ترجیحات کی تعیین نہ ہونے کاخمیازہ

ترجیحات کی تعیین نہ ہونے کاخمیازہ

’’ترجیحات کی تعیین‘‘ نہ ہونے کاخمیازہ

محمدجمیل اختر جلیلی ندوی

معاشیات کاایک اہم اصول ’’ترجیحات کی تعیین‘‘ بھی بتایا جاتاہے، نقصان سے بچنے اورنفع اندوزی کے لئے اس اصول کومدنظررکھنا بہت ضروری ہے؛ لیکن اس اصول کے ساتھ ظلم یہ ہے کہ اسے محدودکردیاگیا ہے، یہ اصول زندگی کے تمام شعبوں میں قائم ہوناچاہئے؛کیوں کہ کوئی شعبہ ایسانہیں، جہاں بہت سارے امورنہ ہوں،اب اگران میں اس اصول کونہ اپنایا جائے تودشواری ہوجائے گی،ویسے لوگ اس اس اصول سے واقف ہوں یانہ ہوں؛لیکن کام اسی اصول کے مطابق انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں،تاہم افسوس اس بات پرہے کہ اس اصول کادائرۂ کارہرایک نے ماہرین معاشیات کی طرح ہی محدود کر رکھاہے۔

کوئی بھی ایساشخص ، جس کے پاس صرف اتنے پیسے ہوں،جن سے وہ دال روٹی کاہی انتظام کرسکتا ہے، وہ کبھی بھی بریانی کے انتظام کے لئے قدم آگے نہیں بڑھاتا؛کیوں کہ اسے پتہ ہے کہ بریانی کی خریداری میری استطاعت سے باہرہے، یعنی اس شخص نے’’ترجیحات کی تعیین‘‘کے اصول کو سامنے رکھا،اگرچہ کہ اسے یہ اصول معلوم نہیں؛لیکن اسے اتنا ضرور معلوم ہے کہ ’’پیراتنی ہی پھیلانی چاہئے،جتنی چادرہو‘‘، معاشرہ کاہرفرددنیاوی زندگی میں اس کاخیال ضرور رکھتا نظر آئے گا،خواہ وہ پڑھالکھاہویاان پڑھ، مالک ہویامزدور، کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔

اسی اصول کودینی اعتبارسے دیکھیں تومعاشرہ کی اکثریت اس کو اپنانے سے کتراتی نظرآئے گی،اب تعلیم ہی کو لیجئے، تعلیم عصرحاضرمیں کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے، جوجسم انسانی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی ہے،اگرریڑھ کی ہڈی نہ ہوتوایک انسان سوائے لاش کے اورکچھ نہیں رہ جاتا،یہی حال آج کے زمانہ میں’’تعلیم‘‘کاہے؛ چنانچہ جوشخص تعلیم سے کوراہو، وہ آج کے انسانی معاشرہ کے لئے ایک لاش سے کم نہیں،اس کے لئے زندگی گزارنے کے راستے اگرمسدود نہ بھی ہوں توکم از کم تنگی وترشی کا سامنااسے ہرموڑپر ضرورکرناپڑتا ہے۔

قوموں کا عروج اور اقبال تعلیم ہی میں پنہاں ہے،خریطۂ عالم میں عرب کے قبائل کو سب سے زیادہ اُجٹ سمجھاجاتاتھا؛یہاں تک کہ دنیاکی کوئی طاقت ان پر حکومت کرنے کے لئے تیار نہیں تھی؛ لیکن بعثت ِمحمدیﷺکے بعد جب تعلیمی سفر کا آغاز ہواتو دنیا نے چشمِ حیرت سے دیکھاکہ لوٹ مار پر زندگی بسر کرنے اور قتل وغارت گری پر فخر کرنے والوں نے دنیاکو ایک ایسا روشن اور چمکدار تمدن عطا کیا،جس کی ضیاء پاش کرنیں ڈیڑھ ہزار سال سے زائدعرصہ گزرجانے کے باوجودآج بھی اُسی طرح سطحِ زمین کو منور کر رہی ہیں،جس طرح کل کر رہی تھیں اور علم وہنر کے متوالے انھیں کر نوں کی مدد سے تحقیق وجستجواورتلاش وکھوج کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مذاہب ِعالم میں اسلام ہی وہ مذہب ہے،جس نے کسی بھی مذہب کے مقابلہ میں واضح اور صریح الفاظ میں حصول ِعلم کا حکم دیاہے؛چنانچہ ایک بے پڑھے لکھے قوم میں پرورش پائے ہوئے نوجوان(محمدﷺ)پر سب سے پہلے وحی کی شکل میں جو چیز نازل ہوئی،وہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ٭خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقِِ٭اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ٭الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ٭عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ۔ (العلق:۱-۵)

’’پڑھواس رب کے نام سے، جس نے پیداکیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیداکیا، پڑھو اور تمہارا رب باعزت ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، جس نے انسان کووہ سکھایا، جو وہ نہیں جانتاتھا‘‘۔

پھرنبی کریمﷺکی زبان ِمبارک سے تعلیم کے سلسلہ میں جو فرمان جاری ہوا،وہ بھی تعلیم کے لزوم (Necessity) کاحامل ہے،ارشادہے: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم( سنن ابن ماجۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، حدیث نمبر: ۲۲۴)۔’’علم کا حاصل کرناہرمسلمان(مردوعورت) پرفرض ہے‘‘، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم کا حاصل کرنافرض ہے، اب سوال یہ ہے کہ فرض علم میں کون کون سے علوم شامل ہیں؟ اس کاجواب مشہور اسلامی فلاسفرامام غزالیؒ نے یہ دیا ہے کہ فرض علم میں تین طرح کے علوم داخل ہیں:(۱)عقائد سے متعلق علم:جس کوہم مختصراً’’ایمانِ مجمل‘‘میں پڑھتے ہیں، یعنی اللہ ، رسول،ملائکہ،کتاب،آخرت کے دن،تقدیرکے اچھے وبُرے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر(ان کی تمام تفصیلات کے ساتھ، جن کوطوالت کی وجہ سے یہاں بیان نہیں کیاجاسکتا) ایمان لانا۔(۲)عمل سے متعلق علم:ایمان واعتقاد کے بعد ’’عمل‘‘ کا نمبر آتا ہے، یعنی ان چیزوں سے واقفیت، جن کے کرنے کا ہمیں حکم دیاگیاہے اورنہ کرنے کی صورت میں ’’عذابِ ألیم‘‘ (دردناک عذاب)کی وعید سنائی گئی ہے،جیسے:نماز،روزہ، زکوۃ اورحج وغیرہ سے متعلق جان کاری۔(۳)تَرْک(نہی) سے متعلق علم:’’ایمان ‘‘و’’عمل‘‘ سے متعلق تفصیلات جان لینے کے بعد اب ہمیں ان ممنوعات کے بارے میں جاننا ضروری ہے، جن کے کرنے سے ہمیں روکاگیاہے اور کرلینے کی صورت میں سزاکامستحق قراردیاگیاہے، امام غزالیؒ رقم طراز ہیں:

والذی ینبغی أن یقطع بہ المحصل… وہو:أن العلم…ینقسم إلی علم معاملۃ، وعلم مکاشفۃ،ولیس المرادبہذاالعلم إلاعلم المعاملۃ،والمعاملۃ التی کلف العبدالعاقل البالغ بہاثلاثۃ:اعتقاد،وفعل،وترک( إحیاء علوم الدین:۱؍۳۱)۔

’’خلاصہ کے طورپر یہ کہنامناسب ہے کہ علم کی دوقسمیں ہیں، ایک علم معاملہ اوردوسرے علم مکاشفہ اور یہاں علم معاملہ ہی مرادہے اور معاملات میں سے تین طرح کے علوم کاعاقل بالغ شخص کومکلف کیاگیاہے، اعتقادی، عملی اور ممنوعی‘‘۔

یہ تین طرح کے علوم ’’فرض‘‘کہلاتے ہیں، جن کے حاصل کئے بغیرایک مسلمان سے صحیح اسلامی زندگی کا تصورنہیں کیاجاسکتا،ان کے علاوہ جوعلوم دنیاوی امورکی درستگی کے لئے ضروری ہیں،وہ ’’فرض کفایہ‘‘ کے تحت آتے ہیں،جیسے:زراعت،صناعت،حرفت،ڈاکٹری،انجینئرنگ،ریاضی وغیرہ،امام غزالیؒ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جہاں تک فرض کفایہ کاتعلق ہے تووہ ایساعلم ہے، جس سے دنیاوی امورکی درستگی میں بے نیازی نہیں برتی جاسکتی، جیسے:طب کہ یہ جسموں کی بقا کی خاطر ضروری ہے، اورجیسے:حساب کہ یہ معاملات اوروصایا ومواریث کی تقسیم میں ضروری ہے، یہ وہ علوم ہیں کہ اگرشہراس سے خالی ہو تو اہل شہرمشقت میں پڑ جائیں گے اوراگرکوئی ایک اس کوانجام دے دے توکافی ہوگا اوردوسروں سے فرض ساقط ہوجائے گا، لہٰذا ہمارے قول کہ ’حساب اورطب فروض کفایات میں سے ہیں‘ سے تعجب نہیں ہونا چاہئے؛کیوں کہ اصول صناعات بھی فروض کفایات میں سے ہیں، جیسے: کاشت کاری، سیاست؛ بل کہ حجامہ اورسلائی بھی؛ چنانچہ اگرحجام سے شہرخالی رہے گا توہلاکت میں تیزرفتاری آئے گی اورلوگ اپنے آپ کوہلاکت کے قریب لے جاکرمشقت میں پڑجائیں گے، پس جس نے بیماری اتاری ہے، اسی نے دوا بھی اتاری ہے اور اس کے استعمال کی طرف رہنمائی بھی کی ہے اوراس کے لئے اسباب بھی تیارکردیاہے، پس کوتاہی کرکے اپنے آپ کوہلاکت کے لئے پیش کرناجائز نہیں‘‘(إحیاء علوم الدین:۱؍۳۴)۔

اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عصری تعلیم فرض کفایہ ہے، لہٰذا ان کاحصول بھی فرض کفایہ ہوگا، اب ’’ترجیحات کی تعیین‘‘ کے اصول کو تعلیم پرلاگوکریں توچشم بصیرت رکھنے والاہرانسان یہی کہے گاکہ ’’فرض عین‘‘ پہلے ہے، اس کے بعد’’فرض کفایہ‘‘؛ لیکن معاشرہ پرنظرڈالیں توایک دوفیصدکوچھوڑکرتعلیمی میدان سے جڑے ہوئے لوگوں کی اکثریت کی توجہ فرض کفایہ پرمرکوز ہے، فرض عین پر نہیں؛حالاں کہ’’فرض عین‘‘ کو’’فرض کفایہ‘‘ پرمقدم ہونا چاہئے؛لیکن تعلیم کے میدان میں’’ترجیحات کی تعیین‘‘ کے اصول کوسامنے نہ رکھنے کے نتیجہ میں ہی اپنی قوم کے ایک بڑے طبقہ کودین کے تعلق سے شکوک وشبہات کاشکارپاتے ہیں اورخصوصیت کے ساتھ بچیوں کے ارتدادکاتعلق بھی اسی سے جڑاہواہے، جس کاخمیازہ ہمیں یہ بھگتناپڑرہاہے کہ ہماری بچیاں غیروں کے ساتھ کورٹ میرج کررہی ہیں، لہٰذا اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل دین کے تعلق سے شکوک وشبہات کے شکارنہ ہوں اورہماری بچیاں ارتدادکاراستہ اختیارنہ کریں توہمیں تعلیم کے میدان میں بھی اسی طرح ترجیحات کی تعیین کااصول اختیارکرناہوگا، جس طرح ہم معاشیات میں کرتے ہیں، ورنہ حالات آج سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی