غیرعربی زبان میں اذان: ایک جائزہ
ممحمدجمیل اخترجلیلی ندوی
دین اسلام میں عربی زبان کی بڑی اہمیت ہے اوراسی اہمیت کے پیش نظربہت سارے امورایسے ہیں، جن میں لوگوں کی زبان مختلف ہونے کے باوجود ، ان امورکو ان کی زبان میں ادائے گی نہیں کی جاتی؛ بل کہ وہ عربی زبان ہی میں اداکئے جاتے ہیں، حتی کہ اگرلوگ عربی زبان سے واقف نہ بھی ہوں توبھی بہت سارے علمائے کرام نے ان امورکی انجام دہی کوان کی اپنی زبان میں گنجائش نہیں دی ہے، ان امورمیں سے قراء ت قرآن، خطبۂ جمعہ، افتتاح صلاۃ یعنی تکبیرتحریمہ ، ذبح حیوان، نکاح کے باب میں ایجاب وقبول اورقسم کھانا وغیرہ ہے،انہیں امورمیں سے ایک مسئلہ’’اذان‘‘کاہے،ایاغیرعربی زبان میں اسے دے سکتے ہیں یانہیں؟ یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے؛چنانچہ:
۱- شوافع کامسلک یہ ہے کہ جماعت کی نماز کے لئے غیرعربی میں اذان درست نہیں، خواہ عربی پرقدرت ہویا نہ ہو؛ البتہ اپنی نماز کے لئے اگراذان دیتاہے تواگروہ عربی پرقدرت نہ رکھتا ہوتوجائز ہے، ورنہ جائزنہیں، علامہ ماوردی فرماتے ہیں:
إن أذن بالفارسیۃ فإن کان أذانہ لصلاۃ الجماعۃ لم یجز، سواء کان یحسن العربیۃ أم لا؛ لأن غیرہ قد یحسن، وإن کان أذانہ لنفسہ، فإن کان یحسن العربیۃ لم یجزہ کأذکارالصلاۃ، وإن کان لایحسن العربیۃأجزأہ، وعلیہ أن یتعلم ۔ (الحاوی الکبیر:۲؍۵۸ )
اگرفارسی میں اذان دے اوراس کی اذان جماعت کے لئے ہوتویہ جائز نہیں، خواہ وہ اچھی طرح عربی جانتاہویانہ جانتاہو؛ کیوں کہ امکان ہے کہ وہاں کوئی عربی اچھی طرح جاننے والاموجودہو؛ لیکن اگراس کی اذان اپنے لئے ہو اوروہ عربی پرقادرہوتواذکارنماز کی طرح جائزنہیں، ہاں اگرعربی پرقادرنہ ہوتوپھرگنجائش ہے، تاہم عربی سیکھنااس کے لئے ضروری ہے۔
اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ اگرکوئی شخص عربی پرقدرت رکھتاہوتوجماعت کی نماز کے لئے غیرعربی میں اذان درست نہیں؛ لیکن اگرکوئی قدرت نہ رکھتا ہو تودرست ہے؛ چنانچہ ابن حجرہیتمی لکھتے ہیں:
ولایصح الأذان للجماعۃ بالعجمیۃ وہناک من یحسن العربیۃ، بخلاف ماإذاکان ہناک من لایحسنہا۔ (حواشی الشروانی وابن قاسم العبادی علی تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج:۲؍۱۰۳ )عربی پرقادرشخص کی موجودگی میں جماعت عجمی زبان میں اذان درست نہیں، بخلاف اس صورت کے کہ کوئی عربی جاننے والانہ ہو(تواس صورت میں درست ہے)
۲- احناف کے یہاں دو رائیں ملتی ہیں:
(الف) غیرعربی میں اذان دینے اورنہ دینے میں اسی طرح اختلاف ہے، جس طرح افتتاح صلاۃ میں اختلاف ہے، یعنی امام صاحب کے یہاں گنجائش اورصاحبین کے یہاں عدم گنجائش۔
(ب) غیرعربی میں بالاتفاق اذان درست نہیں؛ کیوں کہ اس کے ذریعہ سے اعلام نہیں ہوپاتا، تاہم اگراعلام ہوجائے توگنجائش، علامہ کاسانی لکھتے ہیں:
ولوأذن بالفارسیۃ قیل: إنہ علی ہذاالخلاف، وقیل: لایجوز بالاتفاق؛ لأنہ لایقع بہ الإعلام؛ حتی لووقع بہ الإعلام یجوز۔ (بدائع الصنائع: ۱؍۱۱۳)
اگرفارسی میں اذان دی جائے توکہاگیا ہے کہ (یہ مسئلہ) اسی (افتتاح صلا ۃکے) اختلاف پرہے، اوریہ بھی کہاگیا ہے کہ (فارسی میں) بالاتفاق جائز نہیں؛ کیوں کہ اس کے ذریعہ سے اعلام واقع نہیں ہوتا؛ یہاں تک کہ اگراس کے ذریعہ سے اعلام ہوجائے تودرست ہے۔
امام ابوحنیفہؒ سے ایک روایت یہ بھی نقل کی جاتی ہے کہ غیرعربی میں اذان اس وقت درست ہے، جب کہ لوگوں کویہ معلوم ہوکہ یہ اذان ہے، اگریہ معلوم نہ ہوتو اس کی گنجائش نہیں۔(المبسوط للسرخسی:۱؍۳۷)
فقہائے احناف میں سے کئی نے اس کی بھی صراحت کی ہے کہ غیرعربی میں اذان درست ہی نہیں، اگرچہ کہ لوگوں کواس کااذان ہونامعلوم ہو؛ چنانچہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:
(لا)یصح(إن أذن بہا علی الأصح) وإن علم أنہ أذان، ذکرہ الحدادی۔(الدرالمختار مع ردالمحتار: ۲؍۱۸۵)
اصح قول کے مطابق فارسی میں اذان درست نہیں، اگرچہ کہ معلوم ہوکہ یہ اذان ہے، حدادی نے اس کوذکرکیاہے۔
بعض فقہاء نے اسی کواظہرقراردیاہے، احمد بن محمد طحطاوی لکھتے ہیں:
ولایجزیٔ بالفارسیۃ المراد غیر العربی، وإن علم أنہ أذان فی الأظہرلورودہ بلسان عربی فی أذان الملک النازل۔(حاشیۃ الطحطاوی،ص: ۱۹۶)
اظہرقول کے مطابق فارسی یعنی غیرعربی میں (اذان)درست نہیں، اگرچہ کہ معلوم ہوکہ یہ اذان ہے؛ کیوں کہ فرشتہ کی اذان عربی میں ہے واردہوئی ہے۔
امام زیلعی نے عرف کااعتبارکیاہے، صاحب ہدایہ نے اسی کوجزم کے ساتھ بیان کیاہے اورشراح بھی اسی کے قائل ہیں (ردالمحتار: ۲؍۱۸۵) ، یہ قول امام ابوحنیفہؒ کے قول سے ہی مستفادہے کہ’’غیرعربی اذان اس وقت درست ہے، جب کہ لوگوں کویہ معلوم ہوکہ یہ اذان ہے، اگریہ معلوم نہ ہوتو اس کی گنجائش نہیں‘‘۔
۳- حنابلہ کے یہاں غیرعربی میں اذان مطلقاًدرست نہیں، منصوربن یونس بہوتی لکھتے ہیں:
(ولایشرع) الأذان (بغیرالعربیۃ) لعدم ورودہ، قال فی الإنصاف: مطلقاً علی الصحیح من المذہب۔( کشاف القناع عن متن الإقناع: ۱؍۲۷۹)
واردنہ ہونے کی وجہ سے غیرعربی میں اذان مشروع نہیں، انصاف میں ہے کہ: مذہب کے صحیح قول کے مطابق مطلقاً غیرعربی میں اذان درست نہیں۔
۴- کتب مالکیہ میں اذان کے تعلق سے عربی میں ہونے اورنہ ہونے کی صراحت نہیں مل سکی، اسی وجہ سے الموسوعۃ الفقہیۃ میں لکھاہے:
ولم یظہرللمالکیۃ نص فی ہذہ المسئلۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، لفظ:أذان:۲؍۳۶۴)
اس مسئلہ کے تعلق سے مالکیہ کی کوئی نص واضح نہیں ہے۔
البتہ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں بھی غیرعربی میں گنجائش نہیں ہے، علامہ صاوی اذان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہولغۃ مطلق إعلام بشیٔ، وشرعاً: الإعلام بدخول وقت الصلاۃ بألفاظ مشروعۃ۔ (حاشیۃ الدسوقی: ۱؍۳۱۲)
لغت میں اس کے معنی ’’کسی چیز کے مطلق اعلان‘‘ کے ہیں، شریعت کی اصطلاح میں’’مشروع الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کی اطلاع‘‘ کواذان کہتے ہیں۔
غالباً اسی لئے علامہ جزری نے مالکیہ کامسئلہ احناف وشوافع کے موافق لکھا ہے، اذان کی شرائط ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثالثہا: أن یکون باللغۃ العربیۃ؛ إلاإذا کان المؤذن أعجمیا، ویرید أن یؤذن لنفسہ أولجماعۃ أعاجم مثلہ، أماإذا کان یؤذن لجماعۃ لایعرفون لغتہ، فإن أذانہ لایصح طبعاً؛ لأنہم لایفہمون مایقول، وہذا الحکم متفق علیہ عندثلاثۃ من الأئمۃ، وخالف الحنابلۃ، فقالوا: لایصح الأذان بغیرالعربیۃ علی کل حال۔(الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:۱؍ ۲۸۴)
(اذان کے لئے)تیسری شرط یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ہو؛ الایہ کہ مؤذن عجمی ہواوراپنے لئے یااپنے جیسے عجمیوں کی جماعت کے لئے اذان دینے کاارادہ کرے(توغیرعربی میں درست ہے)؛ لیکن اگرایسی جماعت کے لئے اذان دے رہاہو، جواس کی زبان سے واقف نہ ہو توطبعی طورپراس کی اذان درست نہیں ہوگی؛ کیوں کہ وہ لوگ اس کی بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں، یہ حکم ائمہ ثلاثہ کے نزدیک متفق علیہ ہے، حنابلہ نے اس کی مخالفت کی ہے، ان کاکہناہے کہ کسی بھی حال میں غیرعربی میں اذان درست نہیں۔
مذکورہ مذاہب کاخلاصہ یہ ہے کہ:
۱- احناف کااظہراوراصح قول یہ ہے کہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں اذان درست نہیں ہے۔
۲- اگرکوئی عربی پرقدرت رکھتاہوتوعربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں اذان درست نہیں۔
۳- حنابلہ کے یہاں مطلقاً غیرعربی میں اذان درست نہیں۔
۴- مالکیہ کامسلک اس تعلق سے غیرواضح ہے، تاہم فقہ مالکی کے کتب کے مطالعہ سے جوبات مترشح ہوتی ہے، وہ یہ کہ اذان کے لئے عربی زبان ہوناضروری ہے۔
بہرحال! ائمہ اربعہ میں سے شوافع کوچھوڑکربقیہ تینوں ائمہ کے صحیح مسلک کے مطابق عربی زبان کے علاوہ میں اذان دینادرست نہیں ہے، لہٰذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ غیرعربی میں اذان کے قائل ہیں اوراس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کامفتی بہ قول گویایہی ہے، وہ راہ صواب پرنہیں ہیں؛ کیوں کہ فقہ حنفی کا اصح واظہرقول غیرعربی میں اذان کے درست نہ ہوناہے، یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عربی میں اذان تواترعملی سے ثابت ہے، غیرعربی میں اذان درست قراردینے کی صورت میں اس تواترعملی کی خلاف ورزی ہے، جودرست نہیں ہے، بقول علامہ سیدسلیمان ندویؒ : وإنکارہ مکابرۃ؛ بل جنون’’توترعملی کا انکار تکبر اورجنون ہے‘‘(تحقیق معنی السنۃ وبیان الحاجۃ إلیہا، ص:۱۸ ومابعدہا)۔
جہاں تک رہی بات دعوتی نقطۂ نظر سے غیرعربی میں اذان کی ، تویہ بھی قابل قبول نہیں ہے؛ کیوں کہ آج سے کہیں زیادہ صحابہ، تابعین اورتبع تابعین کے زمانہ میں اس کی ضرورت تھی؛ لیکن ان حضرات نے ایسانہیں کیا، نیز اس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک عام انتشارکی کیفیت پیداہوجائے گی، یہ بالکل ایسا ہی مسئلہ ہے کہ قرآن مجید کے پاروں کی ابتداایسی آیات سے ہوئی ہیں، جن کاتعلق سابقہ پاروں سے ہے، جس کی وجہ سے بعضوں نے اس کی ترتیب کوبدلنے کی کوشش کی اوراس کے نتیجہ میں انتشار پیداہوا۔
پھریہ بات بھی قابل غورہے کہ اذان کے الفاظ میں جومفاہیم ومعانی پوشیدہ ہیں، وہ دوسری زبان میں صحیح معنی کرادانہیں ہوسکتے ، ہاں بہت زیادہ یہ کیاجاسکتا ہے کہ اذان کے بعد کلمات اذان کاترجمہ دوسری زبانوں میں کردیاجائے؛ تاکہ لوگوں کواذان کے کلمات کے معانی معلوم ہوجائیں اوروہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کلمات کے ذریعہ ’’اکبربادشاہ‘‘ کویادکیاجاتاہے، ہذاماعندی واللہ اعلم بالصواب!
ایک تبصرہ شائع کریں