دعوائے محبت اورھماراطرزِعمل احادیث نبویہ کی روشنی میں (قسط:۲ آخری قسط)

دعوائے محبت اورھماراطرزِعمل  احادیث نبویہ کی روشنی میں  (قسط:۲ آخری قسط)

دعوائے محبت اورھماراطرزِعمل

احادیث نبویہ کی روشنی میں

(قسط:۲ آخری قسط)

زمین پرغاصبانہ قبضہ

  محبوبِ خداﷺ نے فرمایا:

من ظلم قید شبرمن الأرض، طوقه من سبع أرضین۔ (بخاری، باب اثم من ظلم شیئاًمن الأرض، حدیث نمبر: ۲۴۵۳)

 جس نے کسی کی بالشت بھرزمین ہڑپ کرلی، (قیامت کے دن) ساتوں زمین کاطوق اسے پہنایاجائے گا۔ 

ہماری سوسائٹی اورسماج کاکیاحال ہے؟ بھائی بھائی کی زمین دبائے بیٹھاہے، پڑوسی پڑوسی کی زمین پرقابض ہے اوربعض لوگ توایسے جری ہیں کہ مساجد کی زمینوں پربھی ان کاغاصبانہ قبضہ ہے، اس میں شاندار کوٹھیاں تعمیر ہورہی ہیں، کرایوں پر دینے کے لئے عظیم الشان اپارٹ منٹ تیارکئے جارہے ہیں؛ لیکن ان ظالموں کوکون بتائے کہ اللہ کی پکڑ دردناک بھی ہے اورسخت بھی،{إن أخذہ ألیم شدید}(ھود: ۱۰۲)

کورٹ اورکچہریوں کابھی کبھی دورہ کیجئے اوروہاں کی فائلوں کاایک سرسری جائزہ لیجئے، معلوم ہوگاکہ بہت سارے مسلمان دس دس بیس بیس سال سے کیس لڑرہے ہیں، اورکیس کیاہے؟ یہ کہ فلاں بھائی نے اپنے ہی بھائی کی زمین اپنے نام کروا رکھی ہے، غیر کوتویہ فکرہے کہ وہ کس طرح ترقی کی منزل طے کرے، اورہماری فکریہ ہے کہ ہم کس کمزوربھائی کے حق کوماریں، غیرکے روپے پیسے ان کی اولاد کی اعلیٰ تعلیم پرخرچ ہوتے ہیں؛ لیکن ہمرے روپے پیسے اپنی ہی زمینوں کو اپنے نام رجسٹرڈ کرانے میں خرچ ہوتے ہیں، کاش! ہم ذرابھی غورکرلیں!!!

حقارت کی نظرسے دوسروں کودیکھنا

حضوراکرمﷺکاارشادہے: 

بحسب امرء من الشرأن یحقرأخاہ المسلم۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۶۴)

کسی آدمی کے براہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھی کوحقارت کی نظرسے دیکھے۔

  ایک بارپھرغورسے پڑھئے، کیاہمارامعاشرہ اسی برہمنیت میں نہیں جکڑاہوا نظرآتا، جس سے اسلام نے روکاہے؟ کیا ہمارے معاشرہ میں بعض طبقوں کو’’شودر‘‘کادرجہ نہیں دے دیا گیاہے؟ بالاخانوں میں رہنے والے جھونپڑوں میں رہنے والوں کوکس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز‘‘کی رٹ لگانے والے کمترپیشہ والوں حقارت کی نظرسے نہیں دیکھتے؟

یتیم کی پرورش کرنے والا

محسن انسانیتﷺنے فرماتے ہیں:

 أناوکافل الیتیم فی الجنة هکذا، وأشار بالسبابة والوسطیٰ ، وفرج بینهما۔ (بخاری، حدیث نمبر:۴۹۹۸)

میں اوریتیم کی پرورش کرنے والاجنت میں اس طرح رہیں گے، جس طرح شہادت اوربیچ کی انگلی ہے‘‘( یعنی جتناکم فاصلہ انک درمیان ہے، اتناہی فاصلہ میرے اوریتیم کی پرورش کرنے والے کے درمیان ہوگی)۔

ہم کتنے لوگ ہیں، جویتیموں کی پرورش میں دلچسپی لیتے ہیں؟ مال ومتاع سے ان کا تعاون تودورکی بات ہے، ہم سیدھے منھ ان سے بات تک کرناگوارانہیں کرتے، ہمیں اس کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ تسلی کے دوبول ان کے سامنے کہہ دیں؛ بل کہ الٹاان کے اموال ہم ہڑپ کرنے میں جُٹ جاتے ہیں؛ حالاں کہ قرآن ہمیں حکم دیتاہے:لاتأکلواأموال الیتامیٰ(القرآن) ’’یتیموں کے اموال نہ کھاؤ‘‘؛لیکن ہم تواپنے خواہش کے غلام ہیں، فرمانِ خداپرکان کیوں دھرنے لگیں؟

بیوہ اورمسکین کی خبرگیری کرنے والا

نبی کریمﷺ کاارشادہے: 

الساعی علی الأرملة والمسکین کالمجاهدفی سبیل الله۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:5353)

بیوہ اورمسکین کی خبرگیری کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔

ہمارا شیوہ اس سلسلہ میں کیاہے؟ کیاہم بیواؤں کی ذرابھی مددکرتے ہیں؟کیاکسی مسکین پرترحم آمیز نگاہ بھی ڈالتے ہیں؟کیاہمارے ماحول میں ایسے واقعات پیش نہیں آتے، جہاں بیوا اورمسکین کولات مارکر گھرسے نکال نہیں دیاجاتا؟موقع پرست بن کرکیاہم ان کا استحصال نہیں کرتے؟

سب سے براکھانا

نبی رحمتﷺکا فرمان ہے:

 بئس الطعام، طعام الولیمة، یدعی إلیهاالأغنیاء، ویترک الفقراء۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:1432)

سب سے براکھانااس ولیمہ کاکھاناہے، جس میں صرف مالداروں کوبلایاجاتاہے اورفقراءکوچھوڑدیاجاتاہے۔

  اپنی شادیوں کاہم جائزہ لیں، حضورﷺکافرمان ہماری دعوتوں پرکتناصادق آتاہے؟ کیاایسے موقعوں پرہم آس پڑوس کے محتاجوں اورغریبوں کونظرانداز نہیں کردیتے ہیں؟ پھر بتایئے! جس کھانے کوحضورﷺبراکہیں، اس میں برکت کا نزول کہاں سے ہوسکتا ہے؟ جودعوت حضورﷺکی نظرمیں ناپسندہو، اس دعوت سے ہم خوشیاں بٹورناچاہیں، یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے؟ خاندانوں کے بکھرنے اوررشتوں کے ٹوٹنے کا ایک سبب یقیناً یہ بھی ہے۔

پڑوسیوں کاخیال

رسول رحمتﷺحضرت ابوذرؓکومخاطب کرکے فرماتے ہیں:

 یااباذر! إذاطبخت مرقة، فأکثرماء ہا، وتعاهد جیرانک۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2625)

اے ابوذر! جب تم شورباتیارکروتواس میں پانی زیادہ ڈالو اور اپنے پڑوسیوں کاخیال رکھو۔

ہم اپنے گھروں میں قسم قسم کی ڈشیں تیارکرتے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک آئٹم بناتے ہیں؛ لیکن کیا کبھی ہمیں یہ توفیق ہوتی ہے کہ ہم اپنے پڑوس کے گھرایک پیالی ہی سہی بھیجدیں؟ حضورﷺتویہ فرمارہے ہیں کہ پانی زیادہ ڈال کرپڑوسی کا خیال رکھواورہماری کنجوسی کی حد یہ ہے کہ خالص گھی سے پکی ہوئی ڈش کی خوشبوبھی پڑوس تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک طرف محبت رسول کایہ دعوی اوردوسری طرف اس کے فرمان کے ساتھ یہ عمل!

صلہ رحمی کےفوائد

ہادیٔ عالم ﷺ یوں گویاہیں:

من أحب أن یبسط له فی رزقه، ینسأ له فی أثرہ، فلیصل رحمه۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:5986)

’’جس کی خواہش اپنے رزق میں فراخی اوراپنی عمرمیں درازی کی ہو، اسے چاہئے کہ رشتوں کوجوڑے‘‘۔

ہم میں کون شخص رزق میں فراخی اورعمرمیں درازی نہیں چاہتا؟ آج کی اس مادہ پرست دنیامیں خداورسول سے کٹ کر،اہل وعیال سے ہٹ کراوررشتوں کوتوڑکررزق کی فراخی اوروسعت کے لئے ہی تودن ورات’’کولہوکے بیل‘‘ کی طرح مختلف کاموں میں جُتے ہوئے ہیں؛ لیکن پھربھی زبان پر یہی شکوہ کہ’’پیسے نہیں ہیں‘‘، اتنی دردسری کے بعد بھی رزق میں برکت کیوں نہیں ہے؟اس کے جواب کے لئے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان پرہماراعمل ہے؟ کتنے رشتہ داروں کے ساتھ ہم رشتہ داریاں نباہ رہے ہیں؟ ہماری بہنوں کے ساتھ چپقلش، پھوپھیوں کے ساتھ جھگڑا، ماموؤں کے ساتھ لرائی، خالاؤں کے ساتھ رنجش، چچاؤں کے ساتھ بیر، بھائیوں اوربھتیجوں کے ساتھ اَن بَنْ، پھرکیوں کرہم ہنسی خوشی کی زندگی بسرکرسکتے ہیں؟ ہمارے گھربرکت کیسے آسکتی ہے؟

وہ ملعون ہے

رہبرِ انسانیت ﷺ کا ارشاد ہے:

 ملعون من ضار مؤمناً، أومکر به۔ (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۹۴۱)

’’جوکسی مؤمن کونقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے، وہ ملعون ہے‘‘

کیاکسی مسلمان کاترقی کرناہمیں پھوٹی آنکھ بھاتاہے؟ کیا ہماراوطیرہ یہ نہیں ہوگیاہے کہ آگے بڑھنے والے کی ٹانگ پیچھے سے پکڑ کرکھینچ لیتے ہیں؟ کیاہم یہی سوچتے نہیں رہتے ہیں کہ کس طرح اپنے بھائی کو نقصان پہنچائیں؟اگرایک بھا ئی نے کسی جگہ کرانے کی دوکان کھول رکھی ہے توہم بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ اسی کے بازومیں ایک اورکرانے کی دوکان کھول لیں، اگرایک بھائی الیکشن میں کھڑاہواہے توہم اس کی مددکرنے کے بجائے اس کے مخالف گروپ میں شامل ہوکر اس کا ووٹ کاٹ دیتے ہیں، اوراب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھائی کونقصان پہنچانے اوربلاضرورت ستانے کے لئے ہم جادوٹونے بھی کرتے رہتے ہیں ، بھلا بتایئے کہ جس شخص پر حضورﷺ کی لعنت ہو، وہ کسی بھی شعبے میں ترقی کیسے کرسکے گا؟ آج پوری دنیاترقی کے خواب دیکھ رہی ہے اورہم دوسروں کونقصان پہنچانے چکرمیں خودبھی ترقی سے محرومی زندگی بسرکرنے پر مجبورہیں۔

دوستی کس کے ساتھ

سرورِکائنات ﷺکا فرمان ہے:

لاتصاحب إلامؤمناً، ولایأکل طعامک إلاتقی۔(سنن أبی داود، حدیث نمبر:4834)

’’مصاحبت صرف مومن ہی کااختیارکرواورتمہاراکھاناصرف پرہیزگارہی کھائیں‘‘۔

ہم اپناجائزہ لیں کہ ہماری چلت پھرت، ہمارا اُٹھنابیٹھنا اور ہماری دوستی یاری کس کے ساتھ ہے؟ مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہم غیروں کی صحبت اختیارکرتے ہیں، ہم اس شخص کے ساتھ مصافحہ کرنے سے بھی کتراتے ہیں، جوہمیں دین کی باتیں بتانا چاہتاہے؛ بل کہ ہم ایسے شخص پر’’رجعت پسندی‘‘ کاالزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے، یہی حال ہماری دعوتوں کابھی ہے، یہ مختلف قسم کی غیراسلامی رسومات سے بھری ہوتی ہیں، گانے بجائے جاتے ہیں، رقص وسرود کی محفلیں جمائی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ ایسی دعوتوں میں دیندارشخص جانے سے رہا،نتیجۃًبے دین لوگوں ہی شرکت متوقع ہوتی ہے، اورجہاں پربے دینی ہی بے دینی پائی جائے گی، وہاں برکت کانزول کیسے ہوسکتاہے؟ اوربے برکت کھانے سے بننے والے جسموں غیرت وحمیت کہاں سے آسکتی ہے؟

آدمی کا حشر

پیارے رسولﷺکاارشاد ہے:

المرأ مع من أحب۔ (صحیح البخاری، حدیث نمبر:6168)

’’آدمی کا حشر اُسی کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبت کرتا ہے‘‘۔

ذرا رُک کر اس حدیث کو دوبارہ پڑھئے، کیاہم ایسے شخص سے محبت کرتے ہیں، جونیک اورصالح ہو؛ تاکہ ہمارا حشر اُنھیں کے ساتھ ہو؟کیاہمارے دل میں رسولﷺکی محبت کا ایک ذرہ بھی ہے کہ قیامت کے دن ہم ان کے ساتھ رہ سکیں گے؟ کیاصحابہ سے ہم محبت کرتے ہیں کہ کم از کم ان کے غلاموں کی طرح بھی ہم ان کے دامن کو کوپکڑکرجنت کے راستے میں چل سکیں گے؟ ہماری محبت توپیسوں کے عوض بکتی رہتی ہے، جونوٹوں کی گڈی ہماری طرف اچھال دے، ہم اس کی محبت کادم بھرنے لگتے ہیں، ہماری محبت توطاقت کی پجاری ہے،جوجتناطاقت ورہوگا، ہماری محبت اس کے ساتھ اتنی زیادہ ہوگی، ہماری محبت سماج کے ظالم اورجابرشخص سے ہوتی ہے؛ تاکہ اس کے ظلم سے بچنے کے لئے دوسروں کی پیٹھ پراس کی گرنے والی لاٹھیوں کی داددے سکیں، ہم پسندیدگی کی نگاہ سے ان لوگوں کودیکھتے ہیں، جوعریانیت اورفحاشیت کوعام کرکے معاشرہ کوجنس زدہ بناچکے ہیں اوردلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے ہی لوگ زندگی کے تمام شعبوں میں ہمارے لئے نمونہ(Ideal)ہیں، رہنے سہنے، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اوربولنے چالنے میں اُنھیں کے طریقہ اورانداز کواپناتے ہیں۔

اب غورکیاجائے کہ ہماراحشرقیامت کے دن کن لوگوں کے ساتھ ہوگا؟ظاہرہے کہ دھان بوکرگیہوں نہیں اُگیاجاسکتا، پھر ہماراحشرنیک اورصالح لوگوں کے ساتھ کیسے ہوسکتاہے؟

چغلخور

رسول اکرمﷺفرماتے ہیں:

لایدخل الجنة قتات۔(ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۸۷۱)

’’چغلخورجنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘۔

کیاہمارے پورے معاشرے میں ایک بھی شخص دعوی کرسکتاہے کہ اس نے آج تک کسی کی چغلخوری نہیں کی؟ہم دوچار جہاں بھی مل بیٹھتے ہیں، کوئی نہ کوئی ہماری ’’زبانِ بد‘‘کی زد میں آہی جاتاہے اوریہ مسئلہ بے پڑھے لوگوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے؛ بل کہ پڑھے لکھے لوگوں کی دلچسپی (Interest) توکچھ زیادہ ہی اس میں پائی جاتی ہے، اورخواتین تودوسروں سے چار قدم آگے رہتی ہیں، ان کااجتماع ہی اس لئے ہوتاہے کہ محلہ بھرکے لوگوں کی’’اندرون‘‘کی جان کاری ایک دوسرے تک پہنچاسکیں، اتفاقاً کبھی کسی وجہ سے اجتماع نہ ہوسکاتورات بھرپیٹ میں مروڑاورنیندتوآنکھوں سے کوسوں دورجاتی رہتی ہے، بھلا بتایاجائے کہ ہم کون سامنھ لے کرجنت میں جائیں گے؟ 

دومنھ والا

حضورﷺ کا ارشاد ہے:

من کان له وجهان فی الدنیا، کان له یوم القیامة لسانان من نار۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۸۷۳)

’’دنیا میں جودورُخا ہوگا، قیامت کے دن اس کے لئے آگ کی دوزبانیں ہوں گی‘‘۔

ذرااپنے ماحول کاجائزہ لیجئے! ہم میں کتنے لوگ ایسے ہیں، جودوغلے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ بھائی بھائی کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرکے پھوٹ ڈالناہماراوطیرہ بن چکاہے۔ 

دوسرے کی مشابہت

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

من تشبه بقوم فهو منهم۔(ابوداؤد، حدیث نمبر: ۴۰۳۱)

’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے ، وہ اسی میں سے ہے‘‘۔

  قوم کے مستقبل کہلانے والے نوجوان نسل کو دیکھئے! کلائیوں میں لال دھاگے باندھے ہوئے نظرآتے ہیں، یہ کس کا شعار ہے؟ ہندوانہ رسم ہے، Heir Cuttingکولیجئے، ہر ایک کے سر پر ایک الگ اور انوکھااسٹائل نظرآتاہے،کوئی ’دھونی کٹ‘ میں ہے تو کوئی’ تیرے نا م‘ کے نقش قدم پر، اور اب تو کچھ لوگ عورتوں کی طرح Pony Tailبھی رکھنے لگے ہیں 

؎   آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا

یہ ہے آج کل ہماری حالت! اب ذرادل کے روزن کووا کیجئے، اور اعتدال وتوازن کے ساتھ غور کرکے بتایئے، کیا ہمارا محبت رسول کادعویٰ کھوکھلا نہیں ہے؟ ’’تمہارے نام کی رٹ ہے ، خداکے نام کے بعد‘‘ کی راگ الاپ نے والے کتنے سچے ہیں؟ عشق ِرسول کی دہائی دینے والے والوں کا عشق کیاجھوٹانہیں ہے؟ اگر یہی عشق ہے، اگر یہی محبت ہے تو سوبارایسے عشق ومحبت کوسلام!!!  

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی