آخری پیغمبرﷺ (قسط:۳)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۳)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

ہجرت کاآغاز

حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دارالندوہ کی اس سازش سے آں حضرت ﷺکوآگاہ کیا اوریہ اطلاع بھی دی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کوہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی ہے، یہ بھی بتایاکہ آج آپ اپنے اس بسترپرنہ سوئیں، جس پرسویا کرتے ہیں، اس اطلاع کے بعد حضورﷺ ٹھیک دوپہرکے وقت حضرت ابوبکرؓ کے گھرگئے اورہجرت کے سارے معاملات طے کرکے آئے، اِدھرمشرکینِ مکہ اپنے سازش کے نفاذکی تیاری میں مشغول تھے اوراُدھرآں حضرت ﷺ ہجرت کے لئے پابہ رکاب، آپ ﷺنے حضرت علیؓ کواپنے بسترپر اپنی چادراوڑھ کرسونے کاحکم فرمایا اور ٹھیک اس وقت مشرکینِ مکہ کے سروں پرمٹی ڈالتے ہوئے گھرسے نکل گئے، جس وقت تمام سازشی آپ ﷺکے گھرکے سامنے جمع ہوکر آپ کے سونے کے منتظرتھے، دراصل جب آپ ﷺ نکلنے لگے تواللہ تعالیٰ نے مشرکین پرنیندطاری کردی ، جس کی وجہ سے و ہ آپ ﷺکونہیں دیکھ سکے، آپ ﷺسیدھے حضرت ابوبکرؓ کے گھرآئے اور وہاں سے نکل کردونوں رات ہی رات یمن کے رخ پر چندمیل پرواقع ’’ثور‘‘نامی پہاڑکے ایک غار میں جاپہنچے، مشرکینِ مکہ انتظارہی میں رہے؛ یہاں تک کہ جب صبح ہوئی توحضرت علیؓ کوآں حضرت ﷺکے بسترسے اٹھتے ہوئے دیکھ کراُن کے ہاتھ کے طوطے اڑگئے اوروہ اپنی سازش میں ناکام ونامرادہوکر اپنے گھروں کو لوٹے۔

آں حضرت ﷺکی مکہ سے یہ روانگی ۲۷صفرسن چودہ نبوی کی درمیانی رات کو پیش آئی ، آپﷺکومعلوم تھا کہ مشرکینِ مکہ روکنے کے لئے پوری جاں فشانی سے کام لیں گے اورسب سے پہلے اس رخ پرتلاش کے لئے نکل پڑیں گے، جومدینہ کی جانب ہے؛ اس لئے آپ ﷺنے الٹے رخ کواختیار کرتے ہوئے مکہ کے جنوب میں پانچ میل پرواقع ’ثور‘نامی پہاڑتک کاسفرتیزرفتاری کے ساتھ کیا؛ تاکہ طلوع صبح سے پہلے پہلے کسی محفوظ ٹھکانہ پرپہنچا جاسکے، یہ پہاڑ نہایت پُرپیچ، بلند اورمشکل چڑھائی والاتھا، یہاں پتھربھی بہ کثرت تھے، جس کی وجہ سے آپ ﷺکے قدمِ مبارک زخمی بھی ہوگئے تھے، پہاڑ کے دامن میں پہنچ کرحضرت ابوبکرؓ نے آپ ﷺکواٹھالیااوردوڑتے پہاڑ کی چوٹی پرواقع غار کے پاس جاپہنچے، جوتاریخ میں’’غارِثور‘‘کے نام سے معروف ہے، غار کے پاس پہنچ کرآپ ﷺکواتارااورخودغارکے اندرداخل ہوئے اوراسے صاف کیا، وہاں کچھ سوراخ تھے، جنھیں اپناتہہ بندپھاڑکربندکیا، دوسوراخ بچے ہوئے تھے، جن میں حضرت ابوبکرؓ نے اپنا پاؤں رکھ دیا، پھرآں حضرت ﷺکواندرتشریف لانے کے لئے کہا، آپ ﷺتشریف لائے اور حضرت ابوبکرؓ کی آغوش میں سررکھ کرسوگئے، ادھرحضرت ابوبکرؓکے پیرمیں کسی چیزنے ڈس لیا؛ لیکن آپ ﷺکی بیداری کے ڈر سے آپؓ ہلے تک نہیں؛ البتہ ان کے آنسو رسول اللہ ﷺکے روئے مبارک پرٹپک پڑے، جس سے آپ ﷺکی آنکھ کھل گئی، آپ ﷺکے دریافت کرنے پرانھوں نے بتایاکہ کسی چیز نے ڈس لیاہے تو آپ ﷺنے اس پراپنالعابِ دہن لگایا، جس سے تکلیف جاتی رہی، اس غارمیں دونوں حضرات نے تین راتیں بسرکیں، حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ ان دنوں یہیں رات گزارتے اورصبح مکہ میں کرتے، نیز مکہ میں ہونے والی سازشوں کی خبر بھی دیتے رہتے، جب کے حضرت ابوبکرؓ کے غلام حضرت عامر بن فُہیرہؓ دن بھربکریاں چراتے اور رات کاایک حصہ گزرنے کے بعدغارکے پاس لے آتے، جس سے آں حضرت ﷺاورحضرت ابوبکرؓ آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے، پھریہ بکریاں ہانکتے ہوئے مکہ کوروانہ ہوجاتے، تین دنوں تک یہی معمول رہا۔

تلاش وانعام

آپ ﷺکے مکہ سے نکل جانے کے بعدمشرکینِ مکہ باؤلے ہوگئے اورایک ہنگامی اجلاس کرکے دونوں حضرات کوگرفتارکرنے کے تمام ممکنہ وسائل کواستعمال میں لاناطے کیا، اس کے لئے مکہ سے نکلنے والے تمام راستوں پرپہرہ بٹھایاگیااوردونوں کویاان میں سے کسی ایک کو گرفتار کر کے لانے والے کے لئے سو اونٹ کا بیش بہاانعام طے کیاگیا، اس انعام کاسنناتھاکہ سواروپیادہ کھوجی کتوں کی طرح پہاڑوں اوروادیوں میں تلاش کرنے لگے، تلاش کرنے والے غارکے دہانہ تک بھی پہنچے؛ لیکن اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تھا؛ اس لئے حاصل نتیجہ صفررہا۔

اُم مَعْبَدکے گھرمیں

جب قریش کی جستجوکے جذبات سرد اورڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے چہرے زردپڑگئے اور راستوں کے خطرات ٹل گئے توآپ ﷺاور حضرت ابوبکرؓ نے غارسے نکل کرمدینہ جانے کا عزم کیااورماہ ربیع الاول کے دوشنبہ(پیر) کے دن سن ایک ہجری کوعبداللہ بن اُریقط لیثی کی رہبری میں نکلے، حضرت اسماء ؓ بنت ابوبکرؓنے زادِراہ تیارکرکے ساتھ کیا، پھرچارافراد(حضرت ابوبکرؓ کے غلام عامربن فہیرہؓ بھی ساتھ تھے)پرمشتمل یہ قافلہ روانہ ہوا، راستہ میں ام معبد نامی خاتون کے گھرکے پاس سے گزرے ، دریافت فرمایا: کیاکھانے کے لئے کچھ ہے؟ جواب دیا: بخدااگرہمارے پاس کچھ ہوتاتومیزبانی میں بخیلی سے کام نہ لیتی، آں حضرت ﷺکی نظرگھرکے گوشہ میں بیٹھی ہوئی ایک مریل بکری پرپڑی، پوچھا: یہ کیسی بکری ہے؟ جواب ملا: اس کی لاغری نے ریوڑسے پیچھے کردیا ہے، آپ ﷺنے فرمایا: اجازت ہوتودوہ لوں؟ جواب دیا: میرے ماں باپ آپ پرقربان!اگردودھ دکھائی دے رہاہے توضروردودہ لیں، آپ ﷺنے بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور اللہ کانام لے کردعاکی، بکری کے تھن میں بھرپوردودھ اترگیا، جسے ایک بڑے برتن میں نکالاگیا، تمام لوگوں نے پیااور پھراتناہی دودھ برتن میں چھوڑکریہ قافلہ روانہ ہوگیا۔

سراقہ حضورﷺکے تعاقب میں

قریش کی طرف سے اعلان کردہ سواونٹوں کے انعام کی لالچ میں سراقہ بن مالک بن جعشم نے آں حضرت ﷺکاتعاقب کیا، جب قریب پہنچا توگھوڑے نے ٹھوکرکھائی اوروہ زمین پر آرہا، اس نے فال کے تیرنکال کردیکھا؛ لیکن تیربرخلاف کا نکلا،اس کے باوجود سراقہ نے پھر پیچھا کرنے کی کوشش کی؛ یہاں تک کہ اچانک اس کے گھوڑے کے دونوں اگلے پاؤں زمین میں دھنس گئے اوردھویں جیساغبارآسمان کی طرف اڑا، جس سے اسے کچھ خوف لاحق ہوا اورامان کے ساتھ انھیں پکارا، پھران کے پاس پہنچ کرقریش کی کچھ باتیں بتائیں اورزادِراہ پیش کیا؛ لیکن آپ ﷺ نے لینے سے انکارکیااورکہا: ہمارے متعلق رازداری برتنا، اب سراقہ نے پروانۂ امن کی گزارش کی، آپ ﷺنے حضرت عامربن فہیرہؓ کوحکم دیاتوانھوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پرلکھ کردیا، پھر حضورﷺکاقافلہ آگے روانہ ہوگیا۔

قبا میں

باشندگانِ مدینہ نے آں حضرت ﷺکی ہجرت کی خبرشوق کے کانوں سے سنی تھی؛ اس لئے روزانہ صبح آپ ﷺکے استقبال کے لئے’’ حرّہ ‘‘تک آتے تھے، جب دھوپ چڑھ آتی تو اپنے اپنے گھروں کوواپس چلے جاتے، ایک دن کی بات ہے، اہل ِمدینہ انتظارکے بعد گھروں کو لوٹ رہے تھے کہ اچانک ایک یہودی کی نظردورسے آپ ﷺکے قافلہ پرپڑی اوروہ بے ساختہ چلااٹھا: عرب کے لوگو! یہ رہاتمہارانصیب، جس کاتم انتظارکررہے تھے، یہ سنناتھا کہ مسلمان ہتھیاروں کی طرف لپک پڑے؛ تاکہ سج دھج کرآپ ﷺکااستقبال کیا جائے، نعرۂ تکبیرسے فضا گونج اٹھی اورآپ ﷺ۸ربیع الاول (۲۰ستمبر ۶۲۲ء) بروزدوشنبہ چودہ نبوی(ہجرت کے پہلے سال) کو’’قبا‘‘نامی بستی میں اترے، یہ مدینہ سے ۳کیلومیٹرکے فاصلہ پرواقع مسلمانوں کی اولین بستی ہے، جہاں نبوت کے بعدپہلی مسجدکی بنیادرکھی گئی۔

مدینہ میں

قباسے چل کربنوسالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے، جمعہ کاوقت ہوجانے کی وجہ سے ’بطنِ وادی‘ میں جمعہ کی پہلی نمازاداکی گئی، جمعہ کے بعد مدینہ کارخ فرمایا، یہ ایک تاریخی دن تھا، گلی کوچہ تقدیس وتحمیدکے کلمات سے گونج رہے تھے، انصارکی بیٹیاں فرحت وانبساط سے زمزمہ سنج تھیں:

اشرق البدرعلینا

(ہم پرچودہویں کاچاندطلوع ہوا)

من ثنیات الوداع

(وداع (جنوب )کی گھاٹیوں سے)

وجب الشکرعلینا

(ہم پراللہ کاشکرواجب ہے)

ما دعاللہ داع

(کیساہی عمدہ دین اورتعلیم ہے)

أیھاالمبعوث فینا

(اے ہمارے درمیان بھیجے ہوئے شخص)

جئت بالأمرالمطاع

(آپ قابلِ اطاعت چیزلے کرآئے ہیں)

مدینہ کے ہرفرد کی خواہش تھی کہ آں حضرت ﷺان کے گھرپرقیام فرمائیں؛ لیکن آپ ﷺنے فرمایا: یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے مامورہے، اونٹنی چلتی رہی؛ یہاں تک کہ آج جہاں مسجدنبوی ہے، وہاں بیٹھ گئی، یہ حضورﷺکانانیہال بنونجارکامحلہ تھا، حضرت ابوایوبؓ (خالد بن زید)نے لپک کرکجاوہ اٹھایا اوراپنے گھرکی طرف چل پڑے، آپ ﷺنے فرمایا:’’آدمی اپنے کجاوہ کے ساتھ ہے‘‘اوراس طرح حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھرکونبی ﷺ کے قیام کی سعادت سے سرفرازی حاصل ہوئی۔

مسجدنبوی کی تعمیر

مدینہ آنے کے بعدآپ ﷺنے سب سے پہلے مسجدبنانے کی فکرکی اوراس کے لئے دو یتیم بچوں(سہل اورسہیل)سے زمین خریدکر(حا لاں کہ وہ ہدیہ کرنا چاہ رہے تھے)ایک مسجد بنائی، جس کی تعمیرمیں صحابہ کے ساتھ ساتھ عام مزدورکی طرح آں حضرتﷺبھی حصہ لے رہے تھے، پھرمہاجر اورانصارصحابہ کے مابین بھائی چارہ(مواخات)قائم فرماکر گھر بارچھوڑکرآنے والے مہاجرین کے سروں پرسایہ مہیافرمایا، اس کے بعدمدینہ اوراس کے اطراف میں آبادقبائل سے اپنے دین پرباقی رہتے ہوئے وقتِ ضرورت ایک دوسرے کی مددوتعاون اورایک دوسرے کے دشمن کے ساتھ عدمِ رواداری کے سلسلہ میں معاہدہ کیا۔

مدینہ کی چراگاہ پرحملہ

جب مکہ سے مسلمان گھربارچھوڑچھاڑکرچلے آئے تومشرکینِ مکہ کے کلیجوں میں ٹھنڈک پڑنے کے بجائے شعلے بھڑک اٹھے، مکہ ہی سے ان کودھمکانے اوروہاں آبادقبائل سے سازباز کرنے لگے، حتی کہ مکہ کے ایک رئیس کُرزبن جابرفہری نے اپنے سواروں کے ساتھ مدینہ کی چراگاہ پرحملہ کرکے آں حضرت ﷺکے مویشی لوٹ لے گیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے چوکنارہناضروری ہوگیا؛ تاکہ ناگہانی حملہ سے بچاجاسکے، حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کوبارہ آدمیوں کے ساتھ’ بطنِ نخلہ‘کی طرف یہ حکم دے کرروانہ کیاکہ وہاں قیام کرکے قریش کے حالات سے آگہی حاصل کی جائے، اتفاق یہ کہ شام سے تجارتی اموال لے کرآتے ہوئے قریش کے چند افراد کا گزراِدھرہی سے ہوااورانھوں نے مسلمانوں کی اس جماعت کودیکھ بھی لیا؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ؓ نے اُن پراس لئے حملہ کیاکہ مبادایہ قریش کوہماری اطلاع بہم پہنچادیں، جس کے نتیجہ میں عَمروبن الحضرمی واصلِ جہنم ہوا، جب کہ دوگرفتارہوئے اورمالِ غنیمت ہاتھ لگا، جب اس کی اطلاع حضورﷺکوہوئی توآپﷺنے برہم ہوکرفرمایا:’’ میں نے تم کواس کی اجازت نہیں دی تھی‘‘اورمالِ غنیمت میں سے کچھ لینے سے انکارکردیا۔

ابوسفیان کاتجارتی قافلہ

حضرمی کے قتل کی خبرمکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پہنچی، جس کی وجہ سے پورے مکہ میں انتقام وقصاص کی آتشِ نمرودبھڑک اٹھی، اِدھر رسول اللہﷺکوخبرملی کہ ابوسفیان کی سرکردگی میں قریش کا تجارتی قافلہ مال ومتاع سے لداپھنداشام سے واپس آرہاہے،یہ اُن لوگوں کاقافلہ تھا، جنھوں نے مسلمانوں کے نہ صرف مال ومتاع پرغاصبانہ قبضہ کرلیاتھا؛ بل کہ انھیں ان کے محبوب وطن کوبھی چھوڑنے پرمجبورکیاتھا؛ چنانچہ حضورﷺ نے صحابہ کومخاطب کرکے فرمایا: ’’یہ قریش کاقافلہ ہے، جس میں ان کے اموال ہیں، چلو، شایداللہ تعالیٰ اس میں سے کچھ تمہیں دلادے‘‘، مسلمان اس قافلہ کی تلاش میں نکل پڑے، اُن کے سان وگمان میں بھی نہیں تھاکہ طاقت آزمائی کی نوبت آئے گی۔

(جاری ۰۰۰۰۰)

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی