فقہ اسلامی اور اس کی تدوین(قسط:۱)

فقہ اسلامی اور اس کی تدوین

(قسط: 1)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی 

فقہ کی لغوی تعریف

فقہ ’’شق ‘‘اور’’فتح‘‘سے مشتق ہے، جس کے معنی ’’پھاڑنے اورکھولنے ‘‘کے آتے ہیں، ابن منظورابن اثیرکے حوالہ سے لکھتے ہیں: واشتقاقہ من الشق والفتح۔ (لسان العرب، لفظ :فقہ،ص:۳۴۵۰)، علامہ جاراللہ زمخشری لکھتے ہیں: 

والفقہ حقیقۃً: الشق والفتح، والفقیہ: العالم الذی یشق الأحکام ویفتش عن حقائقہا، ویفتح مااستغلق منہا۔ (الفائق فی غریب الحدیث: ۳؍۱۳۴)

فقہ کے حقیقی معنی پھاڑنے اورکھولنے کے ہیںاور’فقیہ‘ اس عالم کوکہتے ہیں، جواحکام کوپھیلاتااوراس کے حقائق کی تحقیق کرتاہے اوراس کے مغلق مسائل کوکھولتاہے۔

امام راغب اصفہانی کہتے ہیں:

الفقہ: ہوالتوصل إلی علم غائب بعلم شاہد، فہو أخص من العلم۔(المفردات فی غریب القرآن: ۱؍۳۸۴)

فقہ موجودعلم کے ذریعہ سے غائب کے علم تک پہنچنے کوکہتے ہیں، پس یہ علم سے خاص ہے۔

  اسی سے اس کے اصل معنی ’’کسی چیزکے جاننے اورسمجھنے‘‘ کے لئے گئے ہیں؛ لیکن اس جاننے اورسمجھنے میں تحقیق اورکنہ تک رسائی حاصل کرنے کے معنی شامل ہوتے ہیں، قرآن مجیدمیں ہے:

قَالُواْ یَا شُعَیْْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْراً مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاکَ فِیْنَا ضَعِیْفاً وَلَوْلاَ رَہْطُکَ لَرَجَمْنَاکَ وَمَا أَنتَ عَلَیْْنَا بِعَزِیْزٍ۔(ہود:۹۱)

انہوں نے کہا کہ شعیب تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی بند نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو ۔

ایک دوسری جگہ ارشادربانی ہے:

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔(التوبۃ: ۱۲۲)

 اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے؛ تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان کو ڈر سناتے؛ تاکہ وہ بچیں ۔

اورحدیث میں ہے:

من یرداللہ بہ خیراً، یفقہ فی الدین۔(صحیح البخاری، باب من یرداللہ بہ خیراً یفقہ فی الدین، حدیث نمبر:۷۱)

اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیرکاارادہ کرتاہے، اسے دین کی سمجھ عطاکرتاہے۔

پھرتمام علوم پرعلم دین کی فضیلت، شرافت اورسیادت کی وجہ سے خاص ’’علم دین کی سمجھ‘‘کوفقہ کہاجانے لگا،ابن منظورکہتے ہیں:

وغلب علی علم الدین لسیادتہ وشرفہ وفضلہ علی سائرأنواع العلم، کماغلب النجم علی الثریا، والعُود علی المَنْدَل۔(لسان العرب،مادۃ: فقہ: ۱۳؍۵۲۲، نیزدیکھئے: المعجم الوسیط، ص:۶۹۸، مادۃ: فقہ)

اورتمام علوم پرعلم دین کی فضیلت، شرافت اورسیادت کی وجہ سے علم دین پرغالب آگیا، جیساکہ(لفظ) ’نجم‘(لفظ) ’ثریا‘پراور(لفظ)’عود‘(لفظ) ’مندل‘ پر غالب آگیا۔

موجودہ زمانہ میں اس علم کو’’قانون اسلامی کاعلم‘‘کے نام سے جاناجاتاہے۔

فقہ کی اصطلاحی تعریف

اصطلاح میں’فقہ‘ ’’احکام شرعیہ فرعیہ کواس کے تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے‘‘کانام ہے،  علامہ شامی لکھتے ہیں: 

العلم بالأحکام الشرعیۃ الفرعیۃ المکتسب من أدلتہا  التفصیلیۃ۔(ردالمحتار، مقدمۃ الکتاب: ۱؍۱۱۸-۱۱۹)

تفصیلی دلائل سے حاصل ہونے والے فرعی احکام کوجاننا۔

تاریخ تدوین

(تفصیل کے لئے دیکھئے: تاریخ التشریع الإسلامی لمناع القطان، ص: ۲۷ومابعدہا،مصادرالتشریع الإسلامی للدکتورعباس شومان، ص: ۷۵ومابعدہا،المدخل لدراسۃ الشریعۃ الإسلامیۃ(تاریخ الفقہ) لعبدالکریم زیدان، ص: ۱۰۶ومابعدہا،المدخل لدراسۃ الفقہ الإسلامی للدکتوررمضان علی السیدالشرنباصی، ص: ۴۵ومابعدہا، الفقہ الإسلامی وأدلتہ للدکتوروہبۃ الزحیلی: ۱؍۱۵ومابعدہا، المدخل فی الفقہ الإسلامی للدکتورالشیخ محمدمصطفی شلبی، ص:۵۰ومابعدہا، المدخل إلی علم الفقہ للدکتورسلیمان بن عبداللہ حمود، ص: ۱۰۹ومابعدہا، قاموس الفقہ للشیخ خالدسیف الرحمانی: ۱؍۳۳۸ومابعدہا، الفقہ الإسلامی:آفاقہ وتطورہ للدکتورعباس حسنی محمد، ص : ۲۳۰ومابعدہا،   الفقہ الإسلامی: مرونتہ وتطورہ للشیخ جاد الحق علی جادالحق شیخ الأزہر، ص:۱۹ومابعدہا)

فقہ اسلامی کاعظیم الشان ذخیرہ جوہمارے سامنے ہے، وہ دفعۃً وجودمیں نہیں آیا؛ بل کہ مرحلہ وار یہاں تک پہنچاہے، جس کوہم سات مراحل میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱-  پہلامرحلہ  :  عہدنبویﷺ۔
۲-  دوسرا مرحلہ  :  عہدخلفائے راشدین۔
۳-  تیسرا مرحلہ  :  عہداموی۔
۴-  چوتھا مرحلہ  :  عباسی دورِاول۔
۵-  پانچواں مرحلہ  :  عباسی دورِدوم۔
۶-  چھٹامرحلہ  :  نصف ساتویں صدی تاتیرہویںصدی۔
۷-  ساتواں مرحلہ  :  عصرحاضر۔ 

پہلامرحلہ  :  عہدنبویﷺ

یہ مرحلہ فقہی اعتبارسے بہت اہم ہے؛ کیوں کہ اسی مرحلہ میں شریعت اسلامیہ کی تکمیل ہوئی، یہ تقریباً تئیس سال کی مدت پرپھیلا ہوا ہے، جس میں دو دور آتے ہیں:
(الف)  مکی دور  :  نبوت ملنے کے بعدنبی کریم ﷺ مکہ میں تقریباً تیرہ سال رہے، اس دوران عمومی طورپرجواحکامات نازل ہوئے، وہ عقائد اوراخلاق سے متعلق تھے، عملی احکام کاحصہ بہت کم اوراکثروبیشترکلیات کی شکل میں تھا، جزئی تفاصیل نہیں تھے۔
(ب)  مدنی دور  :  ہجرت کے بعدمدینہ میں تقریباً دس سال رہے، اس دوران عبادات، معاملات، جہاد، جنایات، حدود، مواریث، وصیت، طلاق، قسم اورقضاء وغیرہ سے متعلق تمام احکامات تفصیلی یااجمالی طورپرنازل کئے گئے۔
اس مرحلہ میں جومصادرتھے، وہ دوتھے:
۱-  قرآن  :  قرآن میں عام حکم نازل ہوتایااجمالی طورپراورآپﷺ لوگوں کواس کی اطلاع دیتے اورلوگ اس پرعمل کرتے۔
۲-  سنت  :  آپ ﷺ سے سوال کیاجاتا، یاآپ ﷺ کسی مسئلہ کے تعلق فیصلہ فرماتے، یاپھرقرآن میں نازل احکام کی تفصیل اورتشریح کرتے؛ چنانچہ اس سنت میں آپﷺ کے اقوال، افعال، تقریراوراجتہادشامل ہے۔
اس مرحلہ کی کچھ خصوصیات بھی ہیں، جودوسرے مراحل سے اسے ممتاز کرتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱-  یہ نبی ﷺ کی حیات اورنزول وحی کازمانہ ہے، اس میں کسی حکم کے تعلق سے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔
۲-  اس مرحلہ میں احکام واقعاتی اورحقیقت پرمبنی تھے، حوادث وواقعات یاجواب کے مطابق احکام بتائے جاتے تھے، نظریاتی اورتقدیری احکام کا یہ دورنہیں تھا۔
۳-  پیش آنے والے حادثات اورواقعات کے مطابق احکام نازل ہونے یادئے جانے کی وجہ سے فقہ کی تدوین نہیں ہوئی تھی۔
۴-  اصول اورقواعدکی تکمیل ہوگئی تھی، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً۔(المائدۃ: ۳)
(اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند فرمایا۔
اورجس کی بابت نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترکت فیکم أمرین، لن تضلواماتمسکتم بہما: کتاب اللہ وسنۃ نبیہ۔(المؤطاللإمام مالک، باب النہی عن القول بالقدر، حدیث نمبر: ۳۳۳۸)
میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں، جب تک ان کوتھامے رہوگے، گمراہ نہیں ہوگے، ایک کتاب اللہ اوردوسرے اپنے نبی کی سنت۔

دوسرا مرحلہ  :  عہدخلفائے راشدین

دوسرامرحلہ حضوراکرم ﷺ کی وفات کے بعدسے شروع ہوتاہے، جس کی مدت ۱۱ھ سے ۴۰ھ (۳۰؍سال)تک ہے، یہ مرحلہ چاروں خلفاء کا دور ہے، خلفاء ایسے انسان تھے، جن کے پاس وحی نہیں آتی تھی، لہٰذا نئے پیش آنے مسائل میں اختلافات سامنے آئے، سب سے پہلے توآپﷺ کی وفات کے بعد خلافت پرہی اختلاف ہوا، پھرردوقدح کے بعدحضرت ابوبکرصدیق ؓ کی خلافت پرسارے صحابہ متفق ہوگئے۔
کسی بھی پیش آنے والے مسئلہ کے تعلق سے حضرت ابوبکرصدیقؓ کاطریقۂ کایہ ہوتاکہ:
(الف)  قرآن میں مسئلہ کوتلاش کرتے، اگروہاں نہیں ملتاتو۔
(ب)  سنت رسولﷺ میں تلاش کرتے ، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(ج)  اجتہادکے راستے کواپناتے، جس کی دوشکل ہواکرتی تھی:
۱-  بسااوقات بذات خودانفرادی طورپراجتہادکرتے۔
۲-  اوربعض دفعہ اجتماعی اجتہادکرتے، پھر اس کے مطابق عمل کرتے۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کی وفات کے بعدسن ۱۳ھ ہجری میں حضرت عمربن خطاب ؓ خلیفہ مقررہوئے، ان کے زمانہ میں سلطنت اسلامیہ میں کافی وسعت ہوئی، انھوں نے کئی ایسے اموربھی انجام دئے، جوسابق میں نہیں دئے گئے تھے، پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے یہ درج ذیل طریقہ اختیار کرتے:
(الف)  قرآن میں مسئلہ کوتلاش کرتے، اگروہاں نہیں ملتاتو۔
(ب)  سنت رسولﷺ میں تلاش کرتے ، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(ج)  حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے اوران کے اجتہادات میں تلاش کرتے، اگر یہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(د)  اجتہادکے راستے کواپناتے، جس کی دوشکل ہواکرتی تھی:
۱-  بسااوقات بذات خودانفرادی طورپراجتہادکرتے۔
۲-  اوربعض دفعہ اجتماعی اجتہادکرتے، پھرجسے درست سمجھتے، اس کے مطابق عمل کرتے۔
حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعدسن ۲۳ھ میں حضرت عثمان بن عفانؓ خلیفہ بنائے گئے، انھوں نے مسائل کے حل کے لئے درج ذیل طریقۂ کار کو اختیار کیا:
(الف)  قرآن میں مسئلہ کوتلاش کرتے، اگروہاں نہیں ملتاتو۔
(ب)  سنت رسولﷺ میں تلاش کرتے ، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(ج)  حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے اوران کے اجتہادات میں تلاش کرتے، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(د)  حضرت عمرؓ کے فیصلے اوران کے اجتہادات میں تلاش کرتے، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(ھ)  اجتہادکے راستے کواپناتے، جس کی دوشکل ہواکرتی تھی:
۱-  بسااوقات بذات خودانفرادی طورپراجتہادکرتے۔
۲-  اوربعض دفعہ اجتماعی اجتہادکرتے، پھرجسے درست سمجھتے، اس کے مطابق عمل کرتے۔
حضرت عثمان ؓکی شہادت کے بعد۳۵ھ ہجری میں حضرت علی بن ابی طالبؓ کوخلیفہ بنایاگیا، ان کادورسخت اضطراب کادورتھا، انھی کے زمانہ میں مسلمانوں کے تین فرقے وجودمیں آئے، ایک جمہورامت کا، دوسراشیعہ کااورتیسراخوارج کا، ان تمام کے باوجود انھوں نے مسائل کے حل کے لئے اپنے اسلاف کے طریقہ کوباقی رکھااوردرج ذیل نہج کواختیارکیا:
(الف)  قرآن میں مسئلہ کوتلاش کرتے، اگروہاں نہیں ملتاتو۔
(ب)  سنت رسولﷺ میں تلاش کرتے ، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(ج)  حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے اوران کے اجتہادات میں تلاش کرتے، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(د)  حضرت عمرؓ کے فیصلے اوران کے اجتہادات میں تلاش کرتے، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(ھ)  حضرت عثمانؓ کے فیصلے اوران کے اجتہادات میں تلاش کرتے، اگریہاں بھی نہیں ملتاتو۔
(و)  اجتہادکے راستے کواپناتے، جس کی دوشکل ہواکرتی تھی:
۱-  بسااوقات بذات خودانفرادی طورپراجتہادکرتے۔
۲-  اوربعض دفعہ اجتماعی اجتہادکرتے، پھرجسے درست سمجھتے، اس کے مطابق عمل کرتے۔
گویادوسرے مرحلہ میں مسائل کے حل کے لئے چارمصادرتھے:
۱-  قرآن۔
۲-  سنت۔
۳-  اجماع صحابہ ۔
۴-  فتاوائے صحابہ۔
اس مرحلہ کی خصوصیات یہ تھیں:
(الف)  اس مرحلہ میں بھی فقہ نظریاتی اورتقدیری نہیں تھا؛ بل کہ حادثات اورواقعات کے پیش آنے کے بعدمسائل کاحل تلاش کیاجاتاتھا۔
(ب)  فقہ کی تدوین عمل میں نہیں آئی تھی؛ بل کہ احکام اورفتاوی محفوظ تھے۔
(ج)  زمانہ کی مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے بعض نئے اجتہادات وجودمیں آئے، خصوصیت کے ساتھ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں، جیسے: تین طلاق کاواقع ہونا اورمؤلفۃ القلوب کے مصرف کوساقط کرناوغیرہ۔

تیسرا مرحلہ  :  عہداموی

اس مرحلہ کاآغازخلفائے راشدین کی وفات کے بعدسن ۴۱ھ سے شروع ہوکراموی حکومت کے اختتام(دوسری صدی ہجری کے ابتدائی زمانہ ۱۳۲ھ) تک چلتاہے، اس زمانہ میں بھی مسائل کے حل کے لئے وہی نہج اختیارکیاگیا، جوخلفائے راشدین کے دورمیں اختیارکیاگیاتھا؛ البتہ اس زمانہ میں حکومت کی وسعت اورنبوت سے زمانہ کی دوری کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوگیااورایسے مسائل پیش آئے، جن کے تعلق سے نہ توکوئی منصوص حکم موجودتھا اورناہی صحابہ کی طرف سے کوئی اجتہادی رائے، اسی کے ساتھ ساتھ اہل سنت والجماعت، شیعہ اورخوارج فرقوں کے وجود میں آجانے کی وجہ سے بھی مسائل میں اختلافات رونماہوئے، اب لامحالہ مسائل کے حل کے لئے اجتہاداورغوروفکرکی ضرورت تھی، ایسے میں دوجماعتیں وجودمیں آئیں، ایک جماعت نہ صرف غوروفکر اوراجتہاد کی قائل تھی؛ بل کہ اس میں وسعت کی بھی قائل تھی، جب کہ دوسری جماعت اجتہاداورغوروفکرمیں وسعت کی قائل نہیں تھی، وہ صرف صحابہ کی آراء تک ہی محدودرہناچاہتی تھی، اس لحاظ سے ایک اصحاب الحدیث اوردوسری اصحاب الرائے کی جماعت وجود میں آئی۔

اصحاب الحدیث

اصحاب الحدیث سے مرادوہ حضرات ہیں، جومسائل کے حل میں نصوص اوربہت زیادہ توخلفائے راشدین کے فتاوے اورفیصلے تک محدودرہتے تھے، اسی دائرہ میں رہتے ہوئے غوروفکربھی کرتے تھے، مسائل کے حل کے لئے اس دائرہ سے باہرنکل کرغوروفکرکرنے سے گھبراتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت زیدبن ثابت، حضرت عائشہ اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم انہیں میں تھے؛ چنانچہ ان کے شاگردوں نے بھی اسی نہج کواختیارکیا۔

اصحاب الرائے

لیکن جوحضرات غوروفکرمیں وسعت کے قائل تھے، وہ اصحاب الرائے کہلائے، صحابہ میں حضرت عمربن خطاب اورحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما انہیں میں تھے، لہٰذا ان کے شاگردوں نے بھی اسی منہج کواختیارکیا۔
جوحضرات غوروفکرمیں وسعت کے قائل نہیں تھے، ان میں سے زیادہ ترکاقیام سرزمین حجازمیں رہا، جب کہ غوروفکرمیں وسعت کے قائلین کاقیام حجاز سے باہر کوفہ میں رہا، اس اعتبارسے حجازاصحاب الحدیث کااورکوفہ اصحاب الرائے کامرکز قرارپایا؛ لیکن اس کامطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ حجاز میں غورو فکر میں وسعت کاکوئی بھی بالکلیہ قائل نہیں تھا؛ بل کہ وہاں بھی ایسے لوگ تھے، جواس کے قائل تھے؛ چنانچہ مدینہ کے ایک بڑے محدث کے نام کاجزء ہی ’’رائے‘‘ بن گیا، جن کودنیا’’ربیعۃ الرائے‘‘ کے نام سے جانتی ہے، اسی طرح خود کوفہ میں امام ابوحنیفہؒ کے استاذ امام عامربن شراحیل شعبیؒ اصحاب الرائے کے منہج کی بجائے اصحاب الحدیث کی منہج کے قائل تھے۔
حجازمیں چوں کہ وہ حضرات تھے، جواحادیث وآثارپرعمل پیراہونے پرتوقف کرتے تھے؛ اس لئے ان کے شاگردوں نے بھی اسی راستہ کواختیار کیا، نیزیہ منبع نبوت تھا، یہاں کے لوگ وہ تھے، جنھوں نے نبیﷺ اوران کے اصحاب کواپنی آنکھوں سے دیکھاتھا، پھران کی زندگیاں بھی نہایت سادہ تھی اور ان کی طبیعتیں قناعت پسندتھیں، اسی کے ساتھ ساتھ یہاں وہ لوگ نہیں پائے جاتے تھے، جواحادیث گڑھ کراپنی بات کوثابت کرنے کی کوشش کرتے؛ اس لئے یہاں کے لوگ سندی طورپرکسی بھی حدیث کی تحقیق کوکافی سمجھتے تھے، اس کے برخلاف عراق اورخصوصیت کے ساتھ کوفہ میں احادیث گڑھنے والے بھی پیداہوگئے تھے، وہاں کی زندگیوں میں سادگی نہیں تھی، ان کی طبیعتیں بھی نت نئی چیزوں کی عادی تھی، ظاہرکے ایسی صورت میں غوروفکرمیں وسعت کی ضرورت تھی اوروضاعین حدیث کی وجہ سے روایت کے ساتھ ساتھ درایت کی بھی ضرورت تھی، بس انہی فروق کی وجہ سے دونوں خطوں کے علماء اورفقہاء کی سوچ میں بھی فرق تھا۔
تاہم اس دور میں بھی نہ توحدیث کی تدوین ہوئی اورناہی فقہ کی ، یہ اوربات ہے کہ تدوین کی کوشش کی گئی؛ چنانچہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ مدینہ کے گورنرابوبکرمحمدبن عمروبن حزم کولکھاکہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کوجمع کردیاجائے؛ لیکن قبل اس کے وہ اس کام کوانجام دیتے، حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی وفات ہوگئی۔

(جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی