تعلیمی فیس/داخلہ فیس/ ڈونیشن/ ایام غیرحاضری کی فیس

تعلیم،داخلہ اورایام غیرحاضری کی فیس اورڈونیشن
کی شرعی حیثیت

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

تعلیمی فیس

تعلیم خواہ دینی ہویاعصری، استاذچوں کہ اپناوقت صرف کرتاہے، محنت اورمشقت کرتاہے، نیز زمانہ کارواج بھی ہوچکاہے کہ تعلیم پراجرت لی اور دی جائے؛ اس لئے تعلیمی فیس لینے کی گنجائش ہے، علامہ ابومحمد محمود بن احمد عینی ؒ لکھتے ہیں:

لکن المتأخرین جوزوا علی التعلیم ، والإمامۃ فی زماننا لحاجۃ الناس إلیہ، وظہورالتوانی فی الأمورالدینیۃ، وکسل الناس فی الاحتساب، وعلیہ الفتوی(منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک،ص: ۹۶)۔

لیکن متاخرین نے لوگوں کی ضرورت ، اموردینیہ میں سستی کے ظاہرہونے اوراحتساب میں کسل مندی کی وجہ سے ہمارے زمانہ میں تعلیم اورامامت پراجرت کوجائز قراردیاہے اوراسی پر فتوی ہے۔

جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ دینی تعلیم پراجرت درست ہے تودنیاوی تعلیم پربدرجۂ اولیٰ اجرت درست ہوگی، اب سوال یہ ہے کہ اجرت کی مقدار کیاہوگی؟اس سلسلہ میں شریعت نے کسی قسم کی کوئی تعیین نہیں بتائی ہے؛ بل کہ اس کامدارپڑھنے اورپڑھانے والے(اجیرومستأجر)کی رضامندی پرموقوف رکھاہے کہ یہ معاملہ اجارہ کاہے اوراجارہ کی درستگی کی شرطوں میں سے ایک شرط دونوں معاملہ کرنے والوں کی رضامندی ہے، فتاوی ہندیہ میں ہے:

وأماشرائط الصحۃ: فمنہا رضاالمتعاقدین(الفتاوی الہندیۃ، الباب الأول: فی تفسیرالإجارۃ…: ۴؍۴۱۱)۔

اجارہ کی صحت کی شرائط میںسے عاقدین کی رضامندی ہے۔

لہٰذا جس مقدارپرعاقدین راضی ہوجائیں، عقددرست ہوجائے گا؛ البتہ اجرت معلوم ہونی چاہئے، فتاوی ہندیہ میں ہے:

ومنہا: أن تکون الأجرۃ معلومۃً(الفتاوی الہندیۃ، الباب الأول: فی تفسیرالإجارۃ…: ۴؍۴۱۱)۔

انہی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ اجرت معلوم ہو۔

جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ تعلیم پراجرت لیناجائز ہے تویہ بھی جان لیناچاہئے کہ جتنی بھی فیسیں(ماہانہ فیس، ٹرم فیس، ٹرانسپورٹ فیس، مطبخ فیس، امتحان فیس وغیرہ )اسکولوں میں لی جاتی ہیں(سوائے داخلہ فیس کے)، سب عمل کے بدلہ میں ہیں اورجب سب عمل کے بدلہ میں ہیں تو ’’الأجرۃ إنماتکون فی مقابلۃ العمل‘‘کے مصداق ہوکر سب کی فیسیں لینے کی بھی گنجائش ہے۔

داخلہ فیس

اب سوال داخلہ فیس کارہ جاتاہے توسب سے پہلے ہم اس کی تعریف معلوم کرتے ہیں؛ تاکہ اس کی حقیقت کا پتہ چل جائے، داخلہ فیس کی تعریف یوں کی جاتی ہے:

A fixed charge for a privilege for professional service.                  

پیشہ ورانہ خدمت کے استحکام کے لئے ایک مقررہ قیمت(www.thefreedictionry.com) ۔

اس تعریف سے معلوم ہواکہ داخلہ فیس بھی دراصل اجرت بالعمل ہی ہے، جس کے لینے میں کوئی حرج نہیں، کفایۃ المفتی کے حاشیہ میں ہے:

غایۃ ما فی الباب یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ داخلہ سے متعلق امور نمٹانے کی اجرت ہے(کفایۃ المفتی:۲؍ ۴۶

اس لئے داخلہ فیس(Admission Fee)بھی لینے کی گنجائش ہے۔

ڈونیشن

رہی بات ڈونیشن کی تویہ بھی داخلہ فیس کے ہی قبیل کی چیز ہے، لہٰذا اس کے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں؛ چنانچہ انٹرنیٹ پر موجوددارالعلوم وقف دیوبند کے ایک فتوی میں ہے:

ہماری معلومات کے مطابق ڈونیشن داخلہ فیس کی ہی ایک شکل ہے، جس کے لینے کی گنجائش ہوسکتی ہے(Ref.No:38/1091)۔

آج کل اسکول وکالج والے ان دونوں(داخلہ فیس اورڈونیشن) کے نام سے تکلیف مالایطاق روپے لیتے ہیں، ظاہرہے کہ شریعت کی نگاہ میں یہ پسندیدہ نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ ’’غبن فاحش‘‘ کے دائرہ میں آتاہے، جب کہ معاملات میں’’غبن فاحش‘‘ کونادرست قراردیاگیاہے، علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں:

(وصح بیعہ وشراء ہ من اجنبی بمایتغابن الناس)لابمالایتغابن ، وہوالفاحش (الدرالمختار:۶؍۱۷۳)۔ 

اجنبی سے بیع وشراء اتنانقصان پہنچاکردرست ہے، جتنے میں لوگ برداشت کرتے ہوں، برداشت سے باہر نقصان پہنچا کر درست نہیں اوروہ ’فاحش‘ (بہت زیادہ) ہے۔

اسی طرح اللہ کے رسولﷺنے ’’تلقی رکبان‘‘ سے منع فرمایاہے، ارشادہے:

لاتلقوا الرکبان، ولایبع حاضر لباد(  بخاری، باب ہل یبیع حاضر لباد …، حدیث نمبر: ۲۱۵۸)۔

قافلوں سے نہ ملواورشہری دیہاتی سے بیع نہ کرے۔

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن دقیق العیدؒفرماتے ہیں:

تلقی الرکبان من البیوع المنہی عنہا لمایتعلق بہ من الضرر(إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام، باب مانہی عنہ فی البیوع: ۱؍۳۴۷)۔ 

ضررمتعلق ہونے کی وجہ سے تلقی رکبان منہی عنہ بیع میں سے ہے۔

ممانعت کی وجہ ضرریعنی نقصان پہنچاناہے، سامان والے کواس طورپر کہ بازارکاکم بھاؤ بتاکرسستے میں خریدا اورخریداروں کواس طورپرکہ بازارکی عام قیمت سے مہنگا بیچا اورظاہرہے کہ اسی صورت میں لوگوں کے لئے مشقت ہے اورایسی مشقت کے وقت حاکم کے لئے بازارکی قیمت کے اندرتحدید کرنے کی اجازت ہے، مشہورحنفی فقیہ علی حیدرؒ لکھتے ہیں:

یجوز تحدید أسعار المأکولات عندطمع التجارفی زیادۃ الأرباح زیادۃ تضربمصالح العامۃ(  دررالحکام شرح مجلۃ الأحکام، مادۃ :۲۶: ۱؍۳۶)۔ 

ماکولات کے نرخ کی تحدیدکرناتاجروں کی طرف سے منافع میں ایسی زیادتی کے وقت جائز ہے، جو مصالح عامہ کونقصان پہنچائے۔

لہٰذاموجودہ دورمیں حکومتوں کوچاہئے کہ وہ بھی اسکولوں اورکالجوں کی فیسوں(داخلہ اورڈونیشن) میں حدبندی کریں؛ تاکہ لوگوں کوکسی قسم کی مشقت پیش نہ آئے، واللہ اعلم بالصواب!

ایام غیرحاضری کی فیس

گزشتہ اوراق میں یہ بات گزرچکی ہے کہ پڑھنے پڑھانے کامعاملہ شرعی اصطلاح میں اجارہ کا ہے اوراجارہ میں عاقدین کی رضامندی ضروری ہے، لہٰذا جس پر وہ راضی ہوجائیں، معاملہ درست ہوجائے گا؛ چنانچہ اگردونوں اس پرراضی ہوجائیں کہ غیرحاضری کی بھی فیس لگے گی توایام غیرحاضری کی فیس لینے میں کوئی حرج نہیں، اب اس رضامندی کی دوصورتیں ہیں:

۱-  داخلہ کے وقت زبانی یاداخلہ فارم میں لکھ کرصراحت کردی جائے۔

۲-  داخلہ کے وقت صراحت تونہیں کی گئی؛ لیکن عرف یہی چل رہاہے۔

پہلی صورت میں اس لئے جائز ہے کہ صراحت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی، فخرالدین عثمان بن علی زیلعیؒ لکھتے ہیں:

لأن التصریح یفوق الدلالۃ، فلاتعمل بمقابلتہ شیئاً(تبیین الحقائق: ۵؍۹۲)۔ 

کیوں کہ تصریح دلالت سے بڑھ کرہوتی ہے، لہٰذا اس کے مقابلہ میں کوئی چیز عمل نہیں کرے گی۔

دوسری صورت میں اس لئے کہ شریعت نے اس کومعتبرماناہے اوریہ بھی صراحت کے ہم معنی ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

والأعراف والعادات التی تجری بین الناس فی معاملاتہم تقوم مقام النطق بالألفاظ(الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳۰؍۵۵، لفظ:عرف)۔ 

لوگوں کے آپسی معاملات میں رائج عرف وعادات نطق بالألفاظ کے قائم مقام ہوتاہے۔

بہرحال! حقیقی یاعرفی صراحت کے ساتھ ایام غیرحاضری کی فیس لینادرست ہے، ورنہ نہیں، واللہ اعلم!


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی