مخلوط نظام تعلیم

مخلوط نظام تعلیم

محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

 

مسلمانوں کے لئے مخلوط نظام تعلیم بھی ایک بڑا مسئلہ ہے؛ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں قابل ذکرادارے ایسے نہیں ہیں، جہاں غیرمخلوط تعلیم ہوتی ہو،اس لحاظ سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ مادیت، دین بیزاری اوراخلاقی انحطاط کے سبب مخلوط نظام تعلیم درست ہے یانہیں؟

مخلوط نظام تعلیم کی گنجائش نہیں

اس کادوٹوک اورواضح جواب یہی ہے کہ مخلوط نظام تعلیم کی گنجائش نہیں؛ کیوں کہ اس کے نتیجہ میں مزیدبے دینی اوراخلاقی انحطاط پیداہوگی ، جب کہ اس امت کی بعثت بلندیٔ اخلاق کے لئے ہوئی ہے، خوداللہ کے رسول ﷺکاارشاد ہے:

إنمابعثت لأتمم مکارم الأخلاق(السنن الکبری للبیقہی، حدیث نمبر: ۲۰۷۸۲، مسندبزار، حدیث نمبر:۸۹۴۹)۔ 

میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجاگیاہوں۔

اورفتنہ وفساد کے یقینی امکان کے ساتھ ساتھ ارتکابِ منکرات کابھی قوی اندیشہ ہے اور دونوں سے بچناواجب ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

اتفق الفقہاء علی أن المنکرمنہی عنہ، وقد ثبت النہی عن المنکربالکتاب والسنۃ والإجماع(الموسوعۃ الفقیۃ: ۳۹؍۱۲۳، لفظ: منکر)۔ 

فقہاء کااس بات پراتفاق ہے کہ منکرمنہی عنہ ہے، اوراس نہی کا ثبوت کتاب وسنت اوراجماع سے ہے۔

اورعلامہ شوکانیؒ لکھتے ہیں:

وقدأجمع العلماء مع اختلاف أعصارہم علی الاستدلال بالنواہی علی أن المنہی عنہ لیس من الشرع، وأنہ باطل لایصح، وہذاہوالمراد بکون النہی مقتضیات للفساد(ارشادالفحول، المبحث الثالث: فی اقتضاء النہی للفساد: ۱؍۲۸۲)۔ 

اختلاف زمانہ کے باوجودنواہی کے ذریعہ سے استدلال پرعلماء کا اجماع اس بات پرہے کہ منہی عنہ کاتعلق شریعت سے نہیں ہے، وہ باطل اورغیرصحیح ہے، اوریہی مرادہے اس قول کا کہ نہی مقتضیاتِ فسادمیں سے ہے۔

نیزجب اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے عورتوں کوجماعت میں شامل ہونے سے روکاجاتاہے تو یہاں بدرجۂ اولیٰ روکاجائے گا کہ یہاں فتنہ جماعت میں شریک ہونے سے کہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے، مشہورحنفی فقیہ عبدالغنی میدانیؒ لکھتے ہیں:

(ویکرہ للنساء) الشواب (حضورالجماعۃ) مطلقاً ، لمافیہ من خوف الفتنۃ(اللباب فی شرح الکتاب، باب صفۃ الصلاۃ: ۱؍۴۰)۔ 

نوجوان عورتوں کے لئے خوف فتنہ کی وجہ سے جماعت میں حاضر ہونامطلق مکروہ ہے۔

پھربعض دفعہ لڑکے اورلڑکی کوکلاس روم میں تنہابھی ہوناپڑجاتاہے، ظاہرہے کہ ایسی صورت میں فتنہ کاامکان زیادہ ہوجاتاہے،اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے مردوعورت کوخلوت سے روکاہے، ارشادہے:

ألا!لایخلون رجل بإمرأۃ لاتحل لہ، فإن ثالثہما الشیطان؛ إلا محرم(مسندأحمد، حدیث نمبر: ۱۵۶۹۶)۔

سنو! کوئی مردکسی ایسی عورت سے خلوت نہ کرے، جواس کے لئے حلال نہ ہو؛ کیوں کہ ان میں کاتیسرا شیطان ہوتاہے، مگرمحرم کے ساتھ۔

امام سرخسیؒ لکھتے ہیں:

وبتفرد النساء یزداد معنی خوف الفتنۃ،فلاتزول الکراہۃ(المبسوط:۱؍۳۰۳)۔ 

عورتوں کے ساتھ تنہائی میں فتنہ کاخوف زیادہ ہوجاتاہے، لہٰذا کراہت برقراررہے گی۔

عورتوں کی تعلیم کے لئے ایک دن کی تعیین

پھریہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ عہدنبویﷺمیں بھی مخلوط تعلیم کو پسند نہیں کیاگیا، جو خیرالقرون ہے، توموجودہ زمانہ میں کیسے پسندیدہ ہوسکتا ہے، جوشرالقرون کے دائرہ میں آچکا ہے؟چنانچہ حضرت ابوسعیدخدریؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ عورتوں نے حضورﷺ کی خدمت عرض کیا:

اجعل لنا یوماً من نفسک، فوعدہن یوماً لقیہن فیہ، فوعظہن وأمرہن…(بخاری، باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم، حدیث نمبر: ۱۰۱)۔

اپنی طرف سے ہمارے لئے ایک دن مقررکردیجئے، آپ ﷺ نے ایک دن کا ان سے وعدہ کیا، جس میں وہ ان سے ملیں، اور آپ انھیں نصیحت کریں اورحکم دیں۔

جہاں تک زائداساتذہ، عملہ اورکلاس روم کے انتظام نہ کرسکنے کی بظاہر مجبوری کی بات ہے تویہ کوئی مجبوری نہیں ہے،صرف کسی ایک جنس کی تعلیم کے لئے ہی ادارہ کوقائم کرلیاجائے، اللہ تعالیٰ ضرور کوئی سبیل نکال دے گا، ومن یتوکل علی اللہ فہوحسبہ۔ 


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی