دعوائے محبت اورھماراطرزِعمل ۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں (قسط:۱)

دعوائے محبت اورھماراطرزِعمل ۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں  (قسط:۱)

دعوائے محبت اورھماراطرزِعمل

احادیث نبویہ کی روشنی میں

(قسط:۱)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

محبوب ومحب کے درمیان جو باہمی ارتباط، میل جول اور شناسائی کی کیفیت ہوتی ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں، ناز وانداز وہ اپنایاجاتاہے، جومحبوب کے دل کو بھائے، رفتار وگفتار وہ اختیار کیاجاتاہے، جومحبوب کوپسندہو، انتخاب ِ پوشاک میں بھی پوری پوری اس کی رعایت کی جاتی ہے، گویاہرکام میںاس کی جنبش ِمژگاں کواول کادرجہ دیاجاتاہے، خدانخواستہ محبوب اگرروٹھ جائے تومنانے کی وہ تمام تدبیریں کرلی جاتی ہیں، جوماں باپ کی ناراضگی پربھی کبھی اپنائی نہیں جاتیں۔

دنیاوی محبوب کے جمال ِ دلنشیں پرمہ وآفتاب کی قربانی دی جاتی ہے، روئے یاسمین کے لئے ستاروں سے سجدے کرائے جاتے ہیں، پائے نازنیں پرگل بوٹے نچھاور کئے جاتے ہیں؛ لیکن کیا اس محبوب پر بھی غورکیا ، جس نے ظلمت کدۂ کفر سے نکال کر نورِایمان کی ضیاپاش کرنیں ہمیں عطاکیں؟آتش کدۂ گمرہی سے بچاکر اسلام کے سرسبز وشاداب گلستاں میں ٹھہرایا؟آذرکدۂ وثنیت سے نکال کر توحیدکامہرِتاباں عطاکیا؟جس نے ظلم وستم کوعدل ومساوات سے، جوروجفا کو امن وآشتی سے،ظالموں کے پنجہ سے مظلوموں کو چھڑانے والے،بے کسوں اوربے بسوں کوسہارادینے والے،یتیموں کے سروں پر دست شفقت رکھنے والے، بیوائوں کی مددکرنے والے،بیماروں کی مزاج پرسی کرنے والے،رنجور وشکستہ دل لوگوں کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کرنے والے محبوب؛ بل کہ محبوبوں سے بڑھ کر محبوب، لخت ِجگر اور نورنظر سے زیادہ پیارا بھی کوئی ہوسکتاہے؟؟نہیں! نہیں!

لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیه من والدہ، وولدہ، والناس أجمعین۔(بخاری، باب حب الرسول من الایمان، حدیث نمبر: ۱۵)

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے لڑکے، اس کے والد اور تمام لوگوںسے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

فیصلہ کیجئے!کیا ہم رسالت مآبﷺکی محبت کادم بھرتے ہیں؟ محبوب ِخدا ﷺ کے عشق کے ترانے گاتے ہیں؟ ان کی الفت کے قصیدے پڑھتے ہیں؟ اگر ہاں! توکیاہم نے ایسارفتاروگفتار بھی اختیار کیا، جوانھیں پسند ہو؟ ایسانازوانداز بھی اپنایا، جو ان کے دل کوبھائے؟ ایسے اعمال بھی کئے، جن سے وہ خوش ہوں؟ ایساکردار بھی اداکیا، جس سے روئے مبارک چمک اٹھے؟ عاشق تو معشوق کی گلی کے کتے کوبھی پیار بھری نظروں سے دیکھتاہے؛ بل کہ پیار کا بوسہ بھی ثبت کردیتاہے،ہم نے اپنے محبوب ﷺ کے طریقہ پرکتناعمل کیا؟ان کے بتائے ہوئے راستہ پر کہاں تک چلے؟ ان کے افعال واقوال کی کہاں تک قدر کی؟

آنکھوں کی ٹھنڈک

ہمارے محبوبﷺ  کافرمان ہے:

 قرۃ عینی فی الصلوٰۃ۔(نسائی، کتاب عشرۃ النساء، حدیث نمبر: ۳۳۹۱)

میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

  ہماری مسجدیں شاندار، سنگ ِمرمرکاچمکتاہوافرش،وسیع وعریض،اعلیٰ قسم کی قالین،شان وشوکت میں یکتا؛لیکن نمازیوں کی تعداد کتنی ہے؟ 

داڑھیاں بڑھاؤ

ہمارے محبوب ﷺ کا حکم ہے: 

قصوا الشوارب وأعفوا اللحیٰ۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۷۱۳۲)

مونچھیں کٹائو، داڑھیاں بڑھائو ۔

 محبت کے کتنے دم بھرنے والے داڑھیوں میں نظرآتے ہیں؟حالاں کہ داڑھی رکھنے کو علماء نے واجب قرار دیاہے،

 نظررحمت سے محروم لوگ

ہمارے محبوب ﷺ کا ارشاد ہے:

 ثلاثة لایکلمھم الله یوم القیامة، ولایزکیهم، ولهم عذاب ألیم، المنان، والمسبل ازارہ، والمنفق سلعته بالحلف الکاذب۔ (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۲۱۱)

تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی طرف نہ تو نظررحمت فرمائے گااور نہ ہی ان کاتزکیہ کرے گا، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے،ایک احسان جتانے والا، دوسرا ٹخنے سے نیچے ازار لٹکانے والا، تیسرا جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا۔

کتنے عشق ِرسول کے ترانے گانے والے محتاجوں کی مدد بے لوث ہوکرتے ہیں اور موقع ملنے پر احسان جتانے سے نہیں چوکتے؟کتنے لوگ ہیں، جو اپناازار ٹحنے سے اوپررکھتے ہیں؟ پوری مسلم برادری پر نظر دوڑایئے! ایک بڑی تعداد ایسی ملے گی، جن کا ازار ٹخنے کے نیچے رہتاہے، بہت ہوگیاتونمام کے وقت ٹخنے سے ذرا وپر اٹھالیا؛حالاں کہ فقہاء کی تصریح کے مطابق ازار ٹخنے سے نیچے لٹکانا حرام ہے۔( عارضۃ الأحوذی: ۷/۱۷۴)

پڑوسیوں کاتکلیف دینا

محبوب ِ خدا ﷺ نے فرمایا: 

من کان یؤمن بالله والیوم الاٰخر ، فلایؤذ جارہ۔(بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۱۸)

جو شخص خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔

  ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیجئے! کتنے لوگ اس فرمان عمل پیرا ہیں؟ ٹی وی تیز آواز میں چلاکر اور ریڈیوو ڈیگ فل ساؤنڈ میں بجاکردودوتین تین بجے رات تک پڑوسیوں کوپریشان کرنا ہماری Hobbyہوچکی ہے۔

اسلام کی اچھائی

سرکار ِدوعالمﷺکا قول ہے: 

مِن حسن اسلام المرأ ترکه مالایعنیه۔(ترمذی، حدیث نمبر: ۲۳۱۷)

آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے یہ ہے کہ وہ لایعنی باتوں کو ترک کردے۔

ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے جھوٹ بولنا ہمارہ شیوہ ہوچکاہے، لاف وگزاف، ہرزہ سرائی اور بیہودہ گوئی میں کتناوقت بربادکرتے ہیں؟ چانڈو خانوں، گلیوں کے نکڑوں اور پارکوں میں جاکردیکھئے، خوش گپیوں میں کتنے لوگ نظر آئیں گے؟ 

دو نعمتیں

نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

 نعمتان مغبون فیهما کثیر من الناس، الصحة والفراغ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، حدیث نمبر: ۶۴۱۲)

 دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں لوگ کثرت سے دھوکہ میں ہیں، ایک تندرستی، دوسری فارغ البالی۔

معاشرہ کاجائزہ لیجئے! کتنے لوگ ان دو نعمتوں کے قدر داں ملیں گے؟’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ کامصرع پڑھ اور بول ضرور لیتے ہیں؛ لیکن صحت کو باقی رکھنے کی کتنی تدبیروں پرعمل پیراہیں؟ ہماری نوجوان نسل کا کیاپوچھنا؟ رات ٹیلی ویژن اورانٹر نٹ پر بیٹھ کردودو تین تین بجادیتے ہیں،پھرآنکھ اس وقت کھلتی ہے، جب شاہ خاور ایک تہائی حصہ طے کرچکتاہے؛حالاں کہ صبح کی ہوا خوری صحت کے لئے بہت ہی زیادہ مفید ہے، اسی کے ساتھ ساتھ مخرب اخلاق لٹریچر پڑھ کر اور عریاں وفحش تصاویر دیکھ کر چند سیکنڈ کی لطف اندوزی کی خاطر اپنی اچھی خاصی توانائی اورقوت کوضائع کردیتے ہیں؛ حالاں کہ پیارے حبیب ﷺ نے ایسے شخص کو ملعون قراردیاہے:ناکح الید ملعون۔ (کشف الخفاء: ۲/۳۲۵)،اسی طرح سگریٹ، بیڑی اورگٹکھے کا استعمال کرنے والے لوگ ہیں، جویہ جاننے کے باوجود کہ ان اشیاء سے کینسربھی ہوسکتاہے؛ لیکن پھربھی لطف اندوزی کی خاطر صحت کوبرباد کئے جاتے ہیں۔

  ایسی ہی قدردانی فارغ البالی کے ساتھ ہے، ہر شخص کے دماغ میں یہی رچ بس گیا ہے کہ ارے ! ابھی عمر ہی کیا ہوئی ہے؟ ابھی توکھانے پینے اور کھیلنے کودنے کے دن ہیں، در اصل یہ ایک شیطانی سوچ ہے اورشیطان تو انسان کاکھلاہوا دشمن ہے،تاریخ کاتھوڑاہی سہی مطالعہ کیجئے! عروج واقبال کی جتنی داستانیں اورفتح وانقلاب کی جتنی تاریخیں ہیں، سب کے پیچھے نوجوان ہی کا ہاتھ نظر آتاہے،اسی لئے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے:

 المومن القوی خیروأحب الی الله من المؤمن الضعیف۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۸۱۶)

طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے اوراللہ کے نزدیک محبوب ہے۔

منافق کی نشانیاں

پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے : 

آیة المنافق ثلاث، اذا حدث کذب ، واذا وعد أخلف، واذاائتمن خان۔(مسلم، باب خصال المنافق، حدیث نمبر: ۲۱۱)

منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے توجھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تووعدہ خلافی کرے، جب امانت کے طور پر کوئی چیز اس کے پاس رکھی جائے توخیانت کرے۔

محبت رسول کے کتنے دم بھرنے والے ایسے ملیں گے، جوبات بے بات جھوٹ نہیں بولتے؟ اور اب توجھوٹ بولنا ایک فیشن بن چکا ہے، پوری دنیاجھوٹ بولنے پر اتفاق کرچکی ہے اور خاص اس کے لئے ایک دن ’’اپریل فول ‘‘ کے نام سے متعین کردیاگیاہے،ہم بھی جوش وخروش کے ساتھ جھوٹ بولنے کی اس دعوت میں شریک ہوتے ہیں؛ حالاں کہ یہ دن ہماری اہانت، ذلت اور رسوائی کے یاد کے طورپر منایاجاتاہے۔

اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں! کتنے ایسے ملیں گے، جووعدہ کرنے بعد نباہتے بھی ہیں؟ ہم نے ’وعدہ‘ کو ٹرخانے اورٹال مٹول کاایک ذریعہ بنالیاہے؛ حالاں کہ قرآن ہمیں حکم دیتاہے: یاأیهاالذین آمنوا أوفوابالعقود۔(المائدہ: ۱)’’ائے ایمان والو! وعدوں کوپورا کرو‘‘،اسی طرح امانت میں خیانت کرنا بھی ہمارے معمولات میں شامل ہوچکاہے، خاص طور سرکاری ملازمین بری طرح سے اس میں ملوث ہیں۔

حقیقی مسلمان کی علامت

حضور اکرمﷺکاارشادگرامی ہے: 

المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔(مسلم، حدیث نمبر: ۱۶۲) 

(حقیقی) مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

ہمارے سبّ وشتم اوردُشنام طرازیوں سے کتنے مسلمان محفوظ ہیں؟ ہمارے کتنے بھائی ایسے ہیں، جن کے دل ہماری زبان کی قینچی سے کترنہیں گئے؟ معمولی معمولی بات پر میدان ِ کارزار وجود میں آجاتاہے، بھائی بھائی، چچابھتیجا؛ حتی کہ باپ بیٹاکے درمیان بھی ہاتھاپائی کی نوبت آجاتی ہے؛حالاں کہ رسول اللہﷺکاارشاد ہے:سباب المؤمن فسوق، وقتاله کفر۔(مسلم، حدیث نمبر: ۲۲۱)’’ مومن کوگالی دینافسق اور اس سے لڑائی جھگڑاکرنا کفرہے، اب خود فیصلہ کیجئے! ہمیں کونسا راستہ اختیار کرناہے، فسق اور کفر کاراستہ یا ایک مومن کا راستہ؟!

(جاری ۰۰۰۰۰)

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی