تعلیم کے لئےجنس مخالف اساتذہ کاتقرر

 تعلیم کے لئےجنس مخالف اساتذہ کاتقرر

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آج کل اکثراسکولوں میں جنس مخالف ٹیچرکے تقررکاعام رواج ہے توکیا ایسا کرنے کی گنجائش ہے؟

اس سلسلہ میں تھوڑی تفصیل ہے، وہ یہ کہ جنس مخالف ٹیچرمقررکرنے کی دو صورتیں ہیں:

۱-  بالغ لڑکوں کے لئے جنس مخالف ٹیچرمقررکیاجائے۔

۲-  بالغ لڑکیوں کے لئے جنس مخالف  ٹیچرمقررکیاجائے۔

بالغ لڑکوں کے لئے جنس مخالف ٹیچر

اس کی صورت کی دوصورتیں ہیں:

(الف)  بالغ لڑکوں کوپڑھانے والی خاتون اس عمرکوپہنچ چکی ہو، جس میں مردوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

(ب)  بالغ لڑکوں کوپڑھانے والی خاتون مشتہات ہو۔

پہلی صورت میں گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:

وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاء  اللَّاتِیْ لَا یَرْجُونَ نِکَاحاً فَلَیْْسَ عَلَیْْہِنَّ جُنَاحٌ أَن یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ وَأَن یَسْتَعْفِفْنَ خَیْْرٌ لَّہُنَّ وَاللَّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (النور:۶۰)

اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی اور وہ کپڑے اتار کر سر ننگا کر لیاکریں تو اُن پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں نہ ظاہر کریں اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سنتا اور جانتا ہے ۔

انھیں بعض اوقات میں جماعت کے ساتھ نمازوں میں شرکت کی بھی اجازت دی گئی ہے، ملک العلماء علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

وأماالعجائز، فلاخلاف فی أنہ یرخص لہن الخروج فی الفجر، والمغرب، والعشاء، والعیدین(بدائع الصنائع: ۱؍۲۷۵)۔ 

جہاں تک بوڑھیوں کاتعلق ہے توان کے لئے فجر، مغرب، عشاء اورعیدین کی نماز کے لئے نکلنے کی اجازت کے سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

نیز فقہاء نے توایسی خاتون سے مصافحہ کی اجازت بھی دی ہے، علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں:

وأماإذاکانت عجوزاً لاتشتہی، فلابأس بمصافحتہا، ومس بدنہا لإنعدام خوف الفتنۃ (البحرالرائق، کتاب الحظروالإباحۃ، فصل فی النظرواللمس: ۸؍۲۱۹)۔ 

جہاں تک ایسی بوڑھی کاتعلق ہے، جومشتہات نہ ہو تواس سے مصافحہ کرنے اوراس کے بدن کوٹچ کرنے میں فتنہ کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے حرج نہیں۔

اس لئے ایسی خاتون کے پڑھانے میں کوئی حرج کی بات تو نہیں؛ البتہ بہترہے کے دوباتوں کاخیال کیاجائے:

۱-   شرعی آداب وحدودکاخیال رکھتے ہوئے پڑھانے کے لئے آئے۔

۲-   اولیٰ یہی ہے کہ یہ بھی نہ پڑھائیں؛ کیوں کہ ان کے لئے بھی افضل یہ ہے کہ وہ نمازکے لئے گھرسے نہ نکلیں، علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:

لاخلاف فی أن الأفضل أن لایخرجن فی صلاۃ(بدائع الصنائع: ۱؍۷۵)۔ 

بلا اختلاف افضل یہ ہے کہ وہ نماز میںنہ نکلیں۔

اورجب نماز کے لئے نہ نکلناافضل ہے توتدریس کے لئے بھی یہی افضل ہوگا، واللہ اعلم!

بالغ لڑکوں کوپڑھانے کے لئے بالغ مشتہات خاتون 

جنس مخالف ٹیچرکے تقررکے ضمن میں یہ مسئلہ بھی بڑااہم ہے کہ بالغ لڑکوں کوپڑھانے والی خاتون بالغ مشتہات ہو، اس سلسلہ می ںشرعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ چندشرائط کے ساتھ پڑھانے کی گنجائش ہے:

۱-  باحجاب ہو۔

۲-  زیب وزینت کے بغیرہو۔

۳-  خلوت نہ ہو۔

۴-  گفتگومیں لوچ پیدانہ کرے  -----   ان امورکالحاظ کرتے ہوئے اگرکوئی خاتون پڑھاتی ہے توگنجائش ہے؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ کے بارے میں منقول ہے کہ اکابرصحابہ کرام ان سے مسائل پوچھاکرتے تھے، حضرت ابوموسی اشعریؓ فرماتے ہیں:

ماأشکل علینا أصحاب رسول اللہ ﷺ حدیث قط، فسألنا عائشۃ؛ إلاوجدنا عندہا منہ علماً(سنن الترمذی، ابواب المناقب، حدیث نمبر: ۳۸۸۳)۔ 

ہم اصحابِ رسول میں سے کسی کو جب بھی کسی حدیث کے سلسلہ میں اشکال ہوتا، ہم ان سے پوچھتے توہم ان کے پاس اس کا علم پاتے۔

حضرت مسروقؒ فرماتے ہیں:

لقدرأیت الأکابرمن أصحاب رسول اللہ ﷺ یسألونہا عن الفرائض(  مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث نمبر: ۳۱۰۳۷، سنن الدارمی، حدیث نمبر: ۲۹۰۱)۔ 

میں نے اکابرصحابہ کوفرائض کے سلسلہ میں ان سے سوال کرتے ہوئے دیکھا۔

تاہم مظنۂ فتنہ ہونے کی وجہ سے نہ پڑھانا ہی بہترہے ؛ کیوں کہ بسااوقات ’مظنہ‘ کو ’مئنہ‘ کے قائم کردیا جاتاہے؛ چنانچہ مدت سے قبل فطام(بچہ کادودھ چھڑانا) کے معتبرہونے اورنہ ہونے کی بابت لکھاہے:

وفی واقعات الناطفی: الفتوی علی ظاہرالروایۃ، أنہاتثبت مالم تمض إقامۃ للمظنۃ مقام المئنۃ، فإن ماقبل المدۃ مظنۃ عدم الاستغناء(فتح القدیر، کتاب الرضاع: ۷؍۴۰۰)۔

واقعاتِ ناطفی میں ہے: فتوی ظاہرروایت پرہے کہ رضاعت ثابت ہوگی، جب تک کہ مدت نہ گزرجائے،مظنہ کومئنہ کے قائم مقام قراردیتے ہوئے؛ کیوں کہ مدت سے پہلے عدم استغناء کا مظنہ ہے۔

یہاں ایک سوال عورت کی آواز کابھی پیداہوتا ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگروہ فتنہ سے خالی ہو تواس کاپردہ نہیں ہے اور اگراس میں فتنہ ہو توپھراس کابھی پردہ ضروری ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اکمل الدین بابرتیؒ لکھتے ہیں:

(ولاترفع صوتہا بالتلبیۃ) لمافیہ من الفتنۃ(العنایۃ شرح الہدایۃ، کتاب الحج: ۴؍۱۲)۔ 

عورت تلبیہ میں آواز بلندنہ کرے کہ اس میں فتنہ ہے۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے:

صوت المرأۃ نفسہ لیس بعورۃلایحرم سماعہ؛ إلا إذا کان فیہ تکسر فی الحدیث، وخضوع فی القول، فیحرم منہاذلک لغیرزوجہا، ویحرم علی الرجال سوی زوجہا استماعہ(فتاوی اللجنۃ الدائمۃ، فتوی نمبر: ۸۰۹۲۹)۔

عورت کی نفس آواز کاایسا پردہ نہیں ہے، جس کاسننا حرام ہو؛ البتہ اگرگفتگومیں لوچ اورجھکاؤ ہوتوشوہرکے علاوہ کے لئے حرام ہے۔

بالغ لڑکیوں کے لئے جنس مخالف استاذ

جس طرح بالغ لڑکوں کوپڑھانے والی خاتون بالغ مشتہات کامسئلہ اہم ہے، اسی طرح بالغ لڑکیوں کے لئے جنس مخالف میں سے ٹیچرمقررکرنے کا مسئلہ بھی اہم ہونے کے ساتھ نازک بھی ہے تو اس سلسلہ میں بھی اصل بات یہی ہے کہ مرد ان کونہ پڑھائیں کہ یہ مظنۂ فتنہ ہے، تاہم انھیں تعلیم دینے کی گنجائش بھی ہے، اللہ کے رسولﷺنے توعورتوں کی تعلیم کے لئے ایک دن الگ مقررکررکھاتھا، نیز صحابہ کرام سے خواتین حدیث حاصل کرتی تھیں، اس سے جواز کاثبوت ملتا ہے؛ لیکن اس کے لئے درج ذیل شرائط کوملحوظ رکھاجاناضروری ہے:

۱-  پردہ سے پڑھایاجائے۔

۲ -  لڑکیاں خوشبواورظاہری زینت کے بغیرآئیں۔

۳-  لڑکیاں گفتگومیں لوچ پیدانہ کریں۔

۴-  اگرپردہ کانظم نہ ہوتوکم ازکم لڑکیاں نقاب میں ہوں  -----  ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب!

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی