سوشل میڈیاکے پیغامات کوفارورڈ کرنے کی شرعی حیثیت

سوشل میڈیاکے پیغامات کوفارورڈ کرنے کی شرعی حیثیت

سوشل میڈیاکے پیغامات کوفارورڈ کرنے کی شرعی حیثیت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سوشل میڈیاپرسماجی زندگی،دینی معلومات اورشرعی مسائل سے متعلق بہت سے پیغامات آتے رہتے ہیں، بعض پیغام بھیجنے والوں کے بارے میں معلوم ہوتاہے اوربعضوں کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس حدتک معتبر ہیں یامعتبر نہیں؟ گویافقہ کی اصطلاح میں ان کی حیثیت مستورالحال کی ہوتی ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے پیغامات کوآگے بڑھایا جاسکتاہے؟

جواب:اس طرح کے پیغامات کی دوقسمیں ہوسکتی ہیں:

(الف)ایسے پیغامات،جن میں خیرخواہی،اچھائی اوربھلائی کی بات ہو،اس کی وجہ سے نہ توکسی کونقصان پہنچ سکتا ہو اورناہی کسی قسم کے انتشار پیداہونے کا امکان ہو؛بل کہ اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ دینی یادنیاوی فائدہ ہی ہو،نیز وہ پیغامات کسی کی طرف منسوب کئے بغیرلکھے گئے ہوں،ایسے پیغامات کی ترسیل میں راقم کے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے؛کیوں کہ یہ پیغامات اس ’’کلمہ ٔ طیب‘‘ میں سے ہیں،جس کے بارے میں صدقہ کاحکم لگایاگیاہے، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: 

الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ۔(رواہ البخاری فی باب طیب الکلام عن أبی ہریرۃ تعلیقاً، صحیح ابن حبان، حدیث نمبر:۴۷۲ )

اچھی بات صدقہ ہے۔

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ مناوی لکھتے ہیں:

وقیل:الکلمۃ الطیبۃ مایدل علی ہدي،أویرد عن ردي،أویصلح بین اثنین،أویفصل بین متنازعین،أویحل مشکلا،أیکشف غامضاً،أویدفع،أویسکن غضباً۔(فیض القدیر، حدیث نمبر:۱۴۴، ۱ / ۱۳۸، ط: دارالمعرفۃ، بیروت ۱۹۷۲ء)

اورکہاگیاہے کہ کلمہ ٔطیبہ وہ ہے،جواچھائی کی رہنمائی کرتا ہے، یابرائی کودورکرتاہے، یادولوگوں کے مابین صلح کراتاہے، یادولوگوں کے تنازعات کوحل کرتاہے، یاکسی مشکل اورپیچیدہ مسئلہ کی گرہ کشائی کرتاہے،یاکسی اثرکودوراورغصہ کو پرسکون کرتاہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے:

کل معروف صدقۃ۔(صحیح البخاری، باب کل معروف صدقۃ، حدیث نمبر:۶۰۲۱)

ہربھلائی صدقہ ہے۔

اس کی شرح میں علامہ مناویؒ حرالی کاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قال الحرالی:ہومایشہد عینہ بموافقتہ وقبول موقعہ بین الأنفس، فلایلحقہا منہ تنکر، وقال فی موضع آخر:ہوماتقبلہ الأنفس ولاتجدمنہ نکیراً۔ (فیض القدیر، حدیث نمبر: ۶۳۵۱: ۵ / ۳۲،ط: دارالمعرفۃ، بیروت ۱۹۷۲ء)

حرالی کہتے ہیں:یہ وہ ہے،جس کی موافقت کی گواہی مشاہدہ دے اورلوگوں کےمابین اس کی مقبولیت کی نشاندہی اس طور پرکرے کہ اس کے ساتھ نکیرشامل نہ ہواوردوسری جگہ لکھتے ہیں:جس کولوگ قبول کریں اوراس کی نکیر نہ کی جائے۔

نیزاللہ تعالیٰ کاارشادہے:

مَن کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعاً إِلَیْْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہ۔(الفاطر:۱۰)

جوشخص عزت کا طلب گار ہے تو عزت تو سب اللہ ہی کے لئے ہے اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتے ہیں۔

اس کی توضیح کرتے ہوئے محمدبن عبدالرحمن الخمیس لکھتے ہیں:

أن الکلم الطیب من قراء ۃ وتسبیح وتحمید وتہلیل وکل کلام حسن طیب یرفع إلی اللہ ویعرض علیہ ویثنی اللہ علی صاحبہ بین الملأ الأعلی۔ (أنوارالہلالین فی التعقبات علی الجلالین، المثال الحادی عشر، ص: ۱۸-۱۹، ط: دارالصمیعی، ریاض، ۱۴۱۴ھ)

’’کلم طیب‘‘تلاوت،تسبیح،تحمید،تہلیل اورہراچھاکلام ہے،جسے اللہ تک پہنچایاجاتاہے اوراللہ ان کے انجام دینے والے کی تعریف فرشتوں کے سامنے کرتے ہیں۔

محمدسیدطنطاوی لکھتے ہیں:

والمراد بالکلمۃ الطیب: کل کلام یرضی اللہ تعالیٰ من تسبیح وتحمیدوتکبیرہ، وأمرہ بالمعروف ونہی عن المنکر، وغیرذلک من الأقوال الحسنۃ۔ (التفسیرالوسیط، ص:۳۵۰۲)

’’کلم طیب‘‘سے مرادتسبیح، تحمید، تکبیر، امربالمعروف اورنہی عن المنکرکے علاوہ تمام اچھے اقوال ہیں، جن سے اللہ خوش ہوتاہے۔

علامہ شوکانی لکھتے ہیں:

وہویتناول کل کلام یتصف بکونہ طیباً من ذکراللہ وأمربمعروف ونہی عن منکر وتلاوۃ وذلک، فلاوجہ لتخصیصہ بکلمۃ التوحید أو بالتحمید والتمجید۔ ( فتح القدیر: ۴ / ۴۲۶،ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

یہ تلاوت،اللہ کے ذکر،امربالمعروف اورنہی عن المنکروغیرہ میں سے ہراس کلام کوشامل ہے،جس کے اندرطیب ہونے کی خصوصیت ہو،لہٰذا توحید،تحمیداورتمجید کے لفظ کے ساتھ اسے خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔

ان تمام وضاحتوں سے معلوم ہوکہ ایسے پیغامات، جن میں خیرخواہی، اچھائی اوربھلائی کی بات ہو، اس کی وجہ سے نہ توکسی کونقصان پہنچ سکتا ہو اورناہی کسی قسم کے انتشار پیداہونے کا امکان ہو؛ بل کہ اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ دینی یادنیاوی فائدہ ہی ہو،نیز وہ پیغامات کسی کی طرف منسوب کئے بغیرلکھے گئے ہوں تو ایسے پیغامات کی ترسیل میں راقم کے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے۔

(ب)ایسے پیغامات، جن میں خیرکی باتیں اوراخلاقی مضامین ہوں؛ لیکن یہ کسی کی طرف منسوب ہوں، ایسے پیغامات کی تین شکلیں ہیں:

۱-یہ پیغامات قرآن اورحدیث کی طرف منسوب ہوں: اگریہ پیغامات قرآن وحدیث کی طرف منسوب ہوں توتحقیق کے بغیرترسیل درست نہیں؛ کیوں کہ آج کازمانہ اہل فسق کازمانہ ہے اوریہ امرمشاہدہے کہ اس طرح کے بہت سارے پیغامات میں نسبت غلط ہوتی ہے، اب اگربغیرتحقیق کے اس کی نشرواشاعت کی جائے گی توغلط ہونے کی صورت میں ہم بھی گناہ گارہوں گے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ۔(الأنعام:۲۱)

اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ افتراء کیا یا اُس کی آیتوں کو جھٹلایا کچھ شک نہیں کہ ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے ۔

حافظ ابن کثیراس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

أي: لاأظلم ممن تقوّل علی اللہ فادعی أن اللہ أرسلہ ولم یکن أرسلہ۔(تفسیرابن کثیر: ۶ / ۱۸)

یعنی اس سے بڑاظالم کون ہوگا، جواللہ پرجھوٹ گڑھ کرکہے کہ اس نے اسے بھیجاہے؛ حالاں کہ اس(اللہ) نے اسے نہیں بھیجا ہے۔

دوسری جگہ ارشادہے:

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً لِیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔(الأنعام:۱۴۴)

…تو اُس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو گمراہ کرے۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

ایک اورجگہ ہے:

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیَاتِہِ إِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ۔(یونس:۱۷)

 تواس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ افتراء کرے اوراُس کی آیتوں کو جھٹلائے بیشک گنہگار فلاح نہیں پائیں گے۔

ان دونوں آیتوں میں واضح ہے کہ اللہ پرجھوٹی بات کہنے سے زیادہ ظلم والی بات اورکوئی نہیں ہے اوراللہ کی طرف نسبت کرکے غلط بات بھیلانابھی اس میں شامل ہے۔

اورحدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

کفی بالمراء کذباً أن یحدث بکل ماسمع۔ (صحیح مسلم،باب النہی عن الحدیث بکل ماسمع، حدیث نمبر:۵)

آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی کہ وہ ہرسنی سنائی بات کوبیان کرے۔

اسی طرح حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

کنانحدث عن رسول اللہ ﷺ إذالم یکذب علیہ، فلما رکب الناس الصعب والذلول ترکنا الحدیث عنہ۔ (المستدرک، حدیث نمبر: ۳۸۴)

ہم رسول اللہﷺ کی حدیثیں اس وقت بیان کرتے تھے، جب ان کی طرف جھوٹ منسوب کرکے حدیث بیان نہیں کی جاتی تھی، جب لوگوں نے رطب ویابس بیان کرناشروع کردیاتو ہم حدیث بیان کرنے میں احتیاط کرنے لگے۔

پھرقرآن نے صراحتاً حکم دیاہے :

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْنَ۔(الحجرات:۶)

مومنو!اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کونادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔

مذکورہ احادیث وآیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دورِفسق میں اس طرح کے میسیج کثرت سے نشرکئے جاتے ہیں؛اس لئے تحقیق بہت ضروری ہے،بغیرتحقیق کے بات کرنا درست نہیں؛البتہ یہ حکم عوام کے لئے ہے، جنھیں قرآن، حدیث اوراقوال کے درمیان فرق کرنانہیں آتا، جہاں تک اہل علم کاتعلق ہے توچوں کہ انھیں معلوم ہوتاہے کہ واقعتایہ قرآن اورحدیث کے ہی اقتباسات ہیں؛ اس لئے ان حضرات کے شیئرکرنے میں کوئی حرج نہیں ہوناچاہئے۔

۲-یہ پیغامات کسی معروف شخص کی طرف منسوب ہوں:اس صورت میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ بغیرتحقیق کے ان کے پیغامات کوبھی فاورڈ نہ کیاجائے؛ کیوں کہ اس میں بھی دوباتوں کااحتمال ہے:

ایک یہ ہے کہ وہ پیغام واقعی منسوب شخص کاہی ہو، دوسرے یہ کہ وہ منسوب شخص کانہ ہو، اگرواقعی منسوب شخص کاپیغام ہے توکوئی بات نہیں؛ لیکن اگروہ منسوب شخص کا پیغام نہیں ہے توہم اس کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنے والے ہوں گے اوراللہ تعالیٰ نے ایسے پرلعنت بھیجی ہے، ارشاد ہے:

 …لَعْنَۃَ اللّہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔(آل عمران:۶۱)

جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہے۔

اورنبی کریم ﷺ کافرمان ہے:

إیاکم والکذب، فإن الکذب یہدی إلی الفجور، وإن الفجور یہدی إلی النار، وإن الرجل لیکذب ویتحری الکذب؛ حتی یکتب عنداللہ کذاباً۔ (ابوداود،باب فی التشدید فی الکذب، حدیث نمبر: ۴۹۸۹)

جھوٹ سے بچو، بلاشبہ جھوٹ برائیوں تک پہنچاتاہے اوربرائی دوزخ تکل پہنچادیتی ہے، اورجب کوئی شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے اورجھوٹ کی عادت ڈال لیتاہے تواللہ کے نزدیک اسے جھوٹالکھ دیاجاتاہے۔

یہاں جھوٹ اورسچ دونوں کااحتمال پیداہوگیاہے اورایسی صورت میں احتمال سے بچنے کاحکم دیاگیاہے،رسول اللہ ﷺ کاارشادہے:

دع مایریبک إلی مالایریبک۔(رواہ البخاری فی باب تفسیر المشبہات تعلیقاعن حسان بن أبی سنان، سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۵۱۸)

شک والی چیز کوچھوڑکربغیرشک والی چیز کواپناؤ۔

مذکورہ تفصیل سےمعلوم ہواکہ کسی معروف شخص کی طرف منسوب پیغامات کی ترسیل بھی بغیرتحقیق کے نہیں کرنی چاہئے؛البتہ اگرمعروف شخص کاپیغام اس کے اپنے لیٹرپیڈ پر ہویاسوشل میڈیاکے اپنے پیجیز میں ہوتواسے کے نقل کرنے میں حرج معلوم نہیں ہوتا۔

۳-یہ پیغامات غیرمعروف شخص کی طرف منسوب ہوں:  یہاں غیرمعروف شخص سے مراد کیاہے؟اس کاجانناضروری ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں دولفظ ملتے ہیں:

(الف)مجہول الحال:اس سے مراد وہ شخص ہے، جس کے بارے میں کوئی معلومات نہ ہو، مجلہ دیالی میں ہے:

مجہول الحال: ہومن روی عنہ اثنان من الرواۃ، ولم یعرف شئی من أخبارہ، ولم یتہیأ دراسۃ مرویاتہ وسبرہا لتوزن بمیزان النقد۔ (مجلۃ دیالی، العددالرابع والخمسون2012،ص:۸۸)

مجہول الحال سے مراد وہ شخص ہے، جس سے دوراوی روایت کریں اوراس کے حالات کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہو اوراس کی مرویات کادراسہ اورتحقیق بھی نہ ہوسکے کہ میزان نقد میں سے اسے جانچاجاسکے۔

جہاں تک مجہول الحال کی روایت کے قبول کرنے اورنہ کرنے کی بات ہے تواس سلسلہ میں درج ذیل آراء ہیں:

۱-مطلق قبول کیاجائے گا، امام صنعانی لکھتے ہیں:

الثانی: یقبل مطلقاً من غیرتفصیل، وإن لم تقبل روایۃ مجہول العین؛ لأن معرفۃ عینہ ہنا أغنت عن معرفۃ عدالتہ۔ (توضیح الأفکار: ۲ / ۱۹۱-۱۹۲)

دوسری رائے یہ ہے کہ بغیرکسی تفصیل کے(مجہول الحال کی روایت کو) مطلق قبول کیاجائے گا، تاہم مجہول العین کی روایت قبول نہیں کی جائے گی؛ کیوں کہ عین کی واقفیت نے عدالت کی معرفت سے بے نیاز کردیاہے۔ 

۲-مطلق قبول نہیں کیاجائے گا، یہی جمہورکامسلک ہے، ابن کثیرلکھتے ہیں:

مجہول العدالۃ ظاہراً وباطناً لاتقبل روایتہ عندالجمہور۔ (الباعث الحثیث،ص: ۹۷)

ظاہری اورباطنی طورپرجومجہول العدالت ہو، جمہورکے نزدیک اس کی روایت قبول نہیں جائے گی۔

۳-توقف کیاجائے گا، ابن حجرلکھتے ہیں:

والتحقیق أن روایۃ المستور لایطلق القول بردہا ولابقبولہا؛ بل ہی موقوفۃ إلی استبانۃ حالہ۔ (نزہۃ النظر، ص:۱۲۶)

اورتحقیقی بات یہ ہے کہ مستورکی روایت کونہ تومطلق قبول کیاجائے گا اورناہی مطلق رد کیاجائے گا؛ بل کہ راوی کے حال ظاہر ہونے تک یہ موقوف رہے گا۔

۴-اس وقت قبول کیاجائے گا، جب اس سے روایت کرنے والے دونوں راوی اسے جانتے ہوں اوروہ دونوں عادل سے روایت کرتے ہوں، ورنہ نہیں، صنعانی لکھتے ہیں:

یقبل إذاکان الراویان عنہ اللذان بہما عرفت عینہ، لایرویان إلاعن عدل، وإلا فلا۔ (توضیح الأفکار: ۲ / ۱۹۱-۱۹۲)

اس وقت قبول کیاجائے گا، جب کہ ان سے روایت کرنے والے دونوں راویوں کے ذریعہ سے اس کی ذات کی پہچان ہوجائے اوروہ دونوں عادل سے ہی روایت کریں، ورنہ قبول نہیں کیاجائے گا۔

۵-اگراس کی توثیق کسی اورکے ذریعہ سے ہوجائے تو مقبول ہے، ورنہ نہیں۔

۶-اگرعوام میں وہ معروف ہوتوقبول کیاجائے گا، ورنہ نہیں -----  ان دونوں آراء کوعلامہ سخاوی نے مجہول العین کے سیاق ذکرکیاہے۔(فتح المغیث: ۲ / ۴۷-۵۰)

(ب)مستورالحال:اس سے مرادوہ شخص ہے، جس سے نہ توبدعت کاظہورہواہو،نہ ہی فسق وفجورکا اورناہی اس کے بارے میں شک وشبہ ہو، عبدالعزیز راجحی لکھتے ہیں:

المستورالحال:ہوالذی لم تظہرمنہ بدعۃ ولافجور،وظاہرہ الخیر،ولم یظہرمنہ فسق ولاریبۃ ولایشک فیہ۔(عون القاری بالتعلیق علی شرح السنۃللبربھاری، ص: ۳۵۴)

مستورالحال وہ ہے، جس سے نہ توبدعت کاظہورہواہواورنہ ہی فجورکا،اسی طرح اس سے فسق کاظہوربھی نہ ہواہو،نہ شک کا اورنہ اس کے تعلق سے شبہ کیا جاتا ہو۔

مستورالحال کی روایت قبول کرنے اورنہ کرنے کے تعلق سے چارنقاط نظرہیں:

۱-مطلق قبول کیاجائے گا، اس کے قائلین میں محدثین کی ایک جماعت،علامہ سخاوی،فقیہ عبدالغنی بن احمدبحرانی شافعی اورسلیم رازی ہیں اوریہی بات بعض احناف کی طرف منسوب ہے، ان حضرات کی دلیل آپ ﷺ کی یہ حدیث ہے:

إنما أنابشر، وإنہ یأتینی الخصم، فلعل بعضکم أن یکون أبلغ من بعض فأحسب أنہ صدق، فأقضی لہ بذلک، فمن قضیت لہ بحق مسلم، فإنماہی قطعۃ من النار، فلیأخذہا اورٔفلیترکہا۔ (صحیح البخاری، باب إثم من خاصم فی باطل وہویعلمہ، حدیث نمبر: ۲۴۵۸)

۲-علی الاطلاق رد کیاجائے گا، یہ رائے محقق اصولیین اورجمہورمحدثین کی ہے، ان کی دلیل قرآن مجید کی آیت ہے:

وَمَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِن یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْْئاً۔(النجم:۲۸)

 حالاں کہ ان کو اس کی کچھ خبر نہیں، وہ صرف ظن پر چلتے ہیں اور ظن یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔

۳-توقف کیاجائے گا،یہ رجحان امام الحرمین جوینی اورابن حجروغیرہ کاہے۔

۴-صدراول کے مستورالحال کی روایت قبول کی جائے گی،بعد کے زمانہ کے مستورالحال کی نہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے:حکم مستورالحال والأحکام الفقہیۃ المتعلقۃ بہ ، اعداد: أحمدنوری حسین،عماد أموری، جلیل الزاہدی، ورڈ فائل)

یہ باتیں توروایت کے تعلق سے ہے، جس میں حفاظت حدیث کے پیش نظربہت سخت اصول اپنائے گئےہیں؛ لیکن فقہی اعتبارسے مستورکی دوحالتیں ہیں:

۱-بعض حالتوں میں اس کی بات مانی جاتی ہے، جیسے: معاملات میں اس کی بات قبول کی جاتی ہے۔

۲-بعض حالتوں میں اس کی بات قبول نہیں کی جاتی ہے، جیسے:دیانات میں اس کی بات نہیں مانی جاتی ہے۔

اس لحاظ سے اگردیکھاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ مستور کے وہ پیغامات، جن میں خیر کی باتیں ہوں، انتشارکااندیشہ نہ ہوتواس کے نشرکرنے میں حرج نہیں ہونی چاہئے؛ البتہ جن پیغامات میں خیرکی باتیں نہ ہوں اورجن سے انتشاروافتراق کا اندیشہ ہوتوان کی نشراشاعت سے پرہیز کرناچاہئے، ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب وعلمہ أتم وأحکم!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی