موت کے بعدجگرکاعطیہ(Liver donation after death)

موت کے بعدجگرکاعطیہ

 محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

سوال : کیاکسی متعین مریض کی جان بچانے کے لئے کسی کی موت کے بعد اُس کاجگرنکال کرلگایاجاسکتاہے یاایسے طبی ادارہ کوعطیہ کیا جاسکتاہے، جواُس کومحفوظ رکھے اوروقت ضرورت کسی مریض کی وہ جان بچاسکے؟

جواب:  یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں حضرت انسان کوفضیلت وبرتری سے نوازاہے اوراِس فضیلت میں زندہ اورمردہ دونوں طرح کے انسان داخل ہیں؛ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے: 

کسرعظم المیت ککسرہ حیاً۔ (ابوداؤد، کتاب الجنائز، حدیث نمبر: ۳۲۰۷، ابن ماجہ، کتاب الجنائز، حدیث نمبر: ۱۶۱۶)

مردہ کی ہڈی توڑنازندہ شخص کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔

یعنی حرمت میں دونوں برابرہیں، علامہ عینی ؒ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

والمعنیٰ: أن حرمۃ بنی آدم سواء فی الحالتین، فکمالایجوز کسرعظم الحی، فکذلک لایجوزکسرعظم المیت۔ (شرح سنن ابی داود: ۶ / ۱۵۸، ط: مکتبۃ الرشید، ریاض ۱۹۹۹ء)

مطلب یہ کہ دونوں(مردہ اورزندہ) حالتوں میں بنوآدم کی حرمت برابرہے؛ چنانچہ جس طرح زندہ شخص کی ہڈی توڑنادرست نہیں، اُسی طرح مردہ شخص کی ہڈی توڑنابھی جائز نہیں۔

معلوم ہوا کہ جس طرح انسان اپنی حیات میں محترم اورقابل عزت ہوتاہے، اُسی طرح موت کے بعد بھی لائقِ تکریم ہے؛ بل کہ موت کے بعدتواِس حق میں اورزیادہ اضافہ ہی ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ جنازہ لے جانے میں ایسی سرعت سے روکا گیا ہے، جومیت کے لئے عدم استقلال اوربے قراری کاسبب بنے،مشہورفقیہ ابراہیم حلبیؒ لکھتے ہیں:

ویسرعوابہ بلاخبب۔ (ملتقی الأبحر علی ہامش مجمع الأنھر، کتاب الجنائز: ۱ / ۲۷۴، ط: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

اور(جنازہ) کوبغیرہلائے ڈلائے رفتارکے ساتھ لے کرجائیں۔

بطور علاج انسانی اجزاء واعضاء کا استعمال

اب ایک سوال تویہ پیداہوتاہے کہ کیاانسانی اجزاء واعضاء کاعلاجاً استعمال انسانی حرمت کے خلاف ہے؟

اس سلسلہ میں فقہاء کی رائے ’’عدمِ جواز‘‘کی ہے؛ چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں:

إجماع المسلمین علی تحریم سلخ جلدالآدمی واستعمالہ۔ (المجموع: ۱ / ۲۷۰، نیز دیکھئے: الفتاوی الہندیہ: ۵ /۳۵۴) 

آدمی کی جلدکشی اوراُس کے استعمال پرمسلمانوںکا اجماع ہے۔

اِسی طرح اِس بات پربھی اتفاق ہے کہ یہ ممانعت انسان کی اُس شرافت کی وجہ سے ہے، جواللہ تبارک وتعالیٰ نے ’’ولقدکرمنابنی آدم‘‘ (الإسراء: ۷۰)کے ذریعہ سے عطاکررکھی ہے، چنانچہ علامہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں: 

والآدمی یحرم الانتفاع بہ وبأجزائہ لکرامتہ۔ (مغنی المحتاج: ۱/ ۱۹۱)

آدمی اوراُس کے اجزاء سے استفادہ اُس کی شرافت کی وجہ سے حرام ہے۔

پھراِس حرمت میں بعض فقہاء کے نزدیک اِس قدرشدت ہے کہ سخت بھوک کی حالت میں، جب کہ مرداربھی کھانے کونہ مل رہاہواورہلاکت کااندیشہ بھی ہو، اپنا یا اجازت کے ساتھ کسی اورکاعضوکاٹ کرکھاناچاہے توگنجائش نہیں، علامہ اوزجندیؒ لکھتے ہیں:

مضطرلم یجدمیتۃ، وخاف الھلاک ، فقال لہ رجل: اقطع یدی وکلہا، أوقال: اقطع قطعۃ منی وکلہالایسعہ‘أن یفعل ذلک،ولایصح امرہ بہ، کمالایسعہ للمضطر أن یقطع قطعۃ من لحم نفسہ فیأکل۔ (الفتاوی الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ: ۳ / ۴۰۴)

مضطرمردارنہ پائے اوراس کے ہلاک ہونے کااندیشہ ہو، (اُس وقت )کوئی اُس سے کہے: میراہاتھ کاٹ کرکھالو، یا کہے: میرے(جسم) کا کوئی حصہ کاٹ کر کھالو تواُس کے لئے ایساکرنے کی گنجائش نہیں اورایساحکم دینادرست ہے، جیسا کہ خود مضطرکے لئے اِس بات کی گنجائش نہیں کہ وہ اپنے جسم کاکوئی حصہ کاٹ کرکھائے۔

جزء انسانی سے استفادہ کے سلسلہ میں اِس قدر شدت کے باوجود اگرغورکیاجائے توتمام مکاتب ِ فکرکی کتابوں میں ایسی جزئیات مل جاتی ہیں، جن سے اجزائے انسانی سے استفادہ کی گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ البتہ اِس گنجائش کودوخانوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:

(الف)  عمومی گنجائش:یہ شوافع، مالکیہ اورحنابلہ کامسلک ہے؛ چنانچہ اِن حضرات کے یہاں انسانی دودھ ، جوانسانی اجزاء میں سے ہے، کی خریدوفروخت کی عام  اجازت دی گئی ہے اوربیع بھی استفادہ کاہی نام ہے، علامہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں: 

ویصح بیع لبن الآدمیات؛ لأنہ طاہرمنتفع بہ۔ (مغنی المحتاج، کتاب البیوع:۲ / ۱۸، ط: دارالمعرفہ، بیروت، لبنان۱۹۹۷ء، نیز دیکھئے: کشاف القناع، کتاب البیوع: ۲ / ۴۶۵، ط: عالم الکتب، لبنان ۱۹۹۷ء، بدایۃ المجتہد، کتاب البیوع: ۲ / ۱۲۸، ط: دارالمعرفۃ، لبنان ۱۹۸۲ء)

عورتوں کے دودھ کی خریدوفروخت درست ہے؛ کیوں کہ وہ طاہر اورقابلِ انتفاع ہے۔

علامہ ابن قدامہ ؒ نے توتمام اجزائے انسانی کی بیع کو جائز قراردیاہے، وہ لکھتے ہیں:

وسائرأجزاء الآدمی یجوز بیعھا۔ (المغنی، کتاب البیوع، فصل: حکم بیع لبن الآدمیات: ۲ / ۹۲۴، ط: بیت الأفکار الدولیۃ، لبنان ۲۰۰۴ء) 

آدمی کے تمام اجزاء کی خریدوفروخت جائز ہے۔

(ب)  خصوصی گنجائش: یہ احناف کا مسلک ہے؛ چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

لابأس بأن یستعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربہ للدواء۔ (الفتاوی الہندیۃ: ۵ / ۳۵۵) 

دواکے طورپرعورت کے دودھ کوناک میں ڈالنے اورپینے میں کوئی حرج نہیں۔

انسانی جزء سے استفادہ کی ممانعت کے اسباب

دراصل فقہاء کے یہاں جزء انسانی سے استفادہ کی ممانعت کی دوبنیادی اسباب ہیں:

۱- انسانی تکریم۔

۲- مشروع طریقہ پرانتفاع کا عدمِ امکان، اِس کی وضاحت موفق ابن قدامہؒ اِس طرح کرتے ہیں:

وحرم بیع العضو المقطوع؛ لأنہ لانفع فیہ۔ (المغنی، کتاب البیوع، فصل: حکم لبن الآدمیات: ۲ / ۹۲۴)

(انسان) کے کٹے ہوئے عضوکی خریدوفروخت اِس لئے حرام ہے کہ اُس میں نفع نہیں ہے۔

اورنفع کی وضاحت کرتے ہوئے ’’مبیع کی شرائط‘‘کے ضمن علامہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں:

(النفع)أی: الإنتفاع بہ مشروعاً، ولوفی المآل۔ (مغنی المحتاج، کتاب البیوع: ۲ / ۱۷)

(مبیع کی شرط میں سے یہ ہے کہ) وہ مشروع طریقہ پرقابل انتفاع ہو، گرچہ یہ انتفاع مستقبل میں ہو۔

اب غورکیاجائے کہ آج کل جزء انسانی سے استفادہ میں اِن دونوں اسباب کی رعایت پائی جاتی ہے یانہیں؟ ظاہرہے کہ طبی طورپراستفادہ میں انسانی تکریم کے ساتھ ساتھ مشروع طریقہ پرانتفاع بھی ہوتاہے؛ کیوں کہ اِس طریقہ پراستفادہ اِس زمانہ کے عرف میں سے ہے اورعرف شریعت کے مخالف نہ ہو تواُس کی رعایت ضروری ہوتی ہے، عبدالوہاب خلافؒ لکھتے ہیں:

فمادام لایخالف الشرع، وجبت مراعاتہ، والشارع راعی الصحیح من عرف العرب فی التشریع۔ (علم اصول الفقہ: ص: ۱۰۰، ط: قاہرہ) 

جب تک شریعت کے خلاف نہ ہو، عرف کی رعایت ضروری ہے، شارع نے عرب کے صحیح عرف کی رعایت کی ہے۔

بہرحال!مذکورہ وضاحت سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اجزائے انسانی سے استفادہ کلیۃًممنوع نہیں۔

مردہ شخص کے اجزاء واعضاء سے استفادہ 

جب کہ دوسراسوال یہ اُٹھتاہے کہ کیا زندہ اورمردہ دونوں طرح کے انسان کے اجزاء واعضاء سے استفادہ کی گنجائش ہے یا صرف زندہ انسان کے اجزاء واعضاء سے فائدہ اُٹھایاجاسکتاہے، مردہ کے اجزاء واعضاء سے نہیں؟

پہلی شق یعنی زندہ انسان کے اجزاء اعضاء سے استفادہ کی بابت تفصیلی گفتگو ابھی گزری، جہاں تک دوسری شق یعنی مردہ انسان کے اجزاء واعضاء سے استفادہ کاتعلق ہے تواِس سلسلہ میں درج ذیل باتوں کی وضاحت ضروری ہے:

کیامردہ انسان کے اجزاء واعضاء سے استفادہ ’مثلہ‘ میں شامل ہے؟

۱-  کیامردہ انسان کے اجزاء واعضاء سے استفادہ ’مثلہ‘ میں شامل ہے؟

اِس سوال کے جواب کے لئے ’مثلہ‘کی حقیقت سے واقفیت ضروری ہے؛ چنانچہ اِس کی حقیقت پرروشنی ڈالتے ہوئے علامہ خطابی ؒ لکھتے ہیں:

المثلۃ: تعذیب المقتول بقطع أعضائہ، وتشویہ خلقہ قبل أن یقتل أوبعد، وذلک مثل أن یجدع أنفہ، أو أذنہ، أویقفأ عینہ، أوماأشبہ ذلک من اعضائہ۔ (معالم السنن علی ہامش أبی داود، کتاب الجہاد، باب فی النہی عن المثلۃ: ۳ / ۸۴، ط : دارابن حزم، بیروت ۱۹۹۷ء)

’مثلہ‘ قتل سے پہلے یابعدمیں انسان کی فطری تخلیق میں بگاڑپیداکرنے یاقتل کے بعدبے دردی کے ساتھ اعضاء کاٹ لینے کوکہتے ہیں، جیسے: ناک کان کاٹ لئے یاآنکھ پھوڑدی یااِس طرح کسی اورعضوکے ساتھ کیا۔

اورظاہر ہے کہ موت کے بعدانسانی اعضاء سے استفادہ کی صورت میں اِس قبیل کی باتیں نہیں پائی جاتیں؛ اِس لئے موت کے بعدانسانی اعضاء سے استفادہ ’مثلہ‘ میں شامل نہ ہوگا۔

کیاجسم کی ملکیت موت کے بعد بھی رہے گی؟

۲-  انسان کواپنے جسم پرجوملکیت حاصل ہے، کیاوہ موت کے بعدبھی حاصل رہے گی؟

اِس سلسلہ میں سب سے پہلے جانناچاہئے کہ ملکیت کی دوقسمیں ہیں:

(الف)  ایسی ملکیت، جس میں بذاتِ خودتوتصرف کرسکتاہے؛ لیکن دوسرے کوتصرف کی اجازت نہیںدے سکتا۔

(ب)  ایسی ملکیت، جس میں ذاتی تصرف کااختیاررکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کوبھی تصرف کی اجازت دے سکتاہے  -----  علامہ قرافی ؒ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فتملیک الانتفاع نریدبہ: أن یباشر ہوبنفسہ فقط، وتملیک المنفعۃ، ہوأعم وأشمل، فیابشر بنفسہ، ویمکن غیرہ من الانتفاع بعوض کالإجارۃ، وبغیرعوض کالعاریۃ۔ (الفروق، الفرق الثلاثون: ۱ / ۳۹۹)

’تملیک انتفاع‘ سے ہماری مراد یہ ہے کہ (آدمی) صرف خودفائدہ اُٹھاسکتاہے، جب کہ تملیک منفعت اِس سے زیادہ عام اوروسیع ہے؛ چنانچہ خودبھی فائدہ اُٹھاسکتاہے اوردوسرے کوبھی عوض یابغیرعوض کے(دونوں طرح سے) فائدہ اُٹھانے کی اجازت دے سکتاہے، جیسے: اجارہ وعاریت۔

انسان کواپنے جسم پریہ دونوں ملکیتیں حاصل ہیں،جہاں تک ذاتی طورپرملکیت کی بات ہے تواِس کی وضاحت فقہ کے درج ذیل جزئیہ سے ہوتی ہے، امام نووی ؒ لکھتے ہیں:

ولوارادالمضطرأن یقطع قطعۃ من فخذہ أوغیرہا لیأکلہا، فإن کان الخوف منہ کالخوف فی ترک الأکل أوأشد، حرم، وإلاجاز علی الأصح۔ (روضۃ الطالبین، کتاب الأطعمۃ: ۲ / ۵۵۱)

اگرکوئی مضطراپنی ران یاجسم کے کسی اور حصہ کوکاٹ کرکھاناچاہے توایساکرنے کی گنجائش اُس وقت ہے، جب کہ کاٹنے سے اُس طرح کا(ہلاکت کا)خوف لاحق نہ ہو، جس طرح نہ کھانے کی صورت میں ہے، وگرنہ حرام ہوگا۔

مذکورہ جزئیہ میں اِس بات کی وضاحت ہے کہ ایک آدمی بذاتِ خوداپنے جسم سے فائدہ اُٹھاسکتاہے  ---  اب رہی دوسری ملکیت کی بات، تواِس کی توضیح علامہ موفق ابن قدامہ ؒ کی بات سے ہوجاتی ہے، وہ فرماتے ہیں:

وسائرأجزاء الآدمی یجوز بیعہا۔ (المغنی، ص: ۹۲۴)

انسان کے تمام اجزاء کی بیع جائز ہے۔

اوربیع نام ہے ’’دوسرے کواپنی ملکیت سے استفادہ کاحق دینے کا‘‘،اوریہ اُسی وقت ہوتاہے، جب کہ ’’ملکیت ِتامہ‘‘حاصل ہو، جس میںشرعی حدودکے اندررہتے ہوئے آزادانہ تصرف کا اختیارہوتاہے، ڈاکٹروہبہ زحیلی لکھتے ہیں:

ویمنح صاحبہ(صاحب الملک التام)الصلاحیات التامۃ، وحریۃ الإستعمال، والاستثمار، والتصرف فیمایملک کمایشاء، فلہ البیع ، أوالہبۃ، أوالوقف، أوالوصیۃ۔ (الفقہ الاسلامی وأدلتہ: ۴ / ۵۸)

ملک ِتام حاصل ہونے والے شخص کومملوکہ چیزمیں اپنی پسندکے مطابق تصرف، اُس سے استفادہ،اُس کے استعمال کی آزادی اورمکمل اختیارحاصل ہوتاہے؛ چنانچہ وہ بیع بھی کرسکتاہے، ہبہ بھی، وصیت بھی اوروقف بھی۔

مذکورہ باتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کواپنے جسم پرمن وجہ جوملکیت حاصل ہے، اُس میں اُسے ملکیت ِکامل حاصل ہے اورجب ملکیت ِکامل حاصل ہے تووہ اُس کے کسی عضواورجزء کوعطیہ بھی دے سکتاہے؛ البتہ چوں کہ حق اللہ کا بھی خیال رکھناہے؛ اِس لئے عطیہ وہیں دیں گے، جہاں شرعی ضرورت ہو، جیسے: کسی کی زندگی بچاناہو؛ کیوں کہ زندہ شخص کی زندگی بچانازیادہ اہمیت کی حامل ہے، امام نوویؒ لکھتے ہیں:

وإن اضطر، ووجدآدمیامیتا، جاز لہ أکلہ؛ لأن حرمۃ الحی آکدمن حرمۃ المیت۔ (المجموع، کتاب الأطعمۃ: ۹ / ۴۲)

اگرکسی آدمی کومردہ آدمی مل جائے تواُس کے لئے کھاناجائز ہے؛ کیوں کہ زندہ کی حرمت ، میت کی حرمت کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

اِسی قبیل سے یہ جزئیہ بھی ہے کہ اگرکسی حاملہ کی موت واقع ہوجائے اوراُس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہوتوپیٹ چاک کرکے بچہ کوباہرنکالاجائے گا، علامہ سمرقندی ؒ لکھتے ہیں:

ولوأن حاملا ماتت، وفی بطنہا ولد یضطرب، فإن کان غالب الظن أنہ ولدحی، وہوفی مدۃ یعیش غالباً، فإنہ یشق بطنہا؛ لأن فیہ إحیاء الآدمی بترک تعظیم الآدمی، وترک التعظیم أہون من مباشرۃ سبب الموت۔ (تحفۃ الفقہاء، کتاب الحظروالاباحۃ: ۳ / ۳۴۵)

اگرکسی حاملہ کی موت اِس حال میں ہوجائے کہ بچہ پیٹ میں حرکت کررہاہو، تواگرغالب گمان یہ ہوکہ بچہ زندہ ہے اورایسی مدت میں ہے، جس میں اکثرحیات پیداہوتی ہے ، تواُس کے پیٹ کوچاک کیاجائے گا؛ کیوں کہ ایساکرنے میں آدمی کی تعظیم کے ترک کے ذریعہ سے آدمی کوزندگی بخشناہے اورتعظیم ِ آدمیت کوترک کرنا(زندہ شخص کی)موت کاسبب بننے کے مقابلہ زیادہ آسان ہے۔

اس لئے متعین مریض کی جان بچانے کے لئے اپنی موت کے بعدجگرکاعطیہ دے سکتاہے، اب رہایہ مسئلہ کہ ایسے ادارے کوعطیہ دے سکتاہے یانہیں، جوعضوکوکیمیکل کے ذریعہ زندہ رکھتاہے اورضرورت کے وقت دوسرے کومہیاکرتاہے؟ اِس کاجواب یہ ہے کہ اگرایساکسی متعین مریض کے لئے کررہاہے، جس کے جگرکی خرابی کے سلسلہ میں غالب گمان ہے، تواِس طرح کاعطیہ بھی اِس حقیرکے نزدیک جائز ہے؛ کیوں کہ غالب گمان یقین کے درجہ میں ہوتاہے اوراحکامِ شریعت میں اِسے معتبرماناجاتاہے، مشہورمحقق محمدعلی تھانویؒ لکھتے ہیں:

وغالب الظن عندہم(أی: عندالفقہاء)ملحق بالیقین، وہوالذی تبتنی علیہ الأحکام۔(کشاف اصطلاحات الفنون، لفظ: ظن: ۲ / ۱۱۵۴)

فقہاء کے نزدیک غلبۂ ظن کویقین کے ساتھ ملحق کیاجاتاہے، اوریہ وہ ہے، جس پراحکام کی بنارکھی جاتی ہے۔

لیکن اگرمریض متعین نہ ہویامتعین توہو؛ لیکن اُس کے جگرکی خرابی کاگمان غالب نہ ہوتوایسی صورت میں کسی ادارہ کومحض محفوظ رکھنے کے لئے عطیہ دینے کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے؛ کیوں کہ موت کے بعداعضاء کے عطیہ کی گنجائش ایک ضرورت کی بنیادپرہے، اورضرورت نام ہے ’’انسان پر طاری ہونے والی اُس نازک حالت یا مشقت ِشدیدہ کا، جس میں اُسے کسی طرح کاضررلاحق ہونے، یاجسمانی وعضوی تکلیف پہنچنے، یاعزت وآبروپرآنچ آنے،یاعقلی ومالی لحاظ سے نقصان ہونے کااندیشہ ہو،اِس صورت میں شرعی حدودکے اندررہتے ہوئے غلبۂ ظن کے موافق (تمام طرح کے) ضررکودورکرنے کی غرض سے کسی واجب کوترک یامؤخرکرنا، یا حرام کاارتکاب کرنامباح ، یامتعین ہوجاتاہے‘‘(نظریۃ الضرورۃ الشرعیۃمقارنۃ مع القانون الوضعی للزحیلی، ص: ۶۷ - ۶۸)اورظاہرہے کہ یہ ضرورت مریض کے عدمِ تعیین یامتعین مریض کے جگرکی خرابی کے عدمِ غالب گمان کی صورت میں نہیں پائی جاتی؛ اِس لئے ایسی صورت میں عطیہ کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے، واللہ اعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی