فقہ اسلامی اور اس کی تدوین (قسط: 2)

فقہ اسلامی اور اس کی تدوین

(قسط: 2)

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی 

 چوتھا مرحلہ  :  عباسی دورِاول

یہ دوردوسری صدی ہجری کے اوائل سے شروع ہوکرچوتھی صدی ہجری کے نصف تک چلتاہے، یہ دور نہ صرف فقہ کے عروج کادورہے؛ بل کہ تمام علوم شرعیہ کے عروج اوران کی تدوین کاسنہرادورکہلائے جانے کامستحق ہے، اس دورمیں دوسری زبانوں سے ترجمہ کاکام بھی ہوا، یہی وہ دورہے، جس میں ہرعلوم کے ماہرین پیداہوئے ، اس دورمیں جن علوم کی تدوین ہوئی، وہ درج ذیل ہیں:

(الف)  تدوین حدیث

حدیث کے جمع کرنے کاحکم اگرچہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے دیاتھا؛ لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اوراس کام کے انجام دئے جانے سے پہلے ان کی وفات ہوگی، اب عباسی دورمیں اس کی تدوین کاکام شروع ہوا، پہلے مرحلہ میں نبی کریم ﷺ کی احادیث اورصحابہ ؓ وتابعین کے فتاوے اورفیصلے جمع کئے گئے، پھردوسرے مرحلہ میں صحابہ کے ناموں کی ترتیب سے ’’مسانید‘‘ کی شکل میں جمعِ حدیث کاطریقہ مروج ہوا؛ لیکن اس میں صحت وضعف کی رعایت نہیں کی گئی، اورتیسرے مرحلہ میں فقہی ابواب کی ترتیب اورصحت وضعف کی رعایت کے ساتھ احادیث کوجمع کیاگیا، صحاح ستہ اسی دورکی یادگار ہیں۔

(ب)  جرح وتعدیل

یہ بات گزرچکی ہے کہ لوگوں (بالخصوص گمراہ فرقوں)نے حدیث گڑھناشروع کردیاتھا، ایسے میں کچھ عالی ہمت اہل علم نے روایتوں کی تحقیق کی ذمہ داری اپنے سرلی اوراس طرح ’’جرح وتعدیل‘‘ کافن وجودمیں آیا، امام یحییٰ بن سعید قطانؒ(م: ۱۹۸ھ)، امام عبدالرحمن بن مہدیؒ (م:۱۹۸ھ)، امام یحییٰ بن معینؒ(م: ۲۳۰ھ) اورامام احمدبن حنبلؒ(م: ۲۴۱ھ) وغیرہم اس فن کے اولین معماروں میں ہیں۔

(ج)  قراء ت

اسی دور میں فن قراء ت نے بھی کافی عروج پایا، امام نافعؒ(م: ۱۶۷ھ)، عبداللہ بن کثیرؒ(م: ۱۲۰ھ)، ابوعمروبن علاءؒ(م: ۱۵۴ھ)، عبداللہ بن عامرؒ(م: ۱۱۸ھ)اورابوبکربن عاصمؒ(م: ۱۲۸ھ) اوران کے تلامذہ حفص بن سلیمانؒ(م:۱۸۰ھ)حمزہ بن حبیب زیاتؒ(م: ۱۴۵ھ) اورابوالحسن کسائیؒ(م: ۱۸۹ھ) اسی زمانہ کے ہیں۔

(د)  اصول فقہ

اصول فقہ کی تدوین بھی اسی عہدمیں ہوئی، اس تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کی ایک کتاب’’کتاب الرائے‘‘ کے نام سے تھی؛ لیکن گردش افلاک کی نذرہوکرہم تک نہیں پہنچ سکی، ابن ندیم نے اپنی کتاب ’’الفہرست‘‘میں امام ابویوسفؒ کے بارے میں لکھاہے کہ اصول پران کی کتاب تھی(الفہرست، أخبارأبی یوسف: ۶؍۲۵۶)، اس کی تائیداس بات سے ہوتی ہے کہ ابوالحسین محمدبن علی بصری شافعی معتزلی نے اپنی کتاب’’المعتمد‘‘ میں کے ان سے حوالے نقل کئے ہیں(دیکھئے: المعتمد، باب فی مایقبل فیہ خبرالواحدومالایقبل فیہ:۲؍۵۷۰-۵۷۱)، اسی طرح ابن ندیم نے اصول پرامام محمدؒکی تین کتابوں کا ذکر کیاہے، ایک ’’کتاب اجتہادالرأي، کتاب الإستحسان ‘‘اور’’کتاب أصول الفقہ‘‘(الفہرست، محمدبن الحسن: ۶؍۲۵۷)؛ لیکن بدقسمتی سے یہ کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکیں، اصول فقہ پرسب سے پہلی کتاب، جوہم تک پہنچی ہے، وہ حضرت امام شافعیؒ کی ’’الرسالۃ‘‘ ہے، اس لحاظ سے انھیں اس فن کامدون اول کہاجاتاہے۔

(ھ)  تدوین فقہ 

اس زمانہ میں فقہ کوبھی بڑاعروج حاصل ہوا، اس میں بڑے بڑے فقہاء پیداہوئے؛ چنانچہ مکہ میں سفیان بن عیینہ، مدینہ میں مالک بن انس، بصرہ میں حسن بصری، کوفہ میں ابوحنیفہ نعمان بن ثابت اورسفیان ثوری، شام میں اوزاعی، عراق اورمصرمیں محمدبن ادریس شافعی، مصرمیں لیث بن سعد، نیشاپور میں اسحق بن راہویہ اوراسی طرح دیگرفقہاء ابوثور، احمدبن حنبل، داؤد ظاہری اورابن جریرطبری رحمہم اللہ وغیرہم سب اسی دورکی یادگارہیں، اسی دورمیں فقہ کی تدوین بھی عمل میں آئی اوراس کی باضابطہ تدوین کاشرف امام ابوحنیفہؒ کوحاصل ہوا؛ چنانچہ علامہ ابن حجرہیتمیؒ لکھتے ہیں:

إنہ أول من دون علم الفقہ، ورتبہ أبواباً وکتباً علی نحوماہوعلیہ الیوم ، وتبعہ مالک فی مؤطئہ، ومن قبلہ إنماکانوایعتمدون علی حفظہم۔ (الخیرات الحسان فی مناقب الإمام الأعظم أبی حنیفۃ النعمان، ص: ۶۵)

ابوحنیفہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے علم فقہ کی تدوین کی اوراس کے ابواب وکتب کو آج کی موجودہ شکل میں مرتب کیا، اورامام مالک نے اپنی مؤطامیں انہی کی پیروکی، جب کہ اس سے قبل وہ لوگ اپنے حافظہ پراعتماد کرتے تھے۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ چوں کہ اس زمانہ میں مملکت اسلامیہ کافی وسعت اختیارکرچکی تھی، جس کے نتیجہ میں اجتہادواستنباط اورغوروفکر کا دائرہ بھی وسیع ہوا، خلفائے عباسی کے اہتمام کی وجہ سے فقہاء کی بھی کثرت ہوئی، ذخیرہ ٔاحادیث بھی مدون ہوکرسامنے آیا، جن کی وجہ سے غوروفکرکرنے والے اہل علم کے مابین اختلاف آراء بھی ظاہرہوئے اوراس کی وجہ سے کئی مکاتب فکروجودمیں آئے، ان میں اہم یہ ہیں:

۱-  حنفی مذہب

۲-  مالکی مذہب

۳-  شافعی مذہب

۴-  حنبلی مذہب

۵-  ظاہری مذہب

۶-  زیدی مذہب

۷-  امامیہ مذہب

۸-  اِباضیہ مذہب

(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی