داخلہ کے لئے عمر کی قید(تحدید)

داخلہ کے لئے عمر کی قید

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

آج کل بہت سارے اسکولوں کے نظام میں داخلہ کے لئے بچوں کی عمروں کی حد بندی کردی گئی ہے، اب سوال یہ کہ کیااسکول میں داخلہ کے لئے عمرکی تحدید درست ہے یانہیں؟

اس سلسلہ میں راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ داخلہ کے سلسلہ میں عمرکی تحدید درست ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں آپﷺنے نماز کی تربیت کاحکم فرمایاہے، ارشادہے: 

مرواأولادکم بالصلاۃ، وہم أبناء سبع سنین، واضربوہم علیہا، وہم أبناء عشرسنین، وفرقوا بینہم فی المضاجع(ابوداود، باب متی یؤمرالغلام بالصلاۃ، حدیث نمبر: ۴۹۵)۔

اپنی اولادکوسات سال کی عمرمیں نماز کاحکم دو اوردس سال کی عمر میں اس کے چھوڑنے پرمارواوربستروں میں ان کے مابین جدائے گی کردو ۔

اسی طرح حضرت عمرؓ کے پاس ابن ابی الصعبہ کولایاگیا، جس نے اپنے شعرمیں ایک خاتون پرتہمت لگائی تھی، اس وقت حضرت عمرؓ نے فرمایا:

انظروا إلی مؤتزرہ، فنظروا، فلم یجدوا أنبت الشعر، فقال: لوأنبت الشعر لجلدتہ الحد(السنن الکبری للبیہقی، باب البلوغ بالإنبات، حدیث نمبر: ۱۱۶۵۴)۔ 

اس کے جائے ازارکودیکھو، لوگوں نے دیکھاتوبال اگے ہوئے نہ پائے، توفرمایا: اگربال اگ آتے تو میں حدمیں کوڑے لگاتا۔

حضرت نافع ؒکہتے ہیں:

حدثنی ابن عمررضی اللہ عنہما أن رسول اللہ ﷺ عرضہ یوم أحد، وہوابن عشرۃ سنۃ فلم یجزنی، ثم عرضنی یوم الخندق، وأناابن خمس عشرۃ سنۃ، فأجازنی(  بخاری، باب بلوغ الصبیان وشہادتہم…، حدیث نمبر: ۲۶۶۴)۔ 

حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیاکہ احد کے دن رسول اللہ ﷺکے سامنے مجھے پیش کیا گیا، اس وقت میری عمردس سال تھی، لہٰذا آپﷺ نے مجھے اجازت نہیں دی، پھر خندق کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمرپندرہ سال تھی، توآپﷺنے مجھے اجازت مرحمت فرمادی۔

معلوم ہوا کہ کسی بھی کام کے لئے عمر کی تحدید کی جاسکتی ہے،نیز تحدیدنہ کرنے کی صورت میں بعض دشواریاں بھی پیش آتی ہیں، مثلاً: پہلے درجہ میں تمام بچوں کی عمرچھ برس ہے، جب کہ ایک بچہ کی عمر دس برس ہے، ظاہرہے کہ عمرکے اس تفاوت کے نتیجہ میں ذہنی اورفکری اعتبارسے ہم آہنگی پیدانہیں ہوسکتی،جس کا اثریہ ہوگا کہ دس سال والا بچہ اپنی فطری صلاحیتیوں کونکھار نہیں سکے گا۔

لہٰذااس تحدید کی خلاف ورزی کی صورت میں ردکئے جانے کی بھی گنجائش ہے؛ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ بدرکے موقع سے حضورﷺنے چھوٹے بچوں کوواپس کیا، واقدی کی مغازی میں ہے:

ومضی رسول اللہ ﷺ ؛ حتی أتی الشیخین فعسکربہ، وعرض علیہ غلمان: عبداللہ بن عمر، وزیدبن ثابت، وأسامۃ بن زید، والنعمان بن بشیر، وزیدبن أرقم، والبراء بن عازب، وأسید بن ظہیر، وعرابۃ بن أوس، وأبوسعید الخدری، وسمرۃ بن جندب، ورافع بن خدیج، فردہم(مغازی الواقدی:۱؍ ۲۱۵)۔

رسول اللہﷺچلے؛ یہاں تک شیخان پہنچ گئے، وہاں آپﷺنے لشکرکوترتیب دیا، آپ کے سامنے عبداللہ بن عمر، زیدبن ثابت، اسامہ بن زید، نعمان بن بشیر، زیدبن ارقم، براء بن عازب، اسید بن ظہیر، عرابۃ بن اوس، ابوسعید خدری، سمرۃ بن جندب، رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم کوپیش کیاگیا،توآپ نے انھیں واپس کردیا۔

البتہ اس تحدیدکوفرض اورواجب کادرجہ نہیں دیاجاناچاہئے؛ چنانچہ آپﷺ نے بعض خصوصیات کی بنیادپرحضرت رافع بن خدیج اورحضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما کوجنگ میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی،علی صلابی لکھتے ہیں:

وأجاز منہم رافع بن خدیج لماقیل لہ: إنہ رام، فبلغ ذلک سمرۃ بن جندب، فذہب إلی زوج أمہ مری بن سنان بن ثعلبۃ -عم أبی سعیدالخدری، وہوالذی یربی سمرۃ فی حجرہ-یبکی، وقال لہ: یاأبت! أجاز رسول اللہ ﷺ رافعاً وردنی، وأنااصرع رافعاً، فرجع زوج أمہ ذلک إلی النبیﷺ، فالتفت النبی ﷺ إلی رافع وسمرۃ، فقال لہما: تصارعا، فصرع سمرۃ رافعاً، فأجازہ کماأجاز رافعاً، وجعلہمامن جندہ وعسکرکتائبہ، ولکل منہما مجالہ واختصاصہ(السیرۃ النبویۃ- دروس وعبرفی تربیۃالأمۃ وبناء الدولۃ: ۶؍۱۴۸)۔

ان میں رافع بن خدیج کواس وقت اجازت دے دی، جب یہ کہاگیاکہ وہ تیرانداز ہے، یہ خبرجب سمرہ بن جندب کوپہنچی تووہ اپنے سوتیلے باپ مری بن سنان بن ثعلبہ (حوابوسعیدخدریؓ کے چچااورسمرہ بن جندبؓ کے مربی تھے)کے پاس روتے ہوئے آئے اورکہا: اباجان! حضورﷺ نے رافع کواجازت دے دی اور مجھے واپس کردیا؛ حالاں کہ میں رافع کوپچھاڑدیتاہوں، ان کے والد انھیں لے کرآپﷺکی خدمت میں حاضرہوئے (اور سمرہ بن جندب کی بات ان کے سامنے رکھی) توآپﷺرافع اورسمرہ کی جانب متوجہ ہوئے اوردونوں سے کہا: کشتی لڑو؛ چنانچہ سمرہ نے رافع کوپچھاڑدیا توآپﷺنے انھیں بھی اسی طرح اجازت دے دی، جس طرح رافع کواجازت دی تھی اوران دونوں کواپنے لشکرکاحصہ بناکردستہ کی ترتیب میں شامل فرمایا، پس ان دونوں میں سے ہر ایک کااپنامیدان اوراپنی خصوصیت ہے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی