آخری پیغمبرﷺ (قسط:۴)

آخری پیغمبرﷺ (قسط:۴)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۴)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

بدر میں

جب (حضرت)ابوسفیان کویہ خبرملی کہ مسلمان اس کے قافلہ کے منتظرہیں تواس نے قریش کومددکے لئے بلایا، ابھی اہلِ مکہ کے سینے حضرمی کے قتل پرفگارہی تھے کہ ابوسفیان کے اس پیغام نے جلتی پرتیل کاکام کیااورپورامکہ ثاروانتقام کی آگ میں جل اٹھا؛ چنانچہ زرہ پوش وہتھیار بنداور گھڑسواروں پرمشتمل ہزارافرادکی جمعیت بڑے طمطراق کے ساتھ اسلام اوراہلِ اسلام کی بیخ کنی کے لئے نکل پڑی، قریش کے تمام سربرآوردہ لوگ بھی اس میں شامل تھے، جب یہ لوگ مقام ’جُحفہ‘ تک پہنچے توابوسفیان کادوسراخط ملا کہ’’ تم جس ارادہ سے نکلے تھے، وہ پوراہوگیا، قافلہ صحیح سالم نکل چکاہے؛ اس لئے تم لوگ بھی واپس آجاؤ‘‘، تمام لوگوں نے واپسی کاارادہ بھی کیا؛ لیکن ابوجہل نے قسم کھائی کہ ہم اسی شان سے بدرتک جائیں گے اوراونٹوں کوذبح کرکے خودبھی کھائیں گے اور دوسروں کوبھی کھلائیں گے؛ تاکہ سارے عرب پرہمارادغدغہ بیٹھ جائے، لہٰذا عدی و زہرہ اورقریش کے کچھ لوگوں کے علاوہ تمام لوگ بدرکے ایک کنارے خیمہ زن ہوئے۔

غزوۂ بدر

آپﷺکوبھی یہ خبرمل چکی تھی کہ قریش اپنے قافلے کی حفاظت کے لئے لاؤ لشکرکے ساتھ نکل پڑے ہیں؛ چنانچہ آپ نےﷺصحابہ سے مشورہ کیا، اورتمام صحابہ کو مستعد پاکربدرکی طرف روانہ ہوئے،بدرپہنچ کرپوراایک دن آرام فرمایا، دوسرے دن دونوں فریق ایک دوسرے سے نبردآزما ہونے کے لئے تیار تھے، جب دونوں طرف صف بندی ہوگئی توقریش کی طرف سے عتبہ، شیبہ اورولیددعوتِ مبارزت دیتے ہوئے نکلے، مسلمانوں کے لشکرسے حضرت عوف، حضرت معاذ اورحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم ان کی مقاومت کے لئے نکلے، عتبہ نے پوچھا: تم کون ہو؟جواب ملا:ہم انصار ہیں،عتبہ نےکہا:’’ہمیں تم سےکوئی سروکارنہیں‘‘،پھرآں حضرتﷺسے بلندآوازمیں کہا:’’اے محمد! ہماری قوم کے ہم سروں کوبھیجو‘‘،آپﷺنے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم کوان کے مقابلہ کے لئے بھیجا، جب یہ حضرات اُن سے قریب ہوئے تو انھوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ جب انھوں نے اپنانام بتایاتواُن لوگوں نے کہا: ’’ہاں! اب یہ ہمارے صحیح جوڑہیں‘‘؛چنانچہ حضرت علیؓ ولیدکے ساتھ مزاحم ہوئے اوراس کاقصہ پاک کیا، حضرت حمزہؓ شیبہ سے نبردآزماہوئے اوراس کاکام تمام کیا، جب کہ حضرت عبیدہؓ عتبہ کے ساتھ مقابلہ آراہوئے؛ لیکن خود زخمی ہوگئے، حضرت علیؓ نے لپک کر عتبہ کے لہوکاجوش ٹھنڈاکردیا،پھر عام حملہ شروع ہوگیا، تیروں کے مینھ برسنے لگے، تلواروں کی جھنکارسنائی دینے لگی اورگھوڑوں کی ہنہناہٹ دِہاکے دینے لگی، فریقین اس طرح ایک دوسرے میں گھس گئے، جیسے تشبیک کے وقت ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں داخل کی جاتی ہیں، مرنے لگے اورمارنے لگے، ایک طرف تین سو تیرہ کی تعداد، نہ سواری کے لئے گھوڑے، نہ لڑنے کے لئے مناسب ہتھیار؛ لیکن دین کی خاطر کفن بردوش اور برسرِپیکار، دوسری طرف ہزار کی جمعیت، سواری کے لئے گھوڑے، آلاتِ حرب و ضرب سے لیس، لہٰذا اللہ کے رسول اذکرواذکار، تسبیح وتہلیل اوردعا و ابتہال کرتے ہوئے مکمل طور پر اپنے رب کے دربار میں پہنچ گئے، کبھی سائلانہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر فتح و کامیابی کی دعا مانگتے، کبھی فقیرانہ دست درازکرکرکے نصرت و شادکامی کی صدا لگاتے، کبھی جبینِ مبارک سجدہ ریز، کبھی چشمہائے مسعود تلاطم خیز، محویت و استغراق کایہ عالم کہ ردائے مبارک شانہ سے ڈھلک ڈھلک جاتی، آپﷺکہتے جاتے:’’اے اللہ! جس چیز کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا فرما، اے اللہ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت نہ ہوسکے گی‘‘، پھر آں حضرتﷺ نے ایک مٹھی سنگریزہ زمین سے اٹھاکر’’شاہت الوجوہ‘‘ پڑھ کر اس پردم کیا اور کافروں کی طرف پھینکا، جو تمام جنگجوانِ کفار کی آنکھوں میں پڑا، وہ آنکھ ملنے لگے، جب کہ مسلمان اُنھیں قتل کرنے لگے، دم خَم کے ساتھ نکلے ہوئے تقریباً سارے صنادیدِ عرب ایک ایک کرکے مارے گئے اورکبر و غرور کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پر نکلا ہوا کفار قریش کا لشکر شکست و ریخت سے بری طرح دوچار ہوا، تقریباً سترافراد مشرکینِ مکہ کے قتل ہوئے اور اتنے ہی کو پابہ جولاں مدینہ لایا گیا، جب کہ مسلمانوں میں سے بائیس شہید ہوئے، یہ کفارقریش کے ساتھ مسلمانوں کی باقاعدہ پہلی جنگ تھی، جور۱۷مضان المبارک دو ہجری(۱۳ مارچ۶۲۴ء) میں پیش آیا۔

مقتولین ومحبوسین بدر

جنگ ختم ہونے کے بعد باقی ماندہ کفار کو قید کرلیا گیا، پھر آپﷺنے انسانیت کے احترام کوملحوظ رکھتے ہوئے مقتولین کوکنویں میں ڈلوادیا اوراوپرسے مٹی پاٹ دی گئی، پھرمدینہ کی طرف کوچ فرمایا، مدینہ پہنچ کرآپﷺنے قیدیوں کوصحابہ کے درمیان یہ حکم دیتے ہوئے تقسیم فرمایا:’’قیدیوں کے ساتھ بھلائی کاسلوک کرو‘‘، چند روز کے بعد اسیرانِ بدرکے سلسلہ میں آپﷺنے صحابہ سے مشورہ کیا اورصاحبِ استطاعت قیدیوں سے فدیہ لے کر اور غیر مستطیع کو بلا فدیہ آزاد فرمادیا؛ البتہ جو غیر مستطیع پڑھے لکھے تھے، انھیں حکم دیا کہ وہ دس دس مسلمان بچوں کو تعلیم دیں اور آزاد ہوجائیں۔

اسی سال رمضان المبارک کے روزے اور صدقۂ فطر فرض کئے گئے اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تعیین کی گئی۔

قبیلۂ غطفان اورغزوۂ سویق

بدرسے واپسی کے صرف سات دن بعد شوال دوہجری میں آںحضرتﷺکوخبرملی کہ قبیلۂ غطفان کی شاخ بنوسلیم کے لوگ مدینہ پرچڑھائی کے لئے مجتمع ہورہے ہیں، آپﷺنے دوسوسواروں کے ساتھ انہی کے علاقے میں دھاوابول دیا، اس اچانک حملہ سے افراتفری مچ گئی اوروہ پانچ سواونٹ چھوڑ کر بھاگ گئے، لشکراسلام نے ان پرقبضہ کرلیااورخمس نکالنے کے بعدمجاہدین میں تقسیم کردیاگیا، کچھ دنوں کے بعدبنوقینقاع کی عہدشکنی اورفتنۂ وفساد بھڑکانے کی وجہ سے انھیں جلاوطنی کاحکم دیا، اسی سال ذی الحجہ کے مہینے میں ابوسفیان بدرکی ندامت کومٹانے کے لئے مدینہ کے اطراف میں عریض نامی مقام پرحملہ کیااورکچھ کھجورکے درخت جلا اور کچھ کاٹ دئے اورایک انصاری اوراس کے حلیف کوکھیت میں پاکرقتل بھی کردیا، آں حضرتﷺکوجب اس کی خبر ملی توآپﷺنے تعاقب کیا؛ لیکن وہ لوگ تیزرفتاری کے ساتھ بھاگ نکلے اوربوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے ستوکی تھیلیاں بھی پھینکتے گئے، اسی لئے اس غزوہ کانام ’’غزوۂ سویق‘‘ پڑا۔

غزوۂ احد

غزوۂ بدرمیں کفارقریش کوبھاری نقصان اٹھاناپڑا، جس کابدلہ لینے کے لئے قریش نے بھر پورتیاری کی، ابوسفیان نے قریش سے اُس تجارتی منافع کوجنگ میں استعمال کرنے کامشورہ دیا، جوغزوۂ بدرکے موقع سے وہ لے کرآیاتھا، قریش نے انتقام کے لئے ابوسفیان کے اِس مشورہ کو قبول کیا اورایک ایسی جنگ کی تیاری میں مصروف ہوگئے، جومسلمانوں کی کمرتوڑکررکھ دے، سال پوراہوتے ہوتے قریش کی تیاریاں مکمل ہوگئیں اورقریشیوں کے علاوہ ان کے حلیفوں اور احابیش (بنوکنانہ اوربنوخزاعہ کے وہ لوگ، جنھوں نے مکہ حُبْشِی نامی پہاڑ کے نزدیک اکھٹے ہوکر عہدوپیمان کیاتھا) کوملاکر جنگجوؤں کی تعدادتین ہزارتک پہنچی، انھوں نے عورتوں کوبھی اپنے ساتھ رکھ لیا؛ تاکہ عزت وناموس کی حفاظت کاجذبہ رجوعِ قہقریٰ(پیچھے لوٹنے ) کا خیال تک نہ آنے دے، حضرت عباسؓ قریش کی ساری نقل وحرکت کابغورمطالعہ کرتے رہے اورجوںہی قریشی لشکر مدینہ کے لئے حرکت میں آئی، انھوں نے ایک خط لکھ کرتیز رفتارقاصدکے ذریعہ آں حضرتﷺ کو اطلاع بھجوائی، اس خبرکے پہنچتے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ناگہانی حملہ سے بچنے کے لئے مدینہ کے راستوں پرطلایہ گردی شروع کردی اورہمہ وقت ہتھیاربندرہنے لگے، پھرآپﷺنے دفاعی حکمت ِعملی کے لئے صحابہ سے مشورہ فرمایا، مشورہ میں آخری فیصلہ یہ طے ہواکہ مدینہ سے باہرنکل کرکھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے، آپﷺایک ہزارجمعیت کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور’’شیخان‘‘نامی مقام پرپہنچ کرلشکرکامعائنہ فرمایااورجوکم سن تھے، انھیں واپس فرمادیا، شام ہونے کی وجہ سے یہیں پرآپﷺنے شب باشی فرمائی؛ البتہ پچاس صحابہ کومنتخب فرماکرنگرانی پرمامورفرمایا، صبح صادق سے پہلے ہی یہاں سے کوچ فرمایااور’’شوط‘‘نامی مقام پر نمازِفجر ادا فرمائی، یہیں عبداللہ بن اُبی کی منافقت کھل کرظاہرہوئی اوراس نے یہ کہہ کرکہ ’’محمد(ﷺ)نے میری رائے پرعمل نہیں کیا‘‘ اپنے تین سوہمراہیوں کولے کرعلاحدہ ہوگیا، شایداس کی غرض یہ تھی کہ عین موقع پرمسلمانوں کے اندرکھلبلی مچ جائے اور مشرکین کوفائدہ حاصل ہوجائے، اب حضورﷺباقی ماندہ سات سولوگوں کے ساتھ اُحدکی گھاٹی میں پہنچے اوروہیں لشکرکاکیمپ لگوایا، پھرلشکرکی ترتیب وتنظیم فرمائی اورسب سے پہلے پچاس ماہرتیراندازوں کومنتخب کرکے وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پرواقع ایک چھوٹی سی پہاڑی(جسے ’جبلِ رُماۃ‘ کہاجاتاہے) پرمتعین فرمایا؛ تاکہ دشمن کا لشکرادھرسے حملہ آورنہ ہوسکے اورانھیں حکم دیاکہ خواہ کچھ بھی ہوجائے، تم اپنی جگہ سے جنبش نہ کرنا، اس کے بعدلشکرکی صف بندی کی اورراہِ خدا میں جاںبازی اورشہادت پروعظ فرمایا، مشرکین نے بھی ترتیب قائم کی، پھردونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں اور مشرکین کی طرف سے طلحہ بن ابوطلحہ عبدری (جسے مسلمان ’کبش الکتیبۃ‘ (لشکرکامینڈھا)کہاکرتے تھے)دعوتِ مبارزت دیتے ہوئے نکلا، حضرت زبیرؓ تیزی سے لپکے اورمہلت دئے بغیراس کے اونٹ پرجاچڑھے، پھراسے لے کرکودے اوراس کوذبح کرڈالا، یہ منظر دیکھ کرآپﷺنے فرطِ مسرت سے نعرۂ تکبیربلندکی، اب عام حملہ شروع ہوگیا، مسلمان کفن بردوش مشرکینِ مکہ کی صفیں اُلٹتے اورآگے بڑھتے جارہے تھے، شیرِخداحضرت حمزہؓ حقیقتاً شیرِنربنے ہوئے تھے، بڑے سے بڑابہادربھی اُن کے سامنے ٹک نہیں پاتاتھا، انھوں نے جنگ بدرمیں بھی کارہائے نمایاں انجام دی تھیں، جنگ ِبدرمیں انھوں نے جُبیربن مطعم کے چچا طُعَیمہ بن عدی کوواصل جہنم کیاتھا، لہٰذا جبیربن مطعم نے اپنے غلام وحشی بن حرب کو حضرت حمزہؓ کے قتل پرمامورکیااورکہا کہ اگرانھیں قتل کردو توتمہیں آزادکردیاجائے گا، وحشی ایک ماہرنیزہ باز تھا، جواس جنگ میں صرف انھیں کوقتل کرنے کے لئے شریک ہواتھا، وہ مسلسل اسی تاک میں رہااورجب حضرت حمزہؓ مشرکینِ مکہ کی صفیں زیروزبرکرتے ہوئے اس جگہ پرپہنچے، جہاں وحشی انھیں کی گھات میں تھا، وحشی نے نیزہ تول کر انھیں مارا، جوناف کے نیچے پارہوگیا، انھوں نے پلٹنے کی کوشش کی؛ لیکن گرپڑے اورزندۂ جاویدہوگئے، اس کے باوجود مسلمانوں کے جنگ کا پلڑابھاری رہا؛ یہاں تک کہ مشرکین پسپاہوتے ہوتے راہِ فرار اختیار کرنے لگے اورمسلمان تعاقب میں جٹ گئے، ایسے موقع پر’جبلِ رُماۃ‘ کے تیراندازوں سے خوفناک غلطی ہوئی؛ چنانچہ ان میں سے بعض نے یہ سمجھاکہ جنگ ختم ہوچکی ہے اورمسلمان مالِ غنیمت لوٹنے میں مصروف ہیں؛ اس لئے کچھ وہاں سے مال ِ غنیمت لوٹنے کے لئے اترپڑے، حضرت خالدبن ولیدگویااسی تاک میں تھے، انھوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے باقی ماندہ تیر اندازوں کوشہیدکرڈالا اورپشت سے مشرکینِ مکہ کے تعاقب میں مصروف مسلمانوں پراس طرح حملہ کیاکہ جیتی ہوئی بازی ہارمیں تبدیل ہونے کے قریب پہنچ گئی، شکست خوردہ مشرکین کی ہمت جمع ہوگئی اوروہ اپنی ساکھ کی بقاکی جنگ میں مصروف ہوگئے، مسلمان مکمل طور پرمشرکین کے نرغے میں آگئے، خودمسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکریں، اتنے میں کسی کافرنے یہ خبراڑادی کہ محمد(ﷺ)قتل کردئے گئے، اس خبرسے بہت سارے مسلمانوں کے رہے سہے حوصلے بھی ٹوٹ گئے، بالآخرآپ ﷺکی آواز پرمسلمان مجتمع ہوئے ؛ لیکن تب تک آپﷺ کے گردکئی جاں باز شہید اورخودآں حضرتﷺزخمی ہوچکے تھے، پھرآپﷺمشرکینِ مکہ کے حصارکوناکام بناتے ہوئے گھاٹی کے اس حصے کی طرف بڑھنے لگے، جہاں کیمپ لگوایاتھااورہزاررکاوٹوں کے باوجودصحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ خودبھی اپنے کیمپ میں پہنچے اوردیگر صحابہ کے لئے بھی راستہ ہموارکردیا، نیچے کفارمکہ مسلمان شہداء کے ناک کان کاٹنے لگے اورمکہ کے لئے واپسی کی تیاری کرنے لگے، قریش کی واپسی کے بعدمسلمان اپنے زخمیوں اورشہیدوں کی طرف متوجہ ہوئے، خودآں حضرت ﷺبھی ان کے معائنہ کے لئے نکلے، شہداء کے بارے حکم دیا کہ ان کے ہتھیاراوربوستین اتارلئے جائیں اورغسل کے بغیر انھیں دفنادیاجائے، حضرت حمزہؓ کی حالت دیکھ کرسخت غم گین ہوئے، پھر حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کے ساتھ دفن کرنے کاحکم فرمایا، وہ آپﷺکے چچا بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی ، شہداء کی تدفین کے بعدآپﷺنے مدینہ کا رخ فرمایا اور۷شوال بروزشنبہ سن۳ھ کوسرشام مدینے پہنچے، غزوۂ احد میں تقریباً سترمسلمان شہیدہوئے، جن میں اکثریت انصارکی تھی، مہاجرین میں صرف چار صحابہ نے جام شہادت نوش فرمایا۔

عضل وقارہ کی غداری

صفر۴ھ میں عضل وقارہ کے کچھ لوگ حضورﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورکہا کہ ہمارے یہاں اسلام کاکچھ چرچاہے، لہٰذا آپ قرآن پڑھانے اوردین سکھانے کے لئے کچھ لوگوں کوروانہ فرمائیں، آپﷺنے دس لوگوں کوان کے ہمراہ کردیا، جب یہ لوگ رابغ اورجدہ کے درمیان قبیلۂ ہُذَیل کے رجیع نامی چشمے پرپہنچے توعضل وقارہ کے لوگوں نے غداری کی اوربنولحیان کوان کے پیچھے لگادیا، جن کے سوتیراندازوں نے ان کوگھیرلیااوران پر تیر برسائے ، جس کے نتیجہ میں سات افراد شہیدہوگئے، باقی تین لوگوں سے عہدکیاکہ ہتھیارڈالنے پر تمہیں کچھ نہیں کیاجائے گا؛ لیکن ہتھیارڈالنے کے بعدان لوگوں نے بدعہدی کی اورانھیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا، اس بدعہدی کودیکھ کرایک صحابی نے جانے سے انکار کردیا تو انھیں وہیں قتل کردیا، جب کہ دوصحابی حضرت خبیب اور حضرت زیدبن دثنہ رضی اللہ عنہماکومکہ لے جاکربیچ دیا۔

معونہ کے کنویں کاواقعہ

اسی مہینے میں ایک اورجاں کاہ حادثہ پیش آیا، ابوبراء عامربن مالک آں حضرتﷺکی خدمت میں حاضرہوا، آپ ﷺنے اسے اسلام کی دعوت دی، اس نے اسلام توقبول نہیں کیا؛ لیکن بے زاری بھی ظاہرنہیں کی؛ بل کہ آپﷺسے کہا: اگرآپ اپنے ساتھیوں کواہل ِنجدکے پاس دعوتِ دین کے لئے بھیجیں تومجھے امیدہے کہ وہ آپ کی دعوت قبول کریں گے، آں حضرتﷺنے جواب دیا: مجھے اپنے اصحاب سے متعلق اہل نجدسے خطرہ ہے، تواس نے کہا: وہ میری پناہ میں ہوں گے، ابوبراء کی اس بات کوسن کرآں حضرتﷺنے سترصحابہ کی ایک جماعت اس کے ہمراہ کردی،یہ سب کے سب قراء، سادات اوراخیارِصحابہ تھے، جب یہ لوگ بنوعامراورحرہ بنوسلیم کے درمیان معونہ کے کنویں پرپہنچے توانھوں نے وہاں پڑاؤڈالااورام سُلیم کے بھائی حرام بن ملحان کو رسول اللہﷺ کاخط دے کرعامربن طفیل کے پاس روانہ کیا، اس دشمنِ خدانے اس خط کو دیکھاتک نہیں؛ بل کہ قاصدکوقتل کروادیا، پھر عُصَیَّہ، رِعل اورذَکْوان کے ساتھ مل کرصحابہ کامحاصرہ کرلیا، جواباً صحابہ نے بھی مقابلہ کیا؛ مگردوصحابی(کعب بن زیدبن نجار اورعمروبن اُمیہ ضمری رضی اللہ عنہما)کے علاوہ تمام کے تمام شہید ہوگئے، آپﷺاس واقعہ سے بہت زیادہ دل گیرہوئے؛ حتی کہ ایک مہینے تک نمازِفجرمیں ان قبائل کے لئے بددعائیں بھی کرتے رہے۔

بنونضیرکی جلاوطنی

آں حضرتﷺنے یہودِمدینہ سے توصلح کرلیا؛ لیکن یہوداندرہی اندرجلتے بھنتے رہے اورموقع ملتے ہی کچھ نہ کچھ شرارت بھی کرڈالتے، رجیع اورمعونہ کے واقعات کے بعدان کے حوصلے بلنداورجسارتیں بڑھ گئیں؛ یہاں تک کہ انھوں نے نبی کریمﷺہی کے (نعوذ باللہ) خاتمے کاپروگرام بناڈالا، معونہ کے حادثہ میں عمروبن امیہ ضمریؓ بچ گئے تھے، وہ جب واپس آنے لگے تووادی قناۃکے کنارے مقامِ قرقرہ میں سستانے کے لئے ایک درخت کے سائے میں اترے، اتفاق یہ کہ بنوکلاب کے دوآدمی بھی وہیں اترے ، جب وہ بے خبرسوگئے تواِنھوں نے اپنے ساتھیوں کے بدلہ کے طورپردونوں کاکام تمام کردیا، جب مدینہ پہنچ کرآپﷺکوبتایاتوآپﷺنے فرمایا: ان کی دیت ہم پرلاز م ہے ؛ کیوں کہ ان کے پاس رسول اللہﷺ کا عہد تھا، آں حضرتﷺانہی مقتولین کی دیت میں تعاون کی بات چیت کے لئے یہودکے پاس گئے کہ وہ آپﷺ کے حلیف تھے، انھوں نے جواب میں یقین دلایا؛ لیکن باہر جاکر آپﷺپرپتھرگراکرآپﷺکوختم کرنے کا منصوبہ بندی کرنے لگے، حضرت جبرئیل نے اس کی خبر آپﷺکودی تو آپﷺوہاں سے اٹھ کرمدینہ آگئے اورمحمدبن مسلمہؓ کو بنونضیرکے پاس مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس دے کرروانہ فرمایا، یہ لوگ جلاوطنی کی تیاری کرنے لگے کہ منافقوں کاسردارعبداللہ بن ابی  نے حکم کی خلاف ورزی پراکسایا، جس کے نتیجہ میں بنونضیرکے سردارحیی بن اخطب نے جوابی پیغام یہ بھیجاکہ ہم اپنے ہی دیارمیں رہیں گے، آپ کوجوکرناہو کرلیں، یہ یہودکی طرف سے غداری تھی؛ چنانچہ آپﷺنے بنونضیرپرحملہ کرنے کاحکم دیا، بنونضیرکواپنے مضبوط قلعوں پرنازتھا؛ چنانچہ وہ قلعہ بندہوگئے،آپﷺنے پندرہ دنوں تک ان کامحاصرہ کیااوران کے باغوں کوکاٹنے اورجلانے کاحکم دیا، بالآخربنونضیرمجبورہوکر اورامن کے خواستگار ہوئے، آپﷺنے انھیں مدینہ خالی کرنے کے لئے دس دن کی مہلت دی اورآلات حرب وضرب کے علاوہ جس قدرسامان لے جاسکتے ہوں، لے جانے کی اجازت بھی دیدی، بنونضیرکے اکثرافرادخیبرمیں جاکرمقیم ہوگئے، جب کہ کچھ دیارشام کی طرف روانہ ہوگئے ، یہ ربیع الاول ۴ھ میں پیش آیا۔

(جاری۰۰۰۰۰۰)

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی