نکاح مسیار کے سلسلہ میں علمائے برصغیر کی آراء

نکاح مسیار کے سلسلہ میں علمائے برصغیر کی آراء

نکاح مسیارکے سلسلہ میں علمائےبرصغیرکی آراء

علماء ہند و پاک؛ بل کہ علمائے برصغیر کی آراء ذاتی طور پر فتاوی کی شکل میں تو نظر نہیں آئیں؛ البتہ کئی دارالافتاء کے فتاوے نظرے آئے، ان فتاوں سے نکاح مسیار کے سلسلہ میں دورائیں معلوم ہوئیں:

۱- نکاح مسیارجائز ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ ایسا نہ کیاجائے؛چنانچہ دارالعلوم کراچی کے فتوی نمبر(۱۸۹) میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ لکھاگیا ہے:

الجواب حامداً و مصلیا! ہمارے علم کے مطابق Misyar نکاح کی ایک قسم ہے، جس میں نکاح ہونے کے بعد بیوی اپنے حقوق (جیسے: نفقہ، سکنی وغیرہ) شوہر کو معاف کردیتی ہے، وہ اپنے والدین کے ہاں یا کسی اور جگہ رہتی ہے اور شوہر کی رہائش کسی اور مقام پر ہوتی ہے، عام طور پر اس نکاح کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور جب کبھی میاں بیوی کو باہم ملنے کی خواہش ہوتی ہے تو وہ جمع ہوکر حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ بعض مالدار لوگ، جنھیں ملکوں میں سفر درپیش ہوتے ہیں، وہ بعض ملکوں میں Misyar نکاح کرلیتے ہیں، جب تک وہاں رہنا ہوتا ہے، منکوحہ کو اپنے پاس رکھتے ہیں، پھر واپس اپنے وطن آتے ہیں اور عورت وہیں رہ جاتی ہے۔

اگر Misyar نکاح کی حقیقت وہی ہے، جو اوپر بیان ہوئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگراس میں نکاح کے منعقد ہونے سے متعلق تمام شرعی شرائط موجود ہیں، مثلاً: باقاعدہ ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کیاجائے، کم ازکم دو گواہ بھی موجود ہوں اور لڑکا لڑکی کا کفو بھی ہو، نیز مہر بھی مقرر کیاجائے تو اس سے گو نکاح منعقد ہوجائے گا؛ لیکن ایسا کرنا خلاف سنت اور مقاصد شرعیہ کے منافی ہے اور نکاح کی شرعی ذمہ داریوں سے فرار بھی ہے، خصوصاً اس طرح پوشیدہ نکاحوں سے کئی فتنوں کا دروازہ کھل سکتا ہے؛ اس لئے اس طرح نکاح کرنا ناپسندیدہ ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب! اعجاز احمد غفراللہ لہ، دالافتاء دارالعلوم کراچی20/8/1427

(www.suffahpk.com/nikah-masyar)

اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے نکاح مسیار کے سلسلہ میں سوال کیاگیا تو اس کا جواب یہ دیاگیا:

اگر شرعی طریقہ پرکم ازکم دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہوتا ہے اور مانعِ نکاح کوئی سبب نہ ہوتا ہو، نکاح کے وقت کسی کی تحدید نہیں کی جاتی ہو، مثلاً: ۲/سال کے لئے نکاح کررہے ہیں؛ بل کہ مطلق طور پر نکاح کیا تو ایسا نکاح درست و صحیح ہے؛ البتہ مہر سے دست بردار ہونے کی بات درست نہیں ہے، دست بردار ہونے کے باوجود شوہر پر کم از کم دس درہم ہیں، جو دینا واجب ہوگا بحق شرع، ہاں اگر نکاح ہوجانے کے بعد پھر مہر کو معاف کردے، اس سے دست بردار ہوجائے تو درست ہے، اس طرح نکاح کرنے سے دونوں شرعی طور پر ایک دوسرے کے شوہر و بیوی ہوگئے، ازوداجی تعلق قائم رکھنا جائز اور درست ہے، سعودی عرب اور مصر کے علماء کے فتویٰ منسلک کرکے سوال کرنا چاہئے تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند، جواب نمبر: ۲۳۸۵


کراچی کے ایک اور دارالافتاء ’’دارالافتاء الجامعۃ البنوریۃ العالمیۃ، متصل سائٹ تھانہ، کراچی (پاکستان) کا فتوی اس طرح ہے:

نکاح مسیار اگر مدت کی تصریح کے ساتھ ہو کہ اتنی مدت، مثلاً: مہینہ، ہفتہ وغیرہ مخصوص وقت تک نکاح کیاجائے تو یہ بھی نکاح موقت یا متعہ کی ایک قسم ہے، جو شرعاً ناجائز اور حرام ہے، اگر بوقت عقد مدت کی تصریح نہ ہو؛ لیکن فریقین یا دونوں میں سے کسی ایک کے دل میں یہ نیت ہو کہ ایک وقت مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ علاحدگی اختیار کرلی جائے گی تو اس صورت میں اگرچہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق نکاح ہوجاتا ہے اور میاں بیوی کی طرح رہنا حرام نہیں ہوتا؛ لیکن اس ارادہ کے ساتھ نکاح کرنا بھی بہت (سارے) مقاصد اور مصالح نکاح کے خلاف ہونے کی وجہ سے شرعاً مکروہ ہے؛ اس لئے حتی الوسع اس سے احتراز کرنا چاہئے۔

علیم عفی عنہ، دارالافتاء جامعہ بنوریہ، سائٹ، کراچی، ۵/۸/۱۴۳۶ھ، سیریل نمبر:۲۴۲۵۰

(https://saagartimes.blogspot.com)

جیساکہ ذکر کیاگیا کہ علمائے ہند کے فتاوے میں اس تعلق سے کافی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی؛ لیکن کسی کا ذاتی فتوی نظر سے نہیں گزرا؛ البتہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے شعبۂ تخصص فی الافتاء کے سال، استاذ گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی نے تمرین فتاوی کے سوالات میں ایک سوال نکاح مسیار کے تعلق سے دیا تھا اور بندہ نے اس وقت اس کے جواز کا فتوی لکھا تھا، حضرت نے اس کی تصویب فرمائی تھی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔

۲- نکاح مسیار جائز نہیں ہے؛ چنانچہ جامعۃ العلوم الإسلامیہ، بنوری ٹاؤن، کراچی نے ’’نکاح مسیار‘‘ سے متعلق ایک استفتاء کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:

نکاح مسیار کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔ دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاؤ ن، فتوی نمبر: 144012201363

(www.banuri.edu.pk)

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی کے فتوی میں تفصیلی جواب دیتے ہوئے آخرمیں لکھاگیا ہے:

…گو اس کے کچھ فوائد بھی اپنی جگہ ہوں گے؛ لیکن چوں کہ اس کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں اور نقصانات ایسے ہیں، جو کسی بھی قوم کی خاندانی نظام کی تباہی اور نسلوں کے ختم ہونے کا سبب بن سکتے ہیں، جیساکہ آج کل یورپ اور امریکہ کے معاشرے کو ان مفاسد کا سامنا ہے؛ اس لئے اس طریقے سے نکاح کی اجازت قطعاً نہیں دی جاسکتی۔ دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی، فتوی نمبر: 62356، تاریخ اجراء: 28-02-2018

(https://darulifta.info/d/jamiaturrasheed/ftwa)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی