کوکھ (رحم)کی خریدوفروخت

کوکھ (رحم)کی خریدوفروخت

کوکھ کی خریدوفروخت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آتش بھوک کومٹانے کے لئے ہی ایک چور چوری ، ایک ڈاکو ڈکیتی، ایک راہزن رہزنی اور ایک جیب کترا جیب کتری کا کام انجام دیتاہے، اسی آگ کوبجھانے کے لئے اُس معصوم بچہ کو بھٹیوں میں جوت دیاجاتاہے، جس نے ابھی تک شعور کی منزل بھی طے نہیں کیاہے، شکم کے اِسی شعلہ کوسرد کرنے کے لئے ہی دنیا بھر کی خواتین قحبہ گری کرنے پرمجبورہیں، پیٹ کے اِسی آگ کوبجھانے کے لئے آج کل کوکھ کوبھی کرایہ پر دیاجارہاہے، سرشٹی چیریٹیبل ٹرسٹ کے مین یجنگ ڈائرکٹرگورومورتی کے مطابق ’’بیوائیں اورطلاق شدہ خواتین اس میں پیش پیش ہیں، تاہم شادی شدہ خواتین بھی اپنے شوہروں کی اجازت سے اس میدان میں قدم رکھ رہی ہیں‘‘، سچ کہاجاتاہے’’ پیٹ بڑاپاپی ہے‘‘۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس نے اس پیٹ کو بنایاہے، اس نے اس پیٹ کوبھرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی ہے،{ان الله ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین}(القرآن)؛ البتہ یہ شرط لگادی ہے کہ تم کوہاتھ پیرمارنا پڑے گا،{فاذا قُضی الصلوۃ فانتشروا فی الأرض وابتغوامن فضل الله}(القرآن) اور ہاتھ پیر مارنے نے کے لئے بھی یہ اصول بتایا ہے{کلوا ممافی الأرض حلالاًطیباً}(القرآن)، اب ظاہر ہے کہ جواس اصول کو اپنائے گا، وہ کبھی بھوکا نہیں رہ سکتا؛ لیکن جوشخص اس اصول کی خلاف ورزی کرے گا، اُسے یاتو روزی میسر ہی نہیں ہوگا یا ہوگا توضرور(اور یہ بھی ممکن ہے کہ اصول پسندوں کے مقابلہ میں دوگنا اورچارگنا ملے) لیکن نتیجہ کے اعتبارسے وہ نقصان اورخسارہ میں ہی رہے گا۔

بہ حیثیت مسلمان ہم سبھوں کواس بات پر یقین ہے کہ حرام کمائی جہنم کا ایندھن بنے گی؛ لیکن جولوگ اس بات پریقین نہیں رکھتے، اُنھیں بھی یہ معلوم ہے کہ حرام کمائی والے ہرطرح کی پریشانیوں میں گھرے رہتے ہیں، بہ ظاہر ٹیپ ٹاپ اورشان وشوکت نظرآتی ہے؛لیکن اندرسے ذرا بھی سکون نہیں ہوتا، عالی شان کوٹھیوں میں نیند کی گولی کھائے بغیرنیند نہیں آتی؛ لیکن ایک مزدور فٹ پاتھ پراخباربچھاکر چین کی نیند سوتاہے ، سچ کہا ہے:

سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھاکر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

کوکھ کی خریدوفروخت۔ شریعت کی نظر میں

شرعی طور پر کوکھ کی خریدوفروخت کی حقیقت جاننے سے پہلے اس سلسلہ میں حکومت کے رویہ پر افسوس کرنے کا جی چاہتاہے کہ جس حکومت کے دعوے اتنے بلندبانگ، اس کی رعایا کی یہ حالت؟حکومت مسلسل اپنی ترقیوں کے راگ الاپ رہی ہے،میزائل پرمیزائل کاکامیاب تجربہ ہوتاجارہاہے، سٹلائٹ خلاؤں میں بھیجاجارہاہے، سائنس اورٹکنالوجی کی ترقی کی دوڑمیں یورپ کوپیچھے چھوڑنے کی کوششیں مسلسل ہورہی ہیں؛لیکن اسی ترقی کی طرف گامزن ملک کے لوگ ننگے بھوکے، کبھی اس بھٹی میں توکبھی اس بھٹی میں کولہوکے بیل طرح جُتے ہوئے نظرآتے ہیں، فاقہ مستی کے شکارکتنے ایسے لوگ ہیں، جنھونے اپنے بیٹے اوربیٹیوں کوکوڑیوں کے دام مول کیا ہے، کیایہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے لوگوں کی خبرگیری کرے؟ اس کا جواب یقیناً نفی ہی میں ملے؛کیوں کہ جس ملک کی حالت یہ ہوکہ وہاں کاہر وزیرگھوٹالہ، رشوت اوردیگرکرپشنوں کاشکارہو، جس کو صرف اس بات کی فکرستائے کہ کس طرح ہم زیادہ سے زیادہ روپے بٹوریں، ظاہرہے کہ اس ملک کی رعایاننگی اوربھوکی کے سواکیا رہ سکتی ہے؟ اندراماں اسکیم، بِدھوا پینشن اور اس طرح کی دیگراسکیمیں وزاراء ہی کے پیٹ بھرنے کے لئے ناکافی ہوتے ہیں توظاہرہے رعایا کے پیٹ کیسے بھرسکیں گے؟اب آیئے اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظرجانتے چلیں:

دوصورتیں

اس مسئلہ کی دوصورتیں ہیں:

(۱)میاں کے مادۂ منویہ اور اس کی بیوی کے بیضۃ المنی کو کسی اجنبیہ کے رحم میں افزائش کی جائے۔

(۲)میاں کے مادۂ منویہ اوراس کی ایک بیوی کی بیضۃ المنی کو اسی کی دوسری بیوی کے رحم میں آبیدگی کی جائے۔

مسئلہ کی دونوں کی صورتیں درج ذیل وجوہات کی بنیاد پرحرام ہیں:

(۱)اختلاطِ نسب:اسلام نے نسب کی حفاظت کوبڑی اہمیت دی ہے، حتیٰ کہ متبنیٰ(لے پالک) بیٹے کے سلسلہ میں خود آن حضرت ﷺ اورصحابہ کویہ حکم دیاگیا،جب کہ حضرت زید بن حارثہؓ کو صحابہ نے زید بن محمد کہناشروع کردیاتھا:{أدعوھم لآبائھم ھو أقسط عندالله}(القرآن)، یہاں بھی یہی مسئلہ درپیش ہوتاہے؛کیوں کہ مادۂ منویہ اوربیضۃ المنی جب اجنبیہ کے رحم میں پرورش پائے گاتوظاہرہے کہ حمل کی مشقتوں کو توبرداشت کرنے والی کوئی اور ہوگی اور پیدا ہونے والا بچہ کسی اورکی طرف منسوب ہوگا۔

دوسری صورت میں جب کہ مادۂ منویہ اوربیوی کا بیضۃ المنی اسی مرد کی دوسری بیوی کے رحم میں رکھاجائے،ماں کی طرف سے نسب مختلط ہوگا؛ کیوں کہ قیاس کا تقاضہ تویہ ہے کہ بچہ کی ماں وہ ہو ، جس کابیضۃ المنی ہے کہ یہی حمل قرار پانے کی بنیادی وجہ ہے؛ لیکن دوسری طرف قرآن کہتا ہے{ان امھاتھم الاللائی ولدنھم}(القرآن)بچہ کی مائیں وہی ہیں، جنھوں نے ان کو جنا ہے، پھر یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ بچہ اسی بیضۃ المنی کے اختلاط کی وجہ سے ہواہے ، جو اس کی دوسری بیوی کے رحم سے لیاگیاہے۔

(۲)زناسے مشابہت:اصل زنا تو یہ ہے کہ ایک اجنبی مرد کا ایک اجنبی عورت کے ساتھ جسمانی تعلق قائم ہوجائے، یہاں صورۃًتویہ چیز نہیں پائی جاتی؛ لیکن نتیجہ کے اعتبار سے زنا کے مشابہ شکل ضرور پائی جاتی ہے؛ کیوں کہ زنا کے ذریعہ ایک اجنبی مرد کا مادۂ منویہ ایک اجنبی عورت کے رحم میں جاتاہے، یہاں بھی اجنبی مردکا مادۂ منویہ اجنبیہ کے رحم میں جاناپایاجاتاہے، لہٰذا شکلاً یہ زناسے مشابہ ہوا اور قرآن ہمیں اس سے دور رہنے کا حکم دیتاہے{لاتقربوا الزنا}(القرآن)۔

(۳)بچہ اور والدہ کے درمیان تفریق:کوکھ کی کراداری سے بچہ اور اس کی ماں کے درمیان تفریق کی شکل پائی جاتی ہے، اور شریعتِ اسلامی نے اسے نادرست قرار دیاہے؛ چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے:لایفرق بین والدۃ وولدھا( سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر:۱۸۸۲۰)۔

(۴)محرم ونامحرم کا مسئلہ:رحم کی بیع وشراء سے ایک محرم ونامحرم کا مسئلہ بھی سامنے آجاتاہے؛ کیوں کہ اگر اجنبی مرد کامادۂ منویہ کی اجنبیہ کے رحم میں آبیدگی کی جائے تو اس اجنبی مرد کی بیوی کے حق میں یہ بچہ نامحرم ہوگا،پھر بچہ جب بڑاہوجائے گاتو اجنبی مرد کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا اور شریعتِ اسلامی نے ایسے اختلاط کو حرام قرار دیاہے۔

(۵)وراثت کا مسئلہ:اگر مرد کا مادۂ منویہ اسی کی دوسری بیوی کے رحم میں رکھاجائے تواس بچہ کا نسب تواس مرد سے ثابت ہوگا؛کیوں کہ حدیث پاک میں ہے:الولدللفراش وللعاھر الحجر(الحدیث)اور جب نسب ثابت ہوگا تو اس مرد کا وہ بچہ وارث بھی ہوگا؛ لیکن اگر کسی اجنبیہ کے رحم میں رکھاجائے تویہ زنا سے مشابہت ہونے کی وجہ سے وہ بچہ وراثت سے محروم رہے گاکہ زناسے پیدا ہونے والے بچہ کا نسب زانی سے ثابت نہیں ہوتا اورجب نسب ثابت نہیں ہواتو پھر وراثت کیسی؟

(۶)مامتا کاخون:جوعورت کسی بچہ کو اپنے پیٹ میں چھ سے نوماہ یااس سے زیادہ رکھے، حمل کی مشقتوں کو برداشت کرے، اس عورت کی حیثیت محض ایک کریہ دار کی ہوکر رہ جائے گی، اور اس کرایہ داری کی وجہ سے خود اس کی اپنی اولاد کے ساتھ محبت میں کمی آجائے گی اور یہ ان بچوں کے حق میں ظلم ہوگا اور ظلم ایک امرِحرام ہے۔

(۷)عورت ذات کے ساتھ کھلواڑ:عورت کی ذات متاعِ حیات ہے، متاعِ شراء نہیں، مغرب نے آزادیِ نسواں کاپُرفریب نعرہ لگاکر ناقص العقل عورتوں کاخوب خوب استحصال کیا، ہرگھٹیا کام پرلگاکریہ پٹی پڑھانے کی کوشش کی کہ یہی ہے حقیقی آزادی اور اس طرح ان کوننگاکرکے دنیا کے سامنے لاکھڑاکیا، رحم کی اس خریداری میں اسی عورت ذات کے ساتھ کھلواڑ ہے؛ کیوں کہ اس طرح اس سے ماں کی مامتااوربیٹے کاپیار چھین لینا چاہتاہے۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے مفاسد ہیں، جن سے خود معاشرہ کے اندروسیع پیمانے پرفساد برپاہونے کاخدشہ ہے،اورجب معاشرہ بگڑے گا توظاہرہے کہ ہم بھی اس کی لپیٹ میں ضرورآئیں گے، اس لئے ہرسلیم الفطرت شخص پرلازم ہے کہ معاشرہ کوبگاڑ سے بچانے کے لئے اس سلسلہ میں اپنی آواز بلندکرے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی