بینک میں محفوظ حکومتی فنڈ کے سود سے استفادہ

بینک میں محفوظ حکومتی فنڈ کے سود سے استفادہ

بینک میں محفوظ حکومتی فنڈ کے سود سے استفادہ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

حکومت کی بعض اسکیمیں ایسی بھی ہیں،جن میں حکومت نے ایک محفوظ فنڈ قائم کردیا ہے،جس کوبینک میں ڈپازٹ کردیا گیا ہے اور انٹرسٹ سے جورقم حاصل ہوتی ہے،اس سے تعلیمی ورفاہی اداروں اورافراد واشخاص کا تعاون کیاجاتا ہے،گویا حکومت یا حکومت کا ادارہ انٹرسٹ وصول کرتا ہے،اس کا مالک ہوتاہے اور پھروہ اسکیم سے استفادہ کرنے والے حضرات کی مدد کرتاہے توکیا یہ صورت درست ہوگی؟

جواب:اس طرح کی اسکیموں سے استفادہ کرنا جائزہے؛ کیوں کہ ایسا ہوسکتاہے کہ ایک چیز کے اندردوچیزوں کی صلاحیت اوراس کی دومختلف حیثیتیں ہوں،جیسے:ولایتِ نکاح کا ایک مسئلہ بیان کیا جاتاہے کہ اگرکسی صغیرہ لڑکی کاولی اس کا چچازاد بھائی ہواور وہ چچازاد بھائی اپنی چچازاد بہن سے نکاح کرلے توجائز ہے،یہاں اس کی دوحیثیتیں بتلائی گئی ہیں: 

فیکون أصیلاً من جانب، ولیامن جانب آخر۔ (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح: ۱؍۲۵۹)

وہ ایک جانب سے اصیل (بذاتِ خود) ہوتاہے، جب کہ دوسرے جانب (لڑکی کی جانب) سے وکیل ۔

اس طرح کی واضح مثال حدیث شریف میں وارد ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:

اُتی النبی ﷺ بلحم، فقیل: تصدق علی بریرۃ، قال: ہولہا صدقۃ، ولنا ہدیۃ۔ (بخاری، باب قبول الہدیۃ، حدیث نمبر: ۲۵۷۷، نسائی، باب خیار الأمۃ، حدیث نمبر: ۳۴۴۷)

آں حضرتﷺکے پاس گوشت لایاگیا اور بتلایا گیا کہ یہ بریرہ کوصدقہ کیاگیا ہے،آپﷺنے فرمایا:وہ اس کے لئے صدقہ اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔

اس حدیث کے ضمن میں علامہ نورالدین سندیؒ لکھتے ہیں:

(ولناہدیۃ) فبین أن العین الواحدۃ یختلف حکمہا باختلاف جہات الملک۔ (حاشیۃ السندی علی النسائی:۶؍۱۶۲)

(اورہمارے لئے ہدیہ ہے) اس میں واضح کیا کہ عینِ واحد کا حکم جہتِ ملک کے اختلاف سے مختلف ہوتاہے۔

آپﷺپرصدقہ حرام تھا،اسی لئے آپ صدقہ قبول نہیں کرتے تھے،حضرت بریرہؓ پرحرام نہیں تھا،اس لئے ان کے پاس صدقہ بھیجا گیاتھا،آں حضرتﷺکو گوشت کے اس صدقہ والے تحفہ کو پیش کیاگیا،جو اصل کے اعتبار سے آپ کے لئے درست نہیں تھا؛لیکن آپﷺنے جہتِ ملک کے بدلنے سے حکم کے بدلنے کی بات بتلائی اور فرمایا کہ یہ ہمارے حق میں (حضرت بریرہؓ کی طرف سے) ہدیہ ہے،علامہ عینیؒ لکھتے ہیں:

المتصدق علیہ زال عنہا وصف الصدقۃ، وحلت لکل واحدممن کانت الصدقۃ محرمۃ علیہ۔ (شرح أبی داود، باب فی فقیریہدی إلی غنی من الصدقۃ، (حدیث نمبر: ۱۷۷۵): ۶؍۴۰۸)

متصدق علیہ سے صدقہ کی صفت ختم ہوگئی اور ہراس شخص کے لئے جائز ہوگیا،جس پرصدقہ حرام تھا۔

مذکورہ مسئلہ کی مزید وضاحت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ایک فتوے سے ہورہی ہے:

عن ابن مسعودأنہ سئل عمن لہ جاریأکل الرباعلانیۃ، ولایتحرج من مال خبیث یأخذہ یدعوہ إلی طعام،قال:أجیبوہ،فإنما المہنألکم،والوزرعلیہ۔(جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی،ص:۷۱)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھاگیا کہ جس کا پڑوسی علانیہ سود کھاتاہو اور مال خبیث لینے میں ہچکچاتا نہ ہو،وہ(اگر) کھانے کی دعوت کرے(توکیا کرنا چاہئے) انھوں نے جواب میں فرمایا: اسے جواب دو کہ تمہارے لئے خوش گوارہے اورگناہ اُس پر ہے۔

مذکورہ عبارات سے یہ بات آشکار ہوگئی کہ اس طرح کی حکومتی اسکیم سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا ہے، ہذاماعندی، واللہ أعلم بالصواب، وعلمہ أتم وأحکم!!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی