آن لائن تعلیم کی شرعی حیثیت

آن لائن تعلیم کی شرعی حیثیت

آن لائن تعلیم کی شرعی حیثیت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

تعلیم خواہ دینی ہویاعصری، اس کے لئے سوشل میڈیاکا استعمال کیساہے؟سوشل میڈیاکے اس دورمیں یہ بڑااہم سوال ہے، یہ طریقۂ تعلیم آج اگرچہ ہمارے سامنے مجبوری کی شکل میں سامنے آیاہے؛لیکن ترقی یافتہ ممالک میں باقاعدہ یہ ایک منظم شکل میں وجودمیں آچکاہے اورٹیکنالوجی کی ترقیات کودیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ مستقبل کاایک اہم تعلیمی وسیلہ ہوگا؛اس لئے ضرورت ہے کہ شرعی اعتبارسے اس کے جواز اورعدم جواز پربات کی جائے۔

علمائے کرام کی آراء

اس سلسلہ میں علمائے کرام کی دورائیں ہیں:

پہلی رائے

۱-  اگرآن لائن تعلیم صرف صوتی (آڈیوکی)شکل میں ہوتوجائزہے، ورنہ ویڈیوکی شکل میں(خواہ ریکارڈیڈ ہویا لائیو) درست نہیں،برصغیرکے زیادہ ترعلماء کی یہی رائے ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک جاندارکی تصویرکشی حرام ہے، خواہ وہ کسی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو؛ چنانچہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون، کراچی کے ویب سائٹ پرایک سوال کے جواب میں یہ فتوی دیاگیا ہے:

’’واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں کسی بھی جان دارچیزکی تصویرکشی حرام، خواہ وہ تصویرکشی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہویاغیرڈیجیٹل کمیرے سے، بہرصورت ناجائز اور حرام ہے،ویب کیمرے کااستعمال بھی شرعاً تصویرکشی کے حکم میں ہے؛اس لئے آن تعلیم وتدریس کے لئے یہ بنیادی شرط ہے کہ تعلیم محض صوتی یعنی صرف(آڈیوکال)کے ذریعہ ہو، ایک دوسرے کی تصویرنظرنہ آئے،یعنی تعلیم کیمرے(ویڈیو کال،لائیووغیرہ)کے ذریعہ نہ ہو،اگردوران تدریس کیمرے کا استعمال ہوتوکیمرے کارخ(فوکس)غیرجان دارچیز(بورڈ، کتاب وغیرہ)پرہو، کیمرے کے سامنے استادیاطالب علم/طلبہ کاآناجائز نہیں‘‘۔(https://www.banuri.edu.pk،فتوی نمبر:144111200200)

دلائل

ان حضرات کے دلائل درج ذیل ہیں:

۱-  عن ابن عباسؓ قال: قال رسول الله ﷺ: من صور صورۃ فی الدنیا، کلف یوم القیامة أن ینفخ فیها الروح، ولیس بنافخ۔ (صحیح البخاری،باب من صور صورۃ… حدیث نمبر:۵۹۶۳)

۲-  وعن رسول الله ﷺ: إن من أشد الناس عذاباً یوم القیامة الذین یصورون هذہ الصور۔ (صحیح البخاری،باب مایجوز من الغضب والشدۃ لأمرالله، حدیث نمبر: ۶۱۰۹)

۳-  عن ابن عباسؓ …سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: ’’کل مصور فی النار یجعل له بکل صورۃ صورها نفساً فتعذبه فی جهنم‘‘، وقال:إن کنت لابدفاعلاً، فاصنع الشجرولانفس له۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:۲۱۱۰)

۴-  قال رسول اللهﷺ قال: لاتدخل الملائکة بیتاً فیه تماثیل أوتصاویر۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۱۱۲)

دوسری رائے

۲-  دوسری رائے یہ ہے کہ آن تعلیم کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ ان کے نزدیک جب تک تصاویرکاپرنٹ نہ لیاجائے یاانھیں پائیدارطریقہ سے کسی چیز پرمنقش نہ کرلیاجائے، اس وقت تک ان پرتصویرکے احکام جاری نہیں ہوں گے؛ چنانچہ حضرت مولانامفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’حاصل یہ ہے کہ عکس جب تک کہ مسالہ وغیرہ کے ذریعہ سے پائیدارنہ کرلیاجائے، اس وقت تک عکس ہے اورجب اس کوکسی طریقہ سے قائم وپائیدارکرلیا جائے تووہ تصویربن جاتاہے اور عکس جب تک عکس ہے، نہ شرعاً اس میں کوئی حرمت ہے اورنہ کسی قسم کی کراہت، خواہ آئینہ، پانی یاکسی اورشفاف چیزپرہو یافوٹوکے شیشہ پر، اورجب وہ اپنی حدسے گزرکرتصویرکی صورت اختیارکرے گا، خواہ وہ مسالہ کے ذریعہ سے ہو، یا خطوط ونقوش کے ذریعہ سے اورخواہ یہ فوٹو کے شیشہ پرہویاآئینہ وغیرہ شفاف چیزوں پر، اس کے سارے احکام وہی ہوں گے، جو تصویرکے متعلق ہیں‘‘(آلاتِ جدیدہ کے احکام، ص:۱۴۱)۔

عالم عرب کے بہت سارے علماء توفوٹوگرافی کوبھی تصویرکے دائرہ میں نہیں لاتے ہیں؛ چنانچہ شیخ محمدبخیت المطیعی الحنفی فرماتے ہیں:

وعلی کل حال، فأخذ الصورۃ بالفوتوغرافیاالذی هوعبارۃ عن حبس الظل بالوسائط المعلومة لأرباب هذہ الصناعة لیس من التصویرالمنهی عنه فی شئی؛ لأن التصویر المنهی عنه هوإیجادصورۃ وصنع صورۃ لم تکن موجودۃ ولامصنوعة من قبل یضاهی بهاحیوانا خلقه الله تعالیٰ، ولیس هذا المعنی موجوداً فی أخذ الصورۃ بتلک الآلة۔ (الجواب الشافی فی إباحة التصویر الفوتوغرافی، ص:۲۳)

’’بہرحال! فوٹوگراف سے تصویرلینااوریہ سایہ کواس طریقہ پرقیدکرنے سے عبارت ہے، جس سے اس فن کے ماہرین واقف ہیں، یہ منہی عنہ تصویر میں سے نہیں ہے؛ اس لئے کہ منہی عنہ تصویرایسی صورت کووجودمیں لاناہے، جوپہلے سے نہیں تھی اوراس کے ذریعہ سے اس حیوان کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے، جسے اللہ نے پیداکیاہے، اوریہ معنی اس آلہ (فوٹو گراف) سے تصویرلینے میں نہیں پایاجاتا‘‘۔

عصرحاضرکے ابن تیمیہ علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:

وأماالصورالشمسیة(الفوتوغرافیة)فالأصل فیها الإباحة، مالم یشتمل موضوع الصورۃ علی حرام۔(الحلال والحرام فی الإسلام، ص:۱۴۱)

’’جہاں تک شمسی تصویرکاتعلق ہے تواس میں اصل جواز ہے، جب تک کہ تصویرکاموضوع حرام پرمشتمل نہ ہو‘‘۔

ان حضرات کے علاوہ شیخ محمدبن صالح العثیمین(دیکھئے: المجموع الثمین: ۱ / ۱۷۲، ۲ / ۲۵۴-۲۵۶، الشرح الممتع: ۲ / ۱۹۶-۲۰۳، القول المفیدعلی کتاب التوحید: ۳ / ۲۰۴)، شیخ محمدمتولی الشعراوی(فتاوی الشیخ محمدمتولی الشعراوی: ۱ / ۲۴۱، ۳ / ۴۴، ۱۵۲)، شیخ سالوس، شیخ احمد الخطیب، استاذ احمدمحمد جمال، محمدالخضرحسین شیخ الازہر، شیخ حسنین محمدمخلوف مفتی مصر(فتاوی عثمانی: ۴ / ۳۶۴)اورفقہ السنۃ کے مصنف شیخ سیدسابق بھی اس کے جواز کے قائل ہیں؛ چنانچہ سیدسابق لکھتے ہیں:

أمالصورالذی لاظل لها، کالنقوش فی الحوائط، وعلی الورق، والصورالتی توجد فی الملابس والستور، والصور الفتوغرافیة، فهذہ کلهاجائزۃ۔ (فقه السنة: ۳/ ۲۵۴)

’’جہاں تک بے سایہ تصویرکاتعلق ہے، جیسے: دیوار اور کاغذ میں نقش اوروہ تصاویر، جوکپڑوں اورپردوں میں پائی جاتی ہیں اورفوٹوگرافی کی تصاویر تویہ سب جائز ہیں‘‘۔

ان حضرات کے دلائل درج ذیل ہے:

۱-  مارواہ بسر بن سعید: عن أبی طلحة عن النبیﷺ قال: إن الملائکة لاتدخل بیتاً فیه الصور، قال بسر: ثم اشتکی زید فعدناہ، فإذا علی بابه سترفیه صور، فقلت لعبیدالله ربیب میمونة زوج النبیﷺ: ألم یخبرنازیدعن الصوم یوم الأول؟ فقال عبیدالله: ألم تسمعه حین قال:’’إلارقماً فی ثوب‘‘۔ (صحیح البخاری، باب لک کرہ القعود علی الصورۃ، حدیث نمبر: ۵۹۵۸)

۲-  عن عائشة قالت: کان لناسترفیه تمثال طائر، وکان الداخل إذادخل استقبله، فقال رسول اللهﷺ:’’حوِّلی هذا؛ فإنی کلما دخلت فرأیته ذکرت الدنیا‘‘۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۱۰۷)

دونوں دلائل کوسامنے رکھتے ہوئے علامہ عینیؒ نے جو نتیجہ نکالا ہے، وہ یہ ہے:

إنمانهی الشارع أولاً عن الصور کلها، وإن کانت رقماً؛لأنہم کانوا حدیثی عهدبعبادۃ الصور،فنهی عن ذلک جملة، ثم لما تقررنهیه عن ذلک أباح ماکان رقماًفی ثوب للضرورۃ إلی اتخاذ الثیاب وأباح مایمتهن؛ لأنه یأمن علی الجاهل تعظیم مایمتهن، وبقی النهی فیمالایمتهن۔ (عمدۃ القاری، باب لک کرہ القعود علی الصور : ۲۲ / ۱۱۷، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۲۰۰۱ء)

’’شارع نے ابتداء تمام طرح کی تصویروں سے منع کیاتھا، اگرچہ کہ وہ کپڑوں پرہی کیوں نہ بنی ہوں؛ اس لئے کہ وہ تصاویرکی عبادت سے جلدہی دورہوئے تھے، لہٰذا تمام سے روک دیاگیا، پھرجب یہ ممانعت دلوں میں بیٹھ گئی توضرورت کی وجہ سے کپڑوں میں رقم کرنے کی اجازت دی کہ کپڑے بنانے میں اس کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح ’’مایمتہن‘‘ کی بھی اجازت دی؛ کیوں کہ جاہل سے ’’مایمتہن‘‘کی تعظیم سے اطمینان ہوگیااور’’فیمالایمتہن‘‘ کی نہی نفی ہوگئی‘‘۔

اگر دلائل پرغورکریں تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ آج کل جوتصاویرڈیجیٹل کیمروں کے ذریعہ لی جاتی ہیں یاویڈیو کالنگ اورٹیلی ویژن پرلائیو نشر کی صورت میں جوتصویر سامنے آتی ہے، وہ تمثال کے مقابلہ میں عکس سے زیادہ مشابہ ہے اوراس کی صورت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے، جیسے آئینہ کے سامنے آنے اورہٹ جانے سے ہوتی ہے، سامنے آنے سے عکس نظرآتاہے اورہٹ جانے سے عکس غائب؛ اس لئے سوشل میڈیاکے ذریعہ آن لائن تعلیم میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا،یہی وجہ ہے کہ ہمارے زمانہ کے بہت سارے علماء بھی ڈیجیٹل تصاویرکوعکس ہی قراردیتے ہیں؛ چنانچہ عالم اسلام کے نامورفقیہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

’’…ڈیجیٹل کیمرے سے حاصل شدہ منظرجب تک کاغذوغیرہ پراس کاپرنٹ نہ لیاجائے تواسکرین کی حدتک وہ کہیں بھی تصویرکی شکل میں منقص اورقائم نہیں ہوتی؛ کیوں کہ ڈیجیٹل مناظرجب سی ٹی یاچپ میں محفوظ ہوتے ہیں توچندشعاعی اعدادوشمارکی شکل میں اس طرح محفوظ ہوتے ہیں کہ کھلی آنکھوں سے ان کامشاہدہ کیاجاسکتاہے اورناہی کسی خوردبین وغیرہ کے ذریعہ ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں؛ کیوں کہ وہ تصویر کی شکل میں وہاموجودہی نہیں ہوتے، پھرجب سی ڈی وغیرہ سے انہیں اسکرین یاپردہ پرظاہرکیاجاتاہے تووہ وبھی روشنی کے ناپائیدارشعاعی ذرات(Pixels)ناپائیدارشکل میں اسکرین پر ظاہرہوکرفوراً ہی فناہوجاتے ہیں؛ اس لئے تصویرکی کی بنیادی شرط(استقراراورقیام)یہاں مفقودہے، لہٰذا سادہ کیمرہ کی تصویر بلاشبہ حرام تصویرکے حکم میں ہے اورڈیجیٹل کیمرہ کا منظر حرام تصویرکے حکم میں نہیں ہے‘‘۔ (فتاوی عثمانی: ۴ / ۳۶۶)

اسی طرح جدیدمسائل پرگہری نظررکھنے والے ہندوستان کے مایہ ناز عالم حضرت مولانابرہان الدین سنبھلیؒ لکھتے ہیں:

’’ٹیلی ویژن پرجوکچھ نظرآتاہے، وہ دراصل بجلی اورمشین کے ذریعہ لے کردکھایاجانے والا عکس یاظل(سایہ)ہے، لہٰذا اس کا حکم بھی وہی ہوگا، جوان مناظرکاہے، جوٹیلی ویژن پر پیش کئے گئے ہیں…اگرٹیلی ویژن پربراہ راست ایسے مناظر اور پروگرام پیش کئے جائیں، جن کابغیرٹیلی ویژن کے بھی دیکھنا اورسننا جائز ہے توایسے پروگراموں اورمناظر کا ٹلی ویژن پردیکھنا اورسننا بھی جائز ہوگا‘‘۔(جدیدمسائل کاشرعی حل، ص: ۱۵۷)

استاذگرامی قدرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں:

’’ٹی وی پرذی روح کی تصویراگرنیگیٹیولینے کے بعداس کے ذریعہ سے نشرکی جائیں، تب تواس کاحکم تصویرکاہے اور اگر براہ راست اس طرح ٹیلی کاسٹ کیاجائے کہ فلم بنائی ہی نہ جائے تویہ عکس ہے ‘‘۔(جدیدفقہی مسائل:۱ / ۱۸۸)

ان حضرات کے علاوہ برصغیرکے اورکئی علماء نے ڈیجیٹل تصویرکوعکس قراردے کراس کوجائزقراردیاہے(تفصیل کے لئے دیکھئے: فتاوی عثمانی: ۴ / ۳۵۹ - ۳۹۵)

راقم الحروف بھی اسی رائے کاقائل ہے ، اس لحاظ سے تعلیمی مقاصدکے لئے ڈیجیٹل تصویرکے ذریعہ سے کام لینا درست ہے کہ یہ تصویرکے دائرہ کی چیز نہیں ہے؛ چنانچہ جب عالم عرب کے مشہور عالم دین شیخ ابن عثیمینؒ سے بچوں کے تعلیمی کارٹون فلموں کے بارے میں سوال کیا گیاتو انھوں نے جواب دیا:

لابأس بذلک، للفائدۃ، ولکونه یشغلهم عمایضرهم(ثمرات التدوین من مسائل ابن عثیمین لأحمدالقاضی، مسئلہ نمبر: ۳۳، ص: ۱۴)۔ 

’’فائدہ کی وجہ سے اوراس وجہ سے کہ اس کے ذریعہ نقصان دہ چیزسے غافل ہوجاتاہے، جائز ہے‘‘۔

اب یہ سوال رہ جاتاہے کہ اس طریقۂ تعلیم میں بعض طبی اوراخلاقی نقصانات بھی ہیں؛ لیکن ظاہرہے کہ ان نقصانات کی وجہ سے اس کے جواز پرفرق نہیں پڑے گا، نقصانات کامسئلہ الگ ہے اورڈیجیٹل تصویراورلائیوتعلیم کامسئلہ الگ ہے، اخلاقی برائیوں سے بچانے کے لئے کئی ایسے ویب سائٹ وجود میں آگئے ہیں، جن میں یہ سہولت دی گئی ہے کہ والدین اپنے موبائل کے ذریعہ سے ایک توبچوں کی نگرانی بھی کرسکتے ہیں اوربچہ والدین کی اجازت کے بغیردوسرے سائٹ کوکھول بھی نہیں سکتا ہے، اسی طرح یہ سہولت بھی موجودہے کہ ہم بذات خود ویب سائٹ کوبندکردیں، نیز آنکھوں کی حفاظت کے لئے اسکرین گارڈ کی سہولت بھی موجود ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی کرناہوگاکہ ہم تعلیم کے لئے ایک وقت متعین کریں، اس متعینہ وقت ہی میں موبائل یالیپ ٹاپ استعمال کرنے کی اجازت بچوں کودیں، ان چیزوں کے علاوہ اورجواموران کی حفاظت کے لئے ہوسکتے ہوں، وہ سب اختیارکرتے ہوئے آن لائن تعلیم کی اجازت دی جاسکتی ہے۔هذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی