آخری پیغمبرﷺ (قسط:۸آخری قسط)

آخری پیغمبرﷺ (قسط:۸آخری قسط)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۸آخری قسط)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

اوطاس وطائف کی جنگ

ہوازن وثقیف کے جوجنگجوبھاگے تھے، وہ طائف اور اوطاس کے قلعوں میں جمع ہو کر دوبارہ حملہ کاارادہ کررہے تھے، جب رسول اللہﷺکواس کی اطلاع ملی توکفرکے زورکومکمل طورپرختم کرنے کے لئے حضرت ابوعامراشعریؓ کواوطاس کی طرف روانہ فرمایا،جب کہ خودطائف کے لئے کوچ فرمایا، اوطاس جلدہی حاصل ہوگیا؛ لیکن طائف کے قلعے چوں کہ مستحکم تھے؛ اس لئے قلعہ شکن آلات اورمنجنیق کااستعمال کیاگیا، یہ محاصرہ تقریباً بیس دن رہا، پھرآپﷺنے مقصد حاصل ہوجانے کی وجہ سے اسے اُٹھالیا،اس موقع سے بعض نے اُن کے حق بدعاکی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ انے یہ دعادی: اللہم اهدثقیفا، وائت لهم (اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے اوران کے ساتھ نرمی کامعاملہ فرما)۔

مال غنیمت کی تقسیم

یہاں سے آپﷺجعرانہ تشریف لائے اورمال غنیمت کے حصے کرکے اسے تقسیم کیا، چوں کہ اس غزوہ میں مکہ کے ان نومسلموں کی تعداد زیادہ تھی، جن کاایمان اُس طرح پختہ نہیں ہوا تھا، جس طرح انصاراورمہاجرین کا پختہ تھا؛ اِس لئے آپﷺنے تالیفِ قلب کے لئے تقسیمِ غنیمت میں اُن کاخاص خیال رکھا، یہ دیکھ کرکچھ نوجوان انصارناراض ہوئے اورکہنے لگے کہ:لقد لقی والله رسول الله ﷺ قومه(بخداحضورا اپنی قوم سے مل گئے)، آپﷺنے جب یہ بات سنی تودلی تکلیف ہوئی اورلوگوں کوایک جگہ جمع ہونے کاحکم فرمایا، جب سارے انصارجمع ہوگئے توآپﷺنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! تم (میرے بارے میں)کہہ سکتے ہوکہ آپ ہمارے پاس اِس حال میں آئے تھے کہ تمام لوگوں نے آپ کوجھٹلایاتھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی، آپ بے یارو مددگارآئے تھے، ہم نے آپ کی مددکی، آپ اِس حال میں آئے تھے کہ کوئی جائے پناہ نہ تھی، ہم نے آپ کو ٹھکانہ دیا، آپ محتاج آئے تھے، ہم نے اُس محتاجی کودورکیا، اے انصارکی جماعت! دنیاکی معمولی چیزکے سلسلہ میں مجھ سے ناراض ہو، جومیں نے نئے اسلام لانے والوں کواُن کی دل جوئی کے لئے دیا، کیاتم اس بات سے خوش نہیں ہوکہ لوگ تواونٹ بکریاں لے کرجائیں اورتم رسول اللہ کوساتھ لے کرجاؤ؟ اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں محمدکی جان ہے، اگرہجرت نہ بھی ہوتی تو میں انصارہی کاایک فردہوتا، لوگ الگ راستہ میں چلیں اورانصارالگ راستہ میں، توانصارکے راستہ میں چلوں گا‘‘، حضورﷺ کی اس تقریرکوسنناتھا کہ سب رونے لگے؛ یہاں تک کہ داڑھیاں تر ہوگئیں، پھرسب نے بیک زبان کہا: تقسیم میں حضورﷺ کوپاکرہم خوش ہیں(جامع الأصول فی أحادیث الرسول، غزوۃ حنین، حدیث نمبر: ۶۱۵۹، السیرۃ الحلبیۃ، غزوۂ حنین: ۳ / ۹۲)۔

ہوازن وثقیف کی عورتوں کی رہائی

ابھی آپﷺجعرانہ ہی میں قیام پذیرتھے کہ ہوازن وثقیف کے ایک وفدنے آداب کورنش بجالانے کی اجازت چاہی، پھروفدکے سردار نے درخواست کرتے ہوئے کہا: ہم آپ کے رشتہ دارہیں، ہم پراحسان کیجئے، جن عورتوں کوآپ نے گرفتارکیاہے، ان میں آپ کی پھوپھیاں اورخالائیں ہیں، اگرنعمان بن منذراورحارث بن شمربھی ہم پرغالب آجاتے توہم ان سے حسن سلوک کی امیدکر تے، اورآپ توسب سے بہتر کفالت کرنے والے ہیں، آپﷺنے جواب میں فرمایا: بال بچوں اورمال ودولت میں سے جوپسندیدہ ہو، اسے چن لو، ان لوگوں نے جواب دیا: ہمارے بال بچوں کولوٹادیجئے، ہمارے نزدیک یہی محبوب ہیں، آپﷺنے فرمایا: میں اپنا اورعبدالمطلب کے خاندان کاحصہ تودیتاہوں؛ لیکن عام مسلمانوں کے حصہ کامیں مالک نہیں؛ اِس لئے نمازظہرکے بعدتم تمام لوگوں کے سامنے فریادکرنا، وفدکے لوگوں نے ایساہی کیا، آپﷺنے وہاں بھی وہی جواب دیا، جوپہلے دے چکے تھے، آپﷺکے منشاکوسمجھتے ہوئے تمام انصار ومہاجرین نے بھی اپنے اپنے حصے دے دیئے۔(الروض الأنف، من احکام السبایا: ۴ / ۲۶۲)۔

غزوۂ تبوک

مسلمانوں کے فتح وغلبہ سے نصارائے عرب(جوغسانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور رومی بادشاہت کے تابع تھے) میں کھلبلی مچی ہوئی تھی؛ چنانچہ انھوں نے رومیوں کی مدد سے مدینہ پرچڑھائی کی تیاری شروع کی، جب آپﷺکواس کی اطلاع ہوئی توآپﷺنے فوری تیاری اور’’تبوک‘‘ کی (تقریباً:۱۔۶۲۳کیلومیٹر) طرف کوچ کاحکم فرمایا، یہ حکم ایسے وقت میں تھا، جب موسم شدیدگرم تھا، قحط سالی، فقروفاقہ اوربے سروسامانی کاعالم تھا؛ لیکن مؤمنین مخلصین نے آپ ﷺکے اس حکم پرلبیک کہا، حضرت ابوبکرؓ نے اس سفرکے لئے اپناکل مال(تقریباً چارہزاردرہم یعنی:۲۴۴۔۲۱کیلوگرام چاندی) حاضر خدمت کردیا، حضرت عمرؓ نے نصف مال، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ دوسواوقیہ (تقریباً ساڑھے انتیس کیلو)چاندی، حضرت عاصم بن عدیؓ نے ستروسق (تقریباً ۱۳۲کوئنٹل اور۱۶کیلوگرام)کھجور اورحضرت عثمان غنیؓ نے سازوسامان کے ساتھ تین اونٹ اورایک ہزاردینار(تقریباً ۴کیلو ۳۷۴گرام سونا) بارگارہِ اقدس میں پیش کیا، اس کے باوجود بھی سواری اورزادراہ کاپوراسامان نہ ہوسکا۔

آپﷺنے محمدبن مسلمہ انصاریؓ کومدینہ کاوالی اورحضرت علیؓ کواہل وعیال کی حفاظت پرمامورفرمایا، پھرتیس ہزارفوج کے ساتھ تبوک کے لئے روانہ ہوئے، تبوک پہنچنے سے ایک دن پہلے آپﷺنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کل چاشت کے وقت تم تبوک کے چشمہ پرپہنچوگے، کوئی شخص اس چشمہ سے پانی نہ لے، جب اس چشمہ پرپہنچے توپانی کے بجائے قطرہ ٹپک رہاتھا، بمشکل تمام تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیاگیا، آپﷺنے اس سے اپنا ہاتھ اورمنھ دھویا، پھراسی چشمہ میں ڈال دیا، اس پانی کاڈالنا تھا کہ رسنے والاقطرہ فوارہ بن گیا اورتمام لشکرسیراب ہوا، تبوک میں آپﷺنے بیس روزقیام فرمایا؛ لیکن کوئی مقابلہ نہیں ہوا؛ البتہ دشمن اس سے مرعوب ہوئے اورآس پاس کے قبائل نے اطاعت قبول کرلی، اہل جرباء اوراذرح وایلہ کے حاکموں نے بارگاہ نبوی میں حاضرہوکرصلح کی درخواست کی اورجزیہ دینے پرراضی ہوئے، آپﷺنے انھیںصلح نامہ لکھ عطا فرمایا۔

یہیں سے آپﷺحضرت خالدبن ولیدؓکوایک دستہ (چارسوبیس سواروں کا)دیکردومۃ الجندل کے گورنراکیدرکی طرف بھیجا، حضرت خالدبن ولیدؓ نے اکیدرکوشکارکھیلتے ہوئے گرفتار کیا اورآپﷺکی خدمت میں پیش کیا، اس نے دوہزاراونٹ، آٹھ سوگھوڑے، چارسوزرہیں اور چار سو نیزے دے کرصلح کرلی، تبوک کایہ واقعہ رجب نوہجری میں پیش آیا۔

حج کی ادائے گی

ذی قعدہ ۹ہجری میں آں حضرتﷺنے حضرت ابوبکرؓ کی امارت میں لوگوں کوحج کے لئے مکہ مکرمہ روانہ فرمایا، پھربراء ت کے اعلان کے لئے حضرت علیؓ کوپیچھے سے روانہ فرمایا، حضرت علیؓ نے قربانی کے دن(یوم النحر) منی میں سورۂ براء ت کی آیتیں لوگوں کوسنائیں، جن میں صاف طورپریہ اعلان تھا کہ : جنت میں کوئی کافرداخل نہ ہوسکے گا،آئندہ نہ کوئی مشرک حج کرسکے گااورناہی بیت اللہ کاطواف بے لباس ہوکرکرسکے گا، نیز رسول اللہﷺکے ساتھ جس کاجوعہد ہے، وہ مدت تک پوراکیاجائے گااورجس سے کوئی معاہدہ نہیں، اسے چار مہینے تک کی مہلت ہے، اس مدت میں یاتواسلام قبول کرلیں یاجزیہ دے کررہیں۔

حجۃ الوداع

سن دس ہجری میں آپﷺنے خودحج کاارادہ فرمایا، اس کے لئے لوگوں میں اعلان کردیا گیا کہ اس سال رسول اللہ ﷺ حج کے لئے تشریف لے جارہے ہیں، ذی قعدہ کی ۲۵تاریخ کومدینہ سے روانہ ہوئے، اس وقت آپﷺکے ہم راہ تقریباً ایک لاکھ چودہ ہزارکامجمع تھا، ۴ ذی الحجہ کوآپﷺ مکہ میں داخل ہوئے، مناسک حج ادافرمانے کے بعدمیدان عرفات میں ایک طویل خطبہ دیا، جس میں حمدوثناء کے بعدفرمایا:’’اے لوگو! میری بات غورسے سنو، غالباًآئندہ سال تم سے ملاقات نہ ہو، اے لوگو! تمہاری جانیں اورآبرواوراموال آپس میں ایک دوسرے پراس طرح حرام ہیں، جیساآج کایہ دن، یہ مہینہ اوریہ شہرحرام ہے، جاہلیت کے تمام امورمیرے پیروں تلے (پامال)ہیں اورجاہلیت کے تمام خون معاف ہیں، سب سے پہلے میں ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کاخون (جوبنوہذیل پرہے) معاف کرتا ہوں، جاہلیت کے تمام سودساقط ہیں اورتمہارے لئے صرف اصل پونجی (رأس المال)ہے، میں سے سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کاسودباطل کرتاہوں، پھرزوجین کے باہمی حقوق بیان کرنے کے بعدفرمایا: میں تمہارے درمیان ایسی محکم چیز(کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ) چھوڑکرجارہاہوں، جس کو اگر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہے توکبھی گمراہ نہ ہوگے، قیامت کے دن میرے بارے میں تم سے سوال ہوگا توتم کیاجواب دوگے؟ صحابہ نے عرض کیا: ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کاپیغام اور اللہ کی امانت ہم تک پہنچادی اورامت کی خیرخواہی کی، اللہ کے رسول ﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اورتین مرتبہ ارشاد فرمایا: اللهم اشهد(اے اللہ توگواہ رہ)۔

۱۰ ذی الحجہ کوآں حضرتﷺنے منی میں اپنے دست مبارک سے تریسٹھ(۶۳) اونٹ نحرفرمائے اورتینتیس(۳۳) حضرت علیؓ نے آپﷺکی طرف سے ذبح فرمائے، پھرتمام مناسک حج سے فارغ ہوکرمدینہ روانہ ہوئے اوراخیرذی الحجہ میں مدینہ پہنچے۔

سفرآخرت 

حجۃ الوداع سے واپسی کے بعدآں حضرتﷺنے سفرآخرت کی تیاری شروع کردی اور تسبیح وتحمیداورتوبہ واستغفارمیں مشغول ہوگئے، ماہ صفرکے اخیرعشرہ میں ایک رات اہل بقیع کے استغفار کے لئے جنت البقیع تشریف لے گئے، واپسی کے بعداچانک سردرداوربخارکی شکایت پیداہوگئی، جب مرض میں شدت ہوئی توازواج مطہرات سے اجازت لے کرحجرۂ عائشہؓ میں منتقل ہوگئے، جب تک طاقت رہی،خود نمازپڑھاتے رہے، وفات سے چاردن پہلے جمعرات کو ظہرکی نمازکے بعدایک طویل خطبہ دیا، جوآپﷺکاآخری خطبہ تھا، اسی دن مغرب کی نماز آپﷺنے آخری نمازکے طورپر پڑھائی، اس کے بعدمرض کی شدت کی وجہ سے مسجدتشریف نہ لے جاسکے اورحضرت ابوبکرؓ کواپنی جگہ امامت کرنے حکم فرمایا، سنیچریااتوارکومرض میں کچھ افاقہ ہواتوحضرت عباسؓ اورحضرت علی ؓکے سہارے مسجد تشریف لائے، اس وقت حضرت ابوبکرؓ ظہرکی نمازپڑھارہے تھے، آپﷺ حضرت ابوبکرؓکی بائیں جانب بیٹھ گئے اوربقیہ نماز کی امامت آپﷺنے فرمائی، حضرت ابوبکرؓ بھی آپﷺکے مکبر مقتدی بن گئے؛ چنانچہ لوگوں نے انہی کی تکبیرپرنمازاداکی، پیرکی صبح آپﷺنے حجرہ کاپردہ اٹھایاتولوگوں کوصبح کی نماز میں مشغول دیکھ کرمسکرائے، حضرت ابوبکرؓ نے پیچھے ہٹنے کاارادہ کیاتوآں حضرتﷺنے اشارہ سے منع فرمادیا، کمزوری کی وجہ سے زیادہ دیرکھڑے نہ رہ سکے اورپردہ گراکرحجرہ تشریف لے آئے۔

نمازسے فراغت کے بعدحضرت ابوبکرؓ آپﷺکے حجرہ میں تشریف لائے توپرسکون دیکھ کراطمینان کااظہارکیا، جب حضرت علیؓ حجرہ سے باہرآئے تولوگوں نے آپﷺکی خیریت دریافت کی، اطمینان بخش جواب پاکرلوگ منتشرہوگئے، کچھ دیرگزری تھی کہ وقت نزع شروع ہوا، حضرت عائشہؓ کی گودمیں سررکھ کرلیٹ گئے، اتنے میں حضرت عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر ہاتھ میں مسواک لئے داخل ہوئے، آپﷺان کی طرف دیکھنے لگے، حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ کیاآپ کے لئے مسواک لے لوں؟ آپﷺنے اشارہ سے ہاں فرمایا، حضرت عائشہؓ نے مسواک لیااوراسے چباکرنرم کرکے آں حضرتﷺکودیا۔

آپﷺکے قریب میں پانی کاایک پیالہ رکھاہواتھا، تکلیف سے بے تاب ہوکراس میں ہاتھ ڈالتے اورمنھ پرپھیرلیتے اورکہتے جاتے:لااله الاالله، إن للموت سکرات(اللہ کے سواکوئی معبود نہیں، بے شک موت کی بڑی سختیاں ہیں)، پھرچھت کی طرف نگاہ اٹھائی اورہاتھ اٹھاکرفرمایا:اللهم فی الرفیق الأعلی (اے اللہ! میں رفیق اعلی میں جاناچاہتاہوں)، زبان مبارک سے ان کلمات کے اداہوتے ہی روح مبارک عالم بالاکوپرواز کرگئی اوردست مبارک نیچے گرگیا، یہ روح فرساواقعہ پیرکے دن دوپہر۱۲ربیع الاول کوپیش آیا، فصلی الله علی النبی الکریم وآله الطیبین الطاهرین۔

وفات کاکہرام

نبی کریمﷺکی وفات پرمدینہ میں گہرام مچ گیا، لوگوں کواس کایقین ہی نہیں ہورہاتھا؛ حتی کہ حضرت عمرؓ تلوارلے کرنکل پڑے کہ جوبھی یہ کہے گا کہ بنی کریمﷺکی وفات ہوگئی ہے، اس کی گردن دھڑسے الگ کردیں گے، حضرت ابوبکرؓ کوجب یہ خبرپہنچی توآپؓ لپک کرآئے، حجرۂ عائشہؓ میں داخل ہوئے، آپﷺپرایک چادرڈھکی ہوئی تھی، ہٹاکردیکھا اورجبینِ ناز کوبوسہ دیا، پھرفرمایا: تیری زندگی بھی اچھی تھی اورتیری موت بھی اچھی ہے، پھرحجرہ سے باہرآئے اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! جوشخص محمد(ﷺ) کی عبادت کرتاتھا(وہ سن لے کہ) محمد (ﷺ) کی وفات پاچکے ہیں اورجوشخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتاتھا(تووہ سن لے کہ) اللہ تعالیٰ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، پھرسورۂ آل عمران کی یہ آیت تلاوت کی: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِه الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَیَ عَقِبَیْْه فَلَن یَضُرَّ اللّه شَیْْئاً وَسَیَجْزِیْ اللّه الشَّاکِرِیْنَ۔(آل عمران:۱۴۴)’’ اور محمد (ﷺ) تو صرف (اللہ کے) پیغمبر ہیں اُن سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ (یعنی مرتد ہو جاؤ) گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے گا اور اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا ‘‘ ، آیت سن کرلوگ ایسے ہوش میں آئے، جیسے آج ہی اس کانزول ہواہو، اب لوگوں کویقین ہوگیا کہ سرچشمۂ وحی،منبع خیروبرکت ، جگرگوشۂ آمنہ، خلاصۂ کائنات، فخرموجودات، محبوبِ خدا، امام الانبیاء، خاتم النبیین، رحمۃٌ للعالمین حضرت محمدمصطفیﷺاس دارفانی سے کوچ کرکے دارجاودانی کی طرف رخصت ہوچکے ہیں۔

جانشینی اورتدفین

اب تمام انصارومہاجرین سقیفہ بنوساعدہ میں جمع ہوئے اورآپسی مشورہ سے متفقہ طور پر حضرت ابوبکرصدیقؓ کو آں حضرتﷺکاجانشین مقرر کیا اور تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھوں پربیعت کی، اس کے بعدآپﷺکی تجہیزو تکفین کی تیاری شروع ہوئی، غسل کی ذمہ داری حضرت علی، حضرت عباس، فضل بن عباس، قثم بن عباس، اسامہ بن زید اور شقران رضی اللہ عنہم کے سپردہوئی، غسل کے بعدتین کپڑوں میں کفانایاگیا،  پھر بغیر جماعت کے فرداً نمازجنازہ اداکی گئی، پہلے مردوں نے پڑھی، پھرعورتوں نے، پھربچوں نے پڑھی اورمنگل کی درمیانی شب میں حجرۂ عائشہؓ ہی میں آپﷺکو دفن کیاگیا،فصلی الله علیه بعددمن صلی وصام، واجعله فرطنافی الآخرۃ، واحفظنامن خزی الدنیاوالآخرۃ، واجعل لناهذاالمکتوب وسیلة إلیٰ دخول الجنة۔ 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی