کیا ہبہ کے لئے قبضہ شرط ہے؟

کیا ہبہ کے لئے قبضہ شرط ہے؟


سوال:ہبہ کے لئے قبضہ کی شرط کے سلسلہ میں فقہاء کے نقاطِ نظر اوران کے دلائل کیا ہیں؟ اورہبہ میں قبضہ کی کیاحیثیت ہے؟

جواب: اِس سلسلہ میں فقہاء کرام کی دورائیں ہیں:

پہلی رائے

(۱) ہبہ کے تمام اورلازم ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے، اِس کے قائلین میں حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی اورحضرت امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ ہیں۔علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

قال عامۃ العلماء: شرط، والموہوب قبل القبض علی ملک الواہب یتصرف فیہ کیف شاء۔ (بدائع الصنائع: ۵/۱۷۵، فقہ شافعی: الحاوی الکبیر: ۷/۵۳۵، نیز دیکھئے: جواہرالعقود: ۱/۳۱۳، فقہ حنبلی: المغنی، کتاب الہبۃ والعطیۃ: ۱/۱۳۳۶، ط: بیت الأفکارالدولیۃ، لبنان۲۰۰۴ء)

البتہ حضرت امام احمدبن حنبلؒ سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ مکیلی اورموزونی چیزوں کے علاوہ میں محض عقدہی سے ہبہ لازم ہوجاتاہے۔علامہ مرداوی لکھتے ہیں:

وعنہ: تلزم فی غیرالمکیل والموزون بمجرد الہبۃ۔ (الإنصاف: ۷/۹۱، نیز دیکھئے: المبدع شرح المقنع: ۵/۲۷۸، الشرح الکبیر لإبن قدامۃ: ۶/۲۵۰)

دلائل:

۱-حضرت موسی بن عقبہ ؓ فرماتے ہیں: أن رسول اللہ أہدیٰ للنجاشی اواق مسک، فقال لأم سلمۃ: إنی قدأہدیت للنجاشی اواق مسک، ولاأراہ إلاقدمات قبل أن یصل إلیہ، فإن جانا، وہبت لک کذا، فجائتہ، فوہب لہاولغیرہا۔ (معرفۃ السنن والآثار، باب السلم فی المسک والعنبر، حدیث نمبر: ۱۱۶۴۰)

اِس حدیث کونقل کرنے کے بعدحافظ ابن عبدالبرؒ لکھتے ہیں:

ولوکان الہبۃ والعطیۃ تحتاز بالکلام لمارجع النبی فی ہبتہ ولا ہدیتہ، وکیف کان یتصرف فی ذلک، وہوالقائل: لیس لنامثل السوء العائد فی ہبتہ کالکلب یعود فی قیئہ۔ (التمہید: ۷/۲۴۴)

۲-حضرت عمرؓکا قول ہے:  الأنحال میراث مالم تقبض۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب شرط القبض فی الہبۃ، حدیث نمبر: ۱۲۳۰۳)

۳- حضرت نضربن انس ؓفرماتے ہیں: نحلنی أبی نصف دارہ، فقال ابوبردۃ: إن سرک أن تجوز ذلک، فأقبضہ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، باب من قال لاتجوز الصدقۃ حتی تقبض، حدیث نمبر: ۲۰۵۰۲)

۴- حضرت عثمان بن عفان ؓ کاقول ہے: من نحل ولداً لہ صغیراًلم یبلغ أن یحوزنحلہ، فأعلن بہا، وأشہد علیہا، فہی جائزۃ، وإن ولیہاابوہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب یقبض الطفل أبوہ، حدیث نمبر: ۱۲۳۰۴)

۵-حضرت ابراہیم نخعیؒ فرماتے تھے: الہبۃ لاتجوزحتی تقبض۔(مصنف عبدالرزاق، باب الہبات، حدیث نمبر: ۱۶۵۲۹)

۶- محمدبن نصرابوعبداللہ مروزیؒ کہتے ہیں: قد اتفق ابوبکر، وعمر، وعثمان، وعلیٌّ علیٰ أن الہبۃ لاتجوز إلامقبوضۃ۔ (التمہید، المبحث الحادی والثلاثون: ۷/۲۳۹، نیز دیکھئے: شرح الزرقانی، باب مالایجوز من العطیۃ: ۴/۵۷)

عقلی دلائل:

۱- لأنہاعقد تبرع، فلوصحت بدون القبضل لثبت للموہوب ولایۃ مطالبۃ الواہب بالتسلیم، فتصیرعقد ضمان۔ (بدائع ائصنائع: ۵/۱۷۶)

دوسری رائے

(۲) ہبہ کے انعقاد کے لئے قبضہ ضروری نہیں؛ بل کہ قول کافی ہے،اِس کے قائل حضرت امام مالک ؒ ہیں۔ علامہ ابن رشد مالکیؒ لکھتے ہیں:

ینعقد بالقبول، ویجبرعلی القبض کالبیع۔ (بدایۃ المجتہد: ۲/۳۲۹، نیز دیکھئے: منح الجلیل: ۸/۱۸۶، شرح میارۃ: ۱/۳۱، حاشیۃ الدسوقی: ۴/۱۰۳)

دلائل:

۱- أن الأصل فی العقود : أن لا قبض مشترط فی صحتہا حتیٰ یقوم الدلیل علی اشتراط القبض۔ 

۲- ہبہ بیع کی طرح ہے اوربیع کے درست ہونے کے لئے قبضہ ضروری نہیں؛ اِس لئے ہبہ کے درست ہونے کے لئے بھی قبضہ ضروری نہیں۔

ترجیح

اِس بندہ کے نزدیک ترجیح قول اول کوحاصل ہے اوراُس کی وجہ درج ذیل ہے:

۱- یہ ایک ایسا ععقد ہے، جس کے مقابلہ میں کوئی عوض نہیں ہوتااورجب عوض نہیں ہے توملکیت کوثابت کرنے کے لئے قبضہ کے علاوہ کوئی دوسری شکل نہیں ہے۔

۲-ہبہ میں قبضہ کے شرط ہونے پرصحابہ کااجماع ہے،اوراجماعِ صحابہ بلاخلاف حجت ہے۔البتہ قبضہ کی شکلیں اشیاء کے اختلاف کے ساتھ بدل سکتی ہیں۔ 

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی