ارتدادکی لہر: ایک لمحۂ فکریہ

 ارتدادکی لہر: ایک لمحۂ فکریہ

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی


ایک لہرہے، جواس وقت ہمارے ملک کے مسلمانوں کوبہالے جاناچاہتی ہے، اس پربندکیسے باندھاجائے ؟ اس سے بچنے کے لئے کون سا منصوبہ تیارکیا جائے؟یہ اس وقت اہم سوال ہے، یہ لہر ارتداد کی لہرہے اورسب سے زیادہ فکرکی بات یہ ہے کہ ہمارے سماج میں یہ اس راستہ داخل ہورہی ؛ بل کہ ہوچکی ہے، جس کومعاشرہ کی ترقی کازینہ اوراس کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کہاجاتاہے، جس کے تعلق سے شہنشاہ ظرافت اکبرالٰہ بادی نے کہاہے:

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کے فرعون کوکالج کی نہ سوجھی

اکبرنے اس تعلیم کے ابتدائی دورہی میں اس کی سنگینیت کی طرف اشارہ کردیاتھا، کاش! ہم اس کی طرف توجہ دے لیتے توشایداس تعلق سے جومضامین سپردقرطاس کرتے ہیں، اس کی ضرورت نہ پڑتی اورجن ویڈیوز اورکورٹ سے دئے گئے میریج سرٹیفکیٹ پر جس کڑھن کااحساس کرتے ہیں، وہ نہیں کرناپڑتا؛ لیکن ایسانہیں ہوسکا، اس کی وجہ کی طرف اکبرالٰہ آبادی  نے اشارہ کیاہے:

ادھر یہ ضد ہے کہ لیمن بھی چھو نہیں سکتے

اُدھریہ دھن ہے کہ ساقی صراحیِ مے لا

اس پربھی ہم لوگوں نے توجہ نہیں دی؛ بل کہ آج بھی ہم میں سے بہوتوں کی حالت مذکورہ شعر کے مصداق ہے، جولیموں چھونے کوحرام سمجھتے ہیں، ہمارے اس حرام سمجھنے کانتیجہ ہماری آنکھوں نے سامنے ہے، ہم بس دکھڑاسوشل میڈیاپرشیئر کررہے ہیں، افسوس کااظہارکررہے ہیں اوربس، اپنی حالت کوبدلنے کے لئے تیارنہیں، غورکیجئے ! اگرہم نے درمیان کاراستہ نکالاہوتا، یا ایسے ادارے قائم کئے ہوتے، جہاں سے پڑھنے والوں کے ایک ہاتھ ’’جام شریعت‘‘ اوردوسرے ہاتھ میں’’سندان عشق‘‘ ہوتاتوکیاآج ہمیں روناپڑتا؟

آج ہماری بچیاں اوربچے جن اداروں تعلیم پاتے ہیں، وہاں کانصاب تعلیم ہی ایساہے، جوتشکیک والحاد پیداکردے، ان اداروں میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات کے سامنے ارتداد کوئی معنی نہیں رکھتا؛ کیوں کہ انہیں اس چیز کی تعلیم ہی نہیں دی گئی، انہیں توتعلیم یہ دی جاتی ہے کہ ’’پہنچناسب کوایک ہی جگہ ہے، بس راستے الگ ہیں‘‘، ظاہر ہے کہ راستہ اختیار کرنے کی آزادی ہرایک کوہے؛ اس لئے یہ بچے بغیرکچھ سمجھے اپنی نفسانی خواہش کوسامنے رکھتے ہوئے کسی بھی راستے اختیارکرلیتے ہیں۔

موجودہ وقت میں ارتداد کاحل

اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کاحل کیسے کیاجائے؟ بہت سارے لوگ اس بات پرزوردے رہے ہیں کہ مکاتب کانظام درست کیاجائے اوراس کے لئے جلسے جلوس بھی کررہے ہیں؛ بل کہ بعض تنظیموں کی طرف سے ایک ٹارگیٹ اورہدف بھی متعین کیاگیاہے کہ ایک سال میں اتنے مکاتب کانظام درست کردیاجائے گا، یقینا یہ وقت کے لحاظ سے بڑا اوراہم کام ہے، کچھ نکات کی طرف مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لیٹرپیڈ میں بھی اشارہ کیاگیاہے، جودرج ذیل ہے:

۱-  علماء کرام عوامی جلسوں میں اس موضوع پرکثرت سے خطاب کریں اورلوگوں کواس کے دنیوی واخروی نقصانات سے آگاہ کریں۔

۲-  خواتین کے زیادہ سے زیادہ اجتماعات رکھے جائیں اوران میں دوسرے اصلاحی موضوعات کے ساتھ ساتھ اس پہلوپرخصوصیت سے گفتگوکی جائے۔

۳-  ائمہ مساجدجمعہ کے خطابات اورقرآن وحدیث کے دروس میں اس موضوع پر گفتگو کریں اورلوگوں کوبتائیں کہ انہیں کس طرح اپنی لڑکیوں کی تربیت کرنی چاہئے کہ ایسے واقعات پیش نہیں آئیں؟

۴-  والدین اپنے بچوں کی دینی تعلیم کاانتظام کریں، لڑکوں اورلڑکیوں کے موبائل وغیرہ پرگہری نظر رکھیں، جہاں تک ہوسکے، لڑکیوں کوگرلس اسکول میں پڑھانے کی کوشش کریں، اس بات کااہتمام کریں کہ اسکول کے سوا ان کے اوقات گھر سے باہر نہ گزریں اوران کوسمجھائیں کہ ایک مسلمان کے لئے مسلمان ہی زندگی کاساتھی ہوسکتاہے۔

۵-  عام طورپرجولڑکے یالڑکیاںرجسٹری آفس میں نکاح کرتے ہیں، ان کے ناموں کی فہرست پہلے سے جاری کردی جاتی ہے، دینی تنظیمیں، جماعتیں، مدارس کے اساتذہ وذمہ داران اورآبادی کی معتبراوراہم شخصیتیں ان کے گھروں کوپہنچ کرانہیں سمجھائیں اوربتائیں کہ اس نام نہاد نکاح کی صورت میں ان کی پوری زندگی حرام میں گزرے گی اورتجربہ سے معلوم ہوتاہے کہ وقتی جذبہ کے تحت کی جانے والی یہ شادی دنیامیں بھی ناکام رہے گی۔

۶-  لڑکوں اورخصوصالڑکیوں کے سرپرستان اس بات کی فکرکریں کہ شادی میں تاخیرنہ ہو، بروقت شادی ہوجائے ؛ کیوں کہ شادی میں تاخیربھی ایسے واقعات کاایک بڑاسبب ہے۔

۷-  سادگی کے ساتھ نکاح کی تقریبات انجام دی، اس میں برکت بھی ہے، نسل کی حفاظت بھی ہے اوراپنی قیمتی دولت کوبرباد ہونے سے بچانابھی ہے۔

ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ مسلم پرسنل لاء ، جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی، جماعت اہل حدیث اوربریلوی مکاتب فکر کی تنظیموں کوچاہئے ہرہرعلاقہ میں وہ ایک ٹیم بنائیں، جس میں علماء کے ساتھ قانونی داؤپیچ سمجھنے والے لوگ بھی ہوں ، یہ لوگ ہرضلع کے رجسٹری آفس میں نگاہ رکھیں اورجب بھی اس طرح کی شادی کی درخواست دی جائے، یہ حضرات فوراً حرکت میں آئیں، ان کے پاس وہ ڈیٹابھی ہوناچاہئے، جس میں اس کی شادیاں ہوئی اوربعد لڑکی کوکس طرح پریشان ہوناپڑا؟ کس طرح اسے دردربھٹکناپڑا؟ اس ڈیٹا کوسامنے سامنے رکھ کراگربات کی جائے توبات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آئے گی، ایسے ویڈیوز بھی رہنے چاہئیں، جن میں ایسی لڑکیوں کی داستان خود ان کی زبان سے بیان کی گئی ہو، یہاوربھی زیادہ مؤثر ہوگا۔

اس سلسلہ میں جماعت اسلامی کے کام کوبھی نمونہ بنایاجاناچاہئے اوربستی بستی اس کوجاری کرنے کی فکرکرنی چاہئے، وہ کام ہے خواتین کی مجلس کا، جوہفتہ واری ہوتی ہے اوراس میں باقاعدہ ایک مقررہ نصاب کے تحت خواتین کومطالعہ بھی کروایاجاتاہے، دینی کتابوں کے ساتھ سیرت کامطالعہ اورقرآن کاترجمہ بھی پڑھوایاجاتاہے، یقینا یہ طریقہ بھی مفید ہے، ہم بھی اس کونمونہ بناکرخواتین کی ہفتہ واری مجالس کاانعقاد کرسکتے ہیں۔

ان باتوں کے علاوہ ایک بڑاکام جواس قوم کوترجیحی طورپرکرناہوگا، وہ ہے ایسے اسکولوں اورکالجوں کاقیام، جہاں کاماحول اسلامی ہو، جس کے نصاب کاایک حصہ اسلامیات پرمبنی ہو، ان اداروں کاقیام بہت ضروری ہے؛ کیوں کہ ارتداد کی اصل لہرتعلیم کے راستے سے ہی آرہی ہے ، لہٰذا ہمیں توڑبھی اسی راستے سے کرناہوگا، اس طرح کی تعلیم گاہوں کاقیام اگرچہ فرض کفایہ ہے؛ لیکن فرض کفایہ بھی شارع کامقصود بالفعل امرہوتاہے اور اس وقت جوحالات ہیں، ان کودیکھتے ہوئے عین کادرجہ دیاجاسکتاہے۔

اگرہمارے ذمہ داران فرض کفایہ کی تعلیم کے لئے باقاعدہ اسکولس قائم کریں اورفرض عین کی تعلیم کواصل مضمون کی حیثیت سے متعارف کرائیں توشایدمذکورہ باتوں کے مقابلہ میں کئی گنازیادہ فائدہ حاصل ہوجائے، آج کئی اسکولس اس طرح کے وجود میں آئیں ہیں اوران سے فائدہ بھی ہورہا ہے؛ لیکن اس وسیع وعریض ملک میں جس کثرت میں اس طرح کے اداروں کی ضرورت ہے ، اس کے لئے گنتی کے یہ چنداسکولس ناکافی ہیں، آج بھی اس کی طرف توجہ دی گئی توچند سالوں میں اس لہرکوروکنے میں ہم ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔

اس وقت ہمارے سامنے ملک کی ایک بڑی تنظیم کی مثال ہے، ابھی اس تنظیم کے سوسال پورے نہیں ہوئے ہیں؛ لیکن خالص اس تنظیم کے نظریاتی اسکولس اس وقت پورے ملک میں پچیس سے تیس ہزار کے قریب ہیں اورآج ملک کاکوئی شعبہ ایسانہیں، جہاں اس تنظیم کے نظریات کے حامل شخص عہدہ پر نہ ہو، وہیں دوسری جانب ہماری اپنی بعض تنظیمیں ایسی ہیں، جن کے سوسال پورے ہوچکے ہیں، ان کے اپنے تعلیمی ادارے نہیں، نہ ایسے ادارے، جہاں، فرض کفایہ کی تعلیم ہوتی ہو، اورنہ ایسے ادارے، جہاں معیاری فرض عین کی تعلیم دی جاتی ہواورجس کے تعلق سے یہ کہاجاسکتاہوکہ یہ فلاں تنظیم کاکارنامہ ہے، ہم بس جلے جلوس کرتے رہ گئے، بھیڑ جمع کرتے رہے، لاکھوں کے اسٹیج بناتے رہے اور غیرزمینی کام کرتے رہے، یہ واقعتاً افسوس ناک بات ہے۔

jamiljh04@gmail.com / 8292017888


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی