فقہ اسلامی اور اس کی تدوین (قسط: 3)

فقہ اسلامی اور اس کی تدوین

(قسط: 3)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی 

 پانچواں مرحلہ  :  عباسی دورِدوم

یہ دورچوتھی صدی کے نصف سے شروع ہوکرسقوطِ بغداد(۶۵۶ھ) پرختم ہوتاہے، یہ دورسیاسی اعتبارسے کافی ہلچل اوراضطراب کادورتھا، جس میں خلافت عباسیہ نام کے لحاظ سے باقی تھی؛ لیکن دائرۂ کارکے اعتبارسے بٹ چکی تھی؛ چنانچہ اندلس میں امویوں، شمالی افریقہ میں فاطمیوں اورمصر میں اِخشیدیوں کی حکومت قائم ہوچکی تھی؛ حتیٰ کہ خودبغدادمیں بنوبویہ اورسلاجقہ کی الگ الگ حکومتیں بن گئی تھیں اوررہی سہی کسرتاتاری حملہ نے پوری کردی، اس اضطراب کی وجہ سے جہاں اسلامی سلطنت میں کمزوری آئی، وہیں اجتہادی صلاحیتوں میں بھی گھن لگااورعلماء حنفی، مالکی، شافعی اورحنبلی مذاہب کی تقلیدپرہی اکتفاکرنے لگے، اسی لئے اس دورکو ’’تقلیداورجمودکادور‘‘کہاجاتاہے، اس کامطلب یہ نہیں کہ اس زمانہ میں غوروفکرکی صلاحیت کی حامل شخصیات موجودہی نہیں تھیں؛ بل کہ انھوں نے اجتہادمطلق کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے اس راستے پرچلنے کی بجائے اقوال فقہاء پرغورکرنے اوراورمتعارض اقوال میں ترجیح دینے کے کام کوہی کافی سمجھا، جس کی بنیادی وجوہات بھی تھیں:

۱-  عظیم الشان فقہی ذخیرہ ان کے سامنے موجودتھا؛ حتیٰ کہ ’’فقہ تقدیری‘‘ کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کے جزئیات بھی موجودتھیں، ایسے میں اجتہادکی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اورہرمذہب کے پیروکارنے اپنے مذہب کے دفاع اوردوسرے کی تردیدکے لئے دلائل کی تلاش کوکافی سمجھا۔

۲-  یہ خوف بھی تھاکہ اگراجتہادکیاجائے توہم عصرعلماء تنقید کانشانہ بنائیں گے، جیساکہ آج کل بہت سارے مسائل میں بعض بڑے علماء بھی زبان نہیں کھولتے؛ حالاں کہ ان مسائل پران کاشرح صدرنہیں ہوتااورنہ حالات وزمانہ اس کے متقاضی ہوتے ہیں۔

۳-  سیاسی اضطراب کی وجہ سے علماء اورعلوم کی طرف حکام کی بے توجہی۔

۴-  انتشارسے بچنے کے لئے ایک ہی مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کے لئے قاضیوں کومکلف کرنا۔

۵-  اوراسلاف کے تئیں عقیدت واحترام کی وجہ سے نئے اجتہادکرنے والوں پر ہم عصروں کی تنقید   -----  ان تمام وجوہات کی وجہ سے یہ دور تقلیداورجمود کا شکارہوگیا؛ تاہم یہ دوربھی نابغہ ٔروزگارشخصیات سے خالی نہیں رہا؛ چنانچہ حنفی فقہاء میں احمدبن محمدابوالحسن قدوری(م:۴۲۸ھ)، ابوبکربن عبدالرحمن السرخسی (م:۴۳۹ھ)، عبدالواحدبن علی عبکری(م:۴۵۷ھ)، ابوعبداللہ محمدبن علی دمغانی (م:۴۷۸ھ) اورشیخ المعتزلہ عبدالسلام بن محمد قزوینی (م:۴۸۸ھ)، مالکی فقہاء میں ابومحمدعبدالوہاب مالکی(م:۴۲۲ھ) اورقاضی ابوالولیدسلیمان بن خلف باجی(م:۴۷۴ھ)، شافعی فقہاء میں ابوحامد احمدبن محمدبن احمداسفرائینی(م:۴۰۶ھ)ابوالطیب قاضی طاہربن عبداللہ طبری(م:۴۵۰ھ)، ابوالحسن علی بن محمدبن حبیب ماوردی (م:۴۵۰ھ) اور ابواسحق ابراہیم بن علی بن یوسف فیروزآبادی(م:۴۷۲ھ)،حنبلی فقہاء میں ابوالخطاب محمدبن علی بن ابراہیم حنبلی(م:۴۳۹ھ)اور قاضی ابویعلی محمدبن حسن (م:۴۵۸ھ)اورظاہری فقہاء میںعلی بن احمدبن سعیدبن حزم ظاہری(م:۴۵۷ھ)نمایاں تھے۔

چھٹامرحلہ  :  نصف ساتویں صدی تاتیرہویں صدی

  یہ دورسقوط بغدادسے شروع ہوکرالمجلّۃ العدلیۃکے ظہورسے پہلے(۱۲۸۶ھ) پراختتام پذیرہوتاہے، یہ دوربھی سابقہ دورکی طرح تقلیدی اور جمودی دور رہا، اس دورکے علماء متون، مختصرات ، مطولات اورحواشی وشروحات کی ترتیب، تالیف اورتصنیف میں مصروف رہے، اس زمانہ میں اختصارکامزاج پیدا ہوگیاتھا، علماء نے اس کی طرف توجہ کی اوراختصارمیں اتنے انتہاء کوپہنچ گئے کہ اس کے مفہوم کاسمجھنا خود مصنف کے لئے دشوارہوگیااوریہ مختصرات تعقید میں ’’جناتی‘‘ کتاب بن کرسامنے آئیں، جیسے: فقہ حنفی میں علامہ نسفی کی ’’کنزالدقائق‘‘، فقہ مالکی میں ’’مختصرخلیل‘‘، فقہ شافعی میں زکریاانصاری کی ’’منہج الطلاب‘‘ اورفقہ حنبلی میں’’الإقناع‘‘، پھران مختصرات کی شرحیں لکھی گئیں، پھران شرحوں کی شرحیں لکھی گئیں اوراس طرح یہ دوراجتہاد اور غورو فکر سے خالی رہا، اس زمانہ کے نمایاں اہل علم وفقہ میں فقہائے احناف میں عثمان بن علی زیلعی(م:۷۴۳ھ)، محمدبن عبدالواحدالمعروف بابن الہمام (م: ۸۶۱ھ)، محمود بن احمد بدرالدین عینی (م:۸۵۵ھ)اورزین الدین بن ابراہیم بن نجیم مصری(م:۹۶۹ھ)، فقہائے مالکیہ میں خلیل بن اسحق کردی مصری (م:۷۷۶ھ)، علی بن زین العابدین اجہوری(م: ۱۰۶۶ھ)محمدبن عبداللہ علی خرشی(م:۱۱۰۱ھ)اورعلی بن احمدصعیدی عدوی(م:۱۱۸۹ھ)، فقہائے شوافع میں یحییٰ بن شرف نووی(م:۶۷۶ھ)، علی بن عبدالکافی سبکی(م:۷۵۶ھ)، زکریابن محمدانصاری(م: ۹۲۶ھ)اوراحمدبن محمدالمعروف بابن حجر ہیتمی (م: ۹۹۵ھ) اور فقہائے حنابلہ میں احمدبن عبدالحلیم بن تیمیہ (م:۷۲۸ھ)، محمدبن ابوبکر شمس الدین المعروف بابن القیم الجوزیۃ(م:۷۵۱ھ) اورمنصوربن یونس المعروف بابن ادریس بہوتی (م:۱۰۵۱ھ) ہیں۔

(جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی