مزاح میں آں حضرتﷺکااسوہ

مزاح میں آں حضرتﷺکااسوہ

 مزاح میں آں حضرتﷺکااسوہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


اللہ تعالیٰ نے انسا ن کی فطرت میں متضادصفتیں ودیعت کی ہیں؛چنانچہ کبھی اس کے مزاج میں درشتی ہوتی ہے توکبھی نرمی،کبھی وہ غصہ سے بے قابوہوجاتاہے توکبھی خوشی کے نقوش اس کے چہرے پرہویداہوتے ہیں، کبھی اس کی طبیعت آب وہواکی گرمی کوپسندکرتی ہے توکبھی وہ فضامیں خُنکی کا خواہاں ہوتاہے،کبھی اس کا مزاج موسمِ باراں کے خلاف ہوتاہے اور کبھی وہ قطرۂ آب کے لئے گڑگڑاتاہے۔

یہ متضاد صفتیں اُسے کبھی ایک حالت پرباقی نہیں رہنے دیتیں؛چنانچہ بہت سارے وہ افراد، جوایک محدوددائرے میں رہتے ہوئے اکتاہٹ کاشکارہوجاتے ہیں اوراپنے اندرایک قسم کی گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں،ان کی طبیعتیں اِس بات کی خواہش مند ہوتی ہیں کہ ایسا ماحول ملے، جہاں اس کے ذہن کوسکون اورطبیعت کوآرام محسوس ہو۔ اِس ذہنی سکون کے لئے انسان مختلف طریقے اپناتاہے، کبھی جھیلوں اور آبشاروں کانظارہ کرتاہے توکبھی برفانی خطوں کا دورہ کرتاہے، کبھی ’’ہل اسٹیشنوں‘‘کے لئے رختِ سفر باندھتاہے توکبھی سمندری ساحلوں کی مسافتیں طے کرتاہے،ذہنی اکتاہٹ کے شکارلوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں،جو ظرافت ومزاح کا راستہ اپناتے ہیں۔

اسلام سادھوسنتوں اوررہبانیت اختیارکرنے والوں کامذہب نہیں ہے، جہاں مزاج کی تبدیلی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی؛ بل کہ اسلام نے مزاج کی تبدیلی کے لئے اعتدال کے ساتھ بہت سارے ایسے امورکوروارکھاہے، جن میں شرعی طورپرکوئی قباحت نہ ہو؛چنانچہ اسلام نے بھی اعتدال میں رہتے ہوئے مزاح کو جائز قراردیاہے۔خودآں حضرتﷺنے بھی بعض موقعوں سے صحابہؓ کے ساتھ مزاح فرمایا؛چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک شخص آپ اکی خدمت میں حاضرہوا اوردرخواست کی کہ میرے لئے ایک سواری مہیا کردیں، آپﷺنے فرمایا:

إنی حاملک علی ولدناقة۔ ’’میں تمہیں اونٹنی کے بچہ پرسوارکروں گا‘‘۔اس نے کہا: اے اللہ رسول ﷺ!میں اونٹنی کے بچہ کاکیا کروں گا؟آپﷺنے فرمایا: وهل تلدالإبل إلاالنوق؟’’اونٹنیاں ہی تو اونٹ جنتی ہیں!‘‘(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر:  ۴۹۹۸، سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۹۱)۔

اسی طرح ایک مرتبہ ایک بڑھیاآپﷺکی خدمت میں آئی اورآکرکہا:اے اللہ کے رسولﷺ! میرے لئے جنت میں جانے کی دعاکیجئے۔آپﷺنے فرمایا:

’’ائے فلاں کی ماں! جنت میں بوڑھی نہیں جائے گی‘‘۔وہ بوڑھی عورت روتے ہوئے وہاں سے نکلی توآپﷺنے موجودلوگوں سے فرمایا:أخبروهاأنها لاتدخلها، وهی عجوز۔’’اسے بتاؤ کہ وہ بوڑھی ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہوگی‘‘؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:اِنّااَنْشَئْنَاهنَّ اِنْشَائًا،فَجَعْلْنَاهنَّ اَبْکَاراً،عُرُباً اَتْرَاباً۔(الواقعة:۳۵-۳۷)’’ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا۔تو ان کو کنواریاں بنایا۔(اورشوہروں کی) پیاریاں اور ہم عمر‘‘۔

آپﷺکاصحابہؓ کے ساتھ یہ مزاح فرمانااِس بات کی دلیل ہے کہ مزاح جائز ہے، اگرجائز نہ ہوتاتوصحابہؓ سے آپ ﷺ مزاح نہ فرماتے۔ دراصل آپﷺکی مجلسیں بہت پروقاراورمتانت کی حامل ہواکرتی تھیں اورآپ ﷺاِس قدر بارعب تھے کہ صحابہؓ مزاح کا تصورنہیں بھی نہیں کرسکتے تھے اوراس طرح باادب اورسنجیدگی کے ساتھ بیٹھتے گویا سروں پرپرندے بیٹھے ہوں اورذراسی حرکت سے اُڑجائیں گے۔ آں حضرتﷺنبوت کے احترام کومکمل طورپرملحوظ رکھتے ہوئے نصیحتوں سے اُنھیں سرفرازفرماتے رہتے؛لیکن کبھی کبھی مزاح کی ایسی بات فرماتے ، جس سے دلوں میں تازگی پیداہوجاتی اوروہ ازسرِنونصیحتوں کوقبول کرنے کے لائق بن جاتے۔آپﷺکے اس مزاح کودیکھتے ہوئے صحابہؓ نے آپﷺسے یہ سوال بھی کیا:

یارسول الله !إنک تداعبنا؟ قال:إنی لاأقول إلاحقاً۔(الشمائل للترمذی، حدیث نمبر: ۲۴۰)

’’ائے اللہ رسولﷺ! کیاآپ ہمارے ساتھ مزاح فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ میں سچ بات ہی کہتاہوں‘‘۔

مزاح میں آپﷺکے اِس اسوہ سے ہمیں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں:

۱۔ مزاح جھوٹ سے پاک ہوناچاہئے۔

۲۔ کسی کی ایذاررسانی نہ ہو۔

۳۔ کسی پربہتان نہ باندھاجائے۔

۴۔ کسی کی غیبت نہ جائے۔

۵۔ مزاح اعتدال کے دائرہ سے باہرنہ ہو۔

۶۔ فحش گوئی اورہرزہ سرائی نہ پائی جائے۔

۷۔ کسی کے ساتھ استہزا نہ کیاجائے۔

اگریہ باتیں مزاح کے اندردَرْ آئیں تومزاح دلوں کے اندر طمانینت  کے بجائے خشونت اورتازگی کے بجائے پژمردگی پیدا کردیتاہے۔

آج کل ہمارے ماحول میں مزاح کا جورواج ہے، اس میں اس قسم کی بہت ساری باتیں پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے کئی دلوں میں نفرت، کئی گھروں میں انتشاراورکئی خاندانوں میں ناچاقی پائی جاتی ہے اورباوجود شرعی طورپرمباح ہونے کے ،حرام کے دائرہ میں داخل ہوجاتاہے،مزاح کا آج کل ایک طریقہ Comedy Showsکی شکل میں وجودمیں آیاہے، جہاں پراکتائے ہوئے لوگ اپنادل بہلانے کے لئے جاتے ہیں۔یقینایہ پروگرام ایسے لوگوں کے لئے سودمندبھی ہے؛لیکن کئی دیگرخرابیوں کی وجہ سے قابل ِغورہے:

(۱) اس کے اندرعریانیت پائی جاتی ہے۔

(۲) جھوٹ بولاجاتاہے۔

(۳) ایک دوسرے پرجملے کسے جاتے ہیں۔

(۴) مزاح حدّاعتدال سے باہرہوتاہے۔

(۵) فحش باتیں پائی جاتی ہیں۔

یہ اوراس طرح کی خلافِ شرع باتیں اس پروگرام میں پاتی ہیں،جن کی وجہ ایک مباح شیٔ حرام کے دائرہ میں داخل ہوجاتاہے۔اگرComedy Showsان چیزوں سے پاک ہوجائے توایسے پروگراموں میں شرکت اوراس کا دیکھنادرست ہوسکتا ہے، ورنہ ایسے پروگراموں میں حاضری اوران کا دیکھنادرست نہ ہوگا؛اس لئے مزاح میں خودہماراعمل بھی نبوی طریقہ پرہواورایسے پروگراموں میں شرکت کی صورت میں ہمیں وہاں کے ذمہ داروں سے مطالبہ ایسی چیزوں کے ختم کرنے کا مطالبہ بھی کرناچاہئے کہ یہ بھی دین کے تبلیغ کے دائرہ میں داخل ہے اورمطالبہ پورانہ ہونے کی صورت میں محض چند لمحوں کی لذت کے لئے اس میں شرکت ہمارے لئے باعثِ خسران ہے۔

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی