آخری پیغمبرﷺ (قسط:۲)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۲)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

حبشہ کی پہلی ہجرت

جب ظلم وستم کی انتہااورجوروجفاکی حدہوگئی اوراہل اسلام کے لئے مکہ میں رہنا دوبھر کردیاگیاتونبوت کے پانچویں سال آں حضرت ﷺ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی؛ چنانچہ بارہ مردوں اورچارعورتوں پرمشتمل مسلمانوں کے پہلے قافلہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، ابھی دوڈھائی مہینے ہی گزرے تھے کہ اُن مہاجرین کویہ خبر ملی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں، لہٰذا وہ واپس آئے، جب مکہ کے بالکل قریب پہنچے تواس خبرکے جھوٹے ہونے کی اطلاع ملی، اب ’’نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن‘‘کی صورت تھی، لہٰذا کچھ لوگ چھپ چھپاکر، جب کہ کچھ کسی کی پناہ میں مکہ داخل ہوئے اوربعض حبشہ کی طرف لوٹ گئے۔

حبشہ کی دوسری ہجرت

اب ستم پہلے سے کہیں زیادہ طلاطم خیزہوگیا، مہاجرین توفرسٹ ٹارگٹ تھے ہی، عام مسلمان بھی پورے طورپراس لپیٹ میں آئے، ناچار رسول اللہ ﷺ نے پھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کامشورہ دیا، تاہم یہ ہجرت پہلی ہجرت سے زیادہ پرخطرتھی؛ لیکن مسلمانوں کی مستعدی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس ہجرت کوبھی آسان بنادیا؛ چنانچہ قریش کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی وہ شاہِ حبش کے پاس پہنچ گئے، یہ ہجرت چھ نبوی میں پیش آئی اوراس قافلہ میں تراسی مرد اور اٹھارہ عورتیں شامل تھیں۔

حضرت حمزہ اورحضرت عمررضی اللہ عنہماکاقبول اسلام

دوسری ہجرتِ حبشہ کے بعدقریش مکہ نے پہلے توشاہِ حبش کوبھڑکانے اورمسلمانوں کو واپس منگانے کی انتھک کوشش کی، جب اس میں کسی طور کامیابی نہیں ملی تونعوذباللہ آں حضرت ﷺ ہی کے قتل کی پلاننگ کربیٹھے اوراس کے لئے بارہاکوششیں بھی کیں؛ لیکن ’’جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے‘‘؛ بل کہ اسی طرح کی ایک کوشش حضرت حمزہ ؓ جیسے بہادرکے ایمان لانے کاسبب بنا، ایک دن ابوجہل کوہِ صفاکے پاس حضورﷺ کے پاس سے گزراتواس نے آپ ﷺکوسخت سست کہا، آپ ﷺ نے اس کاکوئی نوٹس نہیں لیاتویہ آپے سے باہرہوگیااورآپﷺکے سرپرپتھردے مارا، جس کے نتیجہ میں سرسے لہو اچھل پڑا، عبداللہ بن جدعان کی باندی نے یہ ساراماجراحضرت حمزہ ؓسے کہہ سنایااوریہی واقعہ آپؓ کے اسلام لانے کاسبب بن گیا، اغلب یہ ہے کہ یہ واقعہ چھ نبوی کے ماہ ذی الحجہ میں پیش آیا، حضرت حمزہؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے صرف تین دن بعدہی قریش کو ایک اورجھٹکالگا، ایساجھٹکا، جس نے مشرکینِ مکہ سے ظلم وطغیان کی بدمستی کودورکرکے کچھ سوچنے پر مجبورکردیا، وہ جھٹکاتھا’حضرت عمرؓ کااسلام قبول کرنا‘، ان کے اسلام لانے کے بعدمسلمانوں کو کچھ تقویت حاصل ہوئی اوربہت سارے کام کھلم کھلاانجام دینے لگے۔

خاندانی حمایت

آپ ﷺکے چچاابوطالب نے جب اپنے بھتیجے کے سرپرمنڈلاتے ہوئے خطرات کا مشاہدہ کیاتوانھوں نے اپنے جد اعلی عبد مناف کے دوصاحبزادوں ہاشم اورمطلب سے وجود میں آنے والے خاندانوں کوجمع کیااوراس بات کی دعوت دی کہ اب تک بھتیجا کی حفاظت وحمایت کی جس ذمہ داری کووہ تنہا نبھاتے آرہے ہیں، اب اسے سب مل کرانجام دیں، عربی حمیت کے پیش نظرتمام لوگوں نے اسے قبول کیا؛ البتہ ابولہب نے اسے منظورنہیں کیا اور وہ مشرکینِ قریش سے جا ملا۔

بنوہاشم ومطلب کابائیکاٹ

بنوہاشم ومطلب کے اس عہدوپیمان کے بعدمشرکینِ مکہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے،وہ سمجھ گئے کہ اب محمد (ﷺ) کوقتل کرنامکہ کی وادی کو خون سے لالہ زارکرنے کے مرادف ہوگا؛ اس لئے ایک دوسری سنگین تجویز پاس کی کہ بنوہاشم ومطلب سے نہ شادی بیاہ کریں گے، نہ خرید و فروخت کامعاملہ کریں گے، نہ ان کے ساتھ اٹھیں گے بیٹھیں گے،نہ ان سے میل جول رکھیں گے ، نہ ان کے گھروں میں جائیں گے اورناہی ان سے بات چیت کریں گے، یہاں تک کہ وہ محمد(ﷺ) کوقتل کرنے کے لئے ہمارے حوالہ نہ کردیں، یہ بنوہاشم ومطلب کومکمل طورپربائیکاٹ کی تجویزتھی، جس کولکھ کرصحیفہ کی شکل میں خانۂ کعبہ کے اندرلٹکادیاگیا، اس دستاویز کے نتیجہ میں بنوہاشم ومطلب کے سارے (مسلم وکافر) افراد شعبِ ابی طالب میں سمٹ سمٹاکرمحبوس ہوگئے، بائیکاٹ کا یہ واقعہ نبوت کے ساتویں سال پیش آیااورمسلسل تین سال تک چلتارہا، جس میں ان دونوں خاندان کے افراد کی حالت خستہ ہوگئی؛ حتی کہ پتے چبانے اور سوکھے چمڑے ابال کرکھانے کی نوبت پہنچ گئی، پھران لوگوں کی کوششوں سے ، جوابتداہی سے اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف تھے،اس صحیفہ کوچاک کیا گیااور پورے تین سال کے بعد(محرم دس نبوی میں)بنوہاشم ومطلب شعب ابی طالب کے حصارسے باہرنکلے۔

حضرت خدیجہؓ اورابوطالب کی وفات

چچاابوطالب کی عمراسی سے تجاوزکرچکی تھی اورکئی طرح کے آلام نے جکڑلیاتھا، شعب ابی طالب سے نکلنے کے کچھ مہینے بعد بیماری کاشدید حملہ ہوا، جودن بہ دن بڑھتاگیااور بالآخر محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعدرجب دس نبوی میں ان کاانتقال ہوگیا، ابوطالب کے انتقال کے دوماہ بعد آں حضرتﷺکی پہلی غم گساربیوی حضرت خدیجہ ؓ بھی رمضان المبارک کے مہینے میں جوارِ رحمت میں چلی گئیں، یہ دونوں الم انگیزحادثے صرف چندماہ کےفاصلہ سے یکے بعد دیگرے پیش آئے، جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺکے قلب میں رنج وغم کے احساسات موجزن ہوگئے اور چوں کہ چچاابوطالب اورزوجۂ محترمہ حضرت خدیجہؓ کی وجہ سے جوکچھ اب تک لحاظ کیاجاتاتھا، اب قوم نے اپنے سرسے لحاظ کی وہ چادراترتی ہوئی محسوس کی؛ چنانچہ ان کی طرف سے مصائب کا طومار بندھ گیا اورکھلم کھلااذیت دینے اورتکلیف پہنچانے لگے، اس کیفیت نے آپﷺکے حزن میں اوراضافہ کردیا۔

طائف کاسفر

آں حضرتﷺغم واندوہ کی اس کیفیت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے اورمکہ والوں سے مایوس ہوکرمکہ سے تقریباًساٹھ میل دور طائف کے سفرکاارادہ کیاکہ شایدان کے دلوں کے اندرکچھ زرخیزی ہواوروہ حق کوقبول کرلیں؛ لیکن وہاں کی زمین بھی بنجرثابت ہوئی اورآں حضرت ﷺ کے دس دن قیام کے باوجودایک فردبھی ایسانہ ملا، جودعوتِ دین کواپنے سینے سے لگاتا؛ بل کہ اس کے برخلاف وہاں کے سرداروں نے اوباشوں کوپیچھے لگادیا، جو راہ چلتے بھپتیاں کستے اورپتھربرساتے، پتھراتنے برسائے گئے کہ آپﷺکے جوتے خون میں نہاگئے، بالآخرعُتبہ وشیبہ کے باغ میں آپ ﷺ نے پناہ لی، دونوں بھائیوں نے اپنے غلام عدّاس سے کہا کہ اسے انگورکاایک خوشہ دے آؤ، جب عداس انگورلے کرپہنچاتوآپ ﷺنے بسم اللہ پڑھ کرکھاناشروع کیا، عداس نے کہا: یہ جملہ اس علاقہ کے لوگ تونہیں بولتے، آپﷺنے فرمایا: تم کہاں کے ہو؟ اورتمہارادین کیاہے؟ اس نے کہا: میں نینواکارہنے والاہوں اورمیں عیسائی ہوں، آپﷺنے فرمایا: اچھا! تم مردِصالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو، اس نے پوچھا: آپ یونس بن متی کوکیسے جانتے ہیں؟ فرمایا: وہ میرے بھائی تھے، وہ نبی تھے اورمیں بھی نبی ہوں، یہ سن کراس نے آپﷺکے ہاتھ اورسرکوبوسہ دیا۔

باغ میں تھوڑی دیرآرام کے بعدٹوٹے دل اورنڈھال طبیعت کے ساتھ مکہ کی راہ پرچل پڑے، جب ’قرنِ منازل‘ پہنچے توحضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ کے حکم سے پہاڑوں کے فرشتوں کو ہمراہ لے کرتشریف لائے اورعرض کناں ہوئے: اگرآپ حکم دیں تواہل طائف کودونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کررکھ دیں، آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! مجھے امیدہے کہ اللہ ان کی پشت سے ایسی نسل پیداکرے گا، جوصرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائے گی‘‘، پھرآپ ﷺ مکہ واپس آئے اوردیگرقبائل عرب کو دعوت دینے لگے۔

موسم حج میں تبلیغ

موسم حج میں آں حضرتﷺرات کے وقت قبائل کے لوگوں کے پاس جاکردین کی دعوت دیتے تھے، ایک رات منیٰ کی گھاٹی سے آپﷺکاگزرہواتوکچھ لوگوں کوباہم گفتگو کرتے ہوئے پایا، ان کے پاس گئے اوردریافت کیا: آپ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہم قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں، آپﷺنے ان کے سامنے اسلام کی حقیقت بیان کی اوراسلام کی طرف بلایا، پھرقرآن مجیدکی تلاوت فرمائی، ان لوگوں نے یہ سن کرآپس میں کہا: یہ تووہی نبی ہیں، جن کے حوالہ سے یہوددھمکیاں دیاکرتے ہیں، دیکھو! کہیں وہ تم پرسبقت نہ لے جائیں، پھران لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، یثرب (مدینہ منورہ) کے ان چھ سعادت مند روحوں کی آمدسن گیارہ نبوی کے موسم حج میں ہوئی تھی،جب وہ واپس یثرب گئے توانھوں نے اسلام کاپیغام لوگوں تک پہنچایا، جس کے نتیجہ میں وہاں کے گھرگھرمیں رسول اللہ ﷺ کا چرچاعام ہوگیا، اسی سال شوال میں آں حضرتﷺنے حضرت عائشہؓ سے نکاح فرمایا۔

گھاٹی کی پہلی بیعت 

یثرب کے مشرف بہ اسلام لانے والی مقدس روحوں کی تبلیغ سے آئندہ سال(ذی الحجہ بارہ نبوی) موسم حج میں وہاں کے بارہ آدمیوں نے آپﷺکے ہاتھوں پربیعت کی اورسعادتِ اسلام سے مشرف ہوئے،سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو’’پہلی بیعت عقبہ‘‘کے نام سے لکھا جاتا ہے، جب حج اختتام کوپہنچ گیاتوحضورﷺ نے ان لوگوں کے ہمراہ حضرت مُصعب بن عُمیرؓ کواپنا پہلا سفیربناکریثرب بھیجا، ان کی کوششوں سے سوائے چندمکانات کے انصارکے تمام گھرانوں نے اسلام قبول کرلیا، یہ اس بات کااشارہ تھا کہ دین کے کام میں جب اپنے ساتھ نہیں دیتے تواللہ تعالیٰ دوسروں کے ذریعہ سے کام لیتے ہیں۔

اسراء ومعراج

نبی کریم ﷺ اہل مکہ کی تکالیف اوراہل طائف کے مصائب سے چوراورپورے طورپررنجورتھے، ایسے وقت میں ڈھارس بندھانے اورتسلی دینے کی ضرورت تھی، نبوت کے بارہویں سال اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسراء ومعراج کرایا، مکہ سے راتوں رات ایک تیزرفتارسواری ’’رفرف‘‘کے ذریعہ بیت المقدس تک کاسفرکرایا، وہاں تمام انبیاء تشریف فرماتھے، آپ ﷺنے تمام کی امامت فرمائی، پھرحضرت جبرئیل علیہ السلام آں حضرتﷺکولے کر آسمان درآسمان انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کراتے ہوئے ’’سدرۃالمنتہیٰ‘‘تک پہنچے، جہاں آپﷺکے لئے’’ بیتِ معمور‘‘کوظاہرکیاگیا، پھرشاہنشاہِ عالم کے دربار میں پہنچایاگیا، آپﷺرب العالمین جل جلالہ سے دوکمانوں کے برابریااس سے بھی کم فاصلہ کے بقدرقریب ہوگئے، یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پروحی کی اورپچاس وقت کی نمازیں فرض کیں، واپسی پرحضرت موسیٰ علیہ السلام کے دریافت کرنے پربتایاتوانھوں نے مشورہ دیا کہ امت اس بارکوبرداشت نہ کرپائے گی؛ اس لئے نمازوں کوکم کروایئے، آں حضرت ﷺ رب العالمین کے دربارمیں کئی بارگئے، حتیٰ کہ پچاس وقت کی نمازکے ثواب کے ساتھ پانچ وقت کی نمازیں فرض باقی رہیں۔

گھاٹی کی دوسری بیعت

نبوت کے تیرہویں سال یثرب کے سترسے زیادہ مسلمان فریضۂ حج کی ادائے گی کے لئے مکہ مکرمہ آئے اورایام تشریق کی درمیانی رات جمرۂ عقبہ کے پاس آں حضرت ﷺ کے ہاتھوں پربیعت کی اورحضورﷺکے یثرپ آجانے کی صورت میں مکمل طورپرحفاظت کی ذمہ داری قبول کی، یہ بیعت عقبہ کی دوسری بیعت یا’’بیعتِ کبریٰ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے، اس بیعت کے بعدآں حضرتﷺنے مسلمانوں کویثرپ ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی، مسلمان ہجرت کے معنی خوب سمجھتے تھے؛ لیکن دین کی حفاظت کے لئے تمام ترمفادات تجنے کے لئے تیارہوگئے اورآہستہ آہستہ نکلنے لگے، مشرکینِ مکہ روکاوٹیں بھی کھڑی کرنے لگے، ان تمام کے باوجودبیعت کبریٰ کے تقریباً تین ماہ کے اندراندرتقریباًتمام مسلمان ہجرت کرکے یثرپ پہنچ گئے، مکہ میں صرف آں حضرتﷺ، حضرت ابوبکرؓ اورحضرت علیؓ اوروہ مسلمان باقی رہ گئے، جنھیں مشرکین نے زبردستی روک رکھاتھا۔

دارالندوہ کامشورہ

جب مسلمان بال بچوں سمیت ہجرت کرگئے تومشرکینِ مکہ کے اندرغم والم کے لاوے پھوٹ پڑے اورانھیں اپنی بت پرستانہ تہذیب پر خطرہ محسوس ہوا؛ اس لئے انھوں نے اپنی پارلیمنٹ’’ دارالندوہ ‘‘ میں جمع ہوکرنبی کریمﷺکے قتل کی ظالمانہ سازش رچی اورطے یہ پایاکہ ہر قبیلہ کاصاحبِ نسب بانکاجوان تیزتلوارلے کرمحمد(ﷺ)کارخ کرے اورسب مل کریکبارگی اس طرح قتل کریں، جیسے ایک ہی آدمی نے تلوارماری ہو، اس کافائدہ یہ ہوگا کہ محمد(ﷺ)کاخون سارے قبائل میں تقسیم ہوجائے گااوربنوعبدمناف اکیلے سارے قبائل سے انتقام لینے پرقادر نہ ہوسکے گا، یہ طے ہوجانے کے بعد مجلس برخاست ہوگئی۔

(جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔)

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی