکھتے ہیں:

ویشمل النہی عن التقبیح الحسی والمعنوی۔ (شرح ریاض الصالحین، باب الوصیۃ بالنساء: ۱ / ۳۲۷)

’’برابھلاکہنے میں حسی اورمعنوی کی ممانعت بھی شامل ہے‘‘۔

اورظاہرہے کہ جوتے اورچپل سے مارنابرابھلاکہنے سے بڑھ کرہے؛ اس لئے اس کی ممانعت تو بدرجۂ اولیٰ ہوگی۔

۷-  ایک ہی جگہ پرمسلسل نہ ماراجائے؛ کیوں کہ اس سے طالب علم کوکئی قسم کے نقصانات ہوسکتے ہیں، علامہ ابن مازہؒ لکھتے ہیں:

یجب التفریق علی الأعضاء؛ لئلا تصیر الإقامۃ فی موضع واحدسببالفسادذلک الموضع۔ (المحیط البرھانی: ۴ / ۴۹۸، الحاوی فی فقہ الشافعی، باب نشوز المرأۃ: ۹ / ۵۹۹)

’’(مارتے وقت) مختلف اعضاء پرمارناضروری ہے؛ تاکہ ایک ہی جگہ مارنے کی وجہ سے کوئی خرابی لازم نہ آئے‘‘۔

۷-  انتقامی جذبہ کے تحت یا غصہ کی حالت میں نہ ماراجائے؛ کیوں کہ ایسی صورت میں ایک استاذ راہِ سداد سے دور ہٹ سکتاہے ، جس کے نتیجہ میں طالب علم کی تنبیہ مفقود ہوسکتی ہے کہ عضہ آگ کاانگارہ ہوتا ہے، جواپنے راستہ کی چیزکو راکھ کرسکتاہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غصہ کی حالت فیصلہ کرنے سے منع فرمایاہے، ارشاد ہے:

لایقضینّ حکَم بین اثنین وہوغضبان۔ (بخاری، باب ہل یقضی القاضی أویفتی، وہوغضبان؟حدیث نمبر: ۷۱۵۸)

’’کوئی حاکم(ثالثی) غصہ کی حالت ہرگزفیصلہ نہ کرے‘‘۔

اس حدیث کے ضمن میں علامہ عینیؒ امام مہلب کے حوالہ سے لکھاہے:

سبب ہذا النہی: أن الحکم حالۃ الغضب قدیتجاوز إلی غیرالحق، فمنع۔ (عمدۃ القاری، باب ہل یقضی القاضی أویفتی، وہوغضبان؟حدیث نمبر: ۷۱۵۸)

’’اِس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں حد سے تجاوزجائے گا؛ اس لئے منع کیاگیاہے‘‘۔

اورابن دقیق العید ؒ لکھتے ہیں:

فیہ النہی عن الحکم حالۃ الغضب لمایحصل بسببہ من التغیرالذی یختل بہ النظر۔ (فتح الباری، باب ہل یقضی القاضی أویفتی، وہوغضبان؟۱۳ / ۱۳۷)

’’اس حدیث میں غصہ کی حالت میں فیصلہ کرنے کی ممانعت ہے؛ کیوں کہ ایسی حالت میں مزاج بدل جاتاہے، جوغوروفکرمیں خلل اندازہوجاتاہے‘‘۔

۸-  طالب علم کی پہلی غلطی پرہی نہ مارناشروع کرے؛ بل کہ پہلے تنبیہ کرے، پھرنصیحت سے کام لے، پھرسزادینے کی دھمکی دے، جب یہ چیزیں کارگرثابت نہ ہوں تواب مارنے کی گنجائش ہے؛ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک دیہاتی مسجد نبوی میں کھڑے ہوکرپیشاب کرنے لگے تو صحابہ اسے روکنے کے لئے دوڑے، آپﷺ نے منع فرمایا، جب وہ دیہاتی پیشاب سے فارغ ہوگئے توآپﷺ نے انھیں بلایااور اس سے فرمایا: 

إن ہذہ المساجد لاتصلح لشیٔ من ہذاالبول ولاالقذر، إنماہی لذکراللہ عزوجل والصلاۃ وقراء ۃ القرآن۔ (صحیح مسلم، باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات…حدیث نمبر: ۲۸۵)

’’بلاشبہ یہ مسجدیں گندگی اوربول وبرازکے لئے نہیں ہیں، یہ توذکرواذکار، نماز اورتلاوتِ قرآن کے لئے ہیں‘‘۔

مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلطی کرنے والے کوپہلے سمجھاناچاہئے، پہلی ہی غلطی پرمارنانہیں چاہئے، جیساکہ آپﷺ نے دیہاتی شخص کے ساتھ کیا۔

۹-  مارسے چوں کہ اصلاح مقصود ہوتی ہے، لہٰذا اُسی وقت مارنے کی اجازت ہے، جب کہ غالب گمان ہوکہ بچہ اس سے تنبیہ حاصل کرے گا؛ چنانچہ امام حطاب مالکیؒ لکھتے ہیں:

وہکذا ذکرفی الصبی إذاظن أن الضرب لایفید فیہ شیئاً، فإنہ لایضرب۔ (مواہب الجلیل لشرح مختصرالخلیل، فصل فی القسم بین الزوجات:۵ / ۲۶۳)

’’اسی طرح بچے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ جب مارکے کے مفیدنہ ہونے کاگمان ہوتواس وقت نہ ماراجائے‘‘۔

۱۰-  مارنے میں اس بات کاخاص خیال رکھاجائے کہ استاذ خودمارے، کسی طالب علم سے مارنے کے لئے نہ کہے؛ کیوں کہ ایسی صورت میں آپسی نزاع کاقوی امکان ہے۔

اگرطالب علم کوجسمانی نقصان ہوجائے؟

مارنے کی وجہ سے بسااوقات طالب علم کونقصان ہوجاتاہے، ایسی صورت میں کیااستاذ پرجرمانہ لازم ہوگا؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ مارسے مقصود طالب علم کی تنبیہ ہے اوریہ ضروری نہیں ہے کہ جب تک مارانہ جائے ، یہ مقصد حاصل ہی نہ ہوسکے گا؛ اس لئے مارکی وجہ سے نقصان کی صورت میں مارکی کیفیت اورکمیت پرغورکیاجائے گا،اگرمارمشروع طریقہ پرعرف وعادت کے مطابق ہوتوایسی صورت میں استاذ پرکچھ بھی لاز م نہ ہوگا؛ لیکن اگرمارمشروع طریقہ سے ہٹ کراور عرف وعادت کے مطابق نہ ہوتواستاذضامن ہوگا، امام ابوبکربن علی بن محمدالحداد یمنیؒ لکھتے ہیں:

قال اصحابناجمیعاًفی المعلم والأستاذ الذی یسلم إلیہ الصبی فی صناعۃ، إذاضرباہ بغیرإذن أبیہ، أووصیہ، فمات ضمنا، وأماإذاضرباہ بإذن الأب، أو الوصی لم یضمنا، وہذاإذاضرباہ ضربا معتاداً یُضرب مثلہ، أماإذالم یکن کذلک، ضمنا علی کل حال۔ (الجوہرۃ النیرۃ، کتاب الإجارۃ،۱ /۳۲۱ نیز دیکھئے: المجموع، کتاب الغصب: ۱۴ / ۲۷۶، الحاوی فی الفقہ الشافعی:۱۲ / ۳۳۹، المغنی، لایبلغ بالتعزیر الحد:۱۰/ ۳۲۴، منح الجلیل، باب فی بیان حدشارب المسکر وأشیاء توجب الضمان:۹ / ۳۵۸) 

’’ہمارے تمام اصحاب معلم اوراس استاذ کے بارے میں کہتے ہیں، جس کے سپردبچہ کوکاری گری سیکھنے کے لئے کیاگیاہو،اگریہ حضرات بچہ کے والد یا وصی کی اجازت کے بغیرماریں، جس کے نتیجہ میں بچہ کا انتقال ہوجائے تودونوں ضامن ہوں گے؛ تاہم اگروالدیا وصی کی اجازت سے ماراہو، اوربچہ کا انتقال ہوجائے تودونوں ضامن نہیں ہوگے، اوریہ اس وقت ہے، جب کہ عرف وعادت کے مطابق ماراہو، اگرعرف وعادت سے ہٹ کرماراہوتوہرحال میں(خواہ اجازت لے یا نہ لے)دونوں ضامن ہوگے‘‘۔

نیز اگرطالب علم استاذ کی مارکی وجہ سے زخمی ہوجائے یاہڈی وغیرہ ٹوٹ جائے توایسی صورت میں بھی یاتو(اسلامی حکومت میں)بدلہ لیاجائے گا، یاپھرتاوان لیاجائے گا؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاص۔ (المائدۃ: ۴۵)

’’اورہم نے ان پرلازم کردیاہے کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اوردانت کے بدلے دانت ہے اورزخموں کابھی بدلہ لیاجائے گا‘‘۔

اسی لئے فقہاء ایسی صورت میں اساتذہ کی تعزیرکی بات کرتے ہے، علامہ حصکفی ؒ لکھتے ہیں: 

وکذا المعلم إذاضرب الصبی ضرباً فاحشاً یعزر۔ (الدرالمختار، ص: ۳۲۰، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۲۰۰۲ء)

’’اسی طرح معلم، جب بچہ کوبری طرح (ضرب فاحش)سے مارے(جس کی وجہ سے اسے نقصان ہوجائے)تواس کی تعزیرکی جائے گی‘‘۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی