همدردی جب ہلاکت کاذریعہ بن جائے!

ہمدردی جب ہلاکت کاذریعہ بن جائے!

 

همدردی جب ہلاکت کاذریعہ بن جائے!

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ہمدردی اورزودحسی ہیں توبہت اچھی چیزیں؛ لیکن ان کااستعمال بھی بہت غوروفکرکے بعد کرناچاہئے، اگرغوروفکرکے بغیران کااستعمال کیاجائے تو بسااوقات’’آبیل مجھے مار‘‘ کی شکل میں ان کاظہورہوتا ہے، آپ سوچیں گے کہ ہمدردی بھی سوچ وچارکے بعدکریں؟ ارے ہمدردی کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا، یہ بات کسی حدتک درست تھی؛ لیکن اب ماحول بدل چکاہے، حالات بدل چکے ہیں، لوگ اتنے احسان شناس نہیں کہ آپ کی ہمدردی کی قدرکریں اورزودحسی کاساتھ دیں، آج تومعاملہ یہ ہوگیاہے کہ آپ جس کے ساتھ ہمدردی کررہے ہیں، وہی آپ کی لٹیاڈبونے کے لئے تیار؛ بل کہ پیش پیش رہنے والوں کی اگلی صف میں ملے گا، بہرحال! آج کے زمانہ میں ہمدردی اورزودحسی بہت ہی غوروفکراورتحفظات کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے اوریہی فراست ایمانی کاتقاضہ بھی ہے، آیئے اس کوسمجھنے کے لئے ایک دو واقعات کاسہارالیتے ہیں، جوحقیقی ہیں اورایک دومہینے کے اندراندرپیش آئے ہوئے ہیں۔

کرناٹک کے ایک ضلع ٹمکورمیں تبلیغ کے ایک بھائی کی اپنی دکان تھی، جس سے اس کے گھرکاخرچہ ٹھیک ٹھاک چل رہاتھا، ایک دن اس کے پاس ایک نوجوان آیااوراس نے بتایا کہ میں ایک غیرمسلم ہوں اورمسلمان ہوناچاہتاہوں، ایک مسلمان کے لئے یہ بڑے فخرکی بات ہے کہ اس کے ہاتھ میں کوئی مسلمان ہوجائے؛ کیوں کہ اسے تو’’خیرمن حمرالنعم‘‘ (سرخ اونٹوں سے بہتر)قراردیاگیاہے، ظاہرہے کہ ایسے شخص کے ساتھ ہرمسلمان ہمدردی سے پیش آئے گا اوراس کے جذبہ کی قدرکرے گا؛ بل کہ اس کے جذبے کی قدردانی میں خودیہ جذبات سے مغلوب ہوجائے گااوریہ توٹھہرا تبلیغی بھائی، اس کا دل توبلیوں اچھل پڑاہوگا، خیر! اس نے اس کوکلمہ پڑھادیااوردائرۂ ایمان میں داخل کرادیا۔

یہ نومسلم اسی کے ساتھ رہنے سہنے اوراٹھنے بیٹھنے لگا، شایداس کے ذہن میں بھی مدینہ کی’’مواخاۃ‘‘ کاخاکہ ہو، کھاناپیناسب ساتھ میں ہونے لگااوریہ سلسلہ تقریباً تین مہینے تک چلا، پھراس نومسلم نے بتایا کہ اس کی ایک بہن شیموگہ میں رہتی ہے اوروہ بھی مسلمان ہوناچاہتی ہے، لہٰذا تم ساتھ میں چلواوراسے بھی اسلام میں داخل کرلو، وہ خوش کہ چلواللہ تعالیٰ مجھ سے کام لے رہے ہیں اورواقعی خوشی کی بات بھی تھی۔

ایک دن وہ دونوں بذریعہ ٹرین شیموگہ کے لئے نکلے، کچھ اسٹیشن گزرنے کے بعدوہ نومسلم کسی کام کاکہہ کرٹرین سے اترا؛ لیکن پھروہ واپس نہیں آیا، وہاں سے وہ غائب ہوگیا، نگاہ ڈھونڈتی رہی ؛ لیکن وہ کہیں نظرنہیں آیا؛ بل کہ اس کی جگہ پولیس آئی اوراسے اٹھاکرلے گئی اوراس پرNon bailable مقدمہ دائرکردیا، اب گھروالے پریشان، بیوی پریشان، ہمدرد پریشان، محلہ والے پریشان، کیوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟ صحیح طورپرمعلوم بھی نہیں، جس پولیس اسٹیشن کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ وہ وہاں ہے، لوگ وہاں جاتے ہیں؛ لیکن ناکام ونامرادواپس آتے ہیں۔

ایک دوسراواقعہ، جس نے سوشل میڈیامیں بھی کافی ہلچل مچائی، وہ بھی اسی سے ملتاجلتاہے، ایک مولوی نماشخص نے فیس بک پرخاتون کی آئی ڈی بنائی اورخصوصیت کے ساتھ مولویوں کوفرینڈ رکویسٹ بھیجی، سبھوں نے ہاتھوں ہاتھ قبول کیا، وقتاً فوقتاً وہ بہت زبردست دینی پوسٹ اپنے وال پرڈالتا رہا، جس پرخوب دادملی، وہ خودنومسلم کی بھیس میں بھی ظاہرہوایا اپنی دوسری آئی ڈی، جوایک لڑکی ہی کے نام پرتھی، اس کوغیرمسلم بنا کرپیش کیا، ہمدردیاں بھی بٹورتا رہااورپیسے بھی اینٹھتا رہا،لوگوں نے کافی کچھ تعاون کیا، پھرایک دن وہ دائرہ ٔاسلام سے بھی باہرہوگیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں پول کھلا کہ یہ توڈھول کے اندرپول ہے اوریہ کوئی خاتون اور نومسلم نہیں؛ بل کہ ایک مولوی نمانوجوان ہے؛ لیکن تب تک چڑیاں چگ چکی تھیں کھیت۔

ان دونوں واقعات کودیکھیں، دونوں کاتعلق ہمدردی اورزودحسی سے ہے، یقینا مسلمان ہمدردہوتے ہیں اوران کواس کاحکم بھی دیاگیاہے، وہ سیدھاسادھاہوتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود اسے فراست ایمانی سے نوازاگیاہے اورفرمایاگیاہے : اتقوافراسة المؤمن(طبرانی، حدیث نمبر: ۷۴۹۷، التاریخ الکبیرللبخاری: ۷؍۳۵۴)’’مومن کی فراست سے بچو‘‘، یعنی وہ فراست کااستعمال کرتاہے، جس کی وجہ سے وہ دھوکہ نہیں کھاتا، وہ چوکنارہتا ہے، حدیث میں کہاگیاہے: لایلدغ المؤمن من جحرمرتین(صحیح الجامع للألبانی، حدیث نمبر: ۷۷۷۹)’’مومن ایک سوراخ سے دوبارنہیں ڈسا جاتا‘‘، یعنی وہ چوکنارہتا ہے اورجس جاسے ایک باروہ دھوکہ کھاچکاہو، دوبارہ اس جاسے دھوکہ نہیں کھاتا۔

یہ دومثالیں ہیں بس، ورنہ اس طرح کے کام ہوتے رہتے ہیں اورآج کل کچھ زیادہ ہورہے ہیں اورہم ہیں کہ مارے ہمدردی کے بچھے چلے جاتے ہیں، ہمدردی کرنے سے کوئی ممانعت نہیں ہے، کیجئے اورضرور کیجئے؛ لیکن کرنے سے پہلے سوچ سمجھ لیجئے، کہیں یہ ہمدردی آپ کوہلاکت میں تونہیں ڈال دے گی؟ 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی