آخری پیغمبرﷺ (قسط:۵)(غزوۂ ذات الرقاع تا صلح حدیبیہ)

آخری پیغمبرﷺ (قسط:۵)(غزوۂ ذات الرقاع تا صلح حدیبیہ)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۵)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

عزوۂ ذات الرِّقاع

بنونضیرکی جلاوطنی کے بعدکچھ ماہ ماحول پرسکون رہا، پھرجمادی الاولیٰ کے ابتدائی دنوں میں آںحضرتﷺکویہ اطلاع ملی کہ بنومحارب اوربنوثعلبہ جنگ کے لئے تیاری کررہے ہیں، آں حضرتﷺچارسوصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ نجدکی طرف روانہ ہوئے؛ لیکن آپ ﷺکی آمدسن کر وہ پہاڑوں میں بھاگ گئے، اس غزوہ کو ’’عزوۂ ذات الرقاع‘‘کہاجاتاہے، رِقاع چیتھڑوں کوکہاجاتاہے، چلتے چلتے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پیر زخمی ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے پیروں پرچیتھڑے باندھے، اسی وجہ سے اس غزوہ کو’’عزوۂ ذات الرقاع‘‘ یعنی چیتھڑوں والاغزوہ کہا جاتاہے۔

بنومصطلق کے ساتھ جنگ

قبیلۂ خزاعہ کاایک خاندان بنوالمصطلق کہلاتاتھا، یہ خاندان مدینہ سے نومنزل دورمقام ’’مُرَیسِیع‘‘ میں آبادتھا؛چوں کہ یہ پوراقبیلہ قریش کاحلیف اوردوست تھا؛ اس لئے بنوالمصطلق کے سردارحارث بن ابی ضرارنے قریش کااشارہ پاکرمدینہ پرچڑھائی کرنے کی تیاریاں شروع کیں، آں حضرت ﷺ کو جب اس کی خبرپہنچی تومزیدتحقیق کے لئے حضرت زیدبن خصیبؓ کوروانہ کیا، انھوں نے آکرخبرکی تصدیق کی، آپﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوتیاری کا حکم فرمایا اور تیز رفتاری کے ساتھ چل کراچانک ان پرحملہ دیا، جس کی وہ تاب نہ لاسکے، دس آدمی مارے گئے، باقی سب گرفتار ہوئے، گرفتارہونے والوں میں سردارحارث کی بیٹی جویریہ بھی تھیں، اس نے آپﷺسے آکرکہاکہ میری بیٹی کنیز نہیں بن سکتی، اسے آزادکردیں، آپﷺنے فرمایا: کیایہ بہترنہ ہوگاکہ اس معاملہ کواس کی مرضی پرچھوڑدیاجائے؟ حضرت جویریہؓ نے آپﷺکے ساتھ رہنا پسند فرمایا؛ چنانچہ آں حضرتﷺ نے ان سے شادی کرلی۔

غزوۂ خندق

سن پانچ ہجری کا واقعہ ہے، مخبر نے اطلاع دی ہے کہ کفارِ عرب کی ایک بڑی تعداد (دس ہزار) مدینہ پر یورش کرنے والی ہے، جس کے سامنے مسلمانوں کی معمولی جمعیت (تین ہزار) خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی، چہرۂ نبوت پر فطرتِ انسانی کی فکر مندی ہویداہوئی، ہم نشینانِ دین کو مشورے کے لئے طلب کیااور{وشاورہم فی الأمر}کی کامل تفسیربن گئے، حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے مستحکم ٹھہری اورمدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کی مہم شروع ہوئی، دس دس ہم نشینوں کے ذمہ دس دس گزکی کھدائی سپرد ہوئی، جس میں خود آقاﷺکابھی عملی حصہ تھا، جذبۂ ایمانی اورجوشِ مسلمانی کے ساتھ خندق کھدائی کے اس مہم میں ہرہم نشین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاتھااورتعب ناآشنائی کے اظہار کے لئے سب ہم آواز ہوکریہ بھی گا رہے تھے:

نحن الذین بایعوا محمد اً

علی الجہاد مابقینا ابد اً

(ہم وہ ہیں، جنھوں نے محمدﷺکے ہاتھوں پر مرتے دم تک جہادکرنے پربیعت کی ہے)

خود آپﷺبھی رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے اورحوصلہ افزائی کے لئے ہم نشینانِ اسلام کے رجز کے جواب میں فرمارہے تھے:

اللہم لاعیش إلا عیش الأخرۃ

فارحم الأنصار والمہاجـرۃ

(اے اللہ! زندگی توبس آخرت کی زندگی ہے، پرودگار! انصار ومہاجرین پر رحم فرما)

خندق کھدائی کے اس مہم کے دوران جاں نثارانِ اسلام کو صبر وشکیبائی کے سخت امتحان سے گزرناپڑا، ایک جانب مدینہ کے جاڑے کی راتیں تھیں اوردوسری جانب تین تین دن کا فاقہ؛لیکن ان سرد راتوں اورتین تین دنوں کی فاقہ کشی کی حیثیت سرفروشانِ اسلام کے’’جذبۂ ایمانی‘‘اور’’جوشِ مسلمانی‘‘کے سامنے سریرِ مرگ پر پڑی ہوئی بوڑھی مریضہ سے زیادہ نہ تھی؛ چنانچہ ساڑھے سات ہزارفٹ کی طویل خندق (جس کی گہرائی ساڑھے دس فٹ اورچوڑائی ساڑھے تیرہ فٹ تھی)،(حضرت موسیؓ بن عقبہ کے قول کے مطابق)کی کھدائی کا کام بیس دنوں میں(اورعلامہ سہمودیؒ کی رائے کے مطابق چھ دنوں میں) پایہ تکمیل کوپہنچی۔

کھدائی کے اس مہم کے دوران جاں نثارانِ اسلام اورآقائے نامدارﷺنے بھوک کی شدت کودبائے رکھنے اورپیٹ کی آگ کوٹھنڈ ی رکھنے کے لئے اپنے اپنے پیٹ پرپتھر باندھ لئے تھے؛لیکن تابکے؟ جب آتشِ بھوک کسی طرح سرد نہ ہوئی اوربرداشت وتحمل کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو (بعض) صحابہ آپ ﷺکی خدمت میں شکوہ کناں ہوئے اورپیٹ سے کپڑے ہٹاکر بندھے ہوئے پتھر دکھائے، آپﷺنے ان کی حالت دیکھ کران کی تسلی کے لئے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹاکر دکھایا، آپﷺکے پیٹ پردوپتھربندھے ہوئے تھے، آپﷺکی یہ حالت دیکھ کر صحابہ کی زبانیں گنگ ہوگئیں اورنگاہیں احساسِ شرمندگی سے خم کہ ہمارے پیٹ پر توصرف ایک پتھر ہے؛لیکن سرکارِ دوعالمﷺکے پیٹ پر دودوپتھرہیں، یقیناً آپﷺکی فاقہ کشی کے سامنے ہماری فاقہ کشی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

خندق کی کھدائی کاکام فاقہ کشی کے ساتھ ساتھ جاری تھاکہ ایک روز حضرت جابر ؓنے آپﷺکی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا: یارسول اللہ! تھوڑاساآٹا اوربکری کا ایک بچہ گھرپر ہے، آپ ایک دولوگوں کے ساتھ تشریف لا کرتناول فرمالیں؛لیکن آپﷺنے خندق کھودنے والوں میں عام منادی کرادی کہ (حضرت) جابرکے یہاں دعوت ہے، اور(حضرت) جابرؓسے فرمایا:میں جب تک نہ آؤں، سالن چولہے سے نے اتاراجائے اورنہ ہی آٹے کو ہاتھ لگایاجائے، حضرت جابر پریشان خاطرگھرلوٹے اورزوجۂ محترمہ سے ساری بات کہہ سنائی،زوجہ نے انھیں تسلی دی کہ جب آپﷺنے دعوت کی منادی کرائی ہے توآپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟بس آپﷺکے حکم پر عمل کیاجائے، آپﷺاپنے تمام رفقا ء کے ساتھ حضرت جابرؓ کے گھر تشریف لائے، روٹی توڑ توڑکر اس پر گوشت رکھ کر صحابہ کودیتے جاتے، دینے کے بعدتنور اور چولہے کو کپڑے سے ڈھک دیتے ،یہاں تک کہ معجزانہ طورپر تمام رفقائے خندق شکم سیرہوگئےاور گوشت اور روٹی بچ رہا توآپ نے فرمایا:تم بھی کھاؤ اور لوگوں کو ہدیہ بھی کرو کہ قحط سالی کا زمانہ ہے۔ 

مسلمان خندق کھود کر ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ کفارِقریش دس ہزار لشکرجرار لے کر دامن ِ اُحدمیں خیمہ زن ہوئے،آپﷺبھی مقابلہ آرائی کے لئے اپنے تین ہزار جاں نثاروں کے ساتھ نکل پڑے اورکوہِ سلع کے جوار میں پڑاؤکیا، چوں کہ فریقین کے مابین خندق حائل تھی؛ اس لئے رُو در رُو لڑائی کی نوبت نہیں آئی ؛البتہ بعض جگہوں پر خندق کی کم عرضی کودیکھتے ہوئے بعض شہسواران ِ کفارنے مدینے میں داخل ہونے کی کوشش کی؛ لیکن حیدرِ کرارکی’’ذوالفقار‘‘ اورصحابہ کی شمشیرِ شعلہ بار نے رجوعِ قہقریٰ(پیچھے پلٹنے) کی مہلت نہ دی، تاہم اسی طرح حملہ آور غنیم کا مدینہ کے گرد بیس پچیس دن تک محاصرہ جاری رہا،پھراللہ تعالیٰ کے نادیدہ لشکروں نے ایسی تباہی مچائی،جس کے سامنے قریش کا آہن پوش لشکربھی ٹک نہ سکا اوراس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کوفتح وکامرانی سے سرفراز فرمایا،اس موقع پر اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:الآن نغزوہم، ولایغزوننا، نحن نسیر إلیہم’’اب ہم ان پرحملہ کریں گے، وہ ہم پر حملہ آورنہ ہوسکیں گے،ہم ہی ان کے پاس جائیں گے‘‘۔

ہوا بھی یہی، یہ غزوہ مسلمانوں کے لئے دفاعی لڑائی کی آخری جنگ ثابت ہوئی، اس کے بعد مسلمانوں نے اقدامی جنگ شروع کی۔

 بنوقریظہ کاخاتمہ

آں حضرتﷺجب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تویہاں اوراس کے اطراف میں بسنے والے غیرمسلمین سے آپس میں جنگ نہ کرنے کامعاہدہ کیاتھا، اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں بنونظیرکوجلاوطن کیاگیا، بنونظیرکی جلاوطنی کے بعدمدینہ سے قریب آباد دوسرا یہودی قبیلہ بنوقریظہ سے آپ ﷺنے معادہدہ کاتجدیدکیا؛ لیکن غزوہ ٔ احزاب کے موقع سے بنو نظیر کے جلاوطن سردارحی بن اخطب نے بہلاپھسلاکر معاہدہ کی خلاف ورزی پرآمادہ کرلیا، جس کے نتیجہ میں وہ بھی اس غزوہ میں شریک ہوئے، آں حضرتﷺنے احزاب سے فراغت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحکم فرمایا کہ ابھی ہتھیارنہ اتاریں اورقریظہ کی طرف روانہ ہوں، وہ لوگ بھی جنگ کے لئے تیاربیٹھے تھے؛اس لئے اپنی عہدشکنی کی معافی تلافی نہیں کی، مسلمانوں کی فوج نے تقریباً ایک ماہ تک ان کامحاصرہ کیا، بالآخرانھوں نے یہ درخواست پیش کی کہ حضرت سعد بن معاذؓ جوفیصلہ کردیں، ہمیں منظورہے، حضرت سعدؓ نے تورات کے مطابق یہ فیصلہ فرمایاکہ لڑنے والے قتل کئے جائیں،عورتیں اوربچے قیدہوں اورمال واسباب کومال غنیمت قراردیاجائے، اس فیصلہ کی تعمیل کی گئی اوراس طرح معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والے بنوقریظہ کاخاتمہ ہوا۔

حضرت زینبؓ سے نکاح

آپﷺنے اپنے آزادکردہ غلام زیدکومتبنی(لے پالک) بنا لیاتھا،جس کاتصورزمانۂ جاہلیت میں حقیقی بیٹے کاتھا، آں حضرتﷺنے ان کے ساتھ اپنی پھوپھی زادبہن زینبؓ کانکاح کرایاتھا؛لیکن ان دونوں میں نبھ نہیں سکی اورطلاق واقع ہوگئی، اب آپﷺنے متبنیّٰ کے سلسلہ میں حقیقی بیٹے کے تصور کوختم کرنے کا ارادہ فرمایااور اس کے پیش نظرحضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا، یہ واقعہ بھی سن پانچ ہجری میں پیش آیا۔  

صلح حدیبیہ

سن چھ ہجری کی پہلی تاریخ کوحضوراکرمﷺنے اپنے چودہ سوقدسی صفات اصحاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عمرہ کی غرض سے مکہ کے لئے رخت ِسفرباندھا،مقامِ ذوالحلیفہ میں ساتھ میں لائے ہوئے ہدی کے جانوروں کوقلادہ پہناکراُن کااِشعار(کوہان کوزخمی کرکے خون نکالنا؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ حرم لے جائے جارہے ہیں)کیااورلبادۂ احرام پہنا،بسربن سفیان کوقریش کے حالات سے آگاہی کے لئے پہلے روانہ فرمایا،کاروانِ نبوت جب مقامِ عسفان میں پہنچا تو اُنھوں نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ قریش نے آپ کی آمدسن کر ایک لشکرِجرارتیارکررکھاہے اور دخولِ مکہ سے آپ کوباز رکھنے کے لئے آپس میں عہدوپیمان باندھ لیاہے،یہ خبربھی گوش گزارکی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے)ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ’’ غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں،اِس خبرکے سنتے ہی آپ ﷺنے اپناراستہ بدل لیا کہ مقصودلڑائی نہیں؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔

حدیبیہ کی سرزمین کے لئے یہ بخت بیداری کی گھڑی تھی اورقیامت تک تاریخ کے اوراق میں نسبتِ رسول کے ساتھ اُسے محفوظ رہناتھا؛اس لئے آپﷺکی سواری کے بڑھتے قدم وادی ہی میں رُک گئے،لوگوں نے(اونٹنی بیٹھ گئی، اونٹنی بیٹھ گئی)کی آواز لگانی شروع کی، آپﷺنے فرمایا:’’اونٹنی نہیں بیٹھی اورناہی اِس کی یہ عادت ہے؛بل کہ اِسے اُس ذات نے روک لیا ہے،جس نے ہاتھی کوروکاتھا‘‘،پھرآپﷺنے فرمایا: ’’اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگروہ لوگ میرے سامنے کوئی ایسی تجویز رکھیں گے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم ہوتی ہوتومیں اُسے قبول کروں گا‘‘،پھراُونٹنی کوکوچادیاتووہ چل پڑی،اب آپﷺمقامِ حدیبیہ کے ایک سِرے پر خیمہ زن ہوئے،جہاں کم مقدارپانی والے کنوئیں میں آپﷺکے ایک تیرڈالنے کی وجہ سے پانی کے جوش مارنے کا معجزہ ظاہرہوا۔ 

یہاں سے آپﷺنے خراش بن امیہ خزاعیؓ کونامہ بربنا کرقریش کے پاس اِس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ’’ہم فقط بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں، جنگ کے لئے نہیں‘‘؛لیکن قریش نے ان کے اونٹ کوذبح کرڈالااوراُن کے قتل کے بھی درپے ہوگئے۔ حضرت خراش اپنی جان بچاکر واپس آئے اورساراماجرا آپ ﷺکے روبروسنایا۔آپﷺنے حضرت عمرؓکوپیغام بربناکر بھیجناچاہا؛لیکن اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ ’’قریش مجھ سے بہت زیادہ برہم اورمیرے سخت دشمن ہیں۔ مزیدیہ کہ میرے قبیلہ کا کوئی شخص نہیں،جومجھے بچاسکے؛ اس لئے حضرت عثمانؓ کو بھیجنا زیادہ مناسب ہے کہ وہاں اُن کے اعزہ موجود ہیں(جوناگفتہ بہ حالت میں اُن کی حفاظت کریں گے)،آپﷺنے حضرت عمرؓکی یہ رائے معقول سمجھی اور حضرت عثمانؓ کو ابوسفیان (جوابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)اوررؤسائے مکہ کے پاس اپنا قاصد بناکر بھیجا،جب کہ وہاں پرموجود مسلمانوں کویہ بشارت بھی بھجوائی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرے گااوراپنے دین کوغالب فرمائے گا۔

حضرت عثمانؓ اپنے ایک عزیز ابان بن سعیدکی پناہ میں مکہ آئے اورقریش ِمکہ کوآپ اکا پیغام اوروہاں موجود مسلمانوں کوخوش خبری سنائی۔حضرت عثمانؓ کی زبانی آپﷺکا پیغام سن کراہالیانِ مکہ نے جواب دیاکہ’’اس سال تومحمد مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے، ہاں اگرتم تنہا طوافِ زیارت کی سعادت حاصل کرناچاہوتوکرسکتے ہو‘‘۔حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ’’میں تنہا کبھی اِس سعادت کوحاصل نہ کروں گا‘‘،قریش یہ جواب سن کرخاموش ہوگئے؛لیکن حضرت عثمانؓ کووہیں روک لیا۔اِدھرمسلمانوں میں یہ خبرمشہورہوگئی کہ حضرت عثمانؓ قتل کردئے گئے۔ جب قتل کی یہ خبرآپﷺکے کانوں تک پہنچی توآپ کی طبیعت میں تکدر پیدا ہوا اورآپﷺنے فرمایا: جب تک میں عثمان کابدلہ نہ لے لوں، یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔پھر وہیں ایک ببول کے درخت کے نیچے حضرت عثمانؓ کے خون کابدلہ لینے پرتمام صحابہ سے بیعت لی، جوتاریخ وسیرکی کتابوں میں’’بیعۃ الرضوان‘‘کے نام سے مشہورہے؛ لیکن بعد میں اِس خبرکے غلط ہونے کی بات معلوم ہوئی۔قریش کواِس بیعت کاحال معلوم ہواتووہ خوف زدہ ہوئے اورنامہ وپیام کا سلسلہ شروع کیا۔

مقامِ حدیبیہ میں قیام پذیری کے دوران مسلمانوں کے پرانے حلیف بنوخزاعہ (جوپہلے بھی آپﷺتک قریش کی خبریں پہنچایاکرتے تھے)کے سرداربُدیل بن ورقاء آپﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا: قریش کی ایک بھاری جمعیت مستعد کھڑی ہے، وہ آپﷺکو کعبہ میں جانے نہ دیں گے۔آپﷺنے اُن سے فرمایا:اُنھیں جاکرکہہ دو کہ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں، لڑائی ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں۔جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛اس لئے بہترہے کہ ہم سے ایک مدت تک کے لئے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں۔اگروہ اِس پر راضی نہیں توخدا کی قسم ! میں اُس وقت تک لڑتارہوں گا، جب تک میراسرتن سے جدانہ کردیاجائے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ……، حدیث نمبر: ۱۹۲۸۰)

بدیل نے قریش کے پاس آکرکہاکہ میں محمدکے پاس سے کچھ پیغام لے کرآیاہوں،اشرار نے سننے سے انکارکیا؛ لیکن سنجیدہ قسم کے افرادنے پیغام سنانے کی اجازت دی۔اُنھوں نے آپﷺکا پیغام سنایا۔عروہ بن مسعودثقفی نے اہل ِ مجلس سے کہا:کیوں قریش! کیامیں تمہارے لئے باپ کے مقام اورتم میرے لئے بیٹوں کے درجہ میں نہیں؟سبھوں نے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔ پھراُس نے کہا: میری نسبت تمہیں کوئی بدگمانی تونہیں؟ جواب ملا:نہیں!اس نے کہا: پھرتومجھے خود محمدکے پاس جاکر معاملہ طے کرنے کی اجازت دو، اس نے معقول تجویز رکھی ہے۔

عروہ بن مسعود آپﷺکی خدمت میں حاضرہوئے۔ آپ  ﷺ نے اُن سے بھی وہی باتیں کہیں، جوبدیل سے کہہ چکے تھے۔اُس وقت عروہ نے آپﷺکو مخاطب کرکے کہا:’’ائے محمد!اگرتم نے اپنی قوم کا استیصال کردیاتوکیااس کی بھی کوئی مثال ہے کہ کسی نے اپنی ہی قوم کا خاتمہ کردیاہو؟لیکن اگرلڑائی کارخ بدلا(اوراہل ِ مکہ تم پرغالب آگئے)تومیں تمہارے ساتھ ایسے لوگوں کودیکھ رہاہوں، جوتمہیں چھوڑکربھاگ کھڑے ہوں گے‘‘۔عروہ کی اِس بدگمانی پرحضرت ابوبکرؓ نے سخت درشت لہجہ اختیارکرتے ہوئے فرمایا:کیاہم محمدا کو چھوڑکربھاگ جائیں گے؟حضرت ابوبکرؓکی سخت کلامی کوسن کرعروہ نے پوچھا:یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا:ابوبکر ہیں!عروہ نے کہا:اگرمجھ پرتمہارا(زمانۂ جاہلیت میں دیاہواوہ) احسان نہ ہوتا، جس کی میں نے ابھی مکافات نہیں کی ہے تومیں تمہیں اِس سخت کلامی کاجواب ضروردیتا۔

اب عروہ حضورﷺسے محوگفتگوہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپﷺکی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرتے جاتے۔عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہؓ جسارت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پرٹہوکادیااورکہا: أخریدک من لحیۃ رسول اللہﷺ’’حضورﷺکی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔عروہ نے زرہ پوش حضرت مغیرہؓ کی طرف نگاہ اُٹھائی اورپوچھا:یہ کون ؟جواب ملا: مغیرہ بن شعبہ!یہ سن کرعروہ نے کہا: ارے او غدار! کیامیں نے تمہاری اُس غداری کابدلہ نہیں دیاتھا(جوتم نے زمانۂ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ کیاتھا؟)۔ پھردُزدِیدہ نگاہوں سے صدق وصفاکے پیکرعشاقِ رسول کودیکھنے لگے اور جاں نثارانِ رسول کی اِک اِک اداکاگہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد قریش کے پاس لوٹے اور یہاں کاآنکھوں دیکھاحال اس طرح بیان کرنے لگے:’’ائے اہل مجلس!بخدا میں نے بادشاہوں کے محلات اورقصورکے سیرکئے ہیں، میںنے کسریٰ اورقیصرکا درباربھی دیکھاہے؛لیکن میں نے کسی بھی ایسے بادشاہ کونہیں دیکھا، جس کے لوگ اُس کی اِس قدرتعظیم کرتے ہیں،جس قدرتعظیم محمد کے ساتھی محمدکی کرتے ہیں۔ خداکی قسم!محمدکی ناک کی ریزش بھی زمین پرگرنے نہیں پاتی کہ اُس کے ساتھی اپنے ہاتھوں میں لے کراپنے چہروں اوراپنے جسموں پرمل لیتے ہیں، وہ جب کسی کام کا حکم دیتے ہیں تواُس کے ساتھی اُس کام کوانجام دینے کے لئے لپک پڑتے ہیں، جب وہ وضو کرتے ہیں تووضوکے پانی کولینے کے لئے منافست پراترآتے ہیں، جب وہ گفتگوکرتے ہیں تو تمام لوگ مہربہ لب ہوجاتے ہیں اورکوئی بھی شخص عظمت وجلال کی وجہ سے اُسے نگاہ بھرکربھی نہیں دیکھتا، یقیناً محمدکی طرف سے ایک مناسب تجویز آئی ہے، اُسے قبول کرلینا چاہئے‘‘۔

عروہ کی باتیں سن کربنوکنانہ کے ایک فرد نے آپﷺ کے پاس آنے کی اجازت چاہی، قریش نے اُسے بھی جانے کی اجازت دیدی۔ جب وہ کاروانِ نبوت کے قریب پہنچا تو آپﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’دیکھو! فلاں آرہاہے، اِس کاتعلق ایسی قوم سے ، جوہدی کے جانوروں کوتعظیم کی نگاہ سے دیکھتی ہے، لہٰذا تم لوگ ہدی کے جانوروں کے ساتھ اِس کا استقبال کرو‘‘۔ صحابہ نے جانوروںک ے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے خوش آمدیدکہا۔ جب اُس نے یہ کیفیت دیکھی توبے ساختہ پکارا:’’سبحان اللہ! ایسے لوگوں کوتوبیت اللہ سے نہیں روکا جانا چاہئے‘‘، پھر وہ قریش کے پاس لوٹ کرآیااوراُس نے اپنی یہی رائے پیش کی۔

اب مکرز بن حفص نے آنے کی اجازت لی۔ جب وہ آپ ﷺ کے قریب پہنچاتوآپﷺنے فرمایا:’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘۔پھراُس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہوگئے۔اِسی دوران قریش کی طرف سے وثیقۂ عہد تیار کرنے کے لئے آپﷺکے پاس سہیل بن عمروآیا۔آپ  انے حضرت علیؓ کواملاء کے لئے بلایااورکہا: لکھو{بسم اللہ الرحمٰن الرحیم}۔سہیل نے کہا:’’ہم رحمان کونہیں جانتے؛اِس لئے وہ لکھو،جوہم لکھتے چلے آرہے ہیں،یعنی: باسمک اللہم‘‘۔آپﷺ نے باسمک اللہم لکھوایا،پھرکہا:لکھوہذاماقاضی علیہ محمدرسول اللہ’’یہ وہ ہے، جس پراللہ کے رسول محمدنے مصالحت کی ہے‘‘۔سہیل نے کہا:’’خداکی قسم ! اگرہم آپ کواللہ کا رسول تسلیم ہی کرلیتے تو بیت اللہ سے ہرگز نہ روکتے اورناہی آپ سے جنگ کرتے؛اِس لئے محمدبن عبداللہ لکھئے‘‘۔آپﷺنے اُس کی یہ بات سن کرفرمایا:’’اللہ کی قسم! میں اللہ کارسول ہوں، اگرچہ کہ تم لوگ مجھے جھٹلاؤ‘‘۔ پھرحضرت علیؓ سے محمدبن عبداللہ ہی لکھنے کے لئے کہا۔

اب تحریری شکل کوآگے بڑھاتے ہوئے آپﷺنے املا کرایا:’’یہ مصالحت اِس بات پرہے کہ تم لوگ بیت اللہ کے طواف سے ہمیں نہیں روکوگے‘‘۔ سہیل نے کہا: اس کی وجہ سے کہیں عرب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دب کرصلح کی ہے؛ اِس لئے یہ آئندہ سال پراٹھارکھیں‘‘۔ آپﷺنے اُس کی یہ بات بھی مان لی۔اب سہیل نے اپنی طرف سے ایک شق لکھائی کہ’’ ہماراکوئی بھی مرد مسلمان ہوکرآپ کے پاس آجائے توآپ اُسے ہمارے پاس لوٹادیں گے؛لیکن اگرآپ کاکوئی ساتھی آپ کا دین چھوڑکرآئے توہم اُسے نہیں لوٹائیں گے‘‘۔ صحابہ نے کہا: سبحان اللہ! دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعدکسی کو کیسے لوٹایاجائے گا؟

معاہدہ کی اِس شق پربحث وتمحیص چل ہی رہی تھی کہ ابوجندلؓ بن سہیل بن عمروقفس ِتعذیب سے فرارہوکربیڑیوں میں گھسٹتے ہوئے یہاں پہنچے۔سہیل نے اُنھیں دیکھتے ہی کہا:’’ معاہدہ کا نفاذ یہیں سے ہوگا‘‘،آپﷺنے فرمایا:’’ ابھی تو معاہدہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی‘‘۔سہیل نے جواب دیا: ’’پھر تو کسی چیز پرمصالحت نہیں ہوسکتی‘‘۔آپﷺنے فرمایا: ’’اچھا میری خاطراِسے چھوڑدو‘‘۔اس نے کہا: ’’میں اِس پربھی تیار نہیں‘‘۔(بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲)آپﷺنے اُس وقت حضرت ابوجندلؓ کومخاطب کرکے فرمایا: ’’ائے ابوجندل! صبر کرواورامیدرکھو، اللہ تعالیٰ تمہارے اورتمہارے ساتھ دوسرے کمزوروں کے لئے ضرورکوئی سبیل نکالے گا۔ ہم نے قریش سے عقدصلح کرلیاہے اوراس پرزبان دیدی ہے اوران لوگوں نے بھی ہم سے عہدکیاہے اورہم ان غداری کے مرتکب نہیں ہوسکتے‘‘(السنن الصغریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ علی النظر للمسلمین، حدیث نمبر:۳۷۷۲(۸/۱۶۳)، مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۹۱۰(۳۱/۲۱۹)۔ اوراُنھیں واپس مکہ بھیج دیا۔

اِس معاہدہ کی وہ تمام شقیں، جن پرقریش راضی تھے، اِس طرح ہیں:

۱)  دس سال تک حرب وضرب موقوف رہے گی۔

۲)  قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینہ آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا۔

۳)  مسلمانوں میں سے جومرد(راہِ ارتداداختیارکے)مکہ آجائے، اُسے واپس نہ کیاجائے گا۔

۴)  مدتِ معاہدہ میں کوئی دوسرے پرتلوارنہیں اُٹھائے گا اورناہی کسی سے خیانت کرے گا۔

۵)  محمداِس سال واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ میں صرف تین دن رہ کرعمرہ کرکے واپس ہوجائیں، سوائے تلواروں کے اورکوئی ہتھیارساتھ نہ ہواوروہ بھی نیام میں رہیں۔

۶)  قبائل ِمتحدہ جس کے حلیف بنناچاہیں، بن سکتے ہیں۔(زادالمعاد، فصل فی قصۃ صلح الحدیبیۃ: ۳/۲۹۹، القول المبین فی سیرۃ سیدالمرسلین لمحمدالطیب النجار، صلح الحدیبیۃ:۱/۳۱۶)

اِس معاہدہ میں آپﷺنے قریش کی وہ تمام شرطیں منظورکرلیں، جوبظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں، جس کی وجہ سے صحابہ ایک قسم کی اندرونی گھٹن میں مبتلاہوگئے؛ حتیٰ کہ حضرت عمرؓ نے آپﷺکی خدمت میں حاضرہوکراِس طرح سوال کرناشروع کردیا:کیاآپ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ کیاہم حق پراوردشمن باطل پرنہیں ہیں؟آپﷺنے ہرسوال کے جواب میں’’کیوں نہیں‘‘(یعنی ہاں! ہم حق پرہیں اورمیں اللہ کا برحق نبی ہوں) فرمایا۔تب حضرت عمرؓ نے کہا:’’پھرہم دین میں کمی کیوں برداشت کریں؟‘‘۔ آپﷺنے جواب دیا:’’میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا اوروہ میراحامی وناصر ہے‘‘، حضرت عمرؓنے پھرسوال کیا: کیا آپﷺنے ہمیں نہیں بتایا تھا کہ ہم بیت اللہ جاکراُس کاطواف کریں گے؟ آپ ﷺنے جواب دیا: توکیامیں نے تمہیں یہ بات بھی بتائی تھی کہ اِسی سال کریں گے؟تم ضرورجاؤگے اوربیت اللہ کا طواف کروگے۔

جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپﷺنے صحابہ سے فرمایا: قوموا، وانحروا، ثم احلقوا ’’اُٹھو، اپنے جانوروں کانحر کرواورپھراپنے سروں کاحلق کراؤ‘‘۔گھٹن کی کیفیت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپﷺنے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپﷺحضرت ام سلمہ(رضی الہہ عنہا) کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کاتذکرہ کیا،حضرت ام سلمہ (رضی الہہ عنہا)نے فرمایا:’’ائے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں؟(اگرآپ یہ چاہتے ہیں)تونکلئے اورکسی سے ایک لفظ مت کہئے، بس سیدھے جاکراپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کروایئے‘‘۔آپﷺنے حضرت ام سلمہ (رضی الہہ عنہا) کے مشورے پر عمل کیا۔ جب صحابہ نے آپ ﷺکوایساکرتے دیکھاتواُن لوگوں نے بھی اپنے جانورذبح کردئے اور (مارے گھٹن کے) ایک دوسرے کا اِس طرح حلق کرنے لگے،جیسے گردن ہی کاٹ ڈالیں گے۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲)

حدیبیہ میں تقریباً دوہفتے قیام کرنے کے بعدآپﷺنے اپنے رفقاء کے ساتھ واپسی کے لئے کجاوہ کسا،جب مکہ مکرمہ اورمدینہ کے درمیان پہنچے توسورۂ فتح نازل ہوئی، آپﷺ نے صحابہ کو جمع فرماکر{إنافتحنالک فتحاًمبیناً}سنائی، صحابہ انگشت بدانداں رہ گئے اوردریافت کیا:ائے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپﷺنے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے! بے شک یہ عظیم الشان فتح ہے۔(مسنداحمد، حدیث مجمع بن جاریۃؓ، حدیث نمبر: ۱۵۴۷۰ (۲۴/۲۱۲)۔

(جاری۰۰۰۰۰۰۰۰) 

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی