طلبہ کی کوتاہیوں پرمالی جرمانہ

طلبہ کی کوتاہیوں پرمالی جرمانہ

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آج کل تعلیمی اداروں میں طلباء کی مختلف کوتاہیوں اورغفلتوں پرروک لگانے کے لئے مالی جرمانہ کاعام رواج ہوچکاہے اوراس کانفع بھی محسوس کیاجاتاہے، اس کاکیاحکم ہے؟

اس سلسلہ میں فقہاء کی آراء کاخلاصہ یہ کہ:

۱-  امام ابوحنیفہؒ ، امام محمدؒ ، امام شافعیؒ ( قول جدید کے مطابق ) اور امام احمد بن حنبلؒ تعزیر مالی کے عدم جواز کے قائل ہیں ، تاہم علامہ ابن تیمیہؒ اور علامہ ابن قیمؒ نے امام احمدؒ کے مسلک کے مطابق احادیث و آثار سے بہت ساری ایسی مثالوں کی تخریج کی ہے ، جن سے تعزیر مالی کا جواز نکلتا ہے ۔

۲-  امام ابویوسفؒ ، امام شافعیؒ ( قول قدیم کے مطابق ) اور امام مالکؒ ( مشہور قول کے مطابق ) تعزیر مالی کے جواز کے قائل ہیں ۔(اس کی تفصیل کے لئے دیکھیں:

https://jamilakhtarjaleeli.blogspot.com/2020/12/blog-post_28.html

موجودہ دور میں اس کاچلن عام ہوچکاہے، جس کودیکھتے ہوئےکئی بڑے اہل علم کی رائے اس کے جواز کی ہے ؛چنانچہ برصغیر کے ممتاز فقیہ علامہ عبد الحیٔ لکھنویؒ کی بھی رائے یہی تھی کہ ’’ تنبیہ کے لئے جرمانہ لینا جائز ہے‘‘، (دیکھئے : مجموعۃ الفتاویٰ ( مترجم ، کتاب القضا ، استفتاء نمبر : ۲ ) ۳؍۵۳) تنبیہ کے لئے مالی جرمانہ لینے کے جواز پر امارت شرعیہ ، پھلواری شریف ، پٹنہ کا بھی فتویٰ ہے ۔ (دیکھئے : فتاویٰ امارت شرعیہ : ۱؍۲۵۷ ، ۲۹۰)
مولانا ظفر احمد عثمانی ، مولانا مجیب اﷲ ندویؒ اور استاذ گرامی قدر حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی حفظہ اﷲ ورعاہ بھی تعزیر مالی کے جواز کے قائل ہیں، استاذ محترم تحریر فرماتے ہیں  :
اس وقت اسلام کے قانونی حدود و تعزیرات کے فقدان کی وجہ سے بہت سے مسائل ، جو سماجی طورپر حل کئے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی وحدتیں بعض منکرات کا مقابلہ کررہی ہیں ، ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ مالی جرمانوں کے ذریعہ وہ ان جرائم کی روک تھام کی سعی کریں ، یوں بھی عملاً اس زمانہ میں مالی تعزیر کی بڑی کثرت ہوگئی ہے اور ریلوے ، ٹریفک ، بس وغیرہ میں کثرت سے اس کا تعامل ہے ؛ اس لئے راقم الحروف کا رجحان ہے کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے ۔ (قاموس الفقہ : ۲؍۴۷۹ ، لفظ : تعزیر ، نیز تفصیل کے لئے : جدید فقہی مسائل : ۳؍ ۲۴۹-۲۴۴، اسلامی فقہ : ۳؍ ۲۸۱ ، اعلاء السنن : ۱۱؍۶۸۸)
نیزحضرت مولانامفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی رقم طراز ہیں:
لیکن تعزیربالمال کے عدم جواز پربھی کوئی صریح دلیل مجھے نہیں ملی، عام طورپرفقہاء اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، جس میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:لایحل مال امرئی مسلم؛ إلابطیب نفس منہ، یعنی کسی مسلمان کامال اس کی طیب نفس کے بغیرحلال نہیں؛ لیکن یہ استدلال کمزورہے؛ اس لئے کہ اس حدیث میں اس مسلمان کاذکرہے، جوکسی گناہ اور جرم کامرتکب نہ ہو؛ لیکن اگرکوئی مسلمان کسی جرم کامرتکب ہواہے تواس پرجس طرح جسمانی سزاعائدکی جاسکتی ہے، اسی طرح مالی سزابھی عائدکی جاسکتی ہے؛ اس لئے کہ مسلمان کامال توطیب نفس سے حلال ہوجاتاہے؛ لیکن جان توطیب نفس سے بھی حلال نہیں ہوتی، لہٰذاجب کسی مسلمان نے کوئی جرم کیاہے اورپھرسزاکے طورپراس کی جان کوکوئی نقصان پہنچایا جارہاہے تویہ سب کے نزدیک جائز ہے، توپھرجوطیب نفس سے حلال ہوجاتاہے، وہ جرم کے ارتکا ب کی صورت میں بطریق اولی جائز ہوناچاہئے؛ چنانچہ بعض متاخرین فقہائے حنفیہ نے امام ابویوسفؒ کے قول کوراجح قراردیتے ہوئے فرمایا کہ تعزیربالمال جائزہے۔(درس ترمذی:۵؍۱۹)
اس تحریرسے یہ معلوم ہوگیاکہ مختلف کوتاہیوں اورغفلتوں پرروک لگانے کے لئے مالی جرمانہ لیناقانونی اعتبارسے توجائز ہے؛ البتہ طلبہ سے مالی جرمانہ وصول کرنے کے جوازاورعدم جوازپربات کرنے سے پہلے اس امرکوواضح کرناضروری معلوم ہوتاہے کہ تعزیرکاحق کن لوگوں کو حاصل ہے؟

اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ حاکم کے علاوہ تعزیرکاحق ان تمام لوگوں کوحاصل ہے، جودیانت داری کے ساتھ تادیب اورتنبیہ کرتے ہیں؛ چنانچہ باپ، ماں،شوہر، آقااورمعلم کوخصوصیت کے ساتھ یہ حق حاصل ہے، محمدبن ابراہیم بن عبداللہ تویجری لکھتے ہیں:

ولیس لأحدحق التعزیر؛ إلالمن لہ ولایۃ التأدیب مطلقاً کالأب، والزوج، والسید،والحاکم، والمعلم…فالأب لہ تأدیب ولدہ الصغیر، وتعزیرہ للتعلم، والتخلق بأحسن الأخلاق، وزجرہ عن سیئہا، وأمرہ بالصلاۃ، وضربہ عندالحاجۃ، والأم کالأب فی أثناء الحضانۃ… وللزوج تأدیب زوجتہ، وتعزیرہافی أمرالنشوز، وأداء حق اللہ تعالیٰ کإقامۃالصلاۃ، وأداء الصیام، والبعدعن المحرمات ادائً لواجب القوامۃعلیہاونصحاًلہا…والسیدیعزررقیقہ فی نفسہ، وفی حق اللہ تعالیٰ من ترک واجب، أوفعل محرم…والمعلم یؤدب تلامیذہ بمایصلحہ أحوالہم ویحسن أخلاقہم۔ (موسوعۃ الفقہ الإسلامی، الباب الثامن عشر، کتاب الحدود، حکم التعزیر، ص: ۲۴۴-۲۷۱، بحوالہ: www.al-eman.com،نیزدیکھئے: سبل السلام، باب التعزیر وحکم الصائل: ۴؍۳۸، الفقہ الإسلامی وأدلتہ: ۷؍۵۲۹)

حق تعزیرصرف ان لوگوں کوحاصل ہے، جن کومطلق ولایت تادیب حاصل ہے، جیسے: باپ، شوہر، آقا، حاکم اورمعلم؛ چنانچہ باپ کو اپنے چھوٹے بچے کی تادیب، تعلیم، اچھے اخلاق سے آراستہ کرنے، برائیوں سے روکنے اورنمازکے لئے تعزیر کاحق ہے، نیزضرورت کے وقت مارنے کابھی حق ہے، شوہرکوبیوی کی تادیب ، نافرمانی کے اموراورحقوق اللہ کی ادائے گی، جیسے:نمازقائم کرنے، رو۔ہ رکھنے اورمحرمات سے بچانے کے لئے قوامیت اور اس کے ساتھ خیرخواہی کی ذمہ داری اداکرتے ہوئے تعزیرکاحق ہے، آقااپنے غلام کواپنے اوراللہ تعالیٰ کے حقوق، جیسے:ترک واجب اورحرام کے ارتکاب پرتعزیرکرسکتاہے، معلم اپنے شاگردوں کی تادیب کے لئے ایسے ذرائع اختیارکرسکتاہے، جن سے ان کے احوال درست ہوں۔

یہ جان لینے کے بعدکہ معلم کوحق تعزیرحاصل ہے، اصل سوال کاجواب جانتے چلیں، اس سلسلہ میں راقم کے نزدیک طالب علم کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں:

۱-طالب علم بذات خودمالدارہو  ----  ایسے طالب علم سے مالی جرمانہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

۲- طالب علم بذات خودمالدارنہیں؛ بل کہ اس کے گارجین اس پرخرچ کرتے ہیں، ایسے طلبہ کی دوشکلیں ہیں:

(الف) طالب علم کے گارجین مدرسہ کے قوانین وضوابط سے واقف ہوں۔

(ب) طالب علم کے گارجین مدرسہ کے قوانین وضوابط سے واقف نہ ہوں۔

پہلی صورت میں طالب علم اورخودگارجین سے بھی جرمانہ وصول کرنے کی گنجائش ہوگی؛ کیوں کہ قوانین وضوابط سے گارجین کی واقفیت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جرمانہ دینے پرراضی ہے اوررضامندی کاحکم صریح حکم کادرجہ رکھتی ہے،ودلیل الرضاکصریح الرضا۔ (المبسوط للسرخسی: ۲؍۲۱۳)

جہاں تک دوسری صورت کاتعلق ہے توایسی صورت میں گارجین سے توجرمانہ نہیں لیاجائے گا؛ البتہ طالب علم سے وصول کرنے کی گنجائش ہے، اب سوال یہ ہے کہ طالب علم سے کون ساپیسہ لیاجائے گا؟ اس کاجواب یہ ہے کہ وہ پیسہ، جواسے بطورجیب خرچ کے ملے ہیں؛ کیوں کہ یہ اس پیسہ کامالک ہے، جواسے والدکی طرف سے بطورجیب خرچ کے ملے ہیں، علامہ مرغینانیؒ لکھتے ہیں:

وإذاوہب الأب لإبنہ الصغیرہبۃ ملکہاالإبن بالعقد۔ (الہدایۃ، کتاب الہبۃ: ۳؍۲۲۶)

اورجب والداپنے چھوٹے بیٹے کوکچھ ہبہ کرے توعقدہبہ کے ذریعہ بیٹااس کامالک ہوجاتاہے۔

اب اس سلسلہ میں ایک مسئلہ یہ باقی رہ جاتاہے کہ طالب علم اگرغریب ہوتوپھرکیاکیاجائے؟ ظاہرہے کہ نظم وضبط کوباقی رکھنے کے لئے جرمانہ تو اس سے بھی وصول کیاجائے گا؛ البتہ پہلے اسے زکوۃ کی رقم فراہم کی جائے گی، پھراس سے جرمانہ وصول کیاجائے گا، ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی