کہیں ہماری نسل ہم سے بچھڑ نہ جائے!
محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
تخلیق انسانی کے وقت فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا:
فرشتے اس جواب کوسن کرلاجواب ہوگئے،جس میں انسان کی سب سے بڑی خصوصیت ’’علم‘‘بتائی گئی ہے، فرشتوں نے مٹی سے تخلیق کردہ انسان کی زبان سے جب چیزوں کا علم سناہوگا تو ظاہرہے کہ اس کی طرف رشک کی نگاہ سے بھی دیکھاہوگا کہ وہ ان چیزوں کے علم سے محروم تھے۔
علم کی حیثیت موجودہ زمانہ میں وہی ہے، جوجسم انسانی میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے کہ انسان اس ہڈی کے بغیرچلت پھرت سے معذورہوجاتاہے، یہی حال انسان کاعلم سے بے بہرہ رہنے میں ہے کہ وہ زندگی کی پکڈنڈیوں میں سلامت روی کے ساتھ نہیں چل سکتا، قدم قدم پر دشواریاں اژدہے کی جبڑے کی طرح منھ کھولے کھڑی نظرآتی ہیں۔
اسلام نے تعلیم سے روکانہیں ہے؛ بل کہ کسی بھی مذہب کے مقابلہ میں علم کی طرف زیادہ توجہ دی ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل آغاز وحی کی آیات ہیں، جن میں سب سے پہلاکلمہ ہی ’’اقرأ‘‘ (پڑھو)آیاہے، ارشادباری تعالیٰ ہے:
تعلیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر زبان نبوت ا سے جو فرمان جاری ہوا،وہ بھی تعلیم کے لزوم ( Necessity)کاحامل ہے،ارشادہے:
البتہ اس کے لئے بھی دائرۂ کارکی تعیین کی گئی ہے اورحدودوقیودبتلائے گئے ہیں، جن کو برتنے سے انسان حقیقی علم کے زیورسے آراستہ ہوکرملک وقوم کے لئے تعمیرکاذریعہ بنتاہے، نہ برتنے کی صورت میں ایسی گہری کھائی میں وہ گرجاتاہے، جہاں سے نکلنااس کے لئے دشوار ترین ہوجاتاہے،نیز ملک وقوم کے لئے بھی اس کی حیثیت ایک’’ حمل بعیر‘‘سے زیادہ نہیں ، اس کا مشاہدہ ہرکوئی آج اپنے سرکی آنکھوں سے کررہاہے۔
آج کل تعلیم کاجونہج ہے، وہ یقیناقابل تشویش ہے؛ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی گارجین کی توجہ اس کی طرف نہیں جاتی اورجائے بھی توکیوں؟ گوری چمڑی والے سیاروں نے دقیانوسیت اورمارڈنائزیشن کی ایسی حشیش پلادی ہے، جس کانشہ ذہن ودماغ سے اترتاہی نہیں، بچے بچیاں بگڑجائیں،بے ادب ہوجائیں،حیاکی چادر اتار پھینکیں،کھلے عام ناچیں گائیں، لڑکوں سے پینکیں بڑھائیں، گھروں سے بھاگ جائیں، زناکاری میں مبتلاہوجائیں، یہ سب مارڈنائزیشن کے نام پرگواراہے؛ لیکن وہ تہذیب دقیانوس اورآؤٹ آف ڈیٹ ہے، جوحیاکی چہاردیواری کو برقرار رکھے، عزتوں کولٹنے سے بچائے، بغیرشادی کے بچے ہونے سے بچائے اور جوادب سکھائے:
دقیانوسیت اورمارڈنائزیشن کے اس حشیش نے ان مسلمانوں کے ذہنوں کوبھی مسموم کر رکھاہے، جواپنے آپ کولبرل اورروشن خیال کہتے ہیں، وہ تعلیم یافتہ توہیں؛ لیکن ان کی تعلیم انھیں مسجدوں سے روک دیتی ہے، اسلامی لباس سے روکتی ہے، بودوباش میں اسلامی طریقہ اختیار کرنے سے روکتی ہے؛ حتیٰ کہ بعض تویہ وصیت کرنے سے بھی نہیں ہچکچائے کہ انھیں دفنانے کے بجائے جلا دیا جائے (العیاذباللہ)۔
یہ نتیجہ ہے تعلیم کے اس نہج کا، جس کوانھوں نے حاصل کیا، یہ ثمرہ ہے اس نصاب کا، جو انھیں پڑھایاگیاہے؛ کیوں کہ نصاب تعلیم ایک ایساہتھیار ہے، جس کے ذریعہ لوح دل پرحملہ کیا جاتاہے اور یہ حملہ اتناکارگرہوتاہے کہ جس پرحملہ کیاگیاہے، وہ اپنی شناخت ہی کھوبیٹھتاہے، نام تو اس کاوہی برقراررہتاہے، جواس کے گھروالوں نے اس کے لئے چناہے؛ لیکن ذہن ودماغ اور سوچ وفکرکے اعتبارسے وہ کھوکھلاہوجاتاہے، نصاب تعلیم کی اسی اثرپذیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اکبر الٰہ بادی نے اپنے ایک شعر میں کہاہے:
یہ ذہنیت ان اداروںسے تعلیم حاصل کرنے کے نتیجہ میں پیداہوتی ہے، جہاں خداکی وحدانیت کاکوئی تصورنہیں ہے؛ بل کہ جہاں سرے سے خداہی کاتصورنہیں ہے، غلطی ان اداروں کی نہیں؛ بل کہ ہماری ہے کہ ہم نے تعلیم کودوحصوں دین ودنیا میں تقسیم کردیا، جس کانتیجہ مادیت کے اس دورمیں یہ نکلاکہ لوگ دین سے منھ موڑ کر دنیا کی طرف لپکنے لگے اورآج ہم اس گگار پر جاپہنچے ہیں، جہاں ایمان بچانا بھی مشکل ہورہاہے، کاش! علم کودین اوردنیا کے خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے فرض عین(Strict Obligation) اورفرض کفایہ(General Obligation) یا علم نافع اور علم غیرنافع کے طور پر لوگوں میں پہچان کراتے تو شاید یہاں تک نوبت نہیں آتی۔
پھردوسری غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ ہم میں سے جن لوگوں نے فرض عین کی طرف توجہ کی، انھوں نے فرض کفایہ سے نگاہ بالکل پھیرلی؛ حالاں کہ ہمیں معلوم ہے کہ بسااوقات وہ بھی فرض کے قائم مقام ہوجاتاہے، جس کانتیجہ یہ ہواکہ غیروں نے اس فرض کفایہ کی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کی اورہمارے اٹھانوے فیصد اپنوں کوہم سے چھین لیا،ہم میں سے بعضوں نے ایسے ادارے قائم ضرور کئے،جہاں فرض کفایہ کی طرف توجہ دی گئی؛ لیکن چوں کہ ان میں سے اکثر انھیں اداروں کے پروردہ ہیں، جہاں دین بیزاری کی تعلیم عام ہے؛ اس لئے ان اداروں کی تعلیم بھی اسی نہج پرچل پڑی، جوتصورالٰہ ودین کا قائل نہیں کے برابرہے۔
اورآج بھی ہم اس میں کوتاہی برت رہے ہیں، پورے ملک کااگرسروے کرلیاجائے تو مشرق سے لے کرمغرب تک اورشمال سے لے کرجنوب تک ایسے اداروں کاہمالیائی جال بچھاہوا نظرآتاہے، جہاں فرض عین یاکی تعلیم دی جاتی ہے؛ لیکن ایسے اداروں کی کمی کاشدت سے احساس ہوتاہے، جہاں فرض عین کے ساتھ فرض کفایہ کی بھی تعلیم عام ہو، ضرورت ہے کہ اس کی طرف پورے ہوش وحواس اورزندہ دلی کے ساتھ توجہ دی جائے، ورنہ نئی نسل سے ہم ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔
اسے بھی پڑھیں:
ایک تبصرہ شائع کریں