دینی اداروں کا نظام: یک دستی یاشورائی ؟!

دینی اداروں کا نظام: یک دستی یاشورائی ؟!

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

کسی بھی ادارہ کی ترقی میں، اس ادارہ کے نظام کا بڑاعمل دخل ہوتاہے، اگر نظا م درست اور قابلِ اعتماد لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتوادارہ دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر تارہتاہے؛ لیکن اگر ادارہ کا نظام غیردرست اورخداناترس لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتوادارہ ترقی ٔمعکوس کاشکارہوجاتاہے۔

دوطرح کے نظام

یہ نظام دوطرح کےہوتےہیں(۱) یک دستی(۲) شورائی۔

یک دستی نظام

یک دستی نظام میں پورے ادارے کا کرتادھرتا ’’فردِ واحد‘‘ہوتاہے، وہی اس ادارہ کا ناظم بھی ہوتاہے اور وہی اس ادارہ کا مہتمم بھی، کاغذی خانہ پری کے لئے ہوسکتاہواہتمام کی ذمہ داری کسی اور شخص کے سپرد ہو؛ لیکن عملی طورپر وہی فردِواحد ساری ذمہ داری ادادکرتاہے، کاغذی مہتمم کو کچھ بھی اختیارات حاصل نہیں ہوتے،یہ فردِ واحد اپنے کسی بھی کام کے لئے کسی دوسرے کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتاہے اور نہ کوئی اس کے لئے اسے مجبور کرسکتاہے، چوں کہ کسی کے سامنے کسی بھی طرح کی جوابدہی کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا؛ اس لئے بسااوقات یہ اپنے ذاتی اغراض کے لئے پورے ادارے کوہی داؤ پر لگانے کے لئے تیار ہوجاتاہے، اسی کے ساتھ ساتھ اس فردِواحد کا رویہ اساتذہ اورعملہ کے ساتھ (عمومی طورپر) آمرانہ ہوتاہے، اور ایسابھی دیکھاگیاہے کہ ادارہ کے ملازم کو اپنا ملازمِ خاص سمجھتاہے۔

یک دستی نظام میں ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ادارہ کو ملنے والی تبرعات اپنی مختلف نوعیتوں کے باوجود ایک ہی کھاتہ میں جمع کردی جاتی ہیں، نہ زکوٰۃ کی مد کا کوئی خاص خیال رکھاجاتاہے اور نہ ہی دوسرے مدات کا لحاظ، بس منافع تجار کی طرح ایک ہی خزانہ میں ذخیرہ اندوز کردیاجاتاہے، پھر کسی بھی کام کے لئے اسی ''خزانہ ٔ عامرہ" سے نکالاجاتاہے، نہ اس کا حساب کہ زکوٰۃ کی رقم کتنی تھی؟ اور نہ یہ فکر کہ زکوٰۃ کی رقم کو خالص اسی کے مصارف میں استعمال کیاجائے، تعمیری کاموں کے لئے بھی اسی خزانہ سے نکالاجاتاہے، سفری اخراجات کے لئے بھی وہی کام آتاہے، اساتذہ کی تنخواہوں کے لئے بھی اسی پرہاتھ صاف کیاجاتاہے اور غریب بچوں کے وظائف بھی وہیں سے دئے جاتے ہیں۔ 

یک دستی نظام کے اندر ایک بنیادی خرابی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ادراہ کے لئے بعض غیر ضروری چیزوں کی خریداری کی جاتی ہے، جب کہ ان چیزوں سے صرف نظر کرلیاجاتاہے، جن کی ادارہ کو اشدضرورت ہوتی ہے،غیرضروری چیزوں کی تعمیراورپھراس کی تخریب بھی عمل میں آتی رہتی ہے، اسی طرح ادارہ کے نام پر خریدی جانے والی اشیاء کا استعمال اپنے ذاتی اغراض کے لئے اس طرح کیاجاتاہے، جیسے یہ چیز بطورِوراثت اس کے حصہ میں آئی ہو، کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ کوئی چیز خریدی توادارہ کے نام پرجاتی ہے؛لیکن کاغذی کارروائی ادارہ یا ٹرسٹ کے بجائے خود فردِواحدکے نام پرہوتی ہے۔

شورائی نظام

یک دستی نظام کے برخلاف ایک دوسرانظام شورائی ہوتاہے، اس میں مختلف جگہوں اورمختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بیس پچیس افرادممبرہوتے ہیں، سالانہ ان کی ایک میٹنگ ہوتی ہے، اور پورے سال کے لئے ایک لائحۂ عمل تیار کیاجاتاہے، کس چیزکی ضرورت ہے؟ تعلیمی نظام میں کیاتبدیلی کی جانی چاہئے؟ تعمیری کیاکام ہونا چاہئے؟ کتنے اساتذہ کی تقرری عمل میں لائی جائے گی؟ ملازمین کی تنخواہوں میں کتنے فیصد اضافہ کیاجائے؟ غرض سال بھرکے لئے پوراایک خاکہ تیار کرلیاجاتاہے، پھراسی کے مطابق اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس نظام میں فردِواحد کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے، مہتمم صاحب بھی مجلسِ شوریٰ میں طے کئے ہوئے امور ہی انجام دیتے ہیں، من چاہی کوئی کام کرنے کا اُنھیں بھی اختیار نہیں ہوتااور نہ ایساکرسکتے ہیں؛ کیوں کہ یہاں شوریٰ کے سامنے جوابدہی کا خوف ہوتاہے، شورائی نظام میں مہتمم کی حیثیت مخدوم کی نہیں؛ بل کہ ایک خادم کی ہوتی ہے، چنانچہ ملازمین کے ساتھ بھی ان کارویہ آمرانہ نہیں ہوتا، ادارہ کی اشیاء کا استعمال بھی وہ وارث کی طرح نہیں کرتا، نہ ہی غیر ضروری چیزوں کی خریداری پرقوم کی دولت لُٹاتاہے، تبرعات کے لئے بھی الگ الگ رجسٹرہوتے ہیں اور ہر مد کو اس کے اپنے مصرف میں خرچ کیاجاتاہے،یہ شورائی نظام واقعی اس لائق ہے کہ ہر دینی ادارہ اسے اپنائے،اس نظام کی وجہ سے ارباب اہتمام خواہ مخواہ گناہ میں ملوث نہیں ہوتے اورنہ اس پر خُردبُردکاالزام لگتاہے، دنیابھی بھلی ہوتی ہے اور آخرت بھی سنورجاتی ہے؛ لیکن آج کل اس شورائی نظام میں بھی دھاندلی شروع ہوگئی ہے، شوریٰ کاممبراسے بنایاجاتاہے، جومریدِخاص ہواور حضرت کے ہرقول پر’’بجافرمایا‘‘بول سکے، ظاہر ہے کہ اگرایساہوتو اس نظام اوریک دستی نظام میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہ جاتاہے، یہاں بھی وہی برائیاں آجاتی ہیں، جویک دستی نظام میں ہوتی ہیں۔

دینی ادارہ چلانے والے خود اس بات سے زیادہ واقف ہوں گے کہ کیااچھا اورکیابُراہے؟ میں ایک طفل مکتب اُن کے سامنے کیالب کشائی کروں؟ نہ میں خود اس قابل ہوں، لیکن پھربھی یہ عرض کرتاہوں کہ خدارا انمایخشیٰ اللہ من عبادہ العلماء کی آیت کو اپنے سامنے رکھئے اور اس دن کی ذلت سے بچنے کی ہروقت دعاء کیجئے، جس دن کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوگا، کہیں ایسانہ ہوکہ:

شیخ آئے جومحفل میں تواعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے ، وہی مال ندارد


٭٭٭٭٭٭

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی