تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟

تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟


’’تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟‘‘یہ ایک ایسے برگزیدہ شخص کا اپنے بیٹوں سے سوال ہے، جوخود بھی نبی، جس کے والد بھی نبی، جس کے دادابھی نبی اورجس کابیٹابھی تھے۔ جن کے یہاں سلسلۂ نبوت چارپشتوں سے چلی آرہی تھی، گویاحسب کے اعتبار سے اعلی مقام پرفائز اورنسب کے لحاظ سے اونچے مرتبہ کی حامل شخصیت کا سوال ہے اوریہ سوال ایسے لوگوں سے ہے، جن کاگھرانہ وحدانیت ِ الٰہی کی نہ صرف گواہی دیتا رہاہے؛ بل کہ اسی کی تبلیغ اوراشاعت ہی میں مسلسل لگارہاہے ، جن کے بارے میں اس بات کاادنیٰ امکان نظرنہیں آتاکہ وہ وحدانیت کوچھوڑکرتثلیث اوراکائی کوچھوڑکردَہائی کی عبادت کرنے لگیں گے؛ کیوں کہ ان کی تربیت اورنشوونمااسے اشخاص کے ہاتھوں انجام پاتی رہی ہے، جوروئے زمین کی پاکیزہ ترین ہستیاں ہیں۔اس کے باوجود دنیائے دنی سے رخصت ہونے کے وقت تمام اہل وعیال کواپنے گرد اکٹھاکرکے یہ سوال کہ’’ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟‘‘یہ وحدانیت رب کے سلسلہ میں ان کی فکرمندی کی غماز اوراس بات کی علامت ہے کہ وہ دین کے تئیں کس قدر ذمہ داری محسوس کررہے ہیں؟ 

افسوسناک بات

آج کے اس دور میں جب کہ قدم قدم پردین سے دورکرنے والے امورکی کمی نہیں، خورش سے لے کرپوشش تک ہرچیز سے دین بیزاری ہی کی تعلیم مل رہی ہے، ایسے وقت میں ہمیں اس بات کی حضرت یعقوبؑ سے کہیں زیادہ اپنے بچوں کے بارے میں فکرمندہوناچاہئے کہ وہ خدائے ذوالجلال ہی کے پرستاربن کردنیامیں زندگی گزاریں۔اس کے لئے ہمیں بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت دینی ہوگی، مادیت کے اس دورمیں ہرشخص کے ذہن میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ ہمارا بیٹاڈاکٹراورانجنیئربن جائے ، یقینا آپ کا یہ خواب قابلِ مبارک بادہے؛ لیکن خداراڈاکٹری اورانجنیئرنگ کی تعلیم کے ساتھ اس کی دینی تعلیم اورتربیت کی بھی فکرکیجئے۔کتنے ایسے بچے ہیں جوڈاکٹری اورانجینئرنگ کے آخری سالوں میں ہوتے ہیں؛ لیکن اُنھیں نبی آخرالزماں ﷺ کانام تک معلوم نہیں ہوتا؟ کیایہ قابلِ افسوسناک بات نہیں ہے کہ ہم جس نبی کی امتی ہونے کادعویٰ کررہے ہیں، اُس نبی کی حیات توکُجا، اس کے نام سے بھی واقف نہیں؟

ہماری کوتاہی کانتیجہ

ہمارے اکثربچے آج مشنریوں اورکانوینٹ کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اُنھیں عیسائی پاپاؤں کے نام ازبر ہوتے ہیں؛ لیکن اگران سے صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اوردوسرے بزرگوں کانام پوچھ لیں تواس طرح بغلیں جھانکنے لگتے ہیں، جیسے کسی خلائی مخلوق کے نام لئے جارہے ہوں، ناموں کے سلسلہ میں جب یہ حال ہے توکارناموں کے بارے میں کیاواقفیت ہوگی؟لیکن یہ صرف اس بچہ کاقصورنہیں ہے؛ بل کہ بچے کے والدین کابھی قصورہے کہ انھوں نے صرف اور صرف مادیت کودیکھا، دین کی طرف ادنیٰ توجہ نہیں دی؛ حالاں کہ انھیں خوب معلوم ہے کہ یہ دولت، یہ ثروت، یہ مکانات اوریہ فلک بوس عمارتیں دنیاہی تک رہنے والی ہیں، دنیاوی زندگی کے بعد ایک اورزندگی آنے والی ہے، جہاں صرف اورصرف دین ہی کام آئے گا۔

موت کے بعد کام آنے والی چیزیں

حدیث میں آتاہے کہ دنیاسے جانے کے بعدتین چیزیں کام آتی ہیں: (۱) علمِ نافع(۲) صدقۂ جاریہ (۳) اورنیک اولاد؛ لیکن غورکرنے کی بات ہے کہ ہم ان تین چیزوں میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی فکرمندہیں؟علمِ نافع نہ توخودحاصل کرتے ہیں اوراپنی اولادکواس کے حصول میں لگاتے ہیں، ہم بس بنئے کی طرح صرف سامنے نظرآنے والے فائدے کوہی حاصل کرتے ہیں؛ لیکن اس فائدہ کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے، جواس وقت ہمارے کام آنے والاہے، جس وقت نہ بھائی کام آئے گا، نہ باپ، نہ بیٹا، نہ ماں، نہ بیٹی اورنہ ہی کوئی دوریاقریب کے رشتہ دارواحباب!

بچوں کی تعلیم ضروری ہے؛ لیکن ایسی تعلیم کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جانی چاہئے، جس سے خداکی معرفت حاصل ہوتی ہواور جس سے اخلاق فاضلہ سے پیداہوتے ہوں، نہ کہ ایسی تعلیم، جوالحادودہریت کی طرف لے جاتی ہواورجس سے اخلاقِ رذیلہ پیداہوتے ہوں، پھراسی کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اپنے بچوںسے کرتے رہناچاہئے کہ’’تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟‘‘کہ یہی ہماری زندگی کاحاصل اورخلاصہ ہے۔

٭٭٭ 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی