بُدُوِّصَلاحْ ۔احادیث وکتب فقہ کی روشنی میں

بُدُوِّصَلاحْ

احادیث وکتب فقہ کی روشنی میں

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

سوال: رسول اللہ ﷺ نے بدوصلاح سے پہلے درخت میں لگے ہوئے پھلوں کی بیع سے منع کیاہے؛ لیکن بدوصلاح سے کیامرادہے؟ا س سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہو تواس کی بھی وضاحت فرمائیں۔

جواب:  فقہاء اس بات پرمتفق ہیں کہ ’’بدوصلاح‘‘ ’’ظہور‘‘ سے آگے کی صفت ہے؛ البتہ اس سے مرادکیاہے؟ اس سلسلہ میں ان کے مابین مختلف رائیں پائی جاتی ہیں، ان رایوں کونقل کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس سلسلہ میں احادیث وآثارمیں منقول الفاظ ذکرکئے جائیں:

۱-  عن ابن عباس… حتی تطعم۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۳۶)

۲-  عن ابن عمر… حتی تذہب العاہۃ۔وسئل عنہ فقال: طلوع الثریا۔(مسند احمد، حدیث نمبر: ۵۰۱۲)

۳-  عن جابربن عبداللہ … حتی تشقہ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۳۶)

۴-  عن جابربن عبداللہ… حتی یطیب۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر:۲۰۷۷)

۵-  عن ابن عباس… حتی یأکل منہ أویؤکل۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۳۷، صحیح البخاری، حدیث نمبر:۲۱۳۲)

۶-  عن أنس بن مالک… حتی تزہی۔(المؤطا للإمام مالک، حدیث نمبر:۱۸۱۴،صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۴۸۸)

۷-  عن ابن عباس… حتی یبدوصلاحہا وتبین تبیض أو تحمر۔ (دارقطنی، حدیث نمبر: ۲۸۷۲)

یہ الفاظ تومختلف ہیں؛ لیکن مفہوم کے اعتبارسے ایک ہی معنی کواداکرنے والے ہیں، حافظ ابن عبدالبرؒ لکھتے ہیں: 

ألفاظ مختلفۃ وردت فی الأحادیث الثابتۃ معانیہاکلہامتفقۃ۔ (التمہیدلمافی المؤطامن المعانی والأسانید:۲؍۱۹۰)

ثابت شدہ احادیث میں واردالفاظ مختلف ہیں؛ لیکن معانی میں سب متفق ہیں۔

بدوصلاح کے بارے میں فقہاء کی آراء

اب آیئے ! اس سلسلہ میں فقہائے کرام رحمہم اللہ کی آراء جانتے چلیں:

احناف کی رائے

۱-  فقہائے احناف سے اس کی دو مرادیں منقول ہیں:

۱-   پھل آفت (سماوی)اورخراب ہونے سے مامون ہوجائے۔

۲-  پھل قابل انتفاع ہوجائے  -----   عبدالرحمن بن محمد شیخی زادہؒ فرماتے ہیں:

وعندناعلی مافی المبسوط: ہوأن یأمن العاہۃ والفساد، وعلی مافی الخلاصۃ عن التجرید: أن یکون منتفعاً بہ۔ (مجمع الأنہر:۳؍۲۶، نیز دیکھئے: ردالمحتار، مطلب: فی بیع الثمروالزرع والشجرمقصوداً: ۷؍۸۵،التجرید: ۵؍۲۳۹۳، مسئلہ نمبر: ۵۹۳)

’’مبسوط ‘‘کے مطابق ہمارے نزدیک (بدوصلاح) یہ ہے کہ پھل آفت (سماوی) اورخراب ہونے سے مامون ہوجائے، جب کہ ’’خلاصہ‘‘ بحوالہ’’تجرید‘‘ کے مطابق پھل قابل انتفاع ہوجائے۔

اورقابل انتفاع ہونے کامطلب یہ ہے کہ انسان یاجانورکے کھانے کے لائق ہوجائے، شیخ الاسلام ابوبکربن علی الحدادیمنیؒ فرماتے ہیں:

وبدوالصلاح: صیرورتہ صالحاً لتناول بنی آدم، أولعلف الدواب۔ (الجوہرۃ النیرۃ: ۱؍۲۳۱)

اوربدوصلاح: جانوروں کے لئے چارہ یاانسانوں کے لئے کھانے کے لائق ہوجاناہے۔

مالکیہ کی رائے

۲-  مالکیہ نے پھلوں کے اعتبارسے اس کی تفسیرکی ہے؛ چنانچہ ’’کھجور‘‘ میں’’صلاح‘‘ اس کا’’لال یازردہونا‘‘ہے، ’’انگور‘‘ میں’’مٹھاس کا پید اہونا  اور کالا ہونا‘‘ہے، ان کے علاوہ دوسرے پھلوں میں’’مٹھاس کاپیداہونا‘‘ ہے، ’’خس‘‘ اور’’زعفران‘‘ میں’’صلاح‘‘ یہ ہے کہ وہ ’’قابل انتفاع‘‘ ہوجائیں،  ’’سبزیوں‘‘ میں’’صلاح‘‘ان کے ’’کھانے کے لائق‘‘ہوناہے، جب کہ ’’بیج‘‘ اور’’دانہ‘‘ میں ان کا’’پختہ اورسوکھ جانا‘‘ ہے، شیخ محمدعرفہ دسوقیؒ فرماتے ہیں:

(وہو) أی بدوالصلاح(الزہو) فی البلح باحمرارہ أواصفرارہ ومافی حکمہماکالبلح الخضراوی(وظہورالحلاوۃ) فی غیرہ من الثمار کالعنب(والتہیؤللنضج) بأن یمیل ان انقطع إلا صلاح کالموز…(و)ہو(فی ذی النور)…کالوردوالیاسمین(بانفتاحہ) (و) فی (البقول بإ طعامہا) بأن ینتفع بہافی الحال …وأماالقرطم والبرسیم فبدوصلاحہ أن یرعی دون فساد۔ (حاشیۃ الدسوقی مع الشرح الکبیر: ۳؍۱۷۸، حاشیۃ العدوی، بیع الثمرقبل بدوصلاحہ: ۲؍۱۶۷)، صلاح العنب دوران الحلاوۃ فیہ مع اسودادأسودہ۔ (منح الجلیل لمحمدبن أحمدبن محمدعلیش: ۵؍۲۹۴)، وصلاح الزرع أن یبیض عندمالک۔ (الذخیرۃ:۵؍۱۹۵)

البتہ احمدبن غنیم نفراوی ازہریؒ نے اس سلسلہ میں ایک ضابطہ لکھاہے، وہ لکھتے ہیں:

الضابط الشامل لکل ماسبق: أن یبلغ المعقودعلیہ الحالۃ التی ینتفع بہ علی الوجہ الکامل۔ (الفواکہ الدوانی: ۲؍۱۵۱)

گزری باتوں کاایک عام ضابطہ یہ ہے کہ معقود علیہ اس حالت کوپہنچ جائے، جس میں کامل طریقہ سے فائدہ اٹھایاجاسکے۔

یہی بات علامہ علیش مالکیؒ نے بھی لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں:

وحاصلہ فی سائرالثمارإمکان الانتفاع بہ۔ (منح الجلیل:۲؍۷۳۱)

اوراس کاحاصل تمام پھلوںمیںامکان انتفاع ہے۔ 

شوافع کی رائے

۳-  شوافع کے نزدیک ’’بدوصلاح‘‘سے مرادپھل کاایسی حالت کوپہنچ جاناہے، جس میں عموماً اسے کھانے کے لئے طلب کیاجاتاہے، علامہ زکریا انصاریؒ لکھتے ہیں:

بدوالصلاح: بلوغ الشئی حالۃ یطلب فیہاللأکل غالباً۔ (الغررالبہیۃ:۳؍۳۶، نیز دیکھئے: الإقناع فی حل ألفاظ أبی شجاع:۱؍۳۵۱، حاشیۃ الجمل:۳؍۲۰۴)

بدوصلاح سے مرادشئی اس حال میں پہنچ جاناہے، جس میں پھل کوعموماً کھانے کے لئے طلب کیا جاتا ہے۔

جب کہ بعض نے ’’بدوصلاح‘‘ سے مراد’’صلاحیت ادخار‘‘ لی ہے؛ چنانچہ خطیب شربینیؒ لکھتے ہیں:

والعزیزی ضبطہ بالصلاحیۃ للادخار۔ (حاشیۃ الشربینی علی الغررالبہیۃ:۲؍۱۵۱)

اورعزیزی نے اس کوصلاحیت ادخارسے ضبط کیاہے۔

جس کی علامتیں مختلف پھلوں کے اعتبارسے مختلف ہے؛ چنانچہ رنگ پکڑنے والے پھلوں میں’’مٹھاس کاپیداہونااورپکنے کے آثارکاظاہرہونا‘‘ ہے، جب کہ رنگ نہ پکڑنے والے پھلوں میں’’سرخ، زرد یاکالاہونا‘‘ ہے،امام نوویؒ لکھتے ہیں:

وبدوصلاح الثمر: ظہورمبادیٔ النضج والحلاوۃ فیمالایتلون، وفی غیرہ : بأن یأخذ فی الحمرۃ أوالسواد۔ (منہاج الطالبین، باب الأصول والثمار،ص:۲۳۲ )

بدوصلاح سے مرادرنگ نہ بدلنے والے پھلوں میں مٹھاس کاپیداہونااورپکنے کے آثارکاظہورہے، اس کے علاوہ میں سرخ یاکالاہوناہے۔

امام ماوردیؒ نے ’’بدوصلاح‘‘ کی آٹھ علامتیں ذکرکی ہیں:

۱-  رنگ:  ہرایسے کھائے جانے والے پھل میں، جورنگ پکڑتاہو، جب اس میں سرخی، زردی یاسیاہی رنگ آجائے تو’’بدوصلاح‘‘ کی صفت آجائے گی، جیسے: بلح، عناب، کشمش، ناشپاتی۔

۲-  مزہ:  مٹھاس یاکھٹاس کاپیداہونا، جیسے: گنامیں مٹھاس اورانارمیں کھٹاس کاپایاجانا۔

۳-  پختگی اورنرمی:  جیسے: زیتون اورتربوز

۴-  سختی:  جیسے: گیہوں اورجو

۵-  لمبائی اوربھراوٹ:  جیسے: چارہ اورسبزیاں

۶-  بڑاہونا:  جیسے: ککڑی

۷-  پھٹنا:  جیسے: روئی اورآخروٹ۔

۸-  کھلنا:  جیسے: گلاب اوردوسرے پھول  -----  امام ماوردیؒ فرماتے ہیں:

 واعلم أن بدوالصلاح قدیختلف بحسب اختلاف الثمار وحملتہا أنہا علی ثمانیۃ أقسام: أحدہا: مایکون بدوالصلاح فیہ باللون، وذلک فی النخل بالاحمرار والاصفرار، وفی الکرم بالحمرۃ والسوادوالصفاء والبیاض، فأمالفواکہ المتلونۃ: فمنہا مایکون صلاحہ بالصفرۃ کالمشش، منہامایکون بالحمرۃ کالعناب، ومنہامایکون بالسواد کإجاص، ومنہامایکون بالبیاض کالتفاح۔و القسم الثانی: مایکون بدوصلاحہ بالطعم، فمنہ مایکون بالحلوۃ کقصب السکر، ومنہ مایکون بالحموضۃ کالرمان، فإذازالت عنہ المرارۃ بالحلاوۃ، أو الحموضۃ فقدبداصلاحہ۔و القسم الثالث: مایکون بدوصلاحہ بالنضج واللین کالتین والبطیخ، فإذالانت صلابتہ، فقدبداصلاحہ۔والقسم الرابع:مایکون بدوصلاحہ بالقوۃ والاشتداد کالبروالشعیر، فإذابدت قوتہ واشتد، فقد بداصلاحہ۔ والقسم الخامس: مایکون بدوصلاحہ بالطول والامتلاء کالعلف، والبقول والقصب، فإذاتناہی طولہ وامتلاء ہ إلی الحدالذی یجز علیہ، فقدبداصلاحہ۔والقسم السادس: مایکون بدوصلاحہ بالعضم والکبر کالقثاء والخیاروالباذنجان۔ والقسم السابع: مایکون بدوصلاحہ بانشقاق کمامہ کالقطن والجوز، فإذاانشق جوز القطن، وسقطت القشرۃ العلیا عن جوز الأکل، فقدبداصلاحہ۔ والقسم الثامن: مایکون بدوصلاحہ بانفتاحہ وانقشارہ کالورد والنیلوفر، فإذاانفتح القسم المنضم منہ وانقشر، فقد بداصلاحہ۔ (الحاوی الکبیر: ۵؍۱۹۶)

البتہ ان مرادوں اورعلامتوں کامطلوب ’’آفت سے مامون رہنا‘‘ ہی ہے، امام نوویؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:

…أن المطلوب بدوالصلاح: أمنہامن العاہۃ۔ (المجوع: ۱۱؍۳۶۱)

بدوصلاح کامقصدآفت سے مامون رہناہے۔

اوریہی بات امام ماوردیؒ نے بھی لکھی ہے، وہ فرماتے ہیں:

وجملۃ القول فی بدوالصلاح: أن تنتہی الثمرۃ ، أوبعضہا إلی أدنی کمالہا فتنجومن العاہۃ۔ (الحاوی الکبیر: ۵؍۱۹۶)

بدوصلاح کے سلسلہ میں خلاصہ یہ ہے کہ پھل پختہ ہوجائے یااس ادنی کمال کوپہنچ جائے، جس کے نتیجہ میں آفت سے محفوظ رہے۔

 حنابلہ کی رائے

۴-  حنابلہ کے نزدیک رنگ پکڑنے والوں میں’’صلاح‘‘ ’’رنگ کابدلنا‘‘ ہے، جیسے: کھجور، کشمش،جب کہ رنگ نہ پکڑنے والے مختلف پھلوں میں مختلف امور، جیسے: سیب میں مٹھاس اورمزیدارہونا، تربوز میں پکنا اورجورنگ نہیں پکڑتے اورچھوٹے بڑے ہرایک کھائے جاتے ہوں، جیسے: ککڑی، تو ان میں’’صلاح‘‘اس عمرکوپہنچ جاناہے، جس میں عادتاً یہ کھائے جاتے ہوں، علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

وجملۃ ذلک: أن ماکان من الثمرۃ یتغیرلونہ عندصلاحہ کثمرۃ النخل ، والعنب الأسود، والإجاص، فبدوصلاحہ بذلک، وإن کان من العنب أبیض، فصلاحہ بتموہہ، وہوأن یبدوا فیہ الماء الحلو، ویلین ، ویصفر لونہ، وإن کان ممالایتلون کالتفاح ونحوہ، فبأن یحلو، أویطیب، و۔ن کان بطیخاً، أونحوہ، فبأن یبدوفیہ النضج، وإن کان ممالایتغیرلونہ، ویؤکل طیباً، صغاراً وکباراً کالقثاء والخیار، فصلاحہ: بلوغہ أن یؤکل عادۃ۔ (المغنی: ۶؍۱۵۸-۱۵۹)

البتہ محمدبن عبداللہ زرکشی حنبلیؒ نے شیخ مجدالدین ابوالبرکات کے حوالہ سے ایک ضابطہ نقل کیاہے، وہ لکھتے ہیں:

جعل ابوالبرکات الضابط فی جمیع الثمار: أن یطیب أکلہا، ویظہرفیہاالنضج۔ 

ابوالبرکات نے تمام پھلوں میں ضابطہ یہ لکھا ہے کہ اس کاکھانااچھاہوجائے اوراس میں پکنے کے آثار ظاہرہوجائیں۔

پھرفرمایا:

والضابط الذی ذکرہ أبوالبرکات أجود۔ (شرح الزرکشی علی مختصر الخرقی، باب بیع الأصول والثمار: ۲؍۴۵)

ابوالبرکات نے جس ضابطہ کوبیان کیاہے، وہ بہترضابطہ ہے۔

خلاصہ

مذکورہ تمام دبستان فقہ کی عبارتوںسے جوبات معلوم ہورہی ہے ، وہ یہ ہے کہ’’ بدوصلاح سے مرادپھل اس حالت میں ہوجائے، جس میں عمومی آفتوں سے محفوظ ہوکروہ قابل انتفاع ہوسکے‘‘، جس کی تشریح احادیث کی زبان میں’’حتی تطعم‘‘’’ حتی تذہب العاہۃ‘‘’’حتی تشقہ‘‘’’حتی یطیب‘‘’’حتی یأکل منہ أویؤکل‘‘’’حتی تزہی‘‘’’حتی یبدوصلاحہا وتبین تبیض أو تحمر‘‘وغیرہ الفاظ کے ذریعہ سے آئی ہے، ہذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب! 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی