طلبہ کودی جانے سزاؤں کی شرعی حیثیت

طلبہ کودی جانے سزاؤں کی شرعی حیثیت

طلبہ کودی جانے سزاؤں کی شرعی حیثیت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

گزشتہ مضمون میں طلبہ کی لغزشوں اوران پرملنے والی سزاؤں کوبیان کیاگیا تھااورمضمون کے آخرمیں یہ بات بھی لکھ دی گئی تھی کہ ان سزاؤں کی شرعی حیثیت پران شاءاللہ اگلے مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی، یہ مضمون اسی کی تکمیل ہے، آیئے اس پرتفصیلی نظرڈالتے ہیں:

۱- مار:جہاں تک مار کاتعلق ہےتوشرعی اعتبارسے اس کی گنجائش ہے؛ البتہ اس کے لئے کچھ حدوداورقیودبیان کئے گئے ہیں، اس کی تفصیل دیکھنے کے لئے نیچے دئے گئے ہیڈنگ پر کلک کریں:

مارپیٹ؍تادیب :حدودوقیود

۲- گوش مالی:تعلیمی اداروں میں یہ سزاعام ہے؛ بل کہ اس کومعمولی سزابھی کہہ سکتے ہیں، اس کی بھی گنجائش ہے؛ تاہم گوش مالی اس طرح نہ کی جائے، جس سے طالب علم کے کان جڑسے اُکھڑجائیں، تنبیہ کے لئے گوش مالی کی اجازت مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتی ہے، حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:

بت لیلۃ عند خالتی میمونۃ بنت الحارث، فقلت لہا: إذاقام رسول اللہ ﷺ فأیقظینی، فقام رسول اللہ ﷺ، فقمت إلی جنبہ الأیسر، فأخذ بیدی، فجعلنی من شقہ الأیمن، فجعلت إذاأغفیت یأخذ بشحمۃ أذنی۔ (صحیح مسلم، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ،حدیث نمبر: ۷۶۳)

میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت حارث کے پاس رات گزاری تومیں نے ان سے کہا: جب رسول اللہ ﷺ قیام (لیل) کریں تومجھے جگادیں؛ چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تومیں آپ کے بائیں جانب کھڑاہوگیا، آپ نے میراہاتھ پکڑا اوردائیں جانب کردیا؛ چنانچہ جب مجھے اونگھ آتی توآپﷺ میرے کان کی لوپکڑتے (اوربیدارکرتے)۔

مسلم ہی دوسری روایت میں’’یفلتہا‘‘ کا لفظ بھی آیاہے، جس کے معنی ’’مروڑنے‘‘ کے آتے ہیں، یعنی جب حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اونگھتے توحضورﷺ ان کے کان مروڑتے۔

اسی طرح حضرت ابوسعدشرحبیل بیان کرتے ہیں کہ:

أنہ دخل الأسواف موضع المدینۃ، فاصطاد بھا نھسا یعنی: طیرا، فدخل علیہ زید بن ثابت، وہومعہ، قال: فعرک اُذنی، ثم قال: خلِّ سبیلہ لاام لک، أماعلمت أن رسول اللہ ﷺ حرّم صید مابین لابتیہا۔ (السنن الکبری للبیہقی، باب ماجاء فی حرم المدینۃ، حدیث نمبر: ۱۰۲۶۳) 

 وہ مدینہ منورہ کے مقام اسواف میں پہنچے تووہاں ایک پرندہ کاشکارکیا، حضرت زید بن ثابت ؓ ان کے ساتھ تھے، وہ ان کے پاس پہنچے ، (حضرت شرحبیل کہتے ہیں کہ) انھوں نے میراکان مروڑا اورکہا: اس کا راستہ چھوڑدو، تیری ماں نہ رہے، کیاتجھے معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حرۂ مدینہ کے مابین شکارکرنے سے منع فرمایاہے؟

اس اثر میں بھی بطور تنبیہ کے گوش مالی کی بات کہی گئی ہے، جس سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گوش مالی کی اجازت دیتے ہوئے فقہاء رحمہم اللہ لکھتے ہیں:

التعزیرتادیب، وہوقد یکون بالحبس، أوالصفع، أوتعریک الاُذن۔(دررالحکام: ۲ / ۷۴-۷۵، ط: میرمحمدکتب خانہ، آرام باغ، کراچی، نیز دیکھئے: المحیط البرہانی: ۴ / ۴۹۸) 

تعزیرتادیب ہے، اوروہ کبھی قید ، کبھی طمانچہ اورکبھی گوش مالی کے ذریعہ ہوتاہے۔

۳- قیام،رکوع،اٹھک بیٹھک،کرسی نما:تادیب کے طور پر قیام، رکوع، اُٹھک بیٹھک اورکرسی نماسزاؤوں کی بھی گنجائش ہے؛ کیوں کہ یہ چیزیں مارکے مقابلہ میں ہلکی ہوتی ہیں اورجب مارکی گنجائش ہے تواِن چیزوں کی گنجائش توبدرجۂ اولیٰ ہوگی؛البتہ یہ سزائیں بھی محدودوقت کے لئے ہی دی جائیں،بہت طویل وقت کے لئے ایسانہ کیاجائے، نیز ’’مرغا‘‘بنانے جیسی سزاؤوں سے احترازکیاجائے؛ کیوں کہ بقول استاذمحترم حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی’’یہ مسخ کی ایک شکل ہے، جب کہ مسخ کی سزااس امت سے اللہ تعالیٰ نے اٹھالیاہے‘‘۔

۴- بطورتادیب کے طالب علم کا حلق کرایاجاسکتاہے یانہیں؟ اس سلسلہ میں طالب علم کی غلطی کودیکھاجائے گا، اگرطالب علم کی غلطی معمولی قسم کی ہے توحلق کرانے کی گنجائش نہیں؛ چنانچہ حضرت عامرشعبیؒ فرماتے ہیں: 

حلق الرأس فی العقوبۃ بدعۃ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، باب من کرہ حلق الرأس فی العقوبۃ، حدیث نمبر: ۲۹۲۳۵) 

سزامیں سرمونڈنابدعت ہے۔

نیزحضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں:

جعل اللہ حلق الرأس سنۃ ونسکاً، فجعلتموہ نکالا وزدتموہ فی العقوبۃ۔ (مصنف عبدالرزاق، باب الشراب فی رمضان وحلق الرأس، حدیث نمبر:۱۷۰۴۸) 

اللہ تعالیٰ نے حلق رأس کوسنت اورنسک بنایا، جب کہ تم لوگوں نے سزامیں زیادتی کرکے اسے سزابنادیا۔

لیکن اگرغلطی بڑی ہوتوپھرحلق کی بھی گنجائش ہے؛ چنانچہ حضرت عمربن خطاب ؓجھوٹی گواہی دینے والے کے سلسلہ میں حکم دیتے ہوئے اپنے گورنروں کولکھتے ہیں:

یضرب أربعین سوطا، ویسخم وجہہ، ویحلق رأسہ، ویطال حبسہ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، باب من رخص فی حلقہ وجزہ، حدیث نمبر: ۲۹۲۳۷، نیز دیکھئے: السنن الکبری للبیہقی، باب مایفعل بشاہد الزور، حدیث نمبر: ۲۰۹۹۸) 

چالیس کوڑے لگائے جائیں، ا س کے چہرے پرکالک پوت دی جائے، اس کا سرمونڈ دیاجائے اوراس کے قید کوبڑھا دیاجائے۔

۵- طالب علم کی بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے ذمہ داران ادارہ اُس کانام ادارہ سے خارج کردینا بہتر سمجھتے ہیں، کیاشرعی اعتبار سے ایساکرنادرست ہوگا؟ اس سلسلہ میں ہمیں حضرت موسیٰ ؑکے علمی زندگی سے رہنمائی ملتی ہے، جس میں حضرت خضرؑ نے منع کرنے کے باوجود حضرت موسیٰ ؑ کے کئی باراستفسارکے نتیجہ میں اُنھیں واپس کردیاتھا، اس واقعہ کوقرآن مجیدمیں یوں نقل کیاگیاہے: 

قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْأَلْنِیْ عَن شَیْْء ٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْراً٭فَانطَلَقَا حَتَّی إِذَا رَکِبَا فِیْ السَّفِیْنَۃِ خَرَقَہَا قَالَ أَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ أَہْلَہَا لَقَدْ جِئْتَ شَیْْئاً إِمْراً٭قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَن تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْراً٭قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَلَا تُرْہِقْنِیْ مِنْ أَمْرِیْ عُسْراً٭فَانطَلَقَا حَتَّی إِذَا لَقِیَا غُلَاماً فَقَتَلَہُ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْساً زَکِیَّۃً بِغَیْْرِ نَفْسٍ لَّقَدْ جِئْتَ شَیْْئاً نُّکْراً٭قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکَ إِنَّکَ لَن تَسْتَطِیْعَ مَعِیْ صَبْراً٭قَالَ إِن سَأَلْتُکَ عَن شَیْْء ٍ بَعْدَہَا فَلَا تُصَاحِبْنِیْ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّیْ عُذْراً٭فَانطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَیَا أَہْلَ قَرْیَۃٍ اسْتَطْعَمَا أَہْلَہَا فَأَبَوْا أَن یُضَیِّفُوہُمَا فَوَجَدَا فِیْہَا جِدَاراً یُرِیْدُ أَنْ یَنقَضَّ فَأَقَامَہُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَیْْہِ أَجْراً٭قَالَ ہَذَا فِرَاقُ بَیْْنِیْ وَبَیْْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِع عَّلَیْْہِ صَبْراً٭(الکہف: ۷۰-۷۸)

(خضر نے) کہا کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہو تو (شرط یہ ہے) مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر تم سے نہ کروں ٭ تو دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کوپھاڑ ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کہ کیا آپ نے اس کو اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کر دیں؟ یہ تو آپ نے بڑی (عجیب) بات کی ٭ (خضر نے) کہا کیا میں نے نہیں کہا تھاکہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے؟ ٭ (موسیٰ نے) کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملے میں مجھ پر مشکل نہ ڈالئے ٭پھر دونوں چلے یہاں تک کہ (رستے میں) ایک لڑکا ملا تو (خضر نے) اسے مار ڈالا (موسیٰ نے) کہا کہ آپ نے ایک بے گناہ شخص کو (ناحق) بغیر قصاص کے مار ڈالا (یہ تو) آپ نے بُری بات کی٭ (خضر نے) کہا کیامیں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ ٭ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے٭پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا، انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی خضر نے اس کو سیدھا کر دیا موسیٰ نے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان سے (اس کا) معاوضہ لیتے (تاکہ کھانے کا کام چلتا)٭ خضر نے کہا کہ اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی (مگر) جن باتوں پر تم صبر نہ کر سکے میں تمہیں ان کا حال بتائے دیتا ہوں ۔

علامہ آلوسیؒ اس آیت کے ضمن میں’’التأویلات النجمیۃ‘‘ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

ومن آداب الشیخ أنہ لوابتلی المریدبنوع من الاعتراض، أوممایوجب الفرقۃ، یعفو عنہ مرۃ أومرتین، ویصفح، ولایفارقہ، فإن عاد إلی الثالثۃ، فلایصاحبہ؛ لأنہ قدبلغ من لدنہ عذرا، ویقول کماقال الخضر: ہذافراق بینی وبینک۔ (تفسیرروح المعانی:سورۃ الکہف:۵ / ۲۱۸) 

شیخ کے آداب میں سے یہ ہے کہ اگرمریدکوکسی قسم کا اعتراض ہویااس سے کوئی ایسی بات پیش آجائے، جس کی وجہ سے علاحدگی ضروری ہوجائے توایک دومرتبہ معاف کردے اور جدانہ کرے؛ لیکن اگرتیسری مرتبہ بھی وہی غلطی دہرائے تو (اب) اس کی مصاحبت میں نہ رہے، اسے جداکردے؛ کیوں کہ اب معذرت کاوقت ختم ہوچکاہے، اوراس سے وہی بات کہے، جوحضرت خضرؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہی کہ:یہ میرے اورتمہارے درمیان جدائے گی ہے۔

نیز ’’تغریب عام‘‘ والی حدیث سے بھی اس کی طرف اشارہ ملتاہے؛ چنانچہ علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:

وقال ابراہیم النخعی وأبوحنیفۃ وأبویوسف ومحمد وزفر: البکرإذازنی جلد مائۃ، ولاینفی؛ إلاأن یری الإمام أن ینفیہ للدعارۃ التی کانت منہ، فینفیہ إلی حیث أحب کماینفی الدعار غیرالزناۃ۔ (عمدۃ القاری، باب إذااصطلحوا علی صلح جور، فالصلح مردود، حدیث نمبر: ۶۹۶۲) 

حضرت ابراہیم نخعی، حضرت امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اورامام زفررحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ باکرہ جب زنا کرے تواسے سوکوڑے لگائے جائیں اورشہربدرنہ کیاجائے؛ الایہ کہ امام اس کے فسادکی وجہ سے شہربدرکرناضروری سمجھتاہوتو جہاں چاہے شہربدرکردے، جیساکہ دوسرے فسادی کوشہربدر کیا جاتاہے۔

۶- کبھی کبھی کسی غلطی پرطالب علم کانام خارج تونہیں کیاجاتاہے؛ البتہ موقوف کردیاجاتاہے؛ تاکہ اُسے غلطی کااحساس دلایاجاسکے اورمعافی تلافی کرکے غلطی سے باز آجائے، اس طرح کی سزاؤوں کی بھی گنجائش ہے، اس کی نظیر’’تغریب عام‘‘والی حدیث ہے، جس میں کلیۃً نکال دینے کی بات کہی گئی ہے، جب کہ یہاں کلیۃً نکالانہیں جاتا؛ بل کہ کچھ وقت کے لئے درجہ میں حاضری کی اجازت نہیں دی جاتی؛ البتہ اس طرح کی سزاؤوں میں زیادہ پریشان نہ کرناچاہئے، ورنہ تنبیہ کے دائرہ سے نکل کر انتقام اورنفس پرستی میں داخل ہوجائے گا اوریہ درست نہیں ہے۔

۷- طالب علم کی بعض غلطی پربسااوقات ’’ذہنی ٹارچر‘‘ کی سزادے دی جاتی ہے، یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ جسمانی تکلیف سے بڑھ کراذیت ناک ہوتی ہے اوربعض دفعہ اس کے نتیجہ میں طالب علم خودکشی تک کرلینے پرمجبور ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ اسلامی شریعت نے ذہنی ٹارچر کی وجہ سے بیوی کوعلاحدگی کاحق دے رکھاہے؛ چنانچہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کی جانب سے شائع کتاب’’ مجموعۂ قوانین اسلامی‘‘کی دفع اکیاسی(۸۱) میں مذکورہے:

اگرشوہرزوجہ کوبرابھلاکہے، گالی دے، جوعورت کے لئے انتہائی تحقیر اوراذیت کاباعث ہو، یاشدید زدوکوب کرے تواس کو حق تفریق حاصل ہے۔ (مجموعۂ قوانین اسلامی، ص: ۱۹۹، دفعہ نمبر: ۸۱) 

۸- رہائشی اداروں میں(بالخصوص مدارس میں) بعض دفعہ طالب علم کی کسی غلطی پر’’نان بندی‘‘ کی سزادی جاتی ہے، اسے درست نہ ہوناچاہئے ؛ کیوں کہ ایک حدیث میں ہے ، حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:

إن الرزق لاتنقصہ المعصیۃ، ولاتزیدہ الحسنۃ۔ (المعجم الصغیر للطبرانی، من اسمہ عبد الرزاق، حدیث نمبر: ۷۰۸)

 گناہ رزق میں کمی نہیں کرتا اورناہی بھلائی رزق میں اضافہ کرتی ہے(کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے علم ِقدیم میں متعین ہے)۔

اس سے معلوم ہواکہ نان بندی کی سزادرست نہیں ہونی چاہئے۔

۹- بعض دفعہ کسی غلطی پر طالب علم سے مالی جرمانہ وصول کیاجاتاہے، بالخصوص مدرسی چھٹی کے بعدتاخیرسے مدرسہ پہنچنے پر، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مالی جرمانہ درست ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں تفصیل جاننے کے لئے نیچے دئے گئے عنوان پرکلک کریں:

طلبہ کی کوتاہیوں پرمالی جرمانہ


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی