آخری پیغمبرﷺ (قسط:۶)(ابوبصیرکی جماعت تاغزوۂ موتہ)

آخری پیغمبرﷺ (قسط:۶)(ابوبصیرکی جماعت تاغزوۂ موتہ)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۶)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ابوبصیرکی جماعت

جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچ گئے تو ابوبصیر کفار قریش کی قید سے بھاگ کر مدینہ پہنچے، قریش نے فوراً اِن کی واپسی کے لئے دو لوگوں کو مدینہ روانہ کیا۔ آپ ﷺ نے ایفائے عہد کرتے ہوئے ابوبصیر کو اُن کے ساتھ مکہ کے لئے روانہ کردیا، ابوبصیراُن کے ساتھ روانہ تو ہوگئے؛ لیکن راستہ میں اُن میں سے ایک کو قتل کردیا، جب دوسرے نے یہ حال دیکھا تو بھاگ کھڑا ہوا اور سیدھا مدینہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میرا ساتھی تو مارا گیا اور اب میں بھی مارا جانے والا ہوں۔اُسی کے پیچھے ابوبصیر بھی مدینہ پہنچے اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا: ائے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہد کو پورا کردیا۔ آپ نے تو مجھے اُن کے حوالے کردیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن سے نجات کی میرے لئے ایک سبیل مہیا فرمادی ہے۔ میں نے یہ جو کچھ کیا، محض اس لئے کیا کہ میرے اور اِن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: ویل أمہ! مسعر حرب۔ لوکان لہ أحد!’’ناس ہو! جنگ بھڑکانے والا ہے۔ کاش! کوئی اِس کے ساتھ ہوتا‘‘۔حضرت ابوبصیر سمجھ گئے کہ آپ ﷺ کو میرا یہاں ٹھہرنا پسند نہیں؛ چنانچہ اُنھوں نے ساحل ِسمندر کو ٹھکانہ بنایا (بخاری، باب الشروط فی الجہاد… حدیث نمبر: ۲۷۳۲)۔ اب جو بھی مکہ سے فرار ہوکر آتا، سیدھے ساحل پر پہنچتا، اِس طرح ستر (۷۰) یا تین سو (۳۰۰) لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوگئی۔ یہ ساحل مکہ سے شام جانے والے تاجرین قریش کی راہ میں پڑتا تھا؛چنانچہ اِن لوگوں نے اُن کے مال و اسباب کو اپنی غذائی قلت دور کرنے کا ذریعہ بنایا۔ جب قریش اِن سے تنگ آگئے تو آپ کو اِن لوگوں کو اپنے پاس بلالینے کی اجازت دیدی اور اِس طرح معاہدہ کی ایک شق کو اُن لوگوں نے خود ہی کالعدم قراردے دیا، جب کہ پورا معاہدہ اُس وقت اختتام پذیر ہوا، جب قریش کے حلیف بنوبکر نے قریش کے ساتھ مل کربنو خزاعہ پر چشمۂ ’’وتیر‘‘ میں شب خوں مارا اور اُن کے بہت سارے افراد کو موت کی نیند سُلادیا۔ چنانچہ عمرو بن سالم خزاعی نے بنو خزاعہ کا ایک وفد لے کر دربارِ نبوت میں حاضر ہوکر دُہائی دی، جس کو سن کرآپ ﷺ نے فرمایا: نُصِرْتَ یا عمرو بن سالم۔(سنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۳۳۱) ’’ائے عمروبن سالم! تمہاری مدد کی جائے گی‘‘۔ پھر آپ نے بنو خزاعہ کی مدد کی، جس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا۔

بادشاہوں کے نام خطوط

حدیبیہ کی صلح کے بعد آں حضرتﷺ کو یہ موقع میسر ہوا کہ دنیا کے سامنے اطمینان کے ساتھ خدا کا پیغام پہنچا سکیں؛ چنانچہ اس کے لئے چند ہوشیار مسلمانوں کا انتخاب کیا اور ان کو خطوط دےکر قرب و جوار کے رئیسوں اور بادشاہوں (حبشہ، ایران، روم اورمصر) کے پاس بھیجا، حبش کے بادشاہ نے اسلام قبول کیا(الطبقات الکبری لابن سعد: ۱؍۲۵۸)، ایران کے بادشاہ نے غصہ سے اس خط کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اسی طرح اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا، اور ہوا بھی ایساہی، چند ہی سالوں میں اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔

مصر کے بادشاہ نے اسلام تو قبول نہیں کیا؛ لیکن خط کا جواب تہذیب کے ساتھ دیا، روم کے بادشاہ قیصر نے عرب تاجروں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا، اتفاق یہ کہ ابوسفیان (جو اس وقت اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حاضر کئے گئے، قیصرنے کچھ اہم سوالات کئے، ابوسفیان کے جواب سے وہ مطمئن ہوا اور یہ کہہ اٹھا کہ ’’اگرتم نے سچ سچ کہا ہے تو ایک دن آئے گا کہ وہ میرے پاؤں کے نیچے کی اس مٹی پر بھی قبضہ کرلے گا، اگر میں ان تک پہنچ پاتا تو ان کے پاؤں دھوتا‘‘۔

عرب کے کئی رئیسوں نے اسلام قبول کیا، بحرین میں عبد القیس کا قبیلہ، یمن میں آباد دوس کا قبیلہ، اشعر کا قبیلہ، غفار کا قبیلہ اور جہینہ، اسلم و مزینہ اور اشجع کے قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے، ان میں سے بعض قبیلے وہ بھی تھے، جن تک اسلام کی آواز پہلے ہی پہنچ چکی تھی، اس طرح صلح حدیبیہ کی وجہ سے دعوت دین کے لئے ایک اہم موقع میسر ہوا۔

خیبر کی فتح

یہ بات گزر چکی ہے کہ جن یہودیوں کو جلاوطن کیاگیا تھا، ان میں سے بہت سارے خیبر میں آکر مقیم ہوگئے تھے، یہاں بڑے بڑے قلعے تھے، جن پر اعتماد کرکے ان یہودیوں نے مسلمانوں پرحملہ کرنے کی تیاری شروع کردی، جب آں حضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو ان کے ساتھ صلح کے لئے آدمی بھیجے؛ لیکن ان کی شرارت کی وجہ سے بات نہیں بن سکی، بالآخر خیبر پر حملہ کا اعلان ہوا، سولہ سو لوگوں کی فوج مدینہ سے روانہ ہوئی، اس موقع پرپہلی مرتبہ تین پرچم تیار کئے گئے، یہ قافلہ رات کے وقت خیبر پہنچا، حملہ کے لئے صبح تک انتظار کیاگیا، صبح کو جب یہودیوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھولے تو سامنے مسلمانوں کا لشکر دیکھ کر چیخ اٹھے: محمد (ﷺ) کی فوج، حضورﷺ نے اب بھی لڑنے کا حکم نہیں دیا؛ لیکن یہودیوں نے صلح کے بجائے لڑنے کو ترجیح دی، مسلمانوں نے سب سے پہلے ناعم نامی قلعہ پر حملہ کیا، کچھ جھڑپ کے بعد اسے فتح کرلیاگیا، پھر قموص کی طرف بڑھے، یہاں مرحب نامی ایک مشہور بہادر تھا، کئی روز تک یہاں مقابلہ رہا، آخرکار حضرت علیؓ کے ہاتھوں یہ قلعہ فتح ہوا، اب یہودیوں نے آں حضرت ﷺ کے ساتھ صلح کی، جس کی شرط یہ قرار پائی کہ یہاں کی زمینیں تویہودیوں کے ہی قبضے میں رہیں گی اور پیداوار کا آدھا حصہ وہ مسلمانوں کو دیا کریں گے، خیبر کی آدھی زمینیں لڑنے والے مسلمانوں کو دی گئیں اور آدھی اسلامی خزانہ کی ملکیت قرارپائیں۔

اسی موقع پر ایک یہودی عورت نے آپ ﷺ اور کچھ صحابہ کرام کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملادیا، آں حضرت ﷺ نے لقمہ منھ میں رکھا اور نکال لیا اور فرمایا: اس میں زہر ملایا گیا ہے، تب تک ایک صحابی نے کئی لقمے کھالئے تھے، جس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہوگئی، اس موت کا قصاص اس عورت سے لیاگیا اور اسے بھی قتل کردیا گیا، یہاں سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے تیماء اور فدک کارخ فرمایا، یہاں بھی یہودیوں کے چند گاؤں آبادتھے، انھوں نے بھی خیبر کی شرط پر صلح کرلی اور اس طرح یہودیوں سے لڑائی کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

عمرہ کی قضاء

صلح حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ اس سال واپس جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لئے آئیں، اس شرط کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا ارادہ فرمایا، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد (تقریباً دوہزار) بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئی، معاہدہ کی پاس داری کرتے ہوئے مکہ سے آدھے میل پہلے ہی ہتھیار اتاردئے گئے، جن کی حفاظت کے لئے دو سو سواروں کا ایک دستہ متعین ہوا، باقی مسلمان پورے جوش و خروش کے ساتھ مکہ داخل ہوئے اور معاہدہ کے مطابق تین دن بعد وہاں سے نکلے، یہ واقعہ ذی قعدہ ۷ھ کا ہے۔

غزوۂ موتہ

صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے جن رئیسوں کے پاس دعوت دین کے خطوط روانہ فرمائے تھے، ان میں سے ایک شرحبیل بن عمرو غسانی بھی تھا، جو روم کے بادشاہ کی طرف سے شام کا امیر (گورنر) تھا، اس نے خط کا جواب اور اس کا احترام کرنے کے بجائے اس قاصد (حارث بن عمیرؓ) کو ہی قتل کردیا، جو خط لےکر گیاتھا، قاصد کا قتل اس وقت کے دستور کے بھی خلاف تھا؛ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کا بدلہ لینے کے لئے تین ہزارفوج روانہ فرمائی، شرحبیل کو جب اس کی خبر ہوئی تو اس نے مقابلہ کے لئے ایک لاکھ کی جمعیت تیارکی، خود روم کا بادشاہ بھی ایک لاکھ فوج لے کر مقام بلقاء میں خیمہ زن ہوا، مسلمانوں کا لشکر جب وہاں پہنچا تو ان کی تعداد دیکھ کر فطرتاً تذبذب میں مبتلاہوا؛ لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی تقریر نے ان کے اندر جوش و خروش اور شہادت کا شوق بھردیا اور وہ اتنی بڑی فوج کے ساتھ بھی مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے، جھنڈا حضرت زیدؓ بن حارثہ کے ہاتھ میں تھا، وہ شہید ہوئے توحضرت جعفرطیارؓ آگے بڑھے، ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا دوسرے ہاتھ میں تھام لیا، وہ بھی کٹ گیا توسینہ سے چمٹا لیا، آخرکار نوے زخم کھاکرشہید ہوئے، اب حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں لیا، وہ بھی شہید ہوگئے تو مسلمان فوج کی قیادت حضرت خالد بن ولیدؓ نے سنبھالی اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کی زد سے مسلمان فوج کو نکال لائے، یہ لڑائی چوں کہ ’’موتہ‘‘ کے مقام پر ہوئی تھی؛ اس لئے اسے ’’غزوۂ موتہ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ غزوہ جمادی الاولیٰ ۸ھ میں پیش آیا۔

(جاری۰۰۰۰۰)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی