آخری پیغمبرﷺ (قسط:۷)(فتح مکہ تاہوازن وثقیف کے ساتھ معرکہ)

آخری پیغمبرﷺ (قسط:۷)(فتح مکہ تاہوازن وثقیف کے ساتھ معرکہ)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۷)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

فتح مکہ

سن آٹھ ہجری کاواقعہ ہے، بنوبکر نے قریش کے ساتھ مل کربنوخزاعہ پرچشمۂ’’وتیر‘‘ میں شب خوں مارا، جس میں بنو خزاعہ کے بہت سارے افراد خوابِ غفلت ہی میں ماردئے گئے، جو بیدار ہوسکے، اُنھوں نے بھاگ کرحرم میں پناہ لی؛ لیکن آج اُنھیں یہاں بھی پناہ نہ مل سکی۔معاہدۂ حدیبیہ (جس میں قبائلِ عرب کویہ اختیاردیاگیاتھاکہ جوقبیلہ آپﷺکا حلیف بنناچاہے، وہ آپ کا اورجوقریش کا حلیف بنناچاہے، وہ قریش کا حلیف بن سکتاہے) کے بعدیہ قبیلہ آپﷺکاحلیف بن چکاتھا؛ چنانچہ قبیلہ کے پِٹْ جانے کے بعد عمروبن سالم خزاعی بنوخزاعہ کا ایک وفدلے کردربارِنبوت میں حاضرباش دُہائی دیتے ہوئے عرض کُناں ہوئے:

یاربِّ إنی ناشد محمدا

حلف أبیناوأبیہ الأتلدا

(ائے پروردگار! میں محمدکواپنے باپ اوران کے باپ (عبدالمطلب)کاقدیم عہد یاد دلانے آیاہوں)

إن قریشاً أخلفوک الموعدا

ونقضوا میثاقک المؤکدا

(بلاشبہ قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اورپختہ عہدو پیمان کوتوڑڈالاہے)

ہم بیتونابالوتیرہجدا

وقتلونارکعاوسجدا

(اُنھوں نے چشمۂ وتیرپرسوتے ہوئے ہم پرشب خوں ماراہے اور رکوع وسجودکی حالت میں ہمیں قتل کیاہے)

فانصررسول اللہ نصراعتدا

وادعواعباداللہ یأتومددا

(ائے اللہ کے رسول! ہماری مستحکم مددکیجئے اوراللہ کے بندوں(قبائل)کوبلایئے، وہ کمک لے کرآئیں گے)

اس لرزہ خیز دُہائی کوسن کرآپﷺنے فرمایا:’’ائے عمروبن سالم! تمہاری مددکی جائے گی‘‘(سنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر:۱۹۳۳۱)۔پھرآپﷺنے عمروبن سالم سے دریافت فرمایاکہ کیاکل بنوبکراس شبینہ یورش میں شریک تھے؟ عمرو بن سالم نے جواب دیا:نہیں!بل کہ بنونفاثہ اوراس کاسردارنوفل اس میں شریک تھے۔آپﷺنے ان سے مددکا وعدہ کرکے اُنھیں رخصت کردیا۔

ا س وفد کی واپسی کے بعد آپﷺنے قریشِ مکہ کے پاس ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ روانہ فرمایاکہ وہ تین باتوں میں سے کسی ایک کواختیارکرلیں:

(۱) بنوخزاعہ کے مقتولین کی دیت اداکریں۔

(۲) یا بنونفاثہ کے معاہدہ سے علاحدگی اختیارکرلیں۔

(۳) یاپھرمعاہدۂ حدیبیہ کے فسخ کااعلان کردیں۔

قاصدِنبوت کے پیغام کوسن کرقرطہ بن عمرونے زعمِ خودی میں آکرجواب دیاکہ ہم معاہدۂ حدیبیہ کوفسخ کرنے پر راضی ہیں۔یہ جوابی پیغام سن کرقاصدوہاں سے چل پڑا،اس کی روانگی کے بعد قریش کے ہوش ٹھکانےآئےاوراپنے پیرپر کلہاڑی مارلینے پرافسوس ہوا؛چنانچہ ابوسفیان(جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) تجدیدِمعاہدہ کے لئے بھاگم بھاگ مدینہ پہنچے؛لیکن’’اب کیاہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘، تیر کمان سے نکلنے کے بعد واپس نہیں ہوتا،لہٰذامعاہدہ کی تجدیدنہ ہوسکی۔

اب آپﷺنے پیکرِ وفااصحاب کواحتیاط ورازداری کے ساتھ بغیرکسی وضاحت کے جنگ کی تیاری کاحکم فرمایااوراللہ تعالیٰ سے بھی عدمِ افشاکی دعاء مانگی:اللہم خذالعیون، والأخبارعن قریش؛حتیٰ نبغتہافی بلادہا۔(عیون الأثرلابن سید الناس:۲/۱۸۴)’’ائےاللہ!قریش سے ہماری خبروں کوچھپا؛ یہاں تک کہ اچانک ہم ان کے علاقہ میں پہنچ جائیں‘‘۔

تیاری کی تکمیل کے بعد دس ہزارقدسی صفات جاں نثاروں کے ہمراہ مکہ کے ارادے سے نکلے،جب ’’ذوالحلیفہ‘‘ پہنچے توآپﷺکے چچاحضرت عباسؓ بال بچوں کے ساتھ مدینہ جاتے ہوئے ملے،یہ پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے؛لیکن مکہ ہی میں مقیم رہ کرآپﷺتک وہاں کی خبریں بھیجاکرتے تھے۔جب مقامِ’’ابوا‘‘میں پہنچے توآپﷺکے چچازاد اور رضاعی بھائی ابوسفیان بن حارث اورعبداللہ بن ابی امیہ بغرض اسلام مدینہ جاتے ہوئے ملے۔اعلان ِنبوت سے پہلے ابوسفیان آپ ﷺسے نہایت محبت کرتے تھے؛لیکن اعلانِ نبوت کے بعد یہ محبت کدورت میں بدل گئی؛یہاں تک کہ آپ کے ہجومیں اشعار بھی کہے، جس کی وجہ سے آپ سخت نالاں تھے ؛چنانچہ جب اُنھوں نے حاضرِ خدمت ہونے کی اجازت چاہی توآپ نے اجازت مرحمت نہیں فرمائی اوربیزارگی کااظہارفرمایا؛لیکن جب حضرت علیؓ کے مشورے کے مطابق روئے انورکے سامنے کھڑے ہوکرحضرت یوسف کے بھائیوں کاجملہ’’تاللہ لقدآثرک اللہ علیناوإن کنالخاطئین‘‘۔(یوسف: ۹۱)’’قسم ہے اللہ کی، بے شک اللہ نے آپ کوہم پر فضیلت دی ہے اوربلاشبہ ہم قصوروار ہیں‘‘ دہرایاتورحمتِ عالم اورحیاء مجسمﷺکی زبان سے بھی وہی جملہ اداہوا،جوحضرت یوسف کی زبانِ مبارک سے اداہواتھا،آپ ﷺنے فرمایا:لاتثریب علیکم الیوم،یغفراللہ لکم وہوأرحم الراحمین(یوسف: ۹۲)’’آج کے دن تم پرکوئی الزام اور ملامت نہیں،اللہ تمہاراقصورمعاف کرے،وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے‘‘۔

مکہ کے قریب پہنچ کر’’مرالظہران‘‘میں آپﷺنے پڑاؤ ڈالا اورعسکرِاسلام کوہرخیمہ کے سامنے علاحدہ آگ روشن کرنے کاحکم فرمایا۔اہل مکہ کواپنی بدعہدی کی وجہ سے یہ دغدغہ لگاہواتھاکہ معلوم نہیں کب رسول اللہﷺہم پریورش کربیٹھیں؟اس لئے ابوسفیان اوربدیل بن ورقاء ٹوہ لینے کے لئے نکلے،مرالظہران کے قریب پہنچ کراس قدرآگ روشن دیکھی تواُن پرفزع کی کیفیت طاری ہوگئی اوریہ دونوں اس کے متعلق اظہارخیال کرنے لگے۔حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کی آواز پہچان کرفرمایا:افسوس ابوسفیان!یہ رسول اللہﷺکالشکرہے، خداکی قسم اگرتجھ پرفتحیاب ہوگئے توتیراسرحلقوم سے جدا کردیں گے،قریش کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ امن کے خواست گار ہوجائیں اوراطاعت قبول کرلیں۔پھراپنے خچرپرسوارکرکے آپﷺکی خدمت میں حاضرہوئے،بدیل بن ورقاء اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگئے؛البتہ ابوسفیان نے صبح کی اولین ساعتوں میں طوقِ طاعت اپنی گردن میں ڈالی۔

جب مرالظہران سے اسلامی فوج ظفرموج کوچ کرنے لگا توآپﷺحضرت عباسؓ کوحکم دیاکہ لشکرِ اسلام کے طنطنہ اورشوکت وشان کو دکھانے کے لئے ابوسفیان کولے کرپہاڑ پر چڑھ جائیں،لشکراسلام قبیلہ درقبیلہ ٹھاٹھیں مارتاہواموج کی طرح گزرنے لگاتوابوسفیان انگشت بدنداں رہ گئے اوریکے بعد دیگرے علم خاص لے کرگزرنے والے قبیلے کی بابت دریافت کرنے لگے؛حتیٰ کہ کوکبۂ نبوی ظاہری وباطنی جلال وشکوہ کے ساتھ انصارومہاجرین کے ہتھیاربنداورزرہ پوش جلومیں نکلے۔مہاجرین کاپرچم حضرت زبیرص کے ہاتھ میں تھااور انصارکاعلم حضرت سعدبن عبادہؓ کے پاس۔حضرت سعدنے ابوسفیان کودیکھاتووفورِجذبات میں سرشاراورجوشِ جنوں میں بے خودہوکریہ کہدیا:الیوم یوم الملحمۃ،الیوم تستحل الکعبۃ’’آج لڑائی کا دن ہے،آج کعبہ میں جنگ وجدل جائزہوگا‘‘۔ابوسفیان نے آپﷺسے حضرت سعدکی شکایت کی توآپﷺنے فرمایا: کذب سعد، ولکن ہذا الیوم یعظم اللہ فیہ الکعبۃ، ویوم تکسی فیہ الکعبۃ۔(بخاری، باب أین رکز النبیﷺالرایۃ یوم الفتح، حدیث نمبر: ۴۰۳۰)’’سعدنے غلط کہا،آج خانۂ کعبہ کی عظمت کا دن ہے،آج اس کوغلاف پہنایاجائے گا‘‘۔پھرحضرت سعدسے علم لے کران کے بیٹے قیس کودے دیا۔

ابوسفیان یہاں سے رخصت ہوکربعجلت تمام مکہ پہنچے اوراعلان کیاکہ محمدﷺ لاؤ لشکرکے ساتھ تشریف لارہے ہیں،ان سے مزاحمت کی کسی میں طاقت نہیں،اسلام قبول کرلو، مامون رہوگے؛البتہ جومسجدِحرام میں داخل ہوجائے،وہ محفوظ ہے،جوہتھیارڈال دے، وہ بھی محفوظ ہے،جواپنے گھرکادروازہ بند کرلے، وہ بھی محفوظ ہے اورجومیرے گھرمیں داخل ہوجائے،وہ بھی محفوظ ہے۔ یہ سنتے ہی تمام لوگ منتشرہوگئے، کوئی مسجدِ حرم کی طرف دوڑاتوکسی نے اپنے گھرکادروازہ بندکرلیا۔

آپﷺکعبۃ اللہ کے آداب واحترام کوغایت درجہ ملحوظ رکھتے ہوئے، فرحت وانبساط کے آثارکے ساتھ، تخشع، تضرع، تذلل اورتمسکن کے نقوش لئے ہوئے، سورۂ فتح اورسورۂ نصر کی تلاوت فرماتے ہوئے اس شان سے مکہ میں بالائی جانب سے داخل ہوئے کہ ٹھوڑی مبارک کجاوے سے مس کررہی تھی،نگاہیں نیچی تھیں اورآپﷺکے غلام زادے حضرت اسامہؓ آپ کے پیچھے سوارتھے۔حضرت خالدبن ولیدؓکومکہ کے نشیب سے داخل ہونے کا حکم فرمایا،یہ وہ حصہ تھا، جہاں مکہ اورآس پاس کے کچھ اوباش مزاحمت کے لئے تیارتھے؛چنانچہ حضرت خالدؓ سے ان کی جھڑپ ہوئی اوروہ لوگ شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہوئے۔پھرامن قائم ہوگیا۔

مکہ فتح ہوجانے کے بعد آپﷺمسجدِحرام میں داخل ہوئے۔ اس وقت وہاں تین سوساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔آپﷺ ایک ایک بت کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے ہوئے جاء الحق وزھق الباطل پڑھتے جاتے اوربت منھ کے بل گرتے جاتے ۔ آپ ﷺنے خانۂ کعبہ کاطواف فرمایا، پھراس کی کنجی منگاکر کھلوایااوراس کے اندرنماز پڑھی اوردیوارکعبہ پربنی ہوئی بتوں کی تصاویرکومٹانے کاحکم دیا۔پھربابِ کعبہ پرکھڑے ہوکرایک بلیغ خطبہ دیا،جس میں جاہلی رسوم کوکالعدم قراردینے کے ساتھ ساتھ ان تمام قریشیوں کولاتثریب علیکم الیوم،إذھبوا فأنتم الطلقاء کہتے ہوئے عفوودرگزرکامژدہ سنایا، جو مجرمین کے مانند خم گردنوں کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑے تھے؛البتہ کچھ افراد ایسے تھے، جن کاجرم اس قدرشنیع تھاکہ وہ معافی کے کسی طرح بھی لائق نہ تھے؛اس لئے ان کے بارے میں یہ حکم صادر فرمایاکہ اگروہ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے بھی مل جائیں تو اُنھیں قتل کردیاجائے؛ لیکن قربان جایئے آپﷺکے رحم و شفقت پر! کہ ان میں سے بھی اکثروں کومعاف فرمادیا۔

ہوازن وثقیف کے ساتھ معرکہ

سن آٹھ ہجری کا واقعہ ہے ، کفروشرک کاسب سے بڑا گڑھ ’’مکہ ‘‘فتح ہوچکاہے اوراِ س کے فتح کے ساتھ طنطنۂ کفر بھی سردپڑچکاہے، اطراف واکناف کے قبائل سہمے ہوئے ہیں اور شوکت ِاسلام کے سامنے سرنگوںہوکرفاتحِ مکہ کے دربار میں خودسپردگی کررہے ہیں، تاہم بعض قبیلے ایسے بھی ہیں، جونخوت کے ٹٹوپرسوارہیں اورطوقِ طاعت اپنی گردنوں میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں، اُن قبیلوں میں مضر، چشم، سعد، غطفان، ہوازن اورثقیف ہیں، جن کی پندارِخودی غلغلۂ اسلام کو تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے؛اِس لئے وہ اب تک سپرانداز نہیں ہوئے ہیں اور ناہی اُن کاارادہ سپرانداز ہونے کاہے؛بل کہ وہ اہل ِاسلام پرایک ایسی یورش کی تیاری کررہے ہیں، جوسپرانداز ہونے والے قبائل کے سامنے اہل ایمان کی ہمالیائی سطوت کوزمیں بوس کردے اورافلاک کی وسعتوں میں اُن کی طاقت کاڈنکابجتے ہوئے سن سکیں، اس کے لئے اُنھوں نے مالک بن عوف نصری کی امارت کوباتفاق رائے تسلیم کر لیاہے ۔

مالک بن عوف نصری کی امارت میں یہ تمام قبائل پیش قدمی کرچکے ہیں؛ تاکہ اہل اسلام سے پہلے ایسی جگہوں پر قابض ہوسکیں، جوقتل وقتال کے لئے ہم وارہواورجہاں سے اہل اسلام کو گھات لگاکرگھائل کرسکیں، چوں کہ وہ لوگ اس لڑائی کوزندگی کی آخری لڑائی تصورکرچکے تھے؛ اس لئے بچے، عورتیں اورمویشی بھی ساتھ ہانک لائے؛ تاکہ ہرسپاہی عزت وناموس کے تحفظ کی فکرمیں سرشارہوکر میدان کارزارمیں کفن بردوش لڑے اورکسی کے حاشیۂ خیال میں بھی ادبار و پسپائی کاہیولیٰ نہ ابھرے۔

جب متحدہ جمعیت مقام اوطاس تک پہنچی توسپہ سالارنے خیمہ زن ہونے کاحکم صادرکیا، جمعیت کے پڑاؤکے بعدمیدانِ حرب وضرب کے سردوگرم کاچشیدہ دُریدبن صمہ نے پوچھا: یہ کونسی جگہ ہے؟ جواب دیاگیا:اوطاس، اس نے کہا:نعم محل الخیل،لاحزن ضرس، ولاسہل دہس(یہ شہسواروں کے لئے بہترین جولان گاہ ہے، نہ پتھریلی کھائی دارہے، نہ بھربھری نشیب)،پھرکہا:مالی أسمع رغاء البعیر، ونہاق الحمیر، وبکاء الصغیر، ویعار الشاء(کیابات ہے؟ میںاونٹوںکی بلبلاہٹ، بکریوں کی ممیاہٹ، گدھوں کاشوروغوغااور بچوں و عورتوں کی آہ وبکا سن رہاہوں)، جواب ملا:سپہ سالارمالک بن عوف نصری نے ان سب کوساتھ ہانک لایاہے، دُرید نے اسے بلاکرپوچھا: تم نے ایساکیوں کیاہے؟ اس نے جواب دیا: اردت أن أجعل خلف کل رجل أہلہ ومالہ لیقاتل عنہم(میں نے سوچاکہ ہرشخص کے پیچھے اس کے گھر والوں کوکھڑاکردوں؛ تاکہ وہ ان کی عزت وناموس کے لئے لڑے)، دُریدنے جواباً کہا:’’تم نرے چرواہے ہو، کیاشکست وہزیمت کوکوئی چیز روک سکتی ہے؟ اگرجنگ تمہارے حق میں ہو تو تمہارے لئے شمشیرزن اورنیزہ بازہی مفیدہیں؛ لیکن اگرمعاملہ برعکس ہوجائے توتم اپنے اہل وعیال میں رسواوخوارہوگے‘‘،پھراُس نے قبیلۂ کعب وکلاب کے بارے میں پوچھاتولوگوں نے کہاکہ وہ اس جنگ میں شریک نہیں، اس پردریدنے کہا:’’اہل دانش وبینش موجودنہیں، اگریہ شان وشوکت اوربلندی ورفعت کادن ہوتاتوکعب وکلاب غیرحاضرنہ رہتے، میں چاہتاہوں کہ تم بھی وہی کرو، جوکعب وکلاب نے کیاہے، تم میں سے کون اس کے لئے تیارہے؟‘‘، پھرمالک بن عوف کو عورتوں اوربچوں کوکسی محفوظ مقام پرلے جانے کا مشورہ دیا، جس کے جواب میں مالک نے کہا:تم بوڑھے پھوس ہوچکے ہواورتمہاری عقل سٹھیاچکی ہے، اگرہوازن کے لوگوں نے میری بات نہ مانی تومیں اپنے آپ کوہلاک کرلوں گا، دُریدنے مالک کی ہٹ دھرمی کودیکھ کریہ شعرپڑھا:

یالیتنی فیہاجذع

أخُب فیہا وأضع

أقود وطفاء الزمع

کأنہاشاۃ صدع

(اے کاش! میں اس میںجوان ہوتا، میںاس میں دوڑتا اور (تلوار) رکھتا،اوربکریوں کی طرح چھریرے ناقابل التفات لوگوں کی رہنمائی کرتا)

اس کے بعدمالک نے اپنے جاسوس بھیجے؛تاکہ وہ صحیح حالات سے آگاہی کریں؛لیکن وہ مالک کے پاس اس حال میں لوٹے کہ ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑرہی تھیں اور رنگ فق ہو چکا تھا،وہ ’’کاٹوتوخون نہیں‘‘کے مثل ہوکرلوٹے ، جنھیں دیکھ کرمالک نے احوال دریافت کیا،اُن لوگوں نے جواب دیا: ہم نے چتکبرے گھوڑوں پرسفیدپوش سواردیکھے ہیں، جس کی وجہ سے ہم اس حال کوپہنچ گئے(الروض الأنف، ذکرغزوۃ حنین: ۴ / ۲۰۴، نیز دیکھئے: عیون الأثر:۲ / ۲۱۳، دلائل النبوۃ: ۵ / ۱۸۵، السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ حنین: ۳ / ۶۲)۔ 

ہوازن وثقیف کی جنگی استعدادکی خبریں جب آپﷺ تک پہنچی توآپﷺنے تحقیقِ حال کے لئے حضرت عبداللہ ابن ابی حدرداسلمیؓ کوبھیجا، انھوں نے ان کے درمیان رہ کر پوری تفصیلات معلوم کیں،پھرواپس آکرآپﷺکوبتایا،اب آپ ﷺنے گراںباری کے ساتھ تیاری کا حکم فرمایا، جس کے لئے حضرت عبداللہ بن ربیعہؓ سے تقریباً تیس ہزار روپے بطور قرض اورصفوان ابن امیہ سے اسلحہ جات مستعارلئے، پھرچھ شوال آٹھ ہجری کوبارہ ہزارنفری کے ساتھ روانہ ہوئے۔

راستہ میں ایک مقام ایساآیا،جہاں وہ درخت تھا، جس پر مشرکین زمانۂ جاہلیت میں اسلحہ جات لٹکایاکرتے تھے، ہرسال اُن کاوہاں قیام بھی ہوتا تھااوراُس درخت کے پاس جانوربھی ذبح کرتے تھے، جب دائرۂ اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کااُس درخت کے سامنے سے گزرہواتوکہنے لگے:اے اللہ کے رسول! ان کے ذات انواط کی طرح ہمارے لئے بھی ذات انواط بنا دیجئے،اللہ کے رسولﷺنے نعرۂ تکبیربلندکیا اورکہا:قلتم والذی نفس محمدبیدہ کما قال قوم موسیٰ لموسیٰ:اجعل لناإلٰہاکمالہم آلہۃ، قال: إنکم قوم تجہلون، لترکبن سنن من کان قبلکم(اُس ذات کی قسم ، جس کے قبضہ میں محمدکی جان ہے، تم لوگوں نے ویسی بات کہی، جوحضرت موسیٰ ؑکی قوم نے حضرت موسیٰؑ سے کہی تھی کہ ہمارے لئے بھی اُن (مشرکین )کی طرح ایک معبودبنادیجئے، پھرفرمایا:تم لوگ نادان قوم ہواوراپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے کواپنارہے ہو)(السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ حنین: ۳ / ۶۴)۔

غزوۂ حنین پہلاموقع تھا، جس میں مسلم فوج کی تعداداتنی زیادہ تھی؛اس لئے بعض لوگوں کی زبان سے یہ بات نکل گئی کہ:آج ہم مغلوب نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ کویہ فخروعجب پسندنہ آیا اوراِس عجب پسندی کا اُنھیں ایساسبق دیا، جس نے ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کے دلوں سے نخوت کو ختم کردیا۔

اسلامی فوج ظفرموج کثرت کے نشہ میں بے پروائی کے ساتھ بڑھتی رہی؛ یہاں تک کہ مقام اوطاس کے دروں تک پہنچ گئی، جہاں ہوازن وثقیف تیرانداز پہلے ہی سے گھات لگائے بیٹھی تھی، اسلامی فوج کودیکھتے ہی تیروں کی ایسی بارش برسائی، جس کے نتیجہ اسلامی فوج کی طرف سے پیش قدمی کرنے والے ان نوجوانوں کے قدم اکھڑگئے، جو فتح مکہ کے بعد تازہ تازہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے، اِن کے بھاگنے کی وجہ سے فوج میں بھگدڑمچ گئی اورجس طرف جس کارُخ ہوا، چل نکلا، رسول اللہﷺچند صحابہ کے ساتھ برابر پیش قدمی کرتے رہے اورلوگوں کویہ کہہ کربلاتے رہے کہ:

أناالنبی لاکذب

أناابن عبدالمطلب

(میں برحق نبی ہوں، میں عبدالمطلب کابیٹاہوں)

پھردائیں اوربائیں طرف صدالگائی:اے انصارکی جماعت! دونوں جانب سے جواب آیا:ہم حاضرہیں، حضرت عباس ؓ نے حضورﷺکے حکم سے بلندآواز سے انصارومہاجرین کو پکارا اورکہا: یامعشرالأنصار! یا أصحاب الشجرۃ!(اے انصارکی جماعت! اے درخت والے!)، آوازکاسنناتھاکہ منشترفوج مجتمع ہوگئی اورپلٹ کرایساوارکیاکہ جنگ کارُخ ہی بدل گیا،ریخت وہزیمت فتح وکامرانی میں تبدیل ہوگئی، اب ہوازن وثقیف اپنے ساتھ لائے ہوئے مال ومتاع اورعورتوں وبچوں کوچھوڑ چھاڑ کربھاگ کھڑے ہوئے اورجونہ بھاگ سکے،وہ گرفتارکرلئے گئے، اس جنگ میں تقریباًچھ ہزارقیدی ہاتھ آئے، جب کہ چوبیس ہزاراونٹ، چالیس ہزارسے زائدبکریاں اورچارہزاراوقیہ چاندی (چارکوئنٹل اسی کلوگرام)مال غنیمت کے طورملے۔

(جاری۰۰۰۰۰۰۰۰)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی