غزوۂ حنین اوراس کے اسباق

درسِ حنین

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سن آٹھ ہجری کا واقعہ ہے ، کفروشرک کاسب سے بڑاگڑھ ’’مکہ ‘‘فتح ہوچکا ہے اوراِ س کے فتح کے ساتھ طنطنۂ کفربھی سردپڑچکاہے، اطراف واکناف کے قبائل سہمے ہوئے ہیں اورشوکت ِاسلام کے سامنے سرنگوں ہوکرفاتحِ مکہ کے دربارمیں خودسپردگی کررہے ہیں، تاہم بعض قبیلے ایسے بھی ہیں، جونخوت کے ٹٹوپرسوارہیں اورطوقِ طاعت اپنی گردنوں میں ڈالنے کے لئے تیارنہیں، اُن قبیلوں میں مضر، چشم، سعد، غطفان، ہوازن اورثقیف ہیں، جن کی پندارِخودی غلغلۂ اسلام کوتسلیم کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے؛ اِس لئے وہ اب تک سپرانداز نہیں ہوئے ہیں اورناہی اُن کاارادہ سپرانداز ہونے کاہے؛بل کہ وہ اہل ِاسلام پرایک ایسی یورش کی تیاری کررہے ہیں، جوسپرانداز ہونے والے قبائل کے سامنے اہل ایمان کی ہمالیائی سطوت کوزمیں بوس کردے اورافلاک کی وسعتوں میں اُن کی طاقت کاڈنکابجتے ہوئے سن سکیں، اس کے لئے اُنھوں نے مالک بن عوف نصری کی امارت کوباتفاق رائے تسلیم کرلیاہے۔

مالک بن عوف نصری کی امارت میں یہ تمام قبائل پیش قدمی کرچکے ہیں؛ تاکہ اہل اسلام سے پہلے ایسی جگہوں پرقابض ہوسکیں، جوقتل وقتال کے لئے ہم وار ہوں اورجہاں سے اہل اسلام کوگھات لگاکرگھائل کرسکیں، چوں کہ وہ لوگ اس لڑائی کوزندگی کی آخری لڑائی تصورکرچکے تھے؛ اس لئے بچے، عورتیں اورمویشی بھی ساتھ ہانک لائے؛ تاکہ ہرسپاہی عزت وناموس کے تحفظ کی فکرمیں سرشارہوکر میدان کارزارمیں کفن بردوش لڑے اورکسی کے حاشیۂ خیال میں بھی ادباروپسپائی کا ہیولیٰ نہ ابھرے۔

جب متحدہ جمعیت مقام اوطاس تک پہنچی توسپہ سالارنے خیمہ زن ہونے کاحکم صادرکیا، جمعیت کے پڑاؤکے بعدمیدانِ حرب وضرب کے سردوگرم کاچشیدہ دُریدبن صمہ نے پوچھا: یہ کونسی جگہ ہے؟ جواب دیاگیا: اوطاس، اس نے کہا:نعم محل الخیل، لاحزن ضرس، ولاسہل دہس(یہ شہسواروں کے لئے بہترین جولان گاہ ہے، نہ پتھریلی کھائی دارہے، نہ بھربھری نشیب)، پھرکہا: مالی أسمع رغاء البعیر، ونہاق الحمیر، وبکاء الصغیر، ویعار الشاء(کیابات ہے؟ میں اونٹوں کی بلبلاہٹ، بکریوں کی ممیاہٹ، گدھوں کاشوروغوغااور بچوں وعورتوں کی آہ وبکاسن رہاہوں)، جواب ملا: سپہ سالا رمالک بن عوف نصری نے ان سب کوساتھ ہانک لایاہے، دُرید نے اسے بلاکرپوچھا: تم نے ایساکیوں کیاہے؟ اس نے جواب دیا: اردت أن أجعل خلف کل رجل أہلہ ومالہ لیقاتل عنہم(میں نے سوچاکہ ہرشخص کے پیچھے اس کے گھر والوں کوکھڑاکردوں؛ تاکہ وہ ان کی عزت وناموس کے لئے لڑے)، دُریدنے جواباً کہا: راعی ضأن! وہل یرد المنہزم شیٌٔ؟ إنہاإن کانت لک لم ینفعک إلارجل بسیفہ ورمحہ، وإن کانت علیک، فضحتَ فی أہلک ومالک(تم نرے چرواہے ہو، کیاشکست وہزیمت کو کوئی چیز روک سکتی ہے؟ اگرجنگ تمہارے حق میں ہوتوتمہارے لئے شمشیرزن اورنیزہ بازہی مفیدہیں؛ لیکن اگرمعاملہ برعکس ہوجائے توتم اپنے اہل وعیال میں رسواوخوارہوگے)، پھراُس نے قبیلۂ کعب وکلاب کے بارے میں پوچھاتولوگوں نے کہاکہ وہ اس جنگ میں شریک نہیں، اس پردریدنے کہا: غاب الحدوالجد، ولوکان یوم علاء ورفعۃ، لم تغب عنہ کعب ولاکلاب، ولوددت أنکم فعلتم مافعلت کعب وکلاب، فمن شہدہامنکم؟(اہل دانش وبینش موجودنہیں، اگریہ شان وشوکت اوربلندی ورفعت کادن ہوتاتوکعب وکلاب غیرحاضرنہ رہتے، میں چاہتاہوں کہ تم بھی وہی کرو، جوکعب وکلاب نے کیاہے، تم میں سے کون اس کے لئے تیارہے؟)، پھرمالک بن عوف کوعورتوں اوربچوں کوکسی محفوظ مقام پرلے جانے کا مشورہ دیا، جس کے جواب میں مالک نے کہا: تم بوڑھے پھوس ہوچکے ہواورتمہاری عقل سٹھیاچکی ہے، اگرہوازن کے لوگوں نے میری بات نہ مانی تومیں اپنے آپ کوہلاک کرلوں گا، دُرید نے مالک کی ہٹ کودیکھ کریہ شعرپڑھا:

یالیتنی فیہاجذع

أخُب فیہا وأضع

أقود وطفاء الزمع

کأنہاشاۃ صدع

(اے کاش! میں اس میں جوان ہوتا، میں اس میں دوڑتااور(تلوار)رکھتا، اوربکریوں کی طرح چھریرے ناقابل التفات لوگوں کی رہنمائی کرتا)

اس کے بعدمالک نے اپنے جاسوس بھیجے؛ تاکہ وہ صحیح حالات سے آگاہی کریں؛ لیکن وہ مالک کے پاس اس حال میں لوٹے کہ ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑرہی تھیں اور رنگ فق ہوچکاتھا، وہ ’’کاٹوتوخون نہیں‘‘کے مثل ہوکرلوٹے ، جنھیں دیکھ کرمالک نے احوال دریافت کیا، اُن لوگوں نے جواب دیا: ہم نے چتکبرے گھوڑوں پر سفیدپوش سواردیکھے ہیں، جس کی وجہ سے ہم اس حال کوپہنچ گئے(الروض الأنف، ذکرغزوۃ حنین: ۴ / ۲۰۴، نیز دیکھئے: عیون الأثر:۲ / ۲۱۳، دلائل النبوۃ: ۵ / ۱۸۵، السیرۃ الحلبیۃ،غزوۃ حنین: ۳ / ۶۲)۔

ہوازن وثقیف کی جنگی استعدادکی خبریں جب آپ ﷺتک پہنچی توآپﷺ نے تحقیقِ حال کے لئے حضرت عبداللہ ابن ابی حدرداسلمیؓ کوبھیجا، انھوں نے ان کے درمیان رہ کر پوری تفصیلات معلوم کیں، پھرواپس آکرآپﷺ کوبتایا، اب آپﷺ نے گراںباری کے ساتھ تیاری کاحکم فرمایا، جس کے لئے حضرت عبداللہ بن ربیعہؓ سے تقریباً تیس ہزار روپے بطورقرض اورصفوان ابن امیہ سے اسلحہ جات مستعارلئے، پھرچھ شوال آٹھ ہجری کوبارہ ہزارنفری کے ساتھ روانہ ہوئے۔

راستہ میں ایک مقام ایساآیا، جہاں وہ درخت تھا، جس پرمشرکین زمانۂ جاہلیت میں اسلحہ جات لٹکایاکرتے تھے، ہرسال اُن کاوہاں قیام بھی ہوتاتھااوراُس درخت کے پاس جانوربھی ذبح کرتے تھے، جب دائرۂ اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کااُس درخت کے سامنے سے گزرہواتوکہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ان کے ذات انواط کی طرح ہمارے لئے بھی ذات انواط بنادیجئے، اللہ کے رسول ﷺ نے نعرۂ تکبیر بلندکیا اورکہا: قلتم والذی نفس محمدبیدہ کما قال قوم موسیٰ لموسیٰ: اجعل لناإلٰہاکمالہم آلہۃ، قال: إنکم قوم تجہلون، لترکبن سنن من کان قبلکم(اُس ذات کی قسم ، جس کے قبضہ میں محمدکی جان ہے، تم لوگوں نے ویسی بات کہی، جوحضرت موسیٰ ؑکی قوم نے حضرت موسیٰؑ سے کہی تھی کہ ہمارے لئے بھی اُن(مشرکین )کی طرح ایک معبودبنادیجئے، پھرفرمایا: تم لوگ نادان قوم ہواوراپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے کواپنارہے ہو)(السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ حنین: ۳ / ۶۴)۔

غزوۂ حنین پہلاموقع تھا، جس میں مسلم فوج کی تعداداتنی زیادہ تھی؛ اس لئے بعض لوگوں کی زبان سے یہ بات نکل گئی کہ: آج ہم مغلوب نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ کویہ عجب پسندنہ آیااوراِس عجب پسندی کا اُنھیں ایساسبق دیا، جس نے ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کے دلوں سے نخوت کوختم کردیا۔

اسلامی فوج ظفرموج کثرت کے نشہ میں بے پروائی کے ساتھ بڑھتی رہی؛ یہاں تک کہ مقام اوطاس کے دروں تک پہنچ گئی، جہاں ہوازن وثقیف کے تیرانداز پہلے ہی سے گھات لگائے بیٹھے تھے، اسلامی فوج کودیکھتے ہی ایسی بارش برسائی، جس کے نتیجہ میں اسلامی فوج کی طرف سے پیش قدمی کرنے والے ان نوجوانوں کے قدم اکھڑگئے، جو فتح مکہ کے بعدتازہ تازہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے، اِن کے بھاگنے کی وجہ سے فوج میں بھگدڑمچ گئی اورجس طرف جس کارُخ ہوا، چل نکلا، رسول اللہ ﷺ چند صحابہ کے ساتھ برابر پیش قدمی کرتے رہے اورلوگوں کویہ کہہ کربلاتے رہے کہ:

أناالنبی لاکذب

أناابن عبدالمطلب

(میں برحق نبی ہوں، میں عبدالمطلب کابیٹاہوں)

پھردائیں اوربائیں طرف صدالگائی: اے انصارکی جماعت! دونوں جانب سے جواب آیا: ہم حاضرہیں، حضرت عباس ؓ نے حضورﷺ کے حکم سے بلندآواز سے انصارومہاجرین کوپکارااورکہا: یامعشرالأنصار! یا أصحاب الشجرۃ!(اے انصارکی جماعت! اے درخت والے!)، آوازکاسنناتھاکہ منشترفوج مجتمع ہوگئی اورپلٹ کرایساوارکیاکہ جنگ کارُخ ہی بدل گیا، ریخت وہزیمت فتح وکامرانی میں تبدیل ہوگئی، اب ہوازن وثقیف اپنے ساتھ لائے ہوئے مال ومتاع اورعورتوں وبچوں کو چھوڑ چھاڑکربھاگ کھڑے ہوئے اورجونہ بھاگ سکے، وہ گرفتارکرلئے گئے، اس جنگ میں تقریباًچھ ہزارقیدی ہاتھ آئے، جب کہ چوبیس ہزاراونٹ، چالیس ہزارسے زائدبکریاں اورچارہزاراوقیہ چاندی (چارکوئنٹل اسی کلوگرام)مال غنیمت کے طورملے۔

ہوازن وثقیف کے جوجنگجوبھاگے تھے، وہ طائف اوراوطاس کے قلعوں میں جمع ہوکردوبارہ حملہ کاارادہ کررہے تھے، جب رسول اللہ ﷺ کواس کی اطلاع ملی توکفرکے زورکومکمل طورپرختم کرنے کے لئے حضرت ابوعامراشعریؓ کواوطاس کی طرف روانہ فرمایا،جب کہ خودطائف کے لئے کوچ فرمایا، اوطاس جلدہی حاصل ہوگیا؛ لیکن طائف کے قلعے چوں کہ مستحکم تھے؛ اس لئے قلعہ شکن آلات اورمنجنیق کااستعمال کیاگیا، یہ محاصرہ تقریباً بیس دن رہا، پھرآپ ﷺنے مقصدحاصل ہوجانے کی وجہ سے اسے اُٹھالیا،اس موقع سے بعض نے اُن کے حق بدعاکی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ ﷺ نے یہ دعادی: اللہم اہدثقیفا، وائت لہم (اے اللہ! ثقیف کوہدایت دے اورمیرے پاس آنے توفیق دے)۔

یہاں سے آپ ﷺ جعرانہ تشریف لائے اورمال غنیمت کے حصے کرکے اسے تقسیم کیا،چوں کہ اس غزوہ میں مکہ کے ان نومسلموں کی تعداد زیادہ تھی، جن کاایمان اُس طرح پختہ نہیں ہواتھا، جس طرح انصاراورمہاجرین کا پختہ تھا؛ اِس لئے آپﷺ نے تالیفِ قلب کے لئے تقسیمِ غنیمت میں اُن کاخاص خیال رکھا، یہ دیکھ کر کچھ نوجوان انصارناراض ہوئے اورکہنے لگے کہ:لقد لقی واللہ رسول اللہ ﷺ قومہ (بخداحضورﷺ اپنی قوم سے مل گئے)، آپﷺ نے جب یہ بات سنی تودلی تکلیف ہوئی اورلوگوں کوایک جگہ جمع ہونے کاحکم فرمایا، جب سارے انصارجمع ہوگئے توآپﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:اے لوگو! تم (میرے بارے میں)کہہ سکتے ہوکہ آپ ہمارے پاس اِس حال میں آئے تھے کہ تمام لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی، آپ بے یارومددگارآئے تھے، ہم نے آپ کی مددکی، آپ اِس حال میں آئے تھے کہ کوئی جائے پناہ نہ تھی، ہم نے آپ کو ٹھکانہ دیا، آپ محتاج آئے تھے، ہم نے اُس محتاجی کودورکیا، اے انصارکی جماعت! دنیاکی معمولی چیزکے سلسلہ میں مجھ سے ناراض ہو، جومیں نے نئے اسلام لانے والوں کواُن کی دل جوئی کے لئے دیا، کیاتم اس بات سے خوش نہیں ہوکہ لوگ تواونٹ بکریاں لے کرجائیں اورتم رسول اللہ کوساتھ لے کرجاؤ؟ اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں محمدکی جان ہے، اگرہجرت نہ بھی ہوتی تومیں انصارہی کاایک فردہوتا، لوگ الگ راستہ میں چلیں اورانصارالگ راستہ میں، توانصارکے راستہ میں چلوں گا‘‘، حضور ﷺ کی اس تقریرکوسنناتھا کہ سب رونے لگے؛ یہاں تک کہ داڑھیاں ترہوگئیں، پھر سب نے بیک زبان کہا: تقسیم میں حضورﷺ کوپاکرہم خوش ہیں(جامع الأصول فی أحادیث الرسول، غزوۃ حنین، حدیث نمبر: ۶۱۵۹، السیرۃ الحلبیۃ، غزوۂ حنین: ۳ / ۹۲)۔

ابھی آپﷺ جعرانہ ہی میں قیام پذیرتھے کہ ہوازن وثقیف کے ایک وفدنے آداب کورنش بجالانے کی اجازت چاہی، پھروفدکے سردار نے درخواست کرتے ہوئے کہا: ہم آپ کے رشتہ دارہیں، ہم پراحسان کیجئے، جن عورتوں کوآپ نے گرفتارکیاہے، ان میں آپ کی پھوپھیاں اورخالائیں ہیں، اگرنعمان بن منذراورحارث بن شمربھی ہم پرغالب آجاتے توہم ان سے حسن ِسلوک کی امیدکر تے، اورآپ توسب سے بہتر کفالت کرنے والے ہیں، آپﷺنے جواب میں فرمایا: بال بچوں اورمال ودولت میں سے جوپسندیدہ ہو، اسے چن لو، ان لوگوں نے جواب دیا: ہمارے بال بچوں کو لوٹادیجئے، ہمارے نزدیک یہی محبوب ہیں، آپﷺ نے فرمایا: میں اپنا اور عبدالمطلب کے خاندان کاحصہ تودیتاہوں؛ لیکن عام مسلمانوں کے حصہ کامیں مالک نہیں؛ اِس لئے نمازظہرکے بعدتم تمام لوگوں کے سامنے فریادکرنا، وفدکے لوگوں نے ایساہی کیا، آپﷺ نے وہاں بھی وہی جواب دیاب، جوپہلے دے چکے تھے، آپﷺ کے منشاکوسمجھتے ہوئے تمام انصارومہاجرین نے بھی اپنے اپنے حصے دے دیئے۔(الروض الأنف، من احکام السبایا: ۴ / ۲۶۲)۔

معرکۂ حنین پریہ ایک طائرانہ جھلک تھی، اب آیئے اِس معرکہ سے حاصل ہونے والے دروس وعبرپربھی ایک نظر ڈالتے چلیں:

عجب وفخرکی ممانعت

غزوۂ حنین پہلاموقع تھا، جس میں مسلم فوج کی تعداداتنی زیادہ تھی؛ اس لئے بعض لوگوں کی زبان سے یہ بات نکل گئی کہ: آج ہم مغلوب نہیں ہوں گے، قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے اِس کاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ویوم حنین إذاعجبتکم کثرتکم۔ (التوبۃ: ۲۵)’’حنین کے دن(اللہ نے تمہاری مددکی)، جب کہ تمہاری کثرت نے تمہیں عجب میں ڈال دیا تھا‘‘ ، اللہ تعالیٰ کویہ عجب پسندنہ آیااوراِس عجب پسندی کا اُنھیں ایساسبق دیا، جس نے ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کے دلوں سے نخوت کوختم کردیا۔

آج ہم اپنے معاشرہ کاجائزہ لیتے ہیں تو بہت سارے افرادکواِس ممنوع چیزمیں مبتلاپاتے ہیں، کوئی اپنی دولت پرنازاں ملتاہے توکسی کواپنی جائدادپرنازش ہوتی ہے، کوئی اپنی نرینہ اولادپرفخرکرتاہے اورسینہ پھلاکرچلتاہے توکوئی اپنے خاندان پرغرورکرتاہے، جب کہ کسی کواپنی شہرت پرشیخی اورتعلّی ہوتی ہے؛ حالاں کہ یہ چیزیں اللہ کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں؛ بل کہ وہ اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہے----غزوۂ حنین سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ فخرومباہات کوترک کرناچاہئے؛ کیوں کہ اس کی وجہ سے نبی ﷺ کی موجودگی میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدم ڈگمگاگئے توہم کس کھیت کے مولی ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے، آمین!

خبرکی تحقیق

جب حضورﷺ تک ہوازن وثقیف کی جنگی استعدادکی خبرپہنچی توآپ ﷺ نے تحقیقِ احوال کے حضرت عبداللہ بن حدرداسلمیؓ کوبھیجا، اُنھوں نے خبرکی پوری تحقیق کی، پھر خصورﷺ کواس کی اطلاع دی۔

آج ہمیں اس بات کاجائزہ لیناچاہئے کہ کتنی ایسی باتیں ہوتی ہیں، جن کی تحقیق کئے بغیرہم ایک دوسرے تک پہنچاتے رہتے ہیں اورآج کے اس جدیدٹکنالوجی کے دورمیں منٹوں میں ایک خبرکوسیکڑوں افرادتک پہنچادیتے ہیں، اوربسااوقات اُس کا خمیازہ بھی ہمیں بھگتناپڑتاہے، کتنی لڑائیاں وجودمیں آجاتی ہیں؛ حتی کہ بعض دفعہ فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیارکرجاتاہے----ہوازن وثقیف کی خبروں کی تصدیق سے ہمیں یہ درس ملتاہے کہ ہم بھی خبرکی پہلے تصدیق کریں، پھراُس کے بعد کوئی ٹھوس قدم اُٹھائیں۔

امورشرک پرناراضگی وبیزارای

جب نئے اسلام لانے والوں نے ’’ذات انواط‘‘بنانے کی خواہش کی توحضور اکرم ﷺ نے ناراض گی کے ساتھ فرمایا: ’’اُس ذات کی قسم ، جس کے قبضہ میں محمدکی جان ہے، تم لوگوں نے ویسی بات کہی، جوحضرت موسیٰ ؑکی قوم نے حضرت موسیٰؑ سے کہی تھی کہ ہمارے لئے بھی اُن(مشرکین )کی طرح ایک معبود بنادیجئے‘‘،اوراُن کی اِس خواہش پرتنبیہ فرمائی۔

آج جب ہم معاشرہ کاجائزہ لیتے ہیں تو بہت سارے امورِشرک پرلوگوں کو کاربندپاتے ہیں؛ بل کہ بسااوقات ہمیں ایسی جگہوں پرجانے کابھی اتفاق ہوجاتاہے؛ لیکن کیا کبھی ہم بھی اُن امورپرناراض ہوئے ہیں؟ کیاہم نے اُنھیں شرک سے بیزاری کی طرف توجہ دلائی ہے؟ اورکیاہم نے کبھی اُن امورکے انجام دہی پراُن کی تنبیہ کی ہے؟----اِس غزوہ کاایک خاص سبق یہ بھی ہے کہ اِس طرح کے امورشرک پرہم بھی ناراض ہوں اوراُن امورکے انجام دینے والوں کی تنبیہ کریں، اللہ ہمیں توفیق دے، آمین!

قائد کی ثبات قدمی

تیرکی برسات کے ساتھ آگے رہنے والوں کی بھگدڑکے نتیجہ میں جوافراتفری ہوئی اورجس کے سبب اسلامی فوج بکھرگئی، جس کامنھ جدھراُٹھا، اُدھرہی نکل گیا؛ لیکن آپﷺ کے پائے ثبات پرلغزش تک نہ آئی، آپﷺ برابرآگے بڑھتے رہے اورصحابہ کوآگے بڑھنے کے لئے بلاتے رہے۔

آج ہمارامعاملہ بالکل برخلاف ہوتاہے، ہمارے قائدہرایسی جگہ پیچھے رہتے ہیں، جہاں اُنھیں ادنیٰ گزندپہنچنے کااندیشہ ہوتاہے، عوام کالأنعام کوایسی جگہوں کو پرپہلے ڈھکیلتے ہیں؛ تاکہ جوبھی نقصان ہوناہو، اسے ہوجائے، پھرجب معاملہ نمٹ جاتاہے توبڑی کروفرکے ساتھ آتے ہیں اورنقصان کی بھرپائی کے لئے ’’کچھ‘‘ معاوضہ کااعلان کردیتے ہیں----اِس غزوہ سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ قائدکوآگے رہناچاہئے اورپوری ثابت قدمی کے ساتھ آخری سانس تک اُسے کسی بھی شروع کئے ہوئے مورچے پر ڈٹے رہنا چاہئے، یہ نہ ہوکہ معاملہ کوہوادینے کے بعدخودپردہ ایسے غائب ہوجائے، جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔

اللہ پربھروسہ

اِس غزوہ میں اسلامی فوج کی تعداددوسرے کسی غزوہ سے زیادہ تھی، لہٰذا کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات آئی کہ ہماری کثرت ہمیں مغلوب نہیں ہونے دے گی، گویا اللہ تعالیٰ پرکلی اعتمادنہ کرکے اپنی کثرت پربھروسہ کیااوراسی نشہ میں آگے بڑھتے رہے؛ یہاں تک کہ تیروں کے مینھ نے اُن میں انتشارپیداکردیااوروہ پلٹ کرپیچھے بھاگے۔

آج ہم بھی تقریباً اپنے تمام امورمیں اللہ تعالیٰ پرکلی توکل نہیں کرتے، جس کے نتیجہ میں ہمارے نہت سارے کام ادھورے رہ جاتے ہیں، اگرہم اللہ تعالیٰ پرپورا بھروسہ کریں توہمارے کام ان شاء اللہ ادھورے نہیں رہیں گے----غزوۂ حنین کا ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پرمکمل اعتمادکریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین!

جنگ میں جدیدآلات کااستعمال

اِس غزوہ میں خصوراکرمﷺنے منجنیق کا استعمال فرمایا، جواُس زمانہ کے لحاظ بالکل نیاہتھیارتھا، اِس ہتھیارکے ذریعہ بڑے بڑے پتھرقلعہ کے استحکام کوختم کرنے کے لئے پھینکے گئے-----اِس سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم بھی جنگ میں نئے زمانہ کے لحاظ سے جدیدہتھیاراستعمال کریں، اس کے لئے ہمیں جدید ہتھیارتیارکرنے کی بھی ضرورت ہے اوراُس کے استعمال کے گُربھی سیکھنے کی حاجت ہے؛ تاکہ وقت آنے پرکفِ افسوس نہ ملناپڑے اورشکست وریخت سے دوچارنہ ہوناپڑے، جس طرح آزادیٔ ہند کے ابتدائی دورمیں کف افسوس ملنااورہزیمت سے دوچار ہوناپڑاتھا۔

دشمن کے حق میں دعا

محاصرۂ طائف کے دوران بعض نے محصورین کے حق بدعاکی درخواست کی، جس کے جواب میں آپ ﷺ نے یہ دعادی: اللہم اہدثقیفا، وائت لہم (اے اللہ! ثقیف کوہدایت دے اورمیرے پاس آنے توفیق دے)۔

کیاہمارا رویہ بھی ایساہی ہوتاہے؟ کیاہم معمولی بات پربددعادینانہیں شروع کردیتے؟ کیاہم بھی اپنے دشمن کے لئے ہدایت کی دعاکرتے ہیں؟ غزوۂ حنین ہمیں یہ درس دیتاہے کہ ہمیں دشمن کے حق میں بددعاکے راستہ کواپنانے کے بجائے اُن کے لئے ہدایت کی دعاکریں۔

نومسلموں کی دل جوئی

اِس غزوہ میں بہت سارامالِ غنیمت حاصل ہوا؛ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے غنیمت کازیادہ حصہ نومسلموں کوعطاکیا؛ حتیٰ کہ بعض افرادکوسواونٹ سے بھی آپﷺ نے نوازااوریہ صرف اس لئے تھا؛ تاکہ اُن کا ایمان مضبوط ہوجائے، خودحضرت صفوان بن اُمیہؓ کہتے ہیں : واللہ لقدأعطانی رسول اللہﷺ ماأعطانی، وإنہ لأبغض الناس إلی، فمابرح یعطینی؛ حتی إنہ لأحب الناس إلی۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۱۳)’’بخدارسول اللہ ﷺ نے مجھے نوازاجتناکہ نوازا ، رسول اکرم ﷺ میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص تھے، چنانچہ برابرمجھے نوازتے رہے؛ یہاں تک کہ میرے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب بن گئے‘‘۔

آج بھی بہت سارے نومسلم ایسے ہیں، جن کاکوئی ٹھکانہ نہیں، کیاہم اُن کے لئے ٹھکانہ فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟ بہت سارے نومسلم ایسے ہیں، جن کے خاندان والوں نے بائیکاٹ کررکھاہے، کیاہم اُن کوخاندان دینے کے لئے محنت کررہے ہیں؟ کئی نومسلم ایسے ہیں، جودردرپہنچ کراپنے لئے دانہ دُنکاجمع کرتے ہیں، کیاہم استطاعت کے باوجود اُنھیں روزگارسے جوڑنے کی سعی کررہے ہیں؟ آج بھی یقینانومسلموں کی تالیف قلب کی ضرورت ہے؛ تاکہ اُن کاایمان پختہ ہوسکے، غزوۂ حنین سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتاہے۔

مالِ غیرمیں تصرف سے احتراز

جب ہوازن کاوفدمسلمان ہوکرآیااوررسول اللہ ﷺ سے عورتوں اوربچوں کے لوٹانے کے سلسلہ میں گفتگوکی تو آپﷺ نے جواب میں فرمایا: میں اپنااور عبدالمطلب کے خاندان کاحصہ تودیتاہوں؛ لیکن عام مسلمانوں کے حصہ کامیں مالک نہیں‘‘۔

آج ہمیں اپناجائزہ لیناچاہئے کہ کیاہم بھی دوسرے کے مال میں تصرف سے بچتے ہیں؟ کیاایسانہیں ہوتاہے کہ دوسرے کے مال میں اُس طرح تصرف کرتے ہیں، جس طرح کوئی اپنے مال میں کرتاہو؟ ہم توبزورطاقت بھی دوسرے کے مال پرقبضہ جمالیتے ہیں-----اس غزوہ سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم دوسرے کے مال میں تصرف کرنے سے مکمل طورپرپرہیز کریں۔

قائدکاتحمل

تقسیم ِغنیمت پرکچھ لوگ ناراض ہوگئے، آپ ﷺ نے بہت ہی تحمل کے ساتھ ڈیل کیا، اُن کوبلاکراُن کے احسانات کویادکیااورایساکرنے کی وجہ بھی بتلائی----آج ہم غور کریں کہ کیاہم بھی درپیش معاملات پرتحمل کامظاہرہ کرتے ہیں؟ ہم سمندرکی جھاگ کی طرح اُبل پڑتے ہیں، جس کے نتیجہ بسااوقات انتشار بھی پیداہوجاتاہے، حضورﷺ کے حق میں اس موقع پرکنتی بڑی بات کہی گئی؛ لیکن آپ ﷺنے کس طرح اسے براداشت کیا؟ اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ ہم بھی بالخصوص قائدین درپیش قضیہ  کے وقت تحمل وبرداشت سے کام لیں، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے، آمین!

یہ تھے غزوۂ حنین کے کچھ اسباق ودروس، جن پرہمیں عمل کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین یارب العالمین!

٭٭٭

3 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی