آخری پیغمبرﷺ(قسط:۱)

آخری پیغمبرﷺ

(قسط:۱)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

تمہید

دنیاکے اس اسٹیج پربہت سارے لوگ آئےاوربہت سارے لوگ آئیں گے،حکمراں بھی آئےاورآئیں گے،زرداربھی آئے اورآئیں گے،فلاسفربھی آئےاورآئیں گے،قلم کاربھی آئے اورآئیں گے،شاعربھی آئےاورآئیں گے، صوفی بھی آئے اورآئیں گے، عابدبھی آئے اورآئیں گے، زاہد بھی آئے  اورآئیں گے،مرشد بھی آئے اورآئیں گے، محقق بھی آئےاورآئیں گے، علامہ بھی آئے اورآئیں گے، شہسواربھی آئےاورآئیں گے،مردِآہن بھی آئے اورآئیں گے، مردِمیدان بھی آئے اورآئیں گے، نوبل یافتہ بھی آئے اور آئیں گے؛ لیکن کسی کاانتظارنہ توایساکیاگیاہے اورناہی کیاجائے گا، کسی کے بارے میں تسلسل کے ساتھ نہ توایسی بشارت دی گئی ہے اورناہی دی جائے گی، کسی کی آمدپرنہ تو ایسی خوشی منائی گئی ہے اورناہی منائی جائے گی، کسی کی پیدائش پرنہ توایسی مجلس سجائی گئی ہے اورناہی سجائی جائے گی، جیساانتظار، جیسی بشارت، جیسی خوشی اورجیسی مجلس آرائی جگرگوشۂ آمنہ، خلاصۂ کائنات، فخرموجودات، محبوبِ خدا،امام الانبیاء،خاتم النبیین،رحمۃٌ للعالمین حضرت محمد مصطفیﷺکی تشریف آوری پرکی گئی۔

پیدائش وپرورش

حضرت محمدﷺ ۹ربیع الاول بروزدوشنبہ عام الفیل کے پہلے سال(واقعۂ فیل کے تقریباًپچپن دن کے بعد)مطابق ۲۰اپریل ۵۷۱ء کوپیداہوئے، آپﷺکے داداجناب عبدالمطلب نے آپ کانام ’’محمد‘‘رکھا، سب سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ نے آپ کودودھ پلایا، دوتین دن کے بعدآپ کے چچاابولہب کی باندی حضرت ثویبہ نے آپ کودودھ پلایا، پھرعرب کے رواج کے مطابق قبیلۂ ہوازن(بنوسعد) سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون حضرت حلیمہ سعدیہ نے دوبرس تک آپ کودودھ پلایا، وہیں چھ سال کی عمرتک آپ مقیم رہے، اسی دوران شقِ صدرکاواقعہ(ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال) بھی پیش آیا۔

والدہ اورداداکی وفات

چھ برس کی عمرمیں آپﷺنے اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ والدکی قبرکی زیارت کے لئے مدینہ کاسفرکیا، ایک ماہ کے بعدواپس آتے ہوئے مقام ’’ابواء‘‘میں آپ کی والدہ کاانتقال ہوگیااوریہیں مدفون ہوئیں، ام ایمن ؓ(جوحضرت آمنہ کی خادمہ تھیں اوراس سفرمیں ساتھ تھیں) آں حضرتﷺکو لے کرمکہ آئیں، اب آپ کے داداعبدالمطلب نے آپ کو اپنے دامنِ تربیت میں لے لیااوردوسال تک آپ کی کفالت کرتے رہے، دوسال کے بعدجب آپﷺکی عمرآٹھ سال کی ہوئی توآپ کے دادا عبدالمطلب بیاسی سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کرگئے، دادا کے انتقال کے بعدآپ کے چچا ابوطالب نے آپ کواپنی آغوشِ تربیت میں لیا۔

سفرشام اوربحیرہ راہب سے ملاقات

بارہ سال کی عمرمیں چچاابوطالب نے اپنے شام کے تجارتی سفرمیں یتیم بھتیجا کوبھی ساتھ لیا، جب ’’بُصریٰ‘‘نامی مقام پرابوطالب کے قافلہ نے پڑاؤ ڈالا توجرجیس نامی راہب (جس کالقب بُحیراتھا)نے آپ کے اوصاف کی بنیادپرآپ کوپہچان لیااورہاتھ پکڑکرکہا: یہ سیدالعالمین ہیں، اللہ انھیں رحمۃ للعالمین بناکربھیجے گا، پھرابوطالب کومشورہ دیتے ہوئے کہا: انھیں واپس کردو، ملک شام لے کرنہ جاؤ؛ کیوں کہ یہودسے خطرہ ہے، ابوطالب نے راہب کے مشورہ کوقبول کرتے ہوئے آں حضرتﷺکواپنے بعض غلاموں کے ساتھ مکہ واپس بھیج دیا۔

جنگ فجار

آپ جب پندرہ برس کے ہوئے توقریش وکنانہ اورقیس عَیلان کے درمیان ایک جنگ ہوئی، جوسیرت کی کتابوں میں ’’جنگِ فجار‘‘کے نام سے مشہورہے، اس جنگ میں آں حضرتﷺبھی شریک تھے اورتیراٹھااٹھاکراپنے چچاؤں کو دیتے تھے۔

ملک شام کاتجارتی سفراورشادی

پچیس برس کی عمرمیں حضرت خدیجہؓ کامالِ تجارت لے کرملک شام کاسفرکیااورتجارتی منافع کے ساتھ لوٹے، جب حضرت خدیجہؓ نے راست گوئی، امانت داری اورمکارم اخلاق کامشاہدہ کیاتواپنی ایک سہیلی نفیسہ بن منبہ کے ذریعہ شادی کاپیغام بھجوایا، آپﷺنے اپنے چچاؤں سے مشورہ کے بعد اس پیغام کوقبول کرلیااورملک شام سے واپسی کے تقریباً دومہینے کے بعدبنوہاشم اورروسائے مُضرکی موجودگی میں بیس اونٹ مہرکے عوض آں حضرتﷺاور حضرت خدیجہؓ رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوگئے، اس وقت حضرت خدیجہؓ تقریباً چالیس سال کی تھیں۔

حجراسودکاجھگڑا

جب آپﷺپینتیس سال کے ہوئے توخانۂ کعبہ کی تعمیر نوکاکام شروع ہوا، جب حجراسودتک تعمیرہوگئی تواس کورکھنے کے سلسلہ میں جھگڑااٹھ کھڑاہوا، ہرقبیلہ اس شرف سے مشرف ہوناچاہتاتھا؛ حتی کہ نوبت خون خرابے تک جا پہنچی، تب ابوامیہ مخزومی نے یہ کہہ کرفیصلہ کی ایک صورت پیداکی کہ کل صبح جوحرم میں سب سے پہلے داخل ہوگا، جھگڑے کاحَکم اسی مانیں، مشیتِ ایزدی کہ صبح سب سے پہلے نبی کریمﷺتشریف لائے، لوگوں نے دیکھتے ہیں کہا: ہذا الأمین، رضیناہ، ہذامحمد’’یہ امین ہیں، ہم (ان کے فیصلہ پر)راضی ہیں، یہ محمدہیں‘‘، آں حضرتﷺنے ایک چادرمنگواکراپنے دستِ مبارک سے حجراسود کواس پررکھا اورتمام قبائل کے سرداروں سے اس کے کنارہ کوپکڑکرلے چلنے کے لئے کہا، جب نصب کی جگہ تک چادرپہنچ گئی توآپ ﷺنے اپنے بابرکت ہاتھ سے حجراسودکواس کی جگہ پررکھ دیااورقبائل کے درمیان رونماہونے والے خون خرابے کوفروکیا۔

پہلی وحی

جب عمرشریف چالیس سال کی ہوئی تواللہ تبارک وتعالیٰ نے نبوت کی سعادت سے سرفرازفرمایا؛ چنانچہ آں حضرت ﷺبغرض عبادت’غارِ حراء‘ میں تشریف فرماتھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام پہلی وحی لے کراترے اورکہا: پڑھو، آپﷺنے فرمایا: مجھے پڑھنانہیں آتا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اپنے سینے سے بھینچااوردوبارہ کہا: پڑھو، آپ ﷺنے پھرجواب دیا:مجھے پڑھنانہیں آتا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پھراپنے سینے سے بھینچااورکہا: ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے، جس نے پیداکیا،جس نے انسان کوخون کے لوتھڑے سے پیداکیا، پڑھواورتمہارارب بزرگ وباعزت ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، جس نے انسان کووہ چیزیں سکھائیں، جووہ نہیں جانتاتھا‘‘(العلق: ۱-۵)،نزولِ وحی کایہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۵تاریخ(۶اگست ۶۱۰ء) کوپیش آیا۔

لوگوں کاقبول اسلام

پہلی وحی کے بعدچندروزتک وحی کاسلسلہ بندرہا، پھرسورۂ مدثرکی ابتدائی آیات کے ذریعہ تبلیغ کاحکم ہوا، آں حضرتﷺشروع شروع میں (تین سالوں تک) خاموشی کے ساتھ گھروالوں اور قریبی تعلق رکھنے والوں کودعوت دیتے رہے، جس کے نتیجہ میں حضرت خدیجہ، حضرت زیدبن ثابت، حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعدبن وقاص، حضرت عثمان، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت بلال حبشی، حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت عثمان بن مظعون،حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد،حضرت ارقم بن ابی الأرقم، حضرت عبیدہ بن حارث، حضرت قدامہ بن مظعون، حضرت عبداللہ بن مظعون، حضرت سعیدبن زید، حضرت فاطمہ بنت خطاب، حضرت خباب بن ارت اورحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہم مشرف بہ اسلام ہوئے،پھروأنذرعشیرتک الأقربین کے امرپر پورے خاندان والوں کے سامنے دعوتِ دین کوپیش کیااور فاصدع بماتؤمرکے ارشادربانی کے نتیجہ میں پورے مکہ میں علی الاعلان تبلیغ کافریضہ انجام دینے کاآغازکیا۔

قریش کی ایذارسانی

کھلم کھلاتبلیغ کاکام شروع ہوتے ہی اہل مکہ آگ بگولہ اورحتی المقدور مسلمانوں کے درپئے آزارہوگئے، جس پرجس کابس چلتا، ستاتااور اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے طرح طرح کی اذیتیں دیتا، کسی کوکھجورکی چٹائی میں لپیٹ کرنیچے سے دھواں دیاجاتا، کسی کواس وقت مکہ کے پتھریلے کنکروں پرلٹاکرسینہ پرپتھررکھ دیاجاتا، جب دوپہرکی گرمی شباب پرہوتی،کسی کودہکتے ہوئے انگاروں پرلٹایاجاتا، کسی کے گلے میں رسی ڈال مکہ کی گلی گلی میں کھینچاجاتا ؛ لیکن اسلام کی سعادت سے محظوظ ہونے والے تمام افراد ان سختیوں کوجھیل جاتے اوراُف تک نہ کرتے۔

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔)


2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی